محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تشریع یعنی قانون سازی میں کبھی تو اس طرح ہوتا ہے کہ نیا قانون بنایا جاتا ہے جس کی اصل و بنیاد شریعت میں نہیں ہوتی اورکبھی ایسا ہوتا ہے کہ شریعت میں کوئی قانون نصوص سے ثابت ہے اس میں تبدیلی کردی جاتی ہے یہ دونوں عمل تشریع کہلائیں گے۔جس نے کوئی ایسا نیا قانون ایجاد کیا لوگوں کے لیے جو اللہ کی کتاب یا اس کے رسول ﷺکی سنت میں نہیں تھا تو وہ کافر ہے ۔اور جس نے کتاب وسنت سے ثابت شدہ حکم کوتبدیل کرلیا مثلاً حرام کو حلال یا حلال کو حرام کردیا تو وہ بھی اسی طرح کافر ہے جس طرح پہلی قسم کا شخص ہے ۔یہ حکم اس کے لیے بھی ہے جو قرآن وسنت سے ثابت شدہ حدود وسزاؤں میں تبدیلی کرتاہے ۔
اسی لیے ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ احکام چار طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے بنائے جاتے ہیں :
اگر تحریم وتحلیل کے بارے میں شریعت ایجاد کی جائے یا کسی ایسی بات پر رائے کو جائز قرار دیا جائے جس میں اللہ ورسول ﷺکا حکم نہ ہو یا اللہ ورسول ﷺکی شریعت کو اپنی رائے کی بناپر باطل قرار دیا جائے تو ان میں کوئی فرق نہیں سب باطل اور جھوٹ اور واضح کفر ہے (الاحکام :۶/۳۱)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
اسی لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اسی لیے ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ احکام چار طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے بنائے جاتے ہیں :
ابن حزم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :1 کسی لازم فرض کو ساقط کردیا جائے مثلاً نماز،زکاۃ ،یا روزہ ،حج یا زنا کی حد یا قذف کی حد سے کچھ حصہ کو یا مکمل طور پر ساقط کردیا جائے ۔
2 یا ان فرائض میں سے کسی فرض میں اضافہ کردیا جائے یا کوئی نیا فرض ایجاد کرلیاجائے۔
3 یاکسی حرام کو حلال کرلیاجائے جیسے خنزیر ،شراب،یامردار کو ۔
4 یا حلال کو حرام کرلیاجائے جیسے بکری وغیرہ کاگوشت حرام قرار دیا جائے ۔ان طریقوںمیں سے جو بھی طریقہ اپنایا جائے اس کا قائل کافر مشرک ہے یہود ونصاریٰ کے حکم میں ہے۔
ان میں سے کسی بھی طریقے کو جائز قرار دینے والے کوبغیر توبہ کروائے قتل کرنا ہر مسلمان کافرض ہے ۔اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول نہ کی جائے اس کا مال مسلمانوں کے بیت المال کے حوالے کیا جائے اس لیے کہ اس نے اپنا دین بدل دیا ہے جبکہ نبی ﷺکا فرمان ہے جس نے دین بدل دیا اسے قتل کردو۔
(الاحکام فی الاحکام لابن حزم:۶/۱۱۰،۲/۹،۶/۷۷-۸۷-۱۰۹-۱۱۷،حدیث کو بخاری ،احمد،ابوداؤد نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
اگر تحریم وتحلیل کے بارے میں شریعت ایجاد کی جائے یا کسی ایسی بات پر رائے کو جائز قرار دیا جائے جس میں اللہ ورسول ﷺکا حکم نہ ہو یا اللہ ورسول ﷺکی شریعت کو اپنی رائے کی بناپر باطل قرار دیا جائے تو ان میں کوئی فرق نہیں سب باطل اور جھوٹ اور واضح کفر ہے (الاحکام :۶/۳۱)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :جس کی حرمت پر اجماع ہو اسے حلال اور جس کی حلت پر اجماع ہو اسے حرام قرار دیا جائے یا ایسی شریعت کو بدل دیاجائے جس پر اجماع ہوتو ایسا کرنے والا باتفاق فقہاء کافرہے(مجموع الفتاوی:۳/۲۶۷)۔
اللہ کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ تحلیل وتحریم کی جراء ت کرے خاص کر اہل علم کہلانے والوں کے لیے اس لیے کہ اکثر لوگ اہل علم کی وجہ سے فتنے میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح علماء کے لیے جائز نہیں کہ وہ حکمرانوں کی خواہشات کے مطابق فتوے دیں اور کتاب وسنت کو ترک کردیں اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ مرتد کافر ہوگا اس لیے کہ اس نے اللہ کا محکم حکم چھوڑ دیا اور حکمرانوں کی خواہشات کو اہمیت دی ۔اسلام سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوچکی ہے کہ اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق بھی ہے کہ جس نے دین اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی اتباع کو جائز قرار دے دیا یا محمد eکی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کو تووہ کافر ہے اس کا کفر ان لوگوں کی طرح ہے جو کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ پر کفر کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاﷲِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اﷲِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً،اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وَ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا۔(نساء:۵۰)
جولوگ اللہ ورسول ﷺکے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺمیں فرق کریں (ان کے احکام میں )اور کہتے کہ ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کوئی درمیانی راہ اپنالیں یہ لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب تیار کیا ہے۔
اسی لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جب کوئی عالم کتاب وسنت سے حاصل کردہ علم کو چھوڑ کر حکمرانوں کی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جائے جو کہ اللہ ورسول کے حکم کے خلاف ہوں تو یہ عالم کافر مرتد ہے دنیا وآخرت میں سزاء کا مستحق ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
الٓمّٓصٓ، کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ، اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لاَ تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔(اعراف:۱-۳)
یہ کتاب ہم نے آپ (ﷺ)کی طرف نازل کی ہے آپ کے دل میں اس سے تنگی نہیں ہونی چاہیے ۔تاکہ آپ اس کے ذریعے سے ڈرائیں اور یہ نصیحت ہے مومنوں کے لیے ۔تابعداری کرو اس کی جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیاہے اس کے علاوہ کسی اور کی پیروی مت کرو تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
اگر اس (عالم)کو مارا پیٹاجائے قید کرلیا جائے اور اسے اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش کی جائے کہ یہ اللہ ورسول ﷺکی شریعت کو ترک کردے اور کسی اور کا حکم مان لے اگر اس نے ایسا کیا تو پھربھی یہ سزاء کا مستحق ہے اس کو چاہیے کہ ہر قسم کی تکلیف پر صبر کرے اس لیے کہ یہ انبیاء کی سنت ہے اور ان کے متبعین کی ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
الٓمّٓ، اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّّقُوْلُوْآ ٰامَنَّا وَ ہُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَ، وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اﷲُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ۔(عنکبوت:۱-۳)
کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ انہیں صرف اس بات پر چھوڑدیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں گئے حالانکہ ہم نے ان سے پہلے والوں کو آزمایا تاکہ اللہ سچے لوگوں اور جھوٹوں کی پہچان کروادے ۔(مجموع الفتاوی:۳۵/۳۷۳)