یہ تھریڈ مزعومہ عید میلاد کے متعلق ہے جو 12 ربیع الاول کو منائی جاتی ہے، لہٰذا آپ کی پوسٹ سے اس کے علاوہ اور کوئی نتیجہ اخذ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
یعنی 12، ربیع الاول کو جس طریقے سے منائی جاتی ہے ویسے منانا غلط ہے؟
ویسے میں نے نہیں دیکھا کہ صرف 12، ربیع الاول کو میلاد کا اہتمام ہوتا ہے۔ پورے ماہ میں مختلف دنوں میں مختلف لوگ اپنے اپنے گھر میں اس کا اہتمام کرتے ہیں۔
خوشی کا اظہار بدعات کے ذریعے بدعت ہی ہوتا ہے۔
بلکل صحیح
بہرحال!
نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کیلئے اللہ کے حکم سے دو عیدیں مقرر کی ہیں۔ 12 ربیع الاول کو تیسری عید کے طور پر منانا بدعت ہے، جس میں نبی کریمﷺ سے محبت کے نام پر آپﷺ ہی کے احکامات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت" الیوم اکملت لکم دینکم" ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے۔
نبی کریمﷺ فداہ اَبی واُمی کی دُنیا میں ایک ہی مرتبہ ’عام الفیل‘ میں تشریف آوری ہوئی ہے، اور میرے نزدیک جسے اس بات کی خوشی نہ ہو، اس کا ایمان ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ اس موقع کو خوشی مان رہے ہیں۔
لیکن دین اسلام میں ہمارے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے، خوشی وغمی کے اظہار کے طریقے بھی ہمیں سکھائے گئے ہیں۔ خوشی میں فخر ومباہات وبدعات اور غمی میں نوحہ وبین وگریبان چاک کرنا وغیرہ غیر شرعی اُمور سے ہمیں روکا گیا ہے۔
سو فی صد متفق۔ جس طریقے سے اس موقع کو منانے کا رواج عام ہوچکا ہے وہ سب ہمارے مذہب کے منافی ہے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب فرمان ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 179 )
یعنی فضول اسراف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جزاک اللہ خیر۔
یعنی 12، ربیع الاول کو جس طریقے سے منائی جاتی ہے ویسے منانا غلط ہے؟
ویسے میں نے نہیں دیکھا کہ صرف 12، ربیع الاول کو میلاد کا اہتمام ہوتا ہے۔ پورے ماہ میں مختلف دنوں میں مختلف لوگ اپنے اپنے گھر میں اس کا اہتمام کرتے ہیں۔
خوشی کا اظہار بدعات کے ذریعے بدعت ہی ہوتا ہے۔
بلکل صحیح
بہرحال!
نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کیلئے اللہ کے حکم سے دو عیدیں مقرر کی ہیں۔ 12 ربیع الاول کو تیسری عید کے طور پر منانا بدعت ہے، جس میں نبی کریمﷺ سے محبت کے نام پر آپﷺ ہی کے احکامات کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت" الیوم اکملت لکم دینکم" ۔ تلاوت فرمائی ۔ تو ایک یہودی نے کہا : اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید مناتے ۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہ آیت نازل ہی اسی دن ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ۔(یوم جمعہ اور یوم عرفہ ) مشکوٰۃ شریف صفحہ 121 ۔ مرقات شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے تحت طبرانی وغیرہ کے حوالہ سے بالکل یہی سوال و جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے ، مقام غور ہے کہ دونوں جلیل القدر صحابہ نے یہ نہیں فرمایا ، کہ اسلام میں صرف عید الفطر اور عید الاضحی مقرر ہیں اور ہمارے لئے کوئی تیسری عید منانا بدعت و ممنوع ہے۔
نبی کریمﷺ فداہ اَبی واُمی کی دُنیا میں ایک ہی مرتبہ ’عام الفیل‘ میں تشریف آوری ہوئی ہے، اور میرے نزدیک جسے اس بات کی خوشی نہ ہو، اس کا ایمان ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ اس موقع کو خوشی مان رہے ہیں۔
لیکن دین اسلام میں ہمارے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے، خوشی وغمی کے اظہار کے طریقے بھی ہمیں سکھائے گئے ہیں۔ خوشی میں فخر ومباہات وبدعات اور غمی میں نوحہ وبین وگریبان چاک کرنا وغیرہ غیر شرعی اُمور سے ہمیں روکا گیا ہے۔
سو فی صد متفق۔ جس طریقے سے اس موقع کو منانے کا رواج عام ہوچکا ہے وہ سب ہمارے مذہب کے منافی ہے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب فرمان ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 179 )
یعنی فضول اسراف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جزاک اللہ خیر۔