بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ روایت درست نہیں ، واللہ اعلم ۔
آپ نے کچھ جلدی کی ۔ حدیث ضعیف بالکل بھی نہیں ہے ۔
۱ ۔ ابو اسحاق الفزاریؒ ۱۸۶ھ نے ۔۔۔۔۔السیر۔ص ۳۲۷ رقم ۶۴۷۔۔۔میں روایت کیا۔
الفزاری۔شعبہ۔سلمۃ بن کھیل۔عن ابی الزعرا۔او۔عن زید بن وہب ۔۔سوید بن غفلہ جعفی۔علی بن ابی طالبؓ
اس سند سے حدیث میں قصہ ہے ۔۔۔پھر اس کے آخر میں حضرت علیؓ کا فرمان ہے
الا ۔۔ولن یبلغنی عن احد یفضلنی عليهما الا جلدته حد المفتری۔۔۔
اس میں شیعوں کا اعتراض ہے کہ ابی الزعرا۔مجہول ہے ۔
یہ انہوں نے مجہول ابوحاتمؒ کی تقلید میں کہا ہے ۔ حالانکہ یہ تابعی ثقہ ہیں۔
عجلی ؒ، ابن حبانؒ اور ابن حجرؒ نے ان کی توثیق کی ہے ۔
اور دوسرا اس سند میں ہی ان کے متابع ۔۔زید بن وہبؒ ہیں۔جو تابعی کبیر اور صحاح کے راوی ہیں ۔
بلکہ سلمہ بن کھیل ؒ۔۔۔تو۔۔۔براہ راست ۔۔سوید بن غفلۃؒ سے بھی روایت کرتے ہیں ۔
یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔صحت کے اعلیٰ معیار کی حامل ہے ۔
اس کے علاوہ ان کتابوں میں ہے ۔
۲۔ امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱ھ۔۔۔فضائل صحابہؓ۔ص ۳۳۶ رقم ۴۸۴
سند یہ ہے
احمد ۔ہیثم بن خارجہ۔و الحکم بن موسی ۔شہاب بن خراش ۔۔ الحجاج بن دینار ۔ ابی معشر ۔ابراہیم۔علقمہ۔علیؓ
یہ صحیح سند ہے ۔۔شہاب بن خراش پر کچھ جرح ہے ۔۔۔لیکن وہ ثقہ ہیں۔۔زیادہ سے زیادہ حسن ہو جائے گی ۔
۲۔ ابن ابی عاصم ۲۸۷ھ ۔۔۔۔السنۃ ۔ج۲۔ص۵۷۵
۳۔ الآجری ۳۶۰ھ۔۔۔الشریعہ۔ج۳۔ص۴۲۲
۴۔ ابن شاہینؒ ۳۸۵ھ ۔۔۔۔۔۔۔شرح مذاہب اہل السنۃ ۔ص ۳۱۶
ان کی سند وہی امام احمد ؒ والی ہے ۔
عبد اللہ بن محمد ۔ثنا۔الحکم بن موسی۔ثنا ۔شہاب بن خراش ۔ عن ۔ الحجاج بن دینار ۔ عن ابی معشر ۔ابراہیم۔علقمہ۔علیؓ
یہ سارے راوی ثقہ ہیں۔
۵۔ البیہقیؒ ۴۵۸ھ ۔۔ الاعتقاد۔ص۵۰۴۔۔میں روایت کیا ۔
امام بیہقیؒ کبھی بے اصل روایت پر خاموش نہیں رہتے ۔ انہوں نے احتجاجاََہی نقل کیا ہے ۔
آجری۔ابن ابی عاصم یا بیہقی کی سند میں ایک راوی کی جہالت کا اعتراض ہے ۔
تحقیق کی فرصت نہیں ۔۔بہرحال ہو بھی تو کوئی بات نہیں دوسری سندیں صحیح ہیں۔
۶۔ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳ھ ۔۔۔۔تلخیص المتشابہ۔ص ۳۵۳۔۔۔میں کچھ اور سند یں بیان کی ہے ۔
أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَطَّانُ، أَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ يَحْيَى الأَدَمِيُّ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ، نَا عُقْبَةُ بْنُ سِنَانٍ الْهَدَادِيُّ، ثَنَا الْهَيْصَمُ بْنُ شَدَّاخٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: «سَبَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، وَثَلَّثَ عُمَرُ، وَلا أُوتَى بِرَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ إِلا جَلَدْتُهُ حَدَّ الْمُفْتَرِي، وَطَرْحِ الشَّهَادَةِ»،
خَالَفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَامِدِ بْنِ سُفْيَانَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَرْوَانَ، فَقَالا: عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ
كَذَلِكَ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ الْمُقْرِئُ، نَا أَبُو بَكْرٍ الطَّلْحِيُّ، نَا أَحْمَدُ بْنُ حَمَّادٍ، نَا عُقْبَةُ بْنُ سِنَانٍ الذَّارِعُ أَبُو بِشْرٍ، وَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُعَدِّلُ، نَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَلِيٍّ، إِمْلاءً، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَرْوَانَ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ الْهَدَادِيُّ، نَا الْهَيْصَمُ بْنُ شَدَّاخٍ الْعَبْدِيُّ، نَا الأَعْمَشُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ،
اس کے متن میں کوئی تصحیح محسوس نہیں ہور ہی ۔۔۔یہ عجیب جملہ ہے ۔۔۔ بِرَجُلٍ يُصَلِّي عَلَى أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ
یہ یفضلنی علی ابی بکر و عمر ۔۔۔ہے۔۔۔
۷۔ ابن حزمؒ ۴۵۶ھ۔۔۔ محلیٰ ج۱۱ ص 286 مسئلہ ۲۲۳۸ میں ۲ سندوں سے نقل کی ہے ۔ اور سند پر کوئی جرح نہیں کی
۸۔ ابن عساکر ۵۷۱ھ۔۔۔تاریخ دمشق۔۔ج ۳۰۔ص ۳۸۲ ۔۔ مذکورہ مقام پر یہ روایت موجود ہے ۔بس یہ ہے کہ صفحہ کے آخر سے شروع ہو رہی ہے اور اگلے صفحہ ۳۸۳ پر ۔۔۔۲ مختلف اسانید سے موجود ہے ۔
سند اول۔
أبو محمد بن طاوس أنا أبو الغنائم بن أبي عثمان نا محمد بن أحمد بن محمد بن رزقويه إملاء نا أبو جعفر محمد بن يوسف بن حمدان الهمداني نا محمد بن عبد بن عامر نا إبراهيم بن يوسف نا وكيع عن محمد بن طلحة عن الحكم بن حجل عن أبيه قال قال علي بن أبي طالب
دوسری سند
أبو القاسم بن الحصين أنا أبو محمد بن المقتدر نا أحمد بن منصور اليشكري نا أبو (1) بكر بن أبي داود نا إسحاق بن إبراهيم أنبأ الكرماني بن عمرو نا محمد بن طلحة عن شعبة عن حصين بن عبد الرحمن عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال قال علي
آپ نے جو حوالہ تاریخ دمشق ج۲۶ص ۳۴۳ نقل کیا ۔ یہ اس کی تیسری سند ہوئی۔
خطیبؒ اور ابن عساکرؒ کی اسانید کی تحقیق نہیں کی ۔۔۔
۹۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ۷۲۸ھ۔۔۔فتاوی۔۔۔میں کئی جگہہ بطور احتجاج ہی ذکر کیا۔
اور فرمایا کہ یہ مختلف وجوہ سے حضرت علیؓ سے ثابت ہے ۔
مجموعة الفتاوى - ج ۲۸ ۔ ص ۲۶۰ ۔۔میں فرمایا
روی عنه باسانید جیدۃ انه قال۔۔۔لا اوتی باحد یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدته حد المفتری
۵۔ الذہبیؒ ٧٤٨ھ ۔۔الکبائر ۔ص۴۱۳۔ ۔۔۔دو سندیں بطور احتجاج نقل کی ہیں ۔
ان کی عادت ہے ۔۔سند کا بنیادی حصہ نقل کر دیتے ہیں ۔
ایک سند ۔۔حجاج بن دینار عن ابی معشر عن ابراہیم عن علقمہ سمعت علی ؓ۔۔۔
دوسری سند۔۔۔ ابی عبیدۃ بن الحکم عن الحکم بن جحل ۔ان علیاؓ۔۔
۷۔ ابو حامد المقدسیؒ ۸۸۸ھ ۔۔۔جوحافظ ابن حجر ؒ کے شیخ ہیں ۔۔انہوں نے ۔۔ رسالة في الرد على الرافضة۔ص ۲۹۸۔۔میں ۔۔۔حافظ البیہقیؒ۔حافظ ابن عبد البرؒ۔۔حافظ ابوموسیؒ۔۔۔۔ کے حوالے سے نقل کیا ہے اور اس سے استدلال کیا ہے ۔۔
اور یہ فرمایا ہے کہ حضرت علیؓ سے یہ مختلف طریق سے مروی ہے ۔۔
انہوں نے ساتھ یہ افادہ بھی ذکر کیا ہے ۔ کہ مفتری کی سزا ۔۔یعنی کوڑے۔۔اس کی تائید قرآن پاک کی آیت سے ہوتی ہے جس میں پاکباز عورتوں پر تہمت لگانے پر سزا کا ذکر ہے ۔ حضرت ابوبکرؓ کاد رجہ تو ان سے بھی بلند ہے ۔
معاصرین میں
شیخ مشہور حسن نے الکبائر ۔الذہبی ۔۔۔کی تحقیق میں اسے صحیح کہا۔
شیخ عادل بن محمد ۔۔نے ۔۔ شرح مذاهب أهل السنة ، ابن شاہین کی تحقیق میں اسے صحیح کہا ۔
اور بھی کچھ اس کی اسانید کے حوالے نظر آئے لیکن ان کو دیکھنے کی فرصت نہیں۔۔۔بہت محنت طلب کام ہے ۔
واللہ اعلم ۔۔۔یہ جلدی جلدی میں کیا ہے ۔۔۔اسلئے اگر کوئی کمی کوتاہی و غلطی ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے