• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس نے مجھے ابو بکر و عمر سے افضل جانا ۔۔۔ حدیث کی تحقیق

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کنز العمال میں یہ روایت مذکورہ نمبر پر نہیں بلکہ اس سے تین حدیثیں بعد 36103 پر بایں الفاظ ہے :
36103- عن ابن شهاب عن عبد الله بن كثير قال: قال لي علي بن أبي طالب: أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر: ولو شئت أن أسمي لكم الثالث لسميته، وقال: لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته جلدا وجيعا، وسيكون في آخر الزمان قوم ينتحلون محبتنا والتشيع فينا هم شرار عباد الله الذين يشتمون أبا بكر وعمر، قال: ولقد جاء سائل فسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأعطاه وأعطاه أبو بكر وأعطاه عمر وأعطاه عثمان، فطلب الرجل من رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يدعو له فيما أعطوه بالبركة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف لا يبارك لك ولم يعطك إلا نبي أو صديق أو شهيد. "كر".
كنز العمال (13/ 9)
تاریخ ابن عساکر میں بھی یہ روایت مذکورہ مقام پر تو نہیں ، البتہ موجود ہے :
وأخبرنا أبو العز بن كادش أنا القاضي أبو الطيب الطبري أنا علي بن عمر بن محمد نا محمد بن محمد بن سليمان نا محمد بن عزيز الأيلي أخبرني سلامة بن روح عن عقيل بن خالد قال قال ابن شهاب قال عبد الله بن كثير قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أوصاني الله بذي القربى وأمرني أن أبدأ بالعباس بن عبد المطلب قال وقال علي بن أبي طالب أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وعمر ولو شئت أن أسمي لكم الثالث لسميته وقال لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته جلدا وجيعا وسيكون في آخر الزمان قوم ينتحلون محبتنا والتشيع فينا هم شرار عباد الله الذين يشتمون أبا بكر وعمر قال وقال علي ولقد جاء سائل فسأل رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فأعطاه وأعطاه أبو بكر وأعطاه عمر وأعطاه عثمان فطلب الرجل من رسول الله (صلى الله عليه وسلم) أن يدعو له فيما أعطاه بالبركة فقال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وكيف لا يبارك لك ولم يعطك إلا نبي أو صديق أو شهيد
تاريخ دمشق لابن عساكر (26/ 343)
اس کی سند میں پہلا راوی ابن کادش بہت بڑا محدث تھا ، لیکن الزام ہے کہ انہوں نے حدیث گھڑی تھی ، بلکہ منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں احادیث گھڑتے دیکھا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں حدیث بناڈالی ۔ بعض اہل علم نے ان جھوٹا اور ناقابل اعتماد قرار دیا ہے ، البتہ حافظ ابن عساکر و دیگر اہل علم ان کی مدح و ثنا پر متفق ہیں ، حافظ ذہبی کا کہنا ہے کہ انہوں نے وضع حدیث کی غلطی کی ، لیکن پھر توبہ کرلی ( دیکھیے لسان المیزان ج 1 ص 532 )
اس کے بعد قاضی طبری ثقات اعلام میں سے ہیں ، ان کے شیخ علی بن عمر بن محمد اگر الختلی الصیرفی ہیں تو ان کے بارے میں علماء کا کلام ہے ، جس کا حاصل شیخ معلمی رحمہ اللہ کے نزدیک یوں ہے :
أن ما سمعه منه قبل عماه الصحيح، فأما بعد عماه فما رواه عنه المحتاطون كالخلال، أو سمع منه بحضرة واحد من المحتاطين فهو صحيح. والله أعلم. التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل (2/ 590)
جن لوگوں کی روایت ان کی بینائی جانے سے پہلے ہے ، یا پھر اگر بینائی جانے کے بعد بھی ہے لیکن روایت کرنے والے سمجھدار اور محتاط قسم کے لوگ ہیں تو وہ درست ہے ، ورنہ نہیں ۔
اس کے بعد محمد بن محمد بن سلیمان اگر الباغندی ہیں تو مشہور حافظ حدیث ہیں ، البتہ تدلیس کیا کرتے تھے ( لسان المیزان ج 7 ص 473 ) لیکن یہاں تصریح بالسماع موجود ہے ۔
اس کے بعد محمد بن عزیز الأیلی ہیں حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں : فيه ضعف ، و قد تكلموا فى صحة سماعه من عمه سلامة یہاں ان کی روایت انہیں سے ہے ۔
اور خود سلامۃ بن روح متکلم فیہ ہیں ، حافظ ابن حجر نے تقریب میں انہیں صدوق لہ أوہام قرار دیا ہے ۔
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ، واللہ اعلم ۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ، واللہ اعلم ۔

آپ نے کچھ جلدی کی ۔ حدیث ضعیف بالکل بھی نہیں ہے ۔
۱ ۔ ابو اسحاق الفزاریؒ ۱۸۶ھ نے ۔۔۔۔۔السیر۔ص ۳۲۷ رقم ۶۴۷۔۔۔میں روایت کیا۔
الفزاری۔شعبہ۔سلمۃ بن کھیل۔عن ابی الزعرا۔او۔عن زید بن وہب ۔۔سوید بن غفلہ جعفی۔علی بن ابی طالبؓ
اس سند سے حدیث میں قصہ ہے ۔۔۔پھر اس کے آخر میں حضرت علیؓ کا فرمان ہے

الا ۔۔ولن یبلغنی عن احد یفضلنی عليهما الا جلدته حد المفتری۔۔۔
اس میں شیعوں کا اعتراض ہے کہ ابی الزعرا۔مجہول ہے ۔
یہ انہوں نے مجہول ابوحاتمؒ کی تقلید میں کہا ہے ۔ حالانکہ یہ تابعی ثقہ ہیں۔
عجلی ؒ، ابن حبانؒ اور ابن حجرؒ نے ان کی توثیق کی ہے ۔
اور دوسرا اس سند میں ہی ان کے متابع ۔۔زید بن وہبؒ ہیں۔جو تابعی کبیر اور صحاح کے راوی ہیں ۔
بلکہ سلمہ بن کھیل ؒ۔۔۔تو۔۔۔براہ راست ۔۔سوید بن غفلۃؒ سے بھی روایت کرتے ہیں ۔
یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔صحت کے اعلیٰ معیار کی حامل ہے ۔
اس کے علاوہ ان کتابوں میں ہے ۔
۲۔ امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱ھ۔۔۔فضائل صحابہؓ۔ص ۳۳۶ رقم ۴۸۴
سند یہ ہے

احمد ۔ہیثم بن خارجہ۔و الحکم بن موسی ۔شہاب بن خراش ۔۔ الحجاج بن دینار ۔ ابی معشر ۔ابراہیم۔علقمہ۔علیؓ
یہ صحیح سند ہے ۔۔شہاب بن خراش پر کچھ جرح ہے ۔۔۔لیکن وہ ثقہ ہیں۔۔زیادہ سے زیادہ حسن ہو جائے گی ۔
۲۔ ابن ابی عاصم ۲۸۷ھ ۔۔۔۔السنۃ ۔ج۲۔ص۵۷۵
۳۔ الآجری ۳۶۰ھ۔۔۔الشریعہ۔ج۳۔ص۴۲۲
۴۔ ابن شاہینؒ ۳۸۵ھ ۔۔۔۔۔۔۔شرح مذاہب اہل السنۃ ۔ص ۳۱۶
ان کی سند وہی امام احمد ؒ والی ہے ۔
عبد اللہ بن محمد ۔ثنا۔الحکم بن موسی۔ثنا ۔شہاب بن خراش ۔ عن ۔ الحجاج بن دینار ۔ عن ابی معشر ۔ابراہیم۔علقمہ۔علیؓ
یہ سارے راوی ثقہ ہیں۔
۵۔ البیہقیؒ ۴۵۸ھ ۔۔ الاعتقاد۔ص۵۰۴۔۔میں روایت کیا ۔
امام بیہقیؒ کبھی بے اصل روایت پر خاموش نہیں رہتے ۔ انہوں نے احتجاجاََہی نقل کیا ہے ۔
آجری۔ابن ابی عاصم یا بیہقی کی سند میں ایک راوی کی جہالت کا اعتراض ہے ۔
تحقیق کی فرصت نہیں ۔۔بہرحال ہو بھی تو کوئی بات نہیں دوسری سندیں صحیح ہیں۔
۶۔ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳ھ ۔۔۔۔تلخیص المتشابہ۔ص ۳۵۳۔۔۔میں کچھ اور سند یں بیان کی ہے ۔

أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَطَّانُ، أَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى الأَدَمِيُّ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ، نَا عُقْبَةُ بْنُ سِنَانٍ الْهَدَادِيُّ، ثَنَا الْهَيْصَمُ بْنُ شَدَّاخٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: «سَبَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، وَثَلَّثَ عُمَرُ، وَلا أُوتَى بِرَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي، وَطَرْحِ الشَّهَادَةِ»،
خَالَفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَامِدِ بْنِ سُفْيَانَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَرْوَانَ، فَقَالا: عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ
كَذَلِكَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْمُقْرِئُ، نَا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ، نَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادٍ، نَا عُقْبَةُ بْنُ سِنَانٍ الذَّارِعُ أَبُو بِشْرٍ، وَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، نَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيٍّ، إِمْلاءً، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَرْوَانَ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ الْهَدَادِيُّ، نَا الْهَيْصَمُ بْنُ شَدَّاخٍ الْعَبْدِيُّ، نَا الأَعْمَشُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ،

اس کے متن میں کوئی تصحیح محسوس نہیں ہور ہی ۔۔۔یہ عجیب جملہ ہے ۔۔۔ بِرَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ
یہ یفضلنی علی ابی بکر و عمر ۔۔۔ہے۔۔۔

۷۔ ابن حزمؒ ۴۵۶ھ۔۔۔ محلیٰ ج۱۱ ص 286 مسئلہ ۲۲۳۸ میں ۲ سندوں سے نقل کی ہے ۔ اور سند پر کوئی جرح نہیں کی
۸۔ ابن عساکر ۵۷۱ھ۔۔۔تاریخ دمشق۔۔ج ۳۰۔ص ۳۸۲ ۔۔ مذکورہ مقام پر یہ روایت موجود ہے ۔بس یہ ہے کہ صفحہ کے آخر سے شروع ہو رہی ہے اور اگلے صفحہ ۳۸۳ پر ۔۔۔۲ مختلف اسانید سے موجود ہے ۔
سند اول۔

أبو محمد بن طاوس أنا أبو الغنائم بن أبي عثمان نا محمد بن أحمد بن محمد بن رزقويه إملاء نا أبو جعفر محمد بن يوسف بن حمدان الهمداني نا محمد بن عبد بن عامر نا إبراهيم بن يوسف نا وكيع عن محمد بن طلحة عن الحكم بن حجل عن أبيه قال قال علي بن أبي طالب
دوسری سند
أبو القاسم بن الحصين أنا أبو محمد بن المقتدر نا أحمد بن منصور اليشكري نا أبو (1) بكر بن أبي داود نا إسحاق بن إبراهيم أنبأ الكرماني بن عمرو نا محمد بن طلحة عن شعبة عن حصين بن عبد الرحمن عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال قال علي

آپ نے جو حوالہ تاریخ دمشق ج۲۶ص ۳۴۳ نقل کیا ۔ یہ اس کی تیسری سند ہوئی۔
خطیبؒ اور ابن عساکرؒ کی اسانید کی تحقیق نہیں کی ۔۔۔
۹۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ۷۲۸ھ۔۔۔فتاوی۔۔۔میں کئی جگہہ بطور احتجاج ہی ذکر کیا۔
اور فرمایا کہ یہ مختلف وجوہ سے حضرت علیؓ سے ثابت ہے ۔
مجموعة الفتاوى - ج ۲۸ ۔ ص ۲۶۰ ۔۔میں فرمایا

روی عنه باسانید جیدۃ انه قال۔۔۔لا اوتی باحد یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدته حد المفتری
۵۔ الذہبیؒ ٧٤٨ھ ۔۔الکبائر ۔ص۴۱۳۔ ۔۔۔دو سندیں بطور احتجاج نقل کی ہیں ۔
ان کی عادت ہے ۔۔سند کا بنیادی حصہ نقل کر دیتے ہیں ۔
ایک سند ۔۔حجاج بن دینار عن ابی معشر عن ابراہیم عن علقمہ سمعت علی ؓ۔۔۔
دوسری سند۔۔۔ ابی عبیدۃ بن الحکم عن الحکم بن جحل ۔ان علیاؓ۔۔

۷۔ ابو حامد المقدسیؒ ۸۸۸ھ ۔۔۔جوحافظ ابن حجر ؒ کے شیخ ہیں ۔۔انہوں نے ۔۔ رسالة في الرد على الرافضة۔ص ۲۹۸۔۔میں ۔۔۔حافظ البیہقیؒ۔حافظ ابن عبد البرؒ۔۔حافظ ابوموسیؒ۔۔۔۔ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے ۔۔

اور یہ فرمایا ہے کہ حضرت علیؓ سے یہ مختلف طریق سے مروی ہے ۔۔

انہوں نے ساتھ یہ افادہ بھی ذکر کیا ہے ۔ کہ مفتری کی سزا ۔۔یعنی کوڑے۔۔اس کی تائید قرآن پاک کی آیت سے ہوتی ہے جس میں پاکباز عورتوں پر تہمت لگانے پر سزا کا ذکر ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ کاد رجہ تو ان سے بھی بلند ہے ۔

معاصرین میں
شیخ مشہور حسن نے الکبائر ۔الذہبی ۔۔۔کی تحقیق میں اسے صحیح کہا۔
شیخ عادل بن محمد ۔۔نے ۔۔
شرح مذاهب أهل السنة ، ابن شاہین کی تحقیق میں اسے صحیح کہا ۔
اور بھی کچھ اس کی اسانید کے حوالے نظر آئے لیکن ان کو دیکھنے کی فرصت نہیں۔۔۔بہت محنت طلب کام ہے ۔
واللہ اعلم ۔۔۔یہ جلدی جلدی میں کیا ہے ۔۔۔اسلئے اگر کوئی کمی کوتاہی و غلطی ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ نے کچھ جلدی کی ۔ حدیث ضعیف بالکل بھی نہیں ہے ۔
میں نے صرف دیے گئے حوالے کے مطابق تحقیق کی تھی ، آپ نے جو تفصیل پیش کی ، میرے علم میں نہیں تھی ۔ جزاکم اللہ خیرا ۔
 
Top