مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
جشن عید میلاد نہ منانے والوں پربیجا اعتراض
مقبول احمد سلفی
بعض لوگ ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ لوگ عید میلاد نہیں مناتے تو دوسراگناہ کیوں کرتے ہیں؟ ، جب ہم جشن میلاد کی دعوت دیتے ہیں تو اس میں شریک ہونے سے کیوں بھاگتے ہیں جبکہ یہ تو خالص نبی ﷺ کی محبت میں قائم کی گئی محفل ہے اور آپ لوگ نہ جانے کون کون سا برا عمل کرتے ہیں اس سے کوئی خوف نہیں؟ ۔
یہ اعتراض بیجا قسم کا ہے ، اگر آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں تو ہمیں گناہوں کا طعنہ نہیں دیں، ہم انسان ہیں غلطی ہوسکتی ہےاس غلطی پہ ہمیں متنبہ کریں اور اسےمل جل کر ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ ایک سچے مسلمان کا یہی طریقہ ہے جیساکہ نبی ﷺ کے فرمان سے واضح ہے ۔ اگر ہم گناہ کو گناہ نہیں کہیں تو اعتراض کیا جاسکتا ہے مگر ہم میں اور آپ میں فرق یہ ہے کہ آپ کو بارہا میلاد منانے سے منع کیا جاتا ہے اور اس کام کوبدعت اور دین میں نئی ایجاد کہا جاتا ہے مگر آپ نہ مانتے ہیں اور نہ ہی اس بدعتی کام سے رکتے ہیں تو پھر ایک سچے مسلمان کو چاہئے کہ ایسی بدعت سے دور رہے اور اس میں کسی طرح معاون بننے سے بچا رہے ۔
عید میلاد النبی منانا شرعی اعتبار سے بدعت کے حکم میں ہے جس کے بڑے مفاسد ونقصانات ہیں بلکہ اس بدعت کے پیچھے بہت سے کفریہ و شرکیہ اعمال بھی انجام دئے جاتے ہیں اور بدعت ایجاد کرنے والا ضلالت و گمراہی کا مرتکب ہے اور بدعت جہنم میں لے جانے والی ہے ۔ اللہ نے ایسے شخص کو بڑےگمراہوں میں شمار کیا ہے، فرمان الہی ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَیرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (القصص:50)
ترجمہ: اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو اللہ تعالى کی (نازل کردہ شرعی) ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے ۔ یقینا اللہ تعالى ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : وَكلَّ محدثةٍ بدعةٌ وَكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ(صحيح النسائي: 1577)
ترجمہ: اور ہر نو ایجاد شدہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
تو جو عمل دین میں اپنے من سے گھڑ لیا جائے اور اسے دین کا نام دے کر عمل کیا جائے کتنی بڑی جسارت ہے ؟۔ دین تو نام ہے وحی الہی کا پھر خواہشات نفس پر چلنے کو دین کیسے کہا جائے گا ؟العیاذ باللہ
بدعتی کو قیامت میں حوض کوثر سے روک دیا جائے گا اور اس لئے ہم بدعت کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ بدعت اللہ اور اس کے رسول پرصریح بہتان والزام ہے ۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اللہ اور اس کے رسول کے فرمان میں ہے جبکہ یہ دین میں نئی ایجاد ہے جس کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
من أحدث في أمرِنا هذا ما ليس فيه فهو ردٌ(صحيح البخاري:2697)
ترجمہ: جس کسی نے ہمارے دین میں نئی چیز کی ایجاد کی جو دین سے نہیں ہے‘ تو وہ مردود ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بدعتی کا کوئی عمل مقبول نہیں اور کلمہ گو مسلمان ہونے کے باوجود کل قیامت میں اسے وہی نبی ﷺ جن کے نام سے بدعت کرتے تھے ، سڑکوں پر جلوس اور نعرے لگاتے تھے اور جش عید میلاد النبی کے نام پہ خوب گاتے پھرتے تھے ان بدعتیوں کو حوض کوثر سے روک دیں گے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنا فرَطُكم على الحوْضِ ، وليُرفَعنَّ رجالُ منكم ثمَّ ليختلِجن دوني ، فأقولُ : يا ربِّ أصحابي ؟ فيُقالُ : إنَّك لا تدري ما أحدثوا بعدك(صحيح البخاري:6576)
ترجمہ: میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹادیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔
ٹھیک ہے ہم گنہگار ہیں ، نبی آدم کی تمام اولاد گنہگار ہیں ، شدت کے ساتھ ہر گناہ کی مذمت کرتے ہیں اور اس سے بچنے کے لئے اللہ تعالی کی پناہ وتوفیق طلب کرتے ہیں۔یاد رکھیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے وہ بھول چوک کو معاف کردیتا ہے ۔ اسی طرح توبہ واستغفار سے گناہ کبیرہ کو بھی مٹا دیتاہے اور عموما اللہ تعالی نیکیوں کی وجہ سے بنی آدم کے گناہوں کوختم کر دیتا ہے ، فرمان الہی ہے : إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ (هود:114)
ترجمہ: بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : اتَّقِ اللَّهِ حيثُ ما كنتَ ، وأتبعِ السَّيِّئةَ الحسنةَ تمحُها ، وخالقِ النَّاسَ بخلقٍ حسنٍ(صحيح الترمذي: 1987)
ترجمہ: جہاں بھی رہو، اللہ سے ڈرو، اور گناہ کے بعد نیکی کرو ؛ یہ نیکی گناہ کو مٹا دے گی، اور لوگوں سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آؤ۔
تو یہ ہم اپنے گناہ کرنے کی دلیل نہیں پیش کررہے ہیں بلکہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی گناہوں کو توبہ واستغفار اور نیکیوں کی وجہ سے معاف کرنے والا ہے اور چاہے تو ویسے بھی بڑے سے بڑا گناہ معاف کردے مگر کوئی شرک پر مر جائے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی ۔ اللہ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدً(النساء: 116)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دےاور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
اوپر بدعتی کا حال معلوم ہی ہے کہ دنیا میں بھی اس کے لئے زجزوتوبیخ ہے ، اس کا عمل ضائع وبربا د ہے اور آخرت میں بھی دھتکارا جائے گا۔ اور جشن عید میلاد النبی ایسی بدعت میں جس میں کفر وشرک بھی پایا جاتا ہے ، فسق وفجور اور معصیت ونافرمانی اپنی جگہ ۔
اللہ تعالی سے ہم ہر گناہ سے معافی طلب کرتے ہیں اور ہر قسم کی برائی سے بچنے کی توفیق وسعادت مانگتے ہیں اور اگر بھول سے یا عمدا گناہ سرزد ہوجائے تو نیکیوں کا وسیلہ لگاکر اللہ سے عفو کے طلب گار ہوتے ہیں مگر دین کے نام پر بدعت ایجاد کرنا کسی طور ہمیں گوارہ نہیں ، نہ ہی ایسے شخص کو برادشت کریں گے جو من مانی اور گھڑی ہوئی باتوں کو دین الہی کا نام دے اور اس پر عمل کرے بلکہ شدت کے ساتھ اس کی مذمت کریں گے ۔ شرک وبدعت کے خلاف جنگ کی نوبت آئی تواس سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔