مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
جب کسی کو اولاد ہونے میں تاخیر ہو جائے یا اسے اولاد نہیں ہورہی ہو،توآدمی بے چین ہوجاتا ہے ، اور اولاد کے لئے جائزوناجائز کی تفریق مٹاکر کچھ بھی کرنے کو راضی ہوجاتا ہے اور انجام بھی دیتا ہے ۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے متعلق بڑی عجیب و غریب داستانیں ملتی ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سچے مومن کا ایسے عالم میں کیا موقف ہونا چاہئے ؟
(1)سب سے پہلے تو یہ عقیدہ ذہن میں راسخ کرے کہ بچوں کی پیدائش کا تعلق اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ:
{لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ ، أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ }
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جس چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[الشورى : 49 - 50]
(2)جب یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔
تو میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ اللہ عزوجل کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری کیساتھ ذکر و دعا میں مشغول رہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
ترجمہ : اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان : 74]
(3)اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے اس محرومی کا سامنا ہے تو جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جا سکتا ہے، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس کا علاج نہیں ہے۔"
٭اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نےصحیح قرار دیا ہے۔
دوسری حدیث ہے:"اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو۔"(ابن ماجہ: 3482)
٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
(4) ہوسکتا ہے اللہ تعالی نے اس کے لئے اولاد کا ایک وقت متعین کیا ہو اور ہم جلد بازی سے کام لے رہے ہوں ۔ یا اللہ تعالی ہمیں اولاد کی نعمت سے محروم کرکے دنیا و آخرت کی بیش بہا نعمتوں سے نوازنا چاہتاہو۔
بہر کیف !کچھ بھی ہو ، ہر حال میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ کریں اور اس کے حکمت بھرے فیصلوں پر مکمل صبر کریں اور یہ یقین کریں کہ قادر مطلق نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب اجر عظیم رکھا ہوا ہے۔
(5) اسی طرح لوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں غور و فکر کرنا چاہیے، کہ کچھ لوگوں کو بد اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ انتہائی تنگی کی زندگی میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہےکہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث ہے۔" (مسلم: 2999)
اللہ تعالی ہمیں اپنے فیصلے پر راضی رکھے ۔ آمین
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سچے مومن کا ایسے عالم میں کیا موقف ہونا چاہئے ؟
(1)سب سے پہلے تو یہ عقیدہ ذہن میں راسخ کرے کہ بچوں کی پیدائش کا تعلق اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ:
{لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ ، أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ }
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جس چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[الشورى : 49 - 50]
(2)جب یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔
تو میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ اللہ عزوجل کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری کیساتھ ذکر و دعا میں مشغول رہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا}
ترجمہ : اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان : 74]
(3)اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے اس محرومی کا سامنا ہے تو جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جا سکتا ہے، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس کا علاج نہیں ہے۔"
٭اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نےصحیح قرار دیا ہے۔
دوسری حدیث ہے:"اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو۔"(ابن ماجہ: 3482)
٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
(4) ہوسکتا ہے اللہ تعالی نے اس کے لئے اولاد کا ایک وقت متعین کیا ہو اور ہم جلد بازی سے کام لے رہے ہوں ۔ یا اللہ تعالی ہمیں اولاد کی نعمت سے محروم کرکے دنیا و آخرت کی بیش بہا نعمتوں سے نوازنا چاہتاہو۔
بہر کیف !کچھ بھی ہو ، ہر حال میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ کریں اور اس کے حکمت بھرے فیصلوں پر مکمل صبر کریں اور یہ یقین کریں کہ قادر مطلق نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب اجر عظیم رکھا ہوا ہے۔
(5) اسی طرح لوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں غور و فکر کرنا چاہیے، کہ کچھ لوگوں کو بد اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ انتہائی تنگی کی زندگی میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کیلئے وہی پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہےکہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث ہے۔" (مسلم: 2999)
اللہ تعالی ہمیں اپنے فیصلے پر راضی رکھے ۔ آمین