• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن یوم آزادی منانے کا شرعی حکم عرب علمائے کرام کے فتاوی کی روشنی میں

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
580
ری ایکشن اسکور
187
پوائنٹ
77
جشن یوم آزادی منانے کا شرعی حکم عرب علمائے کرام کے فتاوی کی روشنی میں

بسم الله الرحمٰن الرحیم

فقد روى أبو داود والنسائي بإسناد صحيح عن أنس رضي الله عنه قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما، فقال صلى الله عليه وسلم: "قد أبدلكم الله بهما خيرا منهما: يوم الأضحى ويوم الفطر" في هذا الحديث دلالة على أنه كان لأهل المدينة في جاهليتهم يومان معينان يلعبون فيهما، فهما عيدان جاهليان، وقد أبطلهما النبي صلى الله عليه وسلم بما شرع الله من عيد الفطر وعيد الأضحى، وبين صلى الله عليه وسلم أن الله أغناهم عن عيدي الجاهلية بعيدين في الإسلام وقد ترك الصحابة عيدي الجاهلية وأهملوهما واستغنوا بعيد الفطر والأضحى، ونسي ذانك العيدان، فلم يكن لهما ذكر في الإسلام، ومضى على ذلك التابعون وتابعو التابعين ومن تبعهم بإحسان، لا يعظمون من الأيام والشهور إلا ما عظمه الله، فلم يتخذوا يوما من الأيام عيدا إلا ما شرع الله لهم.

وقد حدث في العصور المتأخرة بعد القرون المفضلة أن تشبه بعض المسلمين بالكفار في أعيادهم، إما بتعظيم أعياد الكفار ومشاركتهم فيها أو بإحداث أعياد على نحو أعياد الكفار من النصارى وغيرهم، كعيد مولد الرسول صلى الله عليه وسلم.

ومن عوائد الكفار في هذه الأعصار وما قبلها أن يجعلوا لكل حدث يتعلق بالأمة مناسبة فيجعلون له يوما يتذكرون فيه هذا الحدث سواء أكان فرحا أم ترحا كما ابتدعت الرافضة يوم عاشوراء يوم حزن وجزع على مقتل الحسين.

ومن أعياد الكفار ما يرتبط ببعض المعاني، كعيد الحب وعيد الزهور وعيد رأس السنة، وقد عظمت في المسلمين فتنة التشبه بالكفار في هذا وغيره، وشاركوا الكفار في أعيادهم وأحدثوا لهم أعيادا على نحو عادة الكفار، وهي أعياد ولو سميت أياما، فالعيد ما يعود ويتكرر، وهذه الأيام كذلك ولو غالط المغالطون، فإنه ينطبق عليها حقيقة العيد، ومن هذه الأعياد التي فيها مضاهاة للكفار والمتشبهين بهم ما يسمى باليوم الوطني أو العيد الوطني. فالاحتفاء بهذا اليوم وتعظيمه وإظهار الفرح به وفيه، وتخصيصه بأعمال ولباس وتفريغ للناس من أعمالهم كذلك بجعله إجازة وفرض ذلك على الناس بما في ذلك المؤسسات والشركات الخاصة، ومعاقبة من لم يلتزم به. كل ذلك من التشبه الظاهر بالكفار، الذي دلت نصوص الشرع وأصوله ومقاصده على تحريمه، وهو إحداث عيد نحو أعياد الجاهلية قديمها وحديثها، وهو مع ذلك يتضمن المفاسد التي يرتكبها الناس في أيام فرحهم، ويتضمن تعطيل مصالح المسلمين وظلم الشركات والمؤسسات الخاصة بفرض ذلك عليهم، ولذلك أفتى العلماء في المملكة العربية السعودية -ممن ماتوا قبل أن تتغير الأحوال- أفتوا بتحريم هذه الأعياد الجاهلية السنوية، ومن ذلك ما جاء في فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ -رحمه الله- مفتي البلاد السعودية في رسالة له بعنوان ((العيد الوطني)) فإنه بعد ما ذكر ما يتميز به عيدا الفطر والأضحى قال: "وتعيين يوم ثالث من السنة للمسلمين فيه عدة محاذير شرعية، أحدها: المضاهاة بذلك للأعياد الشرعية. المحذور الثاني: أنه مشابهة للكفار من أهل الكتاب وغيرهم في إحداث أعياد لم تكن مشروعة أصلا، وتحريم ذلك معلوم بالبراهين والأدلة القاطعة من الكتاب والسنة ... المحذور الثالث: أن ذلك اليوم الذي عين للوطن الذي هو أول يوم من الميزان هو يوم المهرجان الذي هو عيد أهل الفرس المجوس، فيكون تعيين هذا اليوم وتعظيمه تشبها خاصا، وهو أبلغ في التحريم. المحذور الرابع: أن في ذلك من التعريج على السنة الشمسية وإيثارها على السنة القمرية التي أولها المحرم ما لا يخفى، ولو ساغ ذلك -وليس بسائغ ألبتة- لكان أول يوم من السنة القمرية أولى بذلك" أ. هـ (من مجموع فتاواه ورسائله ج3ص107).

وجاء في فتاوى اللجنة الدائمة (ج3 ص89) بتوقيع الشيخين عبدالعزيز ابن باز وعبدالرزاق عفيفي رحمهما الله: "أن الاحتفال بالعيد الوطني من التشبه بالكفار" أ. هـ

ولما تغيرت الأحوال نشأ في الأمة مفتون يعرفون بالتساهل وتسويغ ما لم يرد نص بتحريمه، ولا يرعون الأصول والمقاصد الشرعية، وقد تغيب عنهم، ويغفلون عن منهج السلف الصالح من هذه الأمة في قرونها المفضلة، ومن ذلك الفتوى بجواز اليوم الوطني بناء على مصالح فيه ـ زعموا ـ مع الإعراض عن وجوه تحريمه عند من حرمه، وعن المفاسد المترتبة على إقامته، ومع ذلك قد يعيب بعضهم على من خالفه من أكابر العلماء ممن سبقه.

ومنهم من يفتي بجواز اليوم الوطني بحسن نية واجتهاد، وهو مخطئ قطعا، فغفر الله له وأثابه وألهمه الصواب، ومنهم من يفتي بهوى طلبا لرضى الناس، ألهمه الله رشده وهداه، والله أعلم بالسرائر والظواهر، قال الله تعالى: "ثم جعلناك على شريعة من الأمر فاتبعها ولا تتبع أهواء الذين لا يعلمون".

نسأل الله أن يوفق ولاة أمورنا إلى الرجوع عن هذا المنكر، فإن ذلك من تحقيق تحكيم الشريعة، كما نسأله أن يصلح أحوال المسلمين ويولي عليهم من يقيم فيهم أمر الله ويحكم شرعه. وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين.

حرر في 25 شوال 1429

الموقعون

· الشيخ عبدالرحمن بن ناصر البراك

(الأستاذ بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية سابقا)

· الشيخ عبدالله بن محمد الغنيمان

(الأستاذ بالجامعة الإسلامية سابقا والمدرس بالمسجد النبوي)

· الشيخ محمد بن ناصر السحيباني

(الأستاذ بالجامعة الإسلامية سابقا)

· الشيخ علي بن سعيد الغامدي

(الأستاذ بجامعة الإمام سابقا)

· الشيخ عبدالله بن حمود التويجري

(رئيس قسم السنة بجامعة الإمام سابقا)

· الشيخ ناصر بن سليمان العمر

(الأستاذ بجامعة الإمام سابقا)

· الشيخ عبدالرحمن بن صالح المحمود

(الأستاذ بجامعة الإمام)

· الشيخ سعد بن عبدالله الحميد

(الأستاذ بجامعة الملك سعود)

· الشيخ عبدالله بن عبدالرحمن السعد

(المدرس بوزارة التربية والتعليم سابقا)

· الشيخ عبدالعزيز بن محمد آل عبد اللطيف

(الأستاذ بجامعة الإمام)


صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے سال میں اپنے لیے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ جشن منایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دو دنوں کو ان سے بہتر دنوں سے بدل دیا ہے۔ وہ دو دن یوم الاضحی اور یوم الفطر ہیں (ابودائود) یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل مدینہ نے جاہلیت کے دور میں خوشی منانے کے لئے دو دن مقرر کیے ہوئے تھے، گویا کہ یہ دن دور جاہلیت کی عیدیں تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی طرف سے نازل دردہ عیدوں کو جاری کرتے ہوئے ان تہواروں کو باطل قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا کہ اللہ نے انہیں اسلام کی عیدیں عطا کرتے ہوئے جاہلیت کی عیدوں سے مستغنی کر دیا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام نے جاہلیت کی ان عیدوں کو ترک کر دیا اور انہیں مکمل طور پر فراموش کر دیا یہاں تک کہ اسلام میں ان کا کوئی ذکر باقی نہ رہا۔ اسی طریقہ پر صحابہ کے بعد تابعین، تبع تابعین اور ان کی اتباع کرنے والے چلتے رہے۔ وہ کسی دن اور مہینے کی تعظیم نہیں کرتے تھے سوائے اس دن اور مہینے کے کہ جس کو اللہ نے عظیم قرار دیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے شریعت کی عیدوں سے ہٹ کر اپنے لیے کسی دن کو خوشی کا دن مقرر نہیں کیا۔

خیر القرون کے گزر جانے کے بعد بعض مسلمان کفار کی عیدوں میں ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے لگے۔ چنانچہ انہوں نے کفار کی عیدوں کی تعظیم اور ان کے ایام منانا شروع کر دیئے۔ یہاں تک کہ کفار کی مشابہت میں نئی عیدیں ایجاد کر لیں۔ اس کی ایک مثال عید میلاد النبی ہے جسے عیسائیوں کی پیروی میں بہت سے اسلامی ملکوں میں منایا جاتا ہے۔

موجودہ دور میں کفار کی شقافتوں میں سے ایک ثقافت ہے کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ پیش آنے والے ہر واقعہ کی نسبت سے ایک دن مقرر کرتے ہیں جس میں وہ اس واقعہ کی یاد مناتے ہیں۔ چاہے وہ واقعہ خوشی کا ہو یا غم کا، جیسے رافضہ نے یوم عاشورہ کو حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے غم و الم کا دن بنا لیا ہے۔

اسی طرح سے کفار جن عیدوں کو مناتے ہیں ان میں کچھ عیدیں وہ ہیں کہ جو نظریاتی ہیں۔ جیسے ویلنٹائن ڈے، نیوروز وغیرہ ۔ آج مسلمان ان عیدوں میں کفار کی مشابہت کرنے لگے ہیں۔ اور انہوں نے ان کی عیدوں میں ان کے ساتھ شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر انہوں نے کفار کے راستوں پر چہتے ہوئے اپنے لِے نئی عیدیں منانا شروع کر دی ہیں۔

وطن کا دن منانا در حقیقت عید منانا ہی ہے کیونکہ عید کہتے ہی اس دن کو ہیں کہ جو ہر سال لوٹ کر آتا ہے اور جسے بار بار منایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ دن در حقیقت عید ہے۔ اسے ہی تہواروں میں سے ایک وطن کا دن بھی ہے۔ پس اس دن کو منانا اس کی تعظیم کرنا، اس دن میں خوشی منانا اور اس دن کے ذریعے خوشی کا اظہار کرنا، اسی طرح اس دن چند مخصوص کام کرنا، نئے کپڑے پہننا اور اسی طرح اس دن لوگوں کا اپنے کاموں سے فارغ رہتے ہوئے تعطیل کرنا اور پھر (حکومت کا) اس تعطیل کو اداروں اور کمپنیوں کے لیے ضروری قرار دینا اور جو بھی ادارہ اس دن تعطیل نہ کرے اس سے باز پرس کرنا یہ سب کھلم کھلا کفار کی مشابہت ہے۔ جس کے حرام ہونے پر شریعت کی نصوص اور اس کے اصول و مقاصد دلالت کرتے ہیں۔ یہ جاہلیت کی قدیم و جدید عیدوں کی طرح نئی عید کا اختراع کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں کئی اور مفاسد بھی پائے جاتے ہیں۔ ان دنوں کو منانے سے مسلمانوں کو بہت خسارہ اٹھانا پڑھتا ہے جو ظلم ہے۔

چنانچہ سعودی عرب کے علماء نے پہلے ہی سے ان جاہلی عیدوں کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ ان علماء کرام میں شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ سابق مفتی سعودی عرب بھی شامل ہیں۔ ان کے مطبوعہ فتاویٰ دید الوطنی کے نام سے ایک رسالہ موجود ہے جس میں انہوں نے عید الفطر اور عید الضحیٰ کی خصوصیات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے :

ان دو شرعی عیدوں کے علاوہ مسلمانوں کے لئے سال میں کسی تیسرے دن کو متعین کرنے میں بہت سے شرعی مخالفتیں پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں :

ایسا کرنے میں شرعی عیدوں کی مخالفت اور ان سے برابری کرنا پایا جاتا ہے۔

ان غیر مشروع عیدوں کو منانے میں اہل کتاب اور ان کے علاوہ دیگر کفار کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے جس کا حرام ہونا کتاب و سنت سے قطعی دلائل و براہین کی روشنی میں معلوم ہے۔

وطن کے لیے دن مقرر کرنا فارس (موجودہ ایران) کے ان مجوسیوں کے ساتھ مشابہت ہے کہ جنہوں نے اپنے لئِے نوروز کا دن مقرر کر رکھا ہے۔

پس اس دن کو متعین کرنا، اسے منانا اور اسکی تعظیم کرنا مجوسیوں کے ساتھ خاص مشابہت ہے جو کہ اس کے حرام ہونے پر زیادہ واضح دلیل ہے۔ (فتاویٰ محمد بن ابراہیم ج ۳ ص ۱۰۷)

اسی طرح سعودی عرب کے دار الافتاء لجنۃ الدائمۃ کے فتاویٰ میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز اور شیخ عبد الرزاق العفیفی کا فتویٰ موجود ہے کہ : وطن کا دن منانا کفار کی مشابہت سے ہے۔ (فتاویٰ لجنۃ الدائمۃ ج ۳، ص : ۸۹)

آخر میں ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو اس برائی سے رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے حالات کی اصلاح کرنے کی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہم پر ایسے لوگوں کو مقرر فرمائے کہ جو اللہ کے حکم کو نافذ کرنے والے اور اس کی شریعت کو قائم کرنے والے ہوں۔

(۲۵ شوال ۱۴۲۹ ہجری کو یہ فتاویٰ لکھا جا رہا ہے)

اس فتویٰ کو صادر کرنے والے علماء کرام درج ذیل ہیں :

الشیخ عبدالرحمٰن بن ناصر البراک

(سابق استاد امام محمد بن سعود اسلامیة)

الشیخ عبد اللہ بن حمود التو یجری

( سابق رئیس قسم السنہ جامعہ امام )

الشیخ عبدالرحمن بن صالح الحمود

(استاد جامعہ امام )

الشیخ ناصر بن سلیمان العمر

(سابق استاد جامعہ امام)

الشیخ عبدالعزیز بن محمد آل عبدالطیف

(استاد جامعہ امام)

الشیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان

(سابق استاد جامعہ اسلامیة،مدرس مسجد نبوی)

الشیخ محمد بن ناصر السحیبانی

(سابق استاد جامعہ اسلامیة)

الشیخ علی بن سعید الغامدی

(سابق استاد جامعہ امام)

الشیخ سعد بن عبداللہ الحمید

(استاد جامعہ امام محمد بن سعود اسلامیہ)

الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن السعد

(سابق مدرس وزارة تربیہ و تعلیم )
 

ایوب

رکن
شمولیت
مارچ 25، 2017
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
-3
پوائنٹ
62
ماشآء اللّٰه ان فتویٰ بازوں کو ایسی چیزوں میں بھی کفار سے مشابہت نظر آتی جس کا دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے نہ ہی کفار کے مذاہب سے کوئی تعلق ہے۔ اب ان کو عید سے مشابہت نظر آگئی۔ ایسے فتویٰ بازوں کی وجہ سے لوگ دین سے متنفر ہو رہے ہیں۔
 
Top