حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
یومِ وطنی (جشنِ آزادی)، ہفتۂ صفائی اور دیگر بدعتی تہوار منانے کا شرعی حکم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ بدعات کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۔۔۔انہی میں سے بعض ایام کی تخصیص اور بدعات ایجاد کرنا ہے جیسا کہ بہت سے لوگ اپنے وطن کی جشن ِآزادی یا بادشاہ کی تخت نشینی (یا تاج پوشی) کا یا ان جیسے دوسرے جشن مناتے ہیں، کیونکہ ان سب محدثات (نوایجاد یافتہ باتوں) میں بہت سے مسلمان دشمنانِ الہی غیرمسلموں کی تقلید کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے شریعتِ مطہرہ میں جو خبردار اور منع کیا گیا ہے اس سے غفلت برتتے ہیں۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق ہے کہ فرمایا:
’’لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه ، قالوا : يا رسول الله اليهود والنصارى ؟ قال : فمن؟‘‘([1])
(تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کےبل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔
اور اس حدیث کے ایک دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں کہ:
’’لتأخذن أمتي ما أخذ الأمم قبلها شبراً بشبر وذراعاً بذراع ، قالوا : يا رسول الله! فارس والروم ؟ قال : فمن ؟‘‘([2])
(میری امت بھی اسی چیز سے دوچار ہوگی جس سے اممِ سابقہ دوچار ہوئیں جیسے بالشت بالشت کے برابر ہوتا ہے اورہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ان (گزشتہ امتوں) سے مراد روم وفارس ہیں؟ فرمایا: اور نہیں تو کون؟)۔
یعنی ان کے علاوہ اور کون مراد ہوسکتے ہیں، یقیناً یہی لوگ ہیں۔
واقعی ایسا ہوا جیسا کہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی تھی کہ مسلم امت میں سے الا ماشاء اللہ سب نے اپنے اخلاق واعمال میں اپنے سے پہلوں یہود، نصاریٰ، مجوس اور دوسرے کافروں کی پیروی شروع کردی، یہاں تک کہ اسلام پر اجنبیت غالب آگئی اور کافروں کے اخلاق واعمال اور ان کا رہن سہن ہی بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اس چیز سے بہتر ہوگیا جو اسلام لے کر آیاہے۔
یہاں تک کہ جو عمدہ اخلاق اور صالح ومستقیم اعمال اسلام لے کر آیا تھا اس سے جہالت کے باعث لوگوں کی اکثریت کے یہاں معروف منکر اور منکر معروف بن گیا، اسی طرح سے سنت بدعت اور بدعت سنت بن گئی، إنا لله وإنا إليه راجعون۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو فقہ فی الدین سے نوازے اور ان کے احوال کی اصلاح فرمائے، ان کے قائدین کو صحیح راہ کی ہدایت دے، اور ہمارے علماء اور دانشوروں کو ہمارے دین کے محاسن بیان کرنے اوران بدعات ومحدثات سے ڈرانے کی توفیق دے کہ جنہوں نے اس دین کی صورت بگاڑ دی ہےاور اس سے متنفر کرنے کا سبب بنی ہیں۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالی درودوسلام بھیجے اپنے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی آل اور اصحاب پر اور جو کوئی تاقیامِ قیامت ان کے مسلک کی پیروی اور ان کی سنت کی اتباع کرے اس پر۔
مجموع فتاوى الشيخ ابن باز (5/189)۔
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب سے سوال ہوا کہ:
میں جدہ میں واقع ایک مسجد میں امام ہوں۔ میں نے بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک خطبہ دیا جس میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد منانا دین میں بدعت ہے۔ پھر اس کے بعد والا جمعہ ’’ہفتۂ صفائیِ مساجد‘‘ کے دوران منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ’’تعمیروآبادئ مساجد‘‘، جس میں میں نے قرآن وسنت سے مساجد کی تعمیر، انہیں آبادرکھنا اور ان کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھنا وغیرہ کی اہمیت بیان کی۔ پس نماز کے بعد میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا:یا شیخ پچھلے جمعے آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیدِ میلاد منانا بدعت ہے، اسی لئے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، تو میں نے کہا ضرور پوچھیں میں حسبِ استطاعت اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ چناچہ وہ گویا ہوا کہ ان مختلف عیدوں اور ہفتوں کے منانے کا کیا شرعی حکم ہے جیسے عیدِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، بچوں کی سالگرہ، مادر ڈے، ہفتۂ شجرکاری، ہفتۂ پابندئ ٹریفک، مملکتِ سعودی عرب کا جشن آزادی اور ہفتۂ صفائیِ مساجد کیا یہ سب بھی بدعات نہیں؟ پھر کیوں آپ محض جشن ِعیدِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہی بولتے ہیں مگر دوسرے جشن اورایام منانے کے خلاف کچھ نہیں بولتے بلکہ اس کی ترغیب دلاتے ہیں خصوصاً آپ سعودی لوگ،حالانکہ آپ یہ جانتے بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام بشریت میں سب سے عظیم ترین شخصیت ہیں جو اس بات کی سب سے زیادہ حقدار اور اہل ہیں کہ ان کا جشن ِمیلاد منایا جائے؟ لہذا میں نے اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اسے بیان کیا کہ ہفتۂ صفائی مساجد کا مقصد مسلمانوں کو مساجد کی نظافت اور ان کا خاص اہتمام کرنے کی ترغیب دلانا ہوتا ہے۔ اس نے کہا دیکھیں سڑکوں پر، اوراق اور کپڑوں پر آیاتِ قرآنی لکھی ہوئی ہیں جنہیں ہوا اڑا لے جاتی ہے یا راستوں اور گندگیوں میں پھینک دیا جاتا ہے، کیا یہ سب حرام نہیں ہے خصوصاً ہفتۂ صفائی مساجد کی مہم کے دوران؟ دیکھیں یا شیخ یہ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے میرے پاس اس پر آیت لکھی ہوئی ہے کہ:
﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (التوبۃ: 18)
(اللہ تعالی کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ تعالی اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں)
اسے باغ میں پھینکا ہوا تھا اور اس پر گندگی ڈالی ہوئی تھی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔میں آپ کی خدمت میں اس شخص کا حرف باحرف کلام نقل کررہا ہوں جو اس نے مجھ سے کیا تھا، پھر میں نے اس شخص سے وہ ٹکڑا لیا ، اور اچھی طرح دھو کر اسے جلادیا۔ اس نے مجھ سے کہا اے شیخ میں آپ سے کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ آپ خطباءِ مساجد ہیں جن کی بات سنی جاتی ہے تو آپ کھل کر بیان کریں لیکن آپ سعودیہ کے جو خطباء ہیں اس کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ اگر حکومت کہے فلاں چیز حرام ہےتو آپ اسے حرام کہتے ہیں اور اگر وہ کہے فلاں چیز حلال ہے تو آپ اسے حلال کہتے ہیں۔ حالانکہ آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ جس کہ منہ سے میں نے یہ بات سنی کہ یہ عملِ خیر ہے اور مسلمانوں کو اعمالِ خیرکی جانب ترغیب دینی چاہیے، لیکن میں محض آپ کے کلام سے راضی نہیں ہوں گا یہاں تک کہ آپ مجھے کبار علماء کرام کا باقاعدہ شرعی فتویٰ دکھائیں، اور یہ بات نہ بھولیں کہ حق بات سے خاموش رہنے والا گونگے شیطان کی مانند ہے، والسلام علیک۔ (اس شخص کا کلام ختم ہوا) اس وجہ سے میں ان عیدوں کے بارے میں شرعی فتوے اور ان سب کی علیحدہ دلیل کا طالب ہوں۔ (واللہ یحفظکم)
جواب: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله واله وصحبه .. وبعد :
اولاً: عید ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آتا ہے اور جسے باقاعدہ ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے خواہ وہ سالانہ ہو، یا ماہانہ، یا ہفتہ وار وغیرہ، پس عید کہلانے کے لئے کچھ باتیں جمع ہوتی ہیں:
1- جس میں اس دن کا باربار لوٹ کر آنا ہے جیسے عیدالفطر اور یوم ِجمعہ۔
2- اور دوسری بات اس دن لوگوں کا اجتماع ہے۔
3- اسی طرح سے اس دن خصوصی عبادات اور عادات کو بجالایا جاتا ہے۔
ثانیاً: ایسی عید جس میں خاص مناسک ادا کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا اور اس دن کی تعظیم کرنا ہوتا ہے تاکہ اجروثواب کا حصول ہو، اب اگراس میں اہلِ جاہلیت یا ان جیسے دوسرے کافروں کے ساتھ مشابہت ہو تو وہ بدعت ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمومی فرمان کی رو سے ممنوع ہے، فرمایا:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([3])
(جس نے ہمارے اس امر (دین ) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے)۔
اس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
1- جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
2- عید الام (مادر ڈے)۔
3- عید الوطنی (جشن آزادی)۔
کیونکہ ان میں سے پہلی میں تو ایک ایسی عبادت کا ایجاد کرنا ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں فرمائی اور ساتھ ہی اس میں نصاریٰ اور ان جیسے دوسرے کافروں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے، جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ذکر کردہ میں بھی کافروں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔
اگر کوئی خاص مہم اس طورپر ترتیب دی جائے کہ امت کے مصلحت پر مبنی کاموں کی اچھے طور پر تنظیم کی جائےاور نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لئے امور انجام دئے جائیں جیسے ٹریفک کا ہفتہ، تعلیمی اداروں میں تعلیمی سال کی ترتیب یا رضاکاروں وغیرہ کا کسی مہم کی انجام دہی کے لئے جمع ہوناوغیرہ جس سے اصلاً تقربِ الہی، عبادت یا اس دن کی تعظیم مطلوب نہیں ہوتی۔ چناچہ یہ بدعتِ عادیہ شمار ہوں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس فرمان میں شامل نہیں:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘
(جس نے ہمارے اس امر (دین ) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے)۔
لہذا اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مشروع ہے۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد واله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الإفتاء
نائب صدر: عبد الرزاق عفيفی، صدر: عبدالعزيز بن عبدالله بن باز
جمع شیخ احمد بن عبد الرزاق الدويش (3 /88 ـ 89 )
من الطبعة الثالثة لمكتبة بلنسية بالرياض
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ایسے امور جن میں لوگ کفار کی تقلید کرتے ہیں ان میں سے ان کی عبادات اور شرکیہ امور میں تقلید کرنا ہے جیسے قبروں پر مزارات تعمیر کرنا اور ان کے بارے میں غلو کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([4])
(یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالی کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی قبروں کو مساجد بنادیا تھا)۔
اور یہ بھی خبردی کہ جب ان میں سے کوئی نیک شخص فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے تھے، اور اس میں ان کی تصاویر آویزاں کرتے تھے، فرمایا یہ بدترین مخلوق ہیں([5])۔
یہ امت بھی قبروں کے بارے میں غلو کرتے ہوئے شرکِ اکبر میں ملوث ہوگئی ہے جو کہ ہرخاص وعام پر عیاں ہے، لہذا اس کا سبب بھی یہود ونصاریٰ کی پیروی ہی ہے۔
اسی میں سے ان کا کافروں کی شرکیہ اور بدعتی عیدوں میں تقلید کرنا ہے جیسے عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وزراء وبادشاہوں کی برسیاں یا سالگرہیں منانا، اور ان شرکیہ یا بدعتی عیدوں کو خاص ایام یا ہفتوں کا نام دیا جاتا ہے جیسے یومِ وطنی (جشنِ آزادی)، مادر ڈے یا صفائی مہم (ہفتۂ صفائی) وغیرہ جیسی یومیہ یا ہفتہ وار عیدیں، یہ سب کی سب کافروں سے مسلمانوں میں منتقل ہوئی ہیں۔
ورنہ تو اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ، پس جو کچھ ان کے علاوہ ہیں وہ سب بدعات اور کفار کی تقلید ہیں۔
اسی لئے واجب ہے کہ مسلمان اس بارے میں ہوش کے ناخن لیں اور ایسے تہوار منانے والوں کی کثرت سے کسی دھوکے کا شکار نہ ہوں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب تو کرتے ہیں لیکن اس کی حقیقت سے نرے جاہل ہیں، اسی لئے اپنی جہالت کی وجہ سے ایسے امور میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ یا پھر وہ اسلام کی حقیقت سے ناواقف تو نہیں ہیں مگر عمداً ایسے امور میں حصہ لیتے ہیں، بایں صورت مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ (الاحزاب: 21)
(بے شک تمہارے لئے رسول اللہ میں ہمیشہ بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی سے ملاقات اور یومِ آخرت کا یقین رکھتا ہو، اور اللہ تعالی کا بہت ذکر کرنے والا ہو)
خطبہ بعنوان ’’الحث على مخالفة الكفار‘‘ (کافوروں کی مخالفت کرنے کی ترغیب دلانا) سے ماخوذ۔
شیخ حفظہ اللہ نے اس بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ:
۔۔۔ جشن آزادی منانا جائز نہیں خصوصاً اگر اس میں تقریبات منعقد کی جائیں اور سڑکوں پر جمع ہوا جائے ، پرچم لہرائیں جائیں۔۔۔
اور فرمایا: یوم آزادی کو یاد کرنا گانے بجانے، رقص، سڑکوں پر مجمع اکھٹا کرنے یا تجارتی مجمع لگانے سے نہیں ہوتا۔۔۔
اور فرمایا: حکومت ہو یا عوام انہیں ایسی تقریبات سے راضی نہیں ہونا چاہیے وطن کے حصول کی حقیقی خوشی منانا تو یہ ہے کہ اس کے لئے خلوص ہو اور اس کی ترقی کے لئے کام کیا جائے۔ ۔۔
اور فرمایا: کاش کہ سعودی حکومت اسے روک دے کیونکہ یہ جائز نہیں سنت میں دو عیدوں کے علاوہ کسی عید کا تصور نہیں جو کہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں۔
[1] صحیح بخاری 7320 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ‘‘۔
[2] الابانۃ الکبری لابن بطۃ 330 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَأْخُذَنَّ أُمَّتِي بِأَخْذِ الأُمَمِ وَالْقُرُونِ قَبْلَهَا شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ. قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمَا فَعَلَتْ فَارِسُ وَالرُّومُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَمَنِ النَّاسُ إِلا أُولَئِكَ؟‘‘۔
[3] صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1720۔
[4] صحیح بخاری 436، صحیح مسلم 533۔
[5] صحیح بخاری 434 حدیث کے الفاظ ہیں: ’’أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ‘‘
ِ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ بدعات کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۔۔۔انہی میں سے بعض ایام کی تخصیص اور بدعات ایجاد کرنا ہے جیسا کہ بہت سے لوگ اپنے وطن کی جشن ِآزادی یا بادشاہ کی تخت نشینی (یا تاج پوشی) کا یا ان جیسے دوسرے جشن مناتے ہیں، کیونکہ ان سب محدثات (نوایجاد یافتہ باتوں) میں بہت سے مسلمان دشمنانِ الہی غیرمسلموں کی تقلید کرتے ہیں، اور ایسا کرنے سے شریعتِ مطہرہ میں جو خبردار اور منع کیا گیا ہے اس سے غفلت برتتے ہیں۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق ہے کہ فرمایا:
’’لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه ، قالوا : يا رسول الله اليهود والنصارى ؟ قال : فمن؟‘‘([1])
(تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کےبل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔
اور اس حدیث کے ایک دوسرے الفاظ بھی آئے ہیں کہ:
’’لتأخذن أمتي ما أخذ الأمم قبلها شبراً بشبر وذراعاً بذراع ، قالوا : يا رسول الله! فارس والروم ؟ قال : فمن ؟‘‘([2])
(میری امت بھی اسی چیز سے دوچار ہوگی جس سے اممِ سابقہ دوچار ہوئیں جیسے بالشت بالشت کے برابر ہوتا ہے اورہاتھ ہاتھ کے برابر ہوتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا ان (گزشتہ امتوں) سے مراد روم وفارس ہیں؟ فرمایا: اور نہیں تو کون؟)۔
یعنی ان کے علاوہ اور کون مراد ہوسکتے ہیں، یقیناً یہی لوگ ہیں۔
واقعی ایسا ہوا جیسا کہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی تھی کہ مسلم امت میں سے الا ماشاء اللہ سب نے اپنے اخلاق واعمال میں اپنے سے پہلوں یہود، نصاریٰ، مجوس اور دوسرے کافروں کی پیروی شروع کردی، یہاں تک کہ اسلام پر اجنبیت غالب آگئی اور کافروں کے اخلاق واعمال اور ان کا رہن سہن ہی بہت سے مسلمانوں کے نزدیک اس چیز سے بہتر ہوگیا جو اسلام لے کر آیاہے۔
یہاں تک کہ جو عمدہ اخلاق اور صالح ومستقیم اعمال اسلام لے کر آیا تھا اس سے جہالت کے باعث لوگوں کی اکثریت کے یہاں معروف منکر اور منکر معروف بن گیا، اسی طرح سے سنت بدعت اور بدعت سنت بن گئی، إنا لله وإنا إليه راجعون۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو فقہ فی الدین سے نوازے اور ان کے احوال کی اصلاح فرمائے، ان کے قائدین کو صحیح راہ کی ہدایت دے، اور ہمارے علماء اور دانشوروں کو ہمارے دین کے محاسن بیان کرنے اوران بدعات ومحدثات سے ڈرانے کی توفیق دے کہ جنہوں نے اس دین کی صورت بگاڑ دی ہےاور اس سے متنفر کرنے کا سبب بنی ہیں۔ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالی درودوسلام بھیجے اپنے بندے اوررسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی آل اور اصحاب پر اور جو کوئی تاقیامِ قیامت ان کے مسلک کی پیروی اور ان کی سنت کی اتباع کرے اس پر۔
مجموع فتاوى الشيخ ابن باز (5/189)۔
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب سے سوال ہوا کہ:
میں جدہ میں واقع ایک مسجد میں امام ہوں۔ میں نے بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک خطبہ دیا جس میں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد منانا دین میں بدعت ہے۔ پھر اس کے بعد والا جمعہ ’’ہفتۂ صفائیِ مساجد‘‘ کے دوران منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ’’تعمیروآبادئ مساجد‘‘، جس میں میں نے قرآن وسنت سے مساجد کی تعمیر، انہیں آبادرکھنا اور ان کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھنا وغیرہ کی اہمیت بیان کی۔ پس نماز کے بعد میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا:یا شیخ پچھلے جمعے آپ نے ہمیں بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیدِ میلاد منانا بدعت ہے، اسی لئے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، تو میں نے کہا ضرور پوچھیں میں حسبِ استطاعت اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ چناچہ وہ گویا ہوا کہ ان مختلف عیدوں اور ہفتوں کے منانے کا کیا شرعی حکم ہے جیسے عیدِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، بچوں کی سالگرہ، مادر ڈے، ہفتۂ شجرکاری، ہفتۂ پابندئ ٹریفک، مملکتِ سعودی عرب کا جشن آزادی اور ہفتۂ صفائیِ مساجد کیا یہ سب بھی بدعات نہیں؟ پھر کیوں آپ محض جشن ِعیدِمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ہی بولتے ہیں مگر دوسرے جشن اورایام منانے کے خلاف کچھ نہیں بولتے بلکہ اس کی ترغیب دلاتے ہیں خصوصاً آپ سعودی لوگ،حالانکہ آپ یہ جانتے بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام بشریت میں سب سے عظیم ترین شخصیت ہیں جو اس بات کی سب سے زیادہ حقدار اور اہل ہیں کہ ان کا جشن ِمیلاد منایا جائے؟ لہذا میں نے اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اسے بیان کیا کہ ہفتۂ صفائی مساجد کا مقصد مسلمانوں کو مساجد کی نظافت اور ان کا خاص اہتمام کرنے کی ترغیب دلانا ہوتا ہے۔ اس نے کہا دیکھیں سڑکوں پر، اوراق اور کپڑوں پر آیاتِ قرآنی لکھی ہوئی ہیں جنہیں ہوا اڑا لے جاتی ہے یا راستوں اور گندگیوں میں پھینک دیا جاتا ہے، کیا یہ سب حرام نہیں ہے خصوصاً ہفتۂ صفائی مساجد کی مہم کے دوران؟ دیکھیں یا شیخ یہ کپڑے کا ایک ٹکڑا ہے میرے پاس اس پر آیت لکھی ہوئی ہے کہ:
﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (التوبۃ: 18)
(اللہ تعالی کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ تعالی اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں)
اسے باغ میں پھینکا ہوا تھا اور اس پر گندگی ڈالی ہوئی تھی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔میں آپ کی خدمت میں اس شخص کا حرف باحرف کلام نقل کررہا ہوں جو اس نے مجھ سے کیا تھا، پھر میں نے اس شخص سے وہ ٹکڑا لیا ، اور اچھی طرح دھو کر اسے جلادیا۔ اس نے مجھ سے کہا اے شیخ میں آپ سے کچھ نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ آپ خطباءِ مساجد ہیں جن کی بات سنی جاتی ہے تو آپ کھل کر بیان کریں لیکن آپ سعودیہ کے جو خطباء ہیں اس کی استطاعت نہیں رکھتے کیونکہ اگر حکومت کہے فلاں چیز حرام ہےتو آپ اسے حرام کہتے ہیں اور اگر وہ کہے فلاں چیز حلال ہے تو آپ اسے حلال کہتے ہیں۔ حالانکہ آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ جس کہ منہ سے میں نے یہ بات سنی کہ یہ عملِ خیر ہے اور مسلمانوں کو اعمالِ خیرکی جانب ترغیب دینی چاہیے، لیکن میں محض آپ کے کلام سے راضی نہیں ہوں گا یہاں تک کہ آپ مجھے کبار علماء کرام کا باقاعدہ شرعی فتویٰ دکھائیں، اور یہ بات نہ بھولیں کہ حق بات سے خاموش رہنے والا گونگے شیطان کی مانند ہے، والسلام علیک۔ (اس شخص کا کلام ختم ہوا) اس وجہ سے میں ان عیدوں کے بارے میں شرعی فتوے اور ان سب کی علیحدہ دلیل کا طالب ہوں۔ (واللہ یحفظکم)
جواب: الحمد لله وحده والصلاة والسلام على رسوله واله وصحبه .. وبعد :
اولاً: عید ایسے اجتماع کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آتا ہے اور جسے باقاعدہ ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے خواہ وہ سالانہ ہو، یا ماہانہ، یا ہفتہ وار وغیرہ، پس عید کہلانے کے لئے کچھ باتیں جمع ہوتی ہیں:
1- جس میں اس دن کا باربار لوٹ کر آنا ہے جیسے عیدالفطر اور یوم ِجمعہ۔
2- اور دوسری بات اس دن لوگوں کا اجتماع ہے۔
3- اسی طرح سے اس دن خصوصی عبادات اور عادات کو بجالایا جاتا ہے۔
ثانیاً: ایسی عید جس میں خاص مناسک ادا کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا اور اس دن کی تعظیم کرنا ہوتا ہے تاکہ اجروثواب کا حصول ہو، اب اگراس میں اہلِ جاہلیت یا ان جیسے دوسرے کافروں کے ساتھ مشابہت ہو تو وہ بدعت ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمومی فرمان کی رو سے ممنوع ہے، فرمایا:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([3])
(جس نے ہمارے اس امر (دین ) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے)۔
اس کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
1- جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
2- عید الام (مادر ڈے)۔
3- عید الوطنی (جشن آزادی)۔
کیونکہ ان میں سے پہلی میں تو ایک ایسی عبادت کا ایجاد کرنا ہے جس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں فرمائی اور ساتھ ہی اس میں نصاریٰ اور ان جیسے دوسرے کافروں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے، جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ذکر کردہ میں بھی کافروں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے۔
اگر کوئی خاص مہم اس طورپر ترتیب دی جائے کہ امت کے مصلحت پر مبنی کاموں کی اچھے طور پر تنظیم کی جائےاور نظم وضبط کو برقرار رکھنے کے لئے امور انجام دئے جائیں جیسے ٹریفک کا ہفتہ، تعلیمی اداروں میں تعلیمی سال کی ترتیب یا رضاکاروں وغیرہ کا کسی مہم کی انجام دہی کے لئے جمع ہوناوغیرہ جس سے اصلاً تقربِ الہی، عبادت یا اس دن کی تعظیم مطلوب نہیں ہوتی۔ چناچہ یہ بدعتِ عادیہ شمار ہوں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس فرمان میں شامل نہیں:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘
(جس نے ہمارے اس امر (دین ) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے)۔
لہذا اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مشروع ہے۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد واله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية و الإفتاء
نائب صدر: عبد الرزاق عفيفی، صدر: عبدالعزيز بن عبدالله بن باز
جمع شیخ احمد بن عبد الرزاق الدويش (3 /88 ـ 89 )
من الطبعة الثالثة لمكتبة بلنسية بالرياض
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
ایسے امور جن میں لوگ کفار کی تقلید کرتے ہیں ان میں سے ان کی عبادات اور شرکیہ امور میں تقلید کرنا ہے جیسے قبروں پر مزارات تعمیر کرنا اور ان کے بارے میں غلو کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([4])
(یہود ونصاریٰ پر اللہ تعالی کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی قبروں کو مساجد بنادیا تھا)۔
اور یہ بھی خبردی کہ جب ان میں سے کوئی نیک شخص فوت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے تھے، اور اس میں ان کی تصاویر آویزاں کرتے تھے، فرمایا یہ بدترین مخلوق ہیں([5])۔
یہ امت بھی قبروں کے بارے میں غلو کرتے ہوئے شرکِ اکبر میں ملوث ہوگئی ہے جو کہ ہرخاص وعام پر عیاں ہے، لہذا اس کا سبب بھی یہود ونصاریٰ کی پیروی ہی ہے۔
اسی میں سے ان کا کافروں کی شرکیہ اور بدعتی عیدوں میں تقلید کرنا ہے جیسے عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وزراء وبادشاہوں کی برسیاں یا سالگرہیں منانا، اور ان شرکیہ یا بدعتی عیدوں کو خاص ایام یا ہفتوں کا نام دیا جاتا ہے جیسے یومِ وطنی (جشنِ آزادی)، مادر ڈے یا صفائی مہم (ہفتۂ صفائی) وغیرہ جیسی یومیہ یا ہفتہ وار عیدیں، یہ سب کی سب کافروں سے مسلمانوں میں منتقل ہوئی ہیں۔
ورنہ تو اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ، پس جو کچھ ان کے علاوہ ہیں وہ سب بدعات اور کفار کی تقلید ہیں۔
اسی لئے واجب ہے کہ مسلمان اس بارے میں ہوش کے ناخن لیں اور ایسے تہوار منانے والوں کی کثرت سے کسی دھوکے کا شکار نہ ہوں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب تو کرتے ہیں لیکن اس کی حقیقت سے نرے جاہل ہیں، اسی لئے اپنی جہالت کی وجہ سے ایسے امور میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ یا پھر وہ اسلام کی حقیقت سے ناواقف تو نہیں ہیں مگر عمداً ایسے امور میں حصہ لیتے ہیں، بایں صورت مصیبت اور بھی بڑھ جاتی ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ (الاحزاب: 21)
(بے شک تمہارے لئے رسول اللہ میں ہمیشہ بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی سے ملاقات اور یومِ آخرت کا یقین رکھتا ہو، اور اللہ تعالی کا بہت ذکر کرنے والا ہو)
خطبہ بعنوان ’’الحث على مخالفة الكفار‘‘ (کافوروں کی مخالفت کرنے کی ترغیب دلانا) سے ماخوذ۔
شیخ حفظہ اللہ نے اس بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے ایک دوسرے موقع پر فرمایا کہ:
۔۔۔ جشن آزادی منانا جائز نہیں خصوصاً اگر اس میں تقریبات منعقد کی جائیں اور سڑکوں پر جمع ہوا جائے ، پرچم لہرائیں جائیں۔۔۔
اور فرمایا: یوم آزادی کو یاد کرنا گانے بجانے، رقص، سڑکوں پر مجمع اکھٹا کرنے یا تجارتی مجمع لگانے سے نہیں ہوتا۔۔۔
اور فرمایا: حکومت ہو یا عوام انہیں ایسی تقریبات سے راضی نہیں ہونا چاہیے وطن کے حصول کی حقیقی خوشی منانا تو یہ ہے کہ اس کے لئے خلوص ہو اور اس کی ترقی کے لئے کام کیا جائے۔ ۔۔
اور فرمایا: کاش کہ سعودی حکومت اسے روک دے کیونکہ یہ جائز نہیں سنت میں دو عیدوں کے علاوہ کسی عید کا تصور نہیں جو کہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں۔
[2] الابانۃ الکبری لابن بطۃ 330 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَأْخُذَنَّ أُمَّتِي بِأَخْذِ الأُمَمِ وَالْقُرُونِ قَبْلَهَا شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ. قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمَا فَعَلَتْ فَارِسُ وَالرُّومُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَمَنِ النَّاسُ إِلا أُولَئِكَ؟‘‘۔
[3] صحیح بخاری 2697، صحیح مسلم 1720۔
[4] صحیح بخاری 436، صحیح مسلم 533۔
[5] صحیح بخاری 434 حدیث کے الفاظ ہیں: ’’أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ‘‘
ِ