راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح اور مکمل شریعت نازل کی جس میں کسی قسم کا کوئی شک و
شبہ نہیں !
امابعد !
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح اور مکمل شریعت نازل کی جس میں کسی قسم کا کوئی شک و
شبہ نہیں !
امابعد !
قارئین ! دین اسلام، الله کے رسول ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوا اور اس بات کا واضح اعلان بھی الله تعالیٰ نے کر دیا -
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے (المائدہ -3)
قارئین ! اس مکمل دین کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے(صحیح بخاری )
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔(صحیح مسلم )
الله کے رسول ﷺ نے تو تمام حق کی باتیں آگے پہنچا کر رسالت کا حق ادا کر دیا تھا اور میرا اس پر ایمان کامل ہے اور ہر ایمان لانے والے کا لازمی ہونا چاہیے -
اسی چیز کو الله نے بیان کر دیا بڑے واضح الفاظ میں - ملاحضہ کیجیے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
اے رسول! (لوگوں کو) پہنچا دو جو نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ آپ کو محفوظ رکھے گا لوگوں کے شر سے بیشک اللہ نہیں ہدایت دیتا کافر قوم کو ۔
(المائدہ -67)
آیت (المائدہ -67) میں تنبیہہ کی گئی کہ وحئ الٰہی میں سے کوئی چیز کسی وجہ سے پہنچنے سے رہ نہ جائے۔ لوگوں کے خوف سے یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے بالفرض اگر ایسا ہوا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی کا ثبوت دیں گے۔
رسالت کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ کفار کی ایذا
رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑو ے کسیلےجواب سننے کے باوجودآپ نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی کے آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں
صحابہ کرام (رض) کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ نے بآواز بلند فرمایا ' یا اللہ گواہ رہنا '۔ نیز آپ نے صحابہ کرام (رض) کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
قارئین ! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ الله کے رسول ﷺ نے تمام احکامات آگے پہنچا دیے ، پوری ایمانداری کے ساتھ اور سب ایمان لانے والے یہی گواہی دیتے ہیں ۔
سیدنا (رض) بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ نے فرمایا۔ 'تم سے میرے بارے میں
سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟' صحابہ نے عرض کیا 'ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ)
ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔' آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا 'اے اللہ ! گواہ رہنا۔' (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی )
قارئین ! اب جو لوگ جشن میلاد کی بدعت پر عمل کرتے ہیں ان سے ہمارے کچھ سوالات ہیں ، ان کے جوابات دیجیے صرف قرآن اور احادیث نبوی کی روشنی میں۔
سوال١ :::: جشن عید میلاد النبیﷺ کیا ہے؟؟؟
سوال٢ :::: کیا یہ ٢٣ سالہ دور نبوت میں تھی ؟؟؟
سوال٣ :::: اس کی نماز کیوں نہیں ہے ؟؟؟
سوال٤ :::: اس کا خطبہ کیوں نہیں ہے؟؟؟
سوال٥ :::: الله کے رسول ﷺ نے اس کے احکام کیوں نہیں بتائے ؟؟؟
الله کے رسول ﷺ نے فرمایا :
وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد)
اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۭ
آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا ہے اور تم پر اتمام فرمادیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے میں نے پسند کرلیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے (المائدہ -3)
قارئین ! اس مکمل دین کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے(صحیح بخاری )
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ
جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ ناقابل قبول ہے۔(صحیح مسلم )
الله کے رسول ﷺ نے تو تمام حق کی باتیں آگے پہنچا کر رسالت کا حق ادا کر دیا تھا اور میرا اس پر ایمان کامل ہے اور ہر ایمان لانے والے کا لازمی ہونا چاہیے -
اسی چیز کو الله نے بیان کر دیا بڑے واضح الفاظ میں - ملاحضہ کیجیے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
اے رسول! (لوگوں کو) پہنچا دو جو نازل کیا گیا ہے آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اور اگر (بالفرض) آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ آپ کو محفوظ رکھے گا لوگوں کے شر سے بیشک اللہ نہیں ہدایت دیتا کافر قوم کو ۔
(المائدہ -67)
آیت (المائدہ -67) میں تنبیہہ کی گئی کہ وحئ الٰہی میں سے کوئی چیز کسی وجہ سے پہنچنے سے رہ نہ جائے۔ لوگوں کے خوف سے یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے بالفرض اگر ایسا ہوا تو گویا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی کا ثبوت دیں گے۔
رسالت کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری تبلیغ رسالت ہے۔ کفار کی ایذا
رسانیوں کو سہہ سہہ کر اور پر مشقت سفر کر کرکے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں سے ملتے اور انکے کڑو ے کسیلےجواب سننے کے باوجودآپ نے پوری ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ پھر زندگی کے آخری دور میں تین مختلف اوقات میں ہزاروں
صحابہ کرام (رض) کے مجمع میں ان سے گواہی لی۔ کہ آیا میں نے تبلیغ رسالت کا پیغام تمہیں پہنچا دیا ؟ پھر جب انھوں نے اثبات میں جواب دیاتو آپ نے بآواز بلند فرمایا ' یا اللہ گواہ رہنا '۔ نیز آپ نے صحابہ کرام (رض) کو تاکیداً فرمایا کہ وہ ان لوگوں کو رسالت کا پیغام پہنچا دیں جن تک یہ پیغام نہیں پہنچا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
قارئین ! میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ الله کے رسول ﷺ نے تمام احکامات آگے پہنچا دیے ، پوری ایمانداری کے ساتھ اور سب ایمان لانے والے یہی گواہی دیتے ہیں ۔
سیدنا (رض) بن عبداللہ کہتے ہیں کہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) خطبہ دینے کے بعد آپ نے فرمایا۔ 'تم سے میرے بارے میں
سوال کیا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟' صحابہ نے عرض کیا 'ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور (حق تبلیغ)
ادا کردیا اور خوب نصیحت و خیر خواہی کی۔' آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا 'اے اللہ ! گواہ رہنا۔' (مسلم کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی )
قارئین ! اب جو لوگ جشن میلاد کی بدعت پر عمل کرتے ہیں ان سے ہمارے کچھ سوالات ہیں ، ان کے جوابات دیجیے صرف قرآن اور احادیث نبوی کی روشنی میں۔
سوال١ :::: جشن عید میلاد النبیﷺ کیا ہے؟؟؟
سوال٢ :::: کیا یہ ٢٣ سالہ دور نبوت میں تھی ؟؟؟
سوال٣ :::: اس کی نماز کیوں نہیں ہے ؟؟؟
سوال٤ :::: اس کا خطبہ کیوں نہیں ہے؟؟؟
سوال٥ :::: الله کے رسول ﷺ نے اس کے احکام کیوں نہیں بتائے ؟؟؟
الله کے رسول ﷺ نے فرمایا :
وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد)
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کی بدعات سے محفوظ رکھیں !اور ہمیں صراط مستقیم پر چلائیں اور ہمیشہ اسی پر قائم رکھیں !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین