جس کام کا حکم دیا گیا ہو اسے بار بار کیا جائے گا یا نہیں؟
اس مسئلے کی تین صورتیں ہیں، کیونکہ حکم یا تو ایک مرتبہ کرنے کے ساتھ مقید ہوگا یا بارباردہرانے کے ساتھ یا پھر قید سے ہی خالی ہوگا۔
پہلی صورت: حکم کو اسی چیز پر محمول کیا جائے گا جس کی قید لگائی گئی ہوگی۔قید یا تو صفت کے ذریعے ہوگی یا شرط کے ذریعے۔ جو قید صفت کے ذریعے ہوگی، اس کی مثال اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيدِيهُمَا ﴾ [المائدة:38] چوری کرنے والے مرد وعورت کا ہاتھ کاٹ دو۔
تو جب بھی چوری والی صفت پائی جائے گی ، ہاتھ کاٹنا واجب ہوجائے گا، جب تک کہ چوری کا تکرار ہاتھ کاٹنے سے پہلے نہ ہو۔ اور جو قید شرط کے ساتھ ہوگی ، اس کی مثال نبی کریمﷺ کا یہ فرمان ہے: «إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول...» إلخ‘ جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہہ رہا ہو۔۔۔
دوسری صورت: حکم کو اسی چیز پر محمول کیا جائے جس کی قید لگائی گئی ہو گی، جیسے پہلی صورت میں تھا۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عالیشان ہے: ﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إلَيهِ سَبِيلاً ﴾ [ آل عمران:79] لوگوں میں سے جو بھی بیت اللہ کے حج کےلیے راستے کی طاقت رکھے ، اس پر اللہ رب العالمین کا یہ حق ہے کہ وہ حج ضرور کرے۔
تو جب اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا ہر سال حج کرنا واجب ہے؟ تو آپﷺ نے جو جواب دیا ، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حج عمر بھر میں صرف ایک ہی مرتبہ کرنا فرض ہے۔ لہٰذا اس قید کی وجہ سے آیت میں حکم کو ایک مرتبہ کرنے پر محمول کیا جائے گا۔
تیسری صورت: یہ ہر قسم کی قید سے خالی حکم ہوتا ہے ، اسی لیے اکثر اصولیوں کا موقف یہی ہے کہ اس قسم کے حکم کو صرف ایک مرتبہ کرنا پڑے گا،دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ حکم صرف ماہیت (حالت، کیفیت) کو پیدا کرنے کےلیے ہوتا ہے۔اور اسے ایک مرتبہ بجالانا ہی کافی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگرخاوند اپنے وکیل کو کہے کہ میری بیوی کو طلاق کا نوٹس بھجوا دو ، تو وکیل صاحب صرف ایک طلاق کا نوٹس ہی بھجوا سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر مالک اپنے غلام کو گھرمیں داخل ہونے کا حکم دے تو غلام کے ایک مرتبہ داخل ہونے سے ہی حکم پورا ہوجائے گا، اس حکم کو نہ دہرانے پر غلام کی ڈانٹ ڈپٹ درست نہیں ہوگی۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر