السلام علیکم
آج کل ملاوٹ اور دھوکہ دہی ایک آرٹ بن گیا ہے۔ جو عوام کو جتنا اچھی طرح بے وقوف بناتا ہے ۔ اس کو انتہائی ذہین کہا جاتا ہے ۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ 99فیصدی لوگ کاروبار میں دھوکہ کرتے ہیں۔ مختلف روز مرہ کے استعمال کی عام اشیاء میں ملاوٹ کو تو سب کو ہی پتا ہے ۔اور یہ ملاوٹ شدہ اشیاء صحت کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ یعنی ملاوٹ کر نے والے لوگوں کی جانوں کو ایک تسلسل سے نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پہنچارہے ہیں ۔
آپ کسی جنرل اسٹور پر جائیں تو دکاندار آپ سے پوچھتا ہے کہ فلاں برانڈ ایک نمبر چاہیے یا دو نمبر ؟
میں نے ایک دودھ فروش سے کہا کہ آپ نے دودھ 80روپے کلوگرام کا بورڈ لگا یا ہوا ہے جب کہ آپ فروخت لیٹر میں کر رہے ہیں جو کہ کلو گرام سے کم ہے۔ اس کو میری یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی اور کہا ایسا ہی ہمیشہ سے اسی طرح دودھ بیچتے ہیں آپ نے نئی بات کہی ہے۔'
گوشت والے کے پاس چلے جائیں کم تولنا اور اس میں ناقص گوشت ملادینا عام ہے ۔
ابھی حالیہ ہی میں محمکہ پنجاب فو ڈ ڈپارٹمنٹ نے بہت نامی گرامی تیل اور گھی کے برانڈ کو چیک کر نے کے بعد کہا کہ ان میں وٹامن اے موجو د ہی نہیں ہے۔جس کی موجود گی ثابت کرنے کیلئے لاکھوں روپے کے اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔
مردار اور حرام جانور لوگوں کو کھلانے کی خبروں سب کو ہی پتا ہیں ۔ مونگ پھلیوں پر بادام اور پستوں کا رنگ کر کے ان کو بیچا جارہا ہے ۔کسی چیز کو مرمت کے لئے مکینک کے پاس لے کر جائیں تو وہ ان خرابیوں کے بھی پیسے لے لیتا ہے جو موجود ہی نہیں ہوتیں۔جھوٹ بول کر اپنی چیزیں بیچنا ایک عام بات ہے ۔ ہمارے معاشرہ اس غلیظ دلدل میں ڈوب چکا ہے ۔
جو لوگوں کو دھوکہ دے کر روزی کماتے ہیں ۔ پھر ناقص چیزوں سے انسانی جانوں کے نقصان پہنچنے پر کیا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ کیا ملاوٹ ہماری آنے والے نسلوں کو تباہ و بر با د نہیں کر رہی ہے ۔نئی سے نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
پھر ہم دعؤٰی کر تے ہیں کہ ہم بہت مہذب قوم ہیں ۔جس طرح کفر اور اسلام کے درمیان تفریق کرنے والی چیز نماز ہے اسی طرح ملاوٹ بھی اور دھوکہ دہی ایک انتہائی مکروہ اور گھناؤنا کام ہے ۔جس کی سزا یہ ہے کہ پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم کو کر نے والے کو امت سے خارج قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر: 1315 ترمذی--- حکم البانی: صحيح ، ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے ، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا ، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا : ” غلہ والے ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ “ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بارش سے بھیگ گیا ہے ، آپ نے فرمایا : ” اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں “ ، پھر آپ نے فرمایا : ” جو دھوکہ دے ، ہم میں سے نہیں ہے “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ۲ - اس باب میں ابن عمر ، ابوحمراء ، ابن عباس ، بریدہ ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں ۔
آج کل ملاوٹ اور دھوکہ دہی ایک آرٹ بن گیا ہے۔ جو عوام کو جتنا اچھی طرح بے وقوف بناتا ہے ۔ اس کو انتہائی ذہین کہا جاتا ہے ۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ 99فیصدی لوگ کاروبار میں دھوکہ کرتے ہیں۔ مختلف روز مرہ کے استعمال کی عام اشیاء میں ملاوٹ کو تو سب کو ہی پتا ہے ۔اور یہ ملاوٹ شدہ اشیاء صحت کیلئے نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ یعنی ملاوٹ کر نے والے لوگوں کی جانوں کو ایک تسلسل سے نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ پہنچارہے ہیں ۔
آپ کسی جنرل اسٹور پر جائیں تو دکاندار آپ سے پوچھتا ہے کہ فلاں برانڈ ایک نمبر چاہیے یا دو نمبر ؟
میں نے ایک دودھ فروش سے کہا کہ آپ نے دودھ 80روپے کلوگرام کا بورڈ لگا یا ہوا ہے جب کہ آپ فروخت لیٹر میں کر رہے ہیں جو کہ کلو گرام سے کم ہے۔ اس کو میری یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی اور کہا ایسا ہی ہمیشہ سے اسی طرح دودھ بیچتے ہیں آپ نے نئی بات کہی ہے۔'
گوشت والے کے پاس چلے جائیں کم تولنا اور اس میں ناقص گوشت ملادینا عام ہے ۔
ابھی حالیہ ہی میں محمکہ پنجاب فو ڈ ڈپارٹمنٹ نے بہت نامی گرامی تیل اور گھی کے برانڈ کو چیک کر نے کے بعد کہا کہ ان میں وٹامن اے موجو د ہی نہیں ہے۔جس کی موجود گی ثابت کرنے کیلئے لاکھوں روپے کے اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔
مردار اور حرام جانور لوگوں کو کھلانے کی خبروں سب کو ہی پتا ہیں ۔ مونگ پھلیوں پر بادام اور پستوں کا رنگ کر کے ان کو بیچا جارہا ہے ۔کسی چیز کو مرمت کے لئے مکینک کے پاس لے کر جائیں تو وہ ان خرابیوں کے بھی پیسے لے لیتا ہے جو موجود ہی نہیں ہوتیں۔جھوٹ بول کر اپنی چیزیں بیچنا ایک عام بات ہے ۔ ہمارے معاشرہ اس غلیظ دلدل میں ڈوب چکا ہے ۔
جو لوگوں کو دھوکہ دے کر روزی کماتے ہیں ۔ پھر ناقص چیزوں سے انسانی جانوں کے نقصان پہنچنے پر کیا اس وعید کے زمرے میں نہیں آتے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ کیا ملاوٹ ہماری آنے والے نسلوں کو تباہ و بر با د نہیں کر رہی ہے ۔نئی سے نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
پھر ہم دعؤٰی کر تے ہیں کہ ہم بہت مہذب قوم ہیں ۔جس طرح کفر اور اسلام کے درمیان تفریق کرنے والی چیز نماز ہے اسی طرح ملاوٹ بھی اور دھوکہ دہی ایک انتہائی مکروہ اور گھناؤنا کام ہے ۔جس کی سزا یہ ہے کہ پیارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم کو کر نے والے کو امت سے خارج قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر: 1315 ترمذی--- حکم البانی: صحيح ، ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے ، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا ، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا : ” غلہ والے ! یہ کیا معاملہ ہے ؟ “ اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! بارش سے بھیگ گیا ہے ، آپ نے فرمایا : ” اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں “ ، پھر آپ نے فرمایا : ” جو دھوکہ دے ، ہم میں سے نہیں ہے “ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ ؓ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ۲ - اس باب میں ابن عمر ، ابوحمراء ، ابن عباس ، بریدہ ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں ، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں ۔