• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جعفر بن ابی المغیرہ (جعفر بن دینار) کی سعید بن جبیر سے روایات

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
54
جعفر بن أبي المغيرة کی سعید بن جبیر سے روایت :
امام ابن مندہ نے کہا:
ليس بقوي في سعيد بن جبير
یعنی یہ جعفر جو ہیں. یہ امام سعید سے روایت کرنے میں قوی نہیں ہیں.
بعض متأخر علماء نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ ابن مندہ کی جانب سے سختی یا تشدد ہے یا ابن مندہ اس موقف میں منفرد ہیں اسی لیے ان کا یہ منفرد موقف قابل قبول نہیں. کیونکہ راوی کو صرف ایک غلطی کی بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا۔
میں بھی اس بات کو متأخر علماء کی طرح ہی سمجھتا رہا یہاں تک کہ ایک دن میری امام ابو زرعة کے ایک بیان پر نظر پڑی، اور پھر جعفر عن سعید کے طریق پر کئ منکر روایات دیکھنے کو ملیں. جس سے ابن مندہ کے موقف کی تائید ھوتی ھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن مندہ کا نقطه نظر بھی قابل غور ہے اور اس کی تائید میں دلائل موجود ہیں۔
ملاحظه ھو:
امام ابن ابی حاتم رحمه الله کہتے ہیں
وسألتُ أبِي وأبا زُرعة عَن حدِيثٍ
رواهُ يعقُوبُ الأشعرِيُّ ، عن جعفرٍ ، عن سعِيدِ بنِ جُبيرٍ ، عنِ ابنِ عبّاسٍ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم : أنّهُ كان إِذا صلّى المغرِب صلّى ركعتينِ ، يُطِيلُهُما حتّى تصدّع أهلُ المسجِدِ.
قال أبِي : حُكِي عن يعقُوب الأشعرِيِّ ، أنّهُ قال : هذِهِ الأحادِيثُ
الّتِي أُحدِّثُكُم بِها عن جعفرٍ ، عن سعِيدٍ ، كُلُّها عنِ ابنِ عبّاسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، فإِن كان هذا الّذِي حُكِي حقًّا فهُو صحِيحٌ ، وإِن لم يكن حقًّا فهُو عن سعِيدٍ قولُهُ.
وقال أبُو زُرعة : هذا عندِي عن سعِيدٍ قولُهُ ، لأنّهُ مُحالٌ أن تكُون
هذِهِ الأحادِيثُ كُلُّها عنِ ابنِ عبّاسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، قرِيبٌ مِن أربعِين حديثًا أو أكثرُ “
یعنی
میں نے اپنے والد ابو حاتم اور ابو زرعه رحمہما الله سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا جو یعقوب اشعری نے جعفر سے، جعفر نے سعید بن جبیر سے، اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی صلی الله علیه وسلم جب مغرب کی نماز پڑھتے تو اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور ان میں لمبی قراءت فرماتے، یہاں تک کہ مسجد میں موجود لوگ (نماز سے فارغ ہو کر) منتشر ہو جاتے تھے۔
تو میرے والد نے کہا: یعقوب اشعری سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: "یہ احادیث جو میں تمہیں جعفر سے بیان کرتا ہوں، جو سعید سے روایت کرتے ہیں، وہ سب ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطے سے نبی صلی الله علیه وسلم تک پہنچتی ہیں۔ اگر یہ صحیح ہیں تو یہ درست ہے، اور اگر یہ صحیح نہیں ہیں تو یہ سعید کے اپنے اقوال ہے۔"
ابو زرعہ رحمه الله نے کہا: "میرے نزدیک یہ احادیث سعید کا اپنا قول ہیں، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ یہ تمام احادیث (تقریباً چالیس یا اس سے زیادہ) ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطے سے نبی صلی الله علیه وسلم تک پہنچی ہوں۔"
[العلل لابن أبي حاتم جزء1/صفحة83]
.
ان دونوں ائمه علل کا فیصله/موقف ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام احادیث جو جعفر نے سعید بن جبیر سے، سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اور ابن عباس نے نبی صلی الله علیه وسلم سے روایت کی ہیں، سب کی سب محفوظ اور صحیح ہوں۔ بلکہ امام ابو زرعه کا خیال ہے کہ یہ احادیث سعید بن جبیر سے ہی منسوب ہیں، اور ممکن ہے کہ یہ مرسل یا مقطوع ہوں۔ یعنی یہ احادیث سعید بن جبیر کے اپنے اقوال ہوں..............
یا
سعيد بن جبير نے انہیں براہ راست ابن عباس ، عن النبی صلی الله علیه وسلم سے روایت ہی نہ کیا ہو۔
.
پہلی مثال:
امام ابن أبي الدنیا نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الوهاب ( كذا في الأصل وصوابه محمد بن عبد الواهب ) حدثنا يعقوب القمي عن جعفر بن أبي المغيرة عن سعيد بن جبير عن بن عباس قال :
”عاد رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا من الأنصار فلما دنا من منزله سمعه يتكلم في الداخل فلما دخل عليه لم ير أحدا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعتك تكلم غيرك قال يا رسول الله لقد دخلت الداخل اغتماما بكلام الناس مما بي من الحمى فدخل علي رجل ما رأيت رجلا قط بعدك أكرم مجلسا ولا أحسن حديثا منه قال ذاك جبريل وإن منكم رجالا لو أحدكم أقسم على الله عز وجل لأبره .
ترجمه
رسول الله صلی الله علیه وسلم انصار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ ان کے گھر کے قریب پہنچے تو آپ نے اندر سے کسی سے بات کرنے کی آواز سنی۔ جب آپ اندر داخل ہوئے تو کوئی اور نظر نہیں آیا۔ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: "میں نے تمہیں کسی اور سے بات کرتے سنا۔" اس شخص نے کہا: "یا رسول الله، میں بہت پریشان تھا اور بخار کی وجہ سے لوگوں کی باتوں سے تنگ تھا۔
اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا، میں نے آپ کے بعد کبھی کسی کو اتنا معزز اور اچھی بات کرنے والا نہیں دیکھا۔
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: "وہ جبرائیل تھے، اور تم میں ایسے لوگ ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی الله عز وجل کی قسم کھائیں تو وہ اسے پورا کرے گا۔"
[التواضع والخمول لابن أبي الدنيا، ورواه أيضاً الضياء المقدسي في المختارة : 4/468]، ورواه الطبراني في الأوسط 2717 وقال :” لا يروى هذا الحديث عن بن عباس إلا بهذا الإسناد ولم يروه إلا محمد بن عبد الواهب
----------
ومحمد بن عبد الواهب شيخٌ لابن أبي الدنيا والبغوي ، وموسى بن هارون كما في المعجم لابن المقريء (330) وسهل بن علي الدوري كما في المعجم لابن الأعرابي (1637) وعبد الله بن أحمد بن حنبل كما في المعجم الكبير للطبراني (10976) وعبد الله لا يروي إلا عن ثقة
یعنی
انہی محمد بن عبد الواھب سے امام عبد الله بن حنبل بھی روایت کرتے ہیں. اور یہ صرف ثقة سے ھی روایت کرتے تھے. امام ضیاء المقدسی نے بھی ان سے روایت لی ہے. تو یہ ثقة ہیں.
-----------
تبصرہ: اس اثر کی سند جعفر تک صحیح ہے، لیکن جعفر کے بارے میں کلام وہی ہے جو اوپر بیان کیا جا چکا ھے۔ میں نے جعفر کے لیے کوئی متابع (یعنی کوئی دوسرا راوی جو اسی اثر کو اسی سند کے ساتھ روایت کرتا ھو) نہیں پایا۔ اور طبرانی کا یہ بیان پہلے گزر چکا ہے کہ اس اثر کے لیے کوئی متابع موجود نہیں ہے۔ اور اس خبر میں منکر بات یہ ھے کہ جبرائیل غیر نبی کے پاس بھی آرھے ہیں.
__________________________________________________
دوسری مثال:
امام الترمذی نے کہا:
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا يعقوب بن عبد الله الاشعري، عن جعفر بن ابي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: جاء عمر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هلكت، قال: " وما اهلكك؟ " قال: حولت رحلي الليلة، قال: فلم يرد عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، قال: فانزل الله على رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية: نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم سورة البقرة آية 223 اقبل وادبر واتق الدبر والحيضة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ويعقوب بن عبد الله الاشعري هو يعقوب القمي.
ترجمه
عبدالله بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنه رسول الله صلی الله علیه وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: الله کے رسول! میں تو ہلاک ہو گیا، آپ نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا؟“ کہا: رات میں نے سواری تبدیل کر دی (یعنی میں نے بیوی سے آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے صحبت کر لی) ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول الله صلی الله علیه وسلم نے (یہ سن کر) انہیں کوئی جواب نہ دیا، تو آپ پر یہ آیت: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» نازل ہوئی، بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرو، مگر دبر سے اور حیض سے بچو
[السنن الترمذي: 2980]
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب کہا. اور امام ابن حبان نے اس کی تصحیح کی.
لیکن امام البزار نے کہا:
وهذا الحديث لاَ نعلمُهُ يُرْوَى عَن ابنِ عباس إلاَّ مِن هذا الوجه بهذا الإسناد”
یعنی یہ حدیث صرف اسی سند سے ھے. اس سند کے علاوہ میں اس قصے کو کسی بھی دوسری سند سے نہیں جانتا.
--------
نوٹ: شیخ البانی رحمه الله باوجود متساھل ہونے کے، انہوں نے اس روایت کی تضعیف کی ہے. لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمه الله نے کہا:
إسناده حسن
وجعفر بن أبي المغيرة عن سعيد بن جبير: حسن الحديث ولا عبرة لقول ابن مندة فيه نقله مغلطائي عنه
یعنی:
جعفر بن ابی المغیرہ، جو سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں، وہ حسن الحدیث ہیں، مغلطائ نے جو ابن مندہ سے نقل کیا ہے جعفر کے بارے میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جانی چاہیے،
مشكوة المصابيح (1183)
.
یہ غالبا شیخ محترم کی خطاء ھے. والله اعلم
تبصرہ:
اس حدیث کے جعلی ھونے کا ثبوت:
امام البخاری نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَانَتْ الْيَهُودُ، تَقُولُ: إِذَا جَامَعَهَا مِنْ وَرَائِهَا جَاءَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، فَنَزَلَتْ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223".
ترجمه
جابر رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ یہودی کہتے تھے کہ اگر عورت سے ہمبستری کے لیے کوئی پیچھے سے آئے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم‏» کہ ”تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنے کھیت میں آؤ جدھر سے چاہو۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4528]
.
صحیح مسلم میں اسی حدیث پر امام النووی نے باب باندھا:
باب جَوَازِ جِمَاعِهِ امْرَأَتَهُ فِي قُبُلِهَا مِنْ قُدَّامِهَا وَمِنْ وَرَائِهَا مِنْ غَيْرِ تَعَرُّضٍ لِلدُّبُرِ:
اس بات کی اجازت کا بیان کہ اپنی بیوی سے اندام نہائی میں جماع کرنے کے لئے آگے سے آئے یا پیچھے سے آئے، لیکن دبر (مقعد) کو نہ چھیڑے.
.
امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں بھی یہی شان نزول بیان کیا:
أخبرنا يونس بن عبد الأعلى قراءة ،انبا ابن وهب ، اخبرني مالك بن انس ، وابن جريج وسفيان بن سعيد الثوري ، أن محمد بن المنكدر حدثهم عن جابر بن عبد الله ، أخبره أن اليهود قالوا للمسلمين : من أتى امرأة وهي مدبرة ، جاءولده أحول ، فأنزل الله تعالى : نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم أنى شئتم
قال ابن جريج في الحديث : فقال رسول الله ( صلى الله عليه وسلم ) : مقبلة ومدبرة إذا كان ذلك في الفرج
[تفسیر ابن أبي حاتم 2133]
یعنی عمر رضی الله عنه والا واقعه جعفر بن ابی المغیرہ نے کہیں اور سے اخذ کیا ھے . اس واقعے کی کوئ اصل نہیں. جبکہ اس آیت کا صحیح شان نزول اوپر دکھایا جا چکا ہے
__________________________________________________
تیسری مثال:
امام أبو داؤد نے کہا:
حدثنا حسين بن عبد الرحمن الجرجرائي، حدثنا طلق بن غنام، حدثنا يعقوب بن عبد الله، عن جعفر بن ابي المغيرة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يطيل القراءة في الركعتين بعد المغرب حتى يتفرق اهل المسجد".
قال ابو داود: رواه نصر المجدر، عن يعقوب القمي واسنده مثله. قال ابو داود: حدثناه محمد بن عيسى بن الطباع، حدثنا نصر المجدر، عن يعقوب مثله.
ترجمه
عبدالله بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم مغرب کے بعد کی دونوں رکعتوں میں لمبی قرآت فرماتے یہاں تک کہ مسجد کے لوگ متفرق ہو جاتے (یعنی سنتیں پڑھ پڑھ کر چلے جاتے)۔
ابوداؤد کہتے ہیں: نصر مجدر نے یعقوب قمی سے اسی کے مثل روایت کی ہے اور اسے مسند قرار دیا ہے۔
ابوداؤد کہتے ہیں: ہم سے اسے محمد بن عیسی بن طباع نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سے نصر مجدر نے بیان کیا ہے وہ یعقوب سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں.
[السنن أبي داود 1301]
.
یہ عجیب و غریب روایت ھے. جو صحیح بخاری کی روایت کے بھی خلاف ہے. کہ آپ گھر میں نوافل پڑھتے تھے مغرب کے بعد.
امام البخاری نے کہا:
حدثنا سليمان بن حرب , قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما , قال:" حفظت من النبي صلى الله عليه وسلم عشر ركعات ركعتين قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب في بيته وركعتين بعد العشاء في بيته وركعتين قبل صلاة الصبح، وكانت ساعة لا يدخل على النبي صلى الله عليه وسلم فيها.
ترجمه
عبدالله بن عمر رضی الله عنہما نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی الله علیه وسلم سے دس رکعت سنتیں یاد ہیں۔ دو رکعت سنت ظہر سے پہلے، دو رکعت سنت ظہر کے بعد، دو رکعت سنت مغرب کے بعد اپنے گھر میں، دو رکعت سنت عشاء کے بعد اپنے گھر میں اور دو رکعت سنت صبح کی نماز سے پہلے اور یہ وہ وقت ہوتا تھا جب آپ صلی الله علیه وسلم کے پاس کوئی نہیں جاتا تھا.
[صحيح البخاري :1180]
__________________________________________________
چوتھی مثال:
امام الطبراني نے کہا:
حدثنا عبدان بن أحمد ثنا عمر بن العباس الرازي ثنا عبد الرحمن بن مهدي ثنا يعقوب القمي عن جعفر بن أبي المغيرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما :” قال : لما افتتح النبي صلى الله عليه و سلم مكة رن إبليس رنة اجتمعت إليه جنوده فقال : أيئسوا أن نريد أمة محمد على الشرك بعد يومكم هذا ولكن أفتنوهم في دينهم وافشوا فيهم النوح “
ترجمه
ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کی کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو شیطان نے ایک چیخ ماری، اس کے بعد اس کے ساتھی اس کے پاس جمع ہوئے۔ شیطان نے کہا: "اب تم مایوس ہو جاؤ کہ تم محمد صلی الله علیه وسلم کی امت کو شرک پر واپس لے جا سکو گے، لیکن ان کے دین میں فتنہ ڈالو اور ان میں نوحہ (رونے پیٹنے) کو پھیلا دو۔"
[ المعجم الكبير للطبراني: 12318]
_______________________________________________
پانچویں مثال:
حدثنا أحمد بن يحيى بن خالد بن حيان قال حدثنا عمرو بن خالد قال حدثنا موسى بن أعين عن مطرف بن طريف عن جعفر بن أبي المغيرة عن سعيد بن جبير عن ابن عباس الله :
” يتوفى الأنفس حين موتها قال تلتقي أرواح الأحياء والأموات في المنام فيتساءلون بينهم فيمسك الله أرواح الموتى ويرسل أرواح الأحياء إلى أجسادها.
ترجمه :
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللهُ تعالیٰ فرماتا ہے: "وہی ارواح کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے۔" ابن عباس رضی الله عنہما نے بیان کیا کہ زندہ اور مردہ لوگوں کی روحیں خواب میں ملتی ہیں اور ایک دوسرے سے بات چیت کرتی ہیں۔ پھر الله تعالیٰ مردہ لوگوں کی روحوں کو روک لیتا ہے اور زندہ لوگوں کی روحوں کو ان کے جسم میں واپس بھیج دیتا ہے۔
[المعجم الأوسط للطبراني: 122]
__________________________________________________
چھٹی مثال:
امام النسائی نے کہا:
١١١٧١ - أخبرنا حفص بن عمر، حدثنا محمد بن سعيد بن سابق، عن يعقوب، وأخبرنا إبراهيم بن يعقوب، حدثنا عثمان بن زفر، حدثنا يعقوب، عن جعفر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم سئل وقال إبراهيم: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أولياء الله؟ قال: «الذين إذا رءوا ذكر الله.
ترجمه:
رسول الله صلی الله علیه وسلم سے پوچھا گیا: الله کے اولیاء کون ہیں؟ آپ صلی الله علین وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ جنہیں دیکھ کر اللهُ یاد آئے۔‘‘
[السنن الکبری للنسائی: 10721] اسنادہ صحیح الی جعفر

لیکن امام ابن ابی الدنیا نے جب اس کو روایت کیا تو مرسل بیان کیا:
نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ ، نا يَعْقُوبُ الْقُمِّيُّ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَنْ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ ؟ , قَالَ : " الَّذِينَ إِذَا رُءُوا ذُكِرَ اللَّهُ "
[السنن النسائ الكبري: 11171]، اسنادہ صحیح الی جعفر
.
اسی روایت کو سعید سے جب سھل ابو الاسد نے روایت کیا تو بھی مرسل بیان کیا:
امام الدولابي نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْجَوَّازُ قَالَ : ثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مِسْعَرِ بْنِ كِدَامٍ ، عَنْ سَهْلٍ أَبِي الأَسَدِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ : قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ ؟ قَالَ : " الَّذِينَ إِذَا رُءُوا ذُكِرَ اللَّهُ
[الأسماء والکنی للدولابي: 716] اسنادہ حسن الی جعفر
.
امام ابن مبارک نے بھی أبو الاسد کے طریق سے مرسل بیان کیا:
أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، وَمِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ ، عَنْ أَبِي أَسَدٍ ، وَقَالَ ابْنُ حَيْوَةَ : عَنْ أَبِي أَنَسٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ : سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ ؟ قَالَ : الَّذِينَ إِذَا رُءُوا ذُكِرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ "
ترجمه
رسول الله صلی الله علیه وسلم سے پوچھا گیا: الله کے اولیاء کون ہیں؟ آپ صلی الله علین وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ جنہیں دیکھ کر اللهُ یاد آئے۔‘‘
[الزهد لابن مبارك: 216]
__________________________________________________
ساتویں مثال
امام ضياء المقدسی نے کہا:
وَأَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ ، أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ الْحَدَّادَ أَخْبَرَهُمْ ، وَهُوَ حَاضِرٌ ، أبنا أَبُو نُعَيْمٍ أَحْمَدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أبنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ فَارِسٍ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَامِرٍ ، ثنا أَبِي ، عَنْ يَعْقُوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَدْ أَظَلَّتْنَا سَحَابَةٌ وَنَحْنُ نَطْمَعُ فِيهَا ، فَقَالَ : إِنَّ الْمَلَكَ الَّذِي يَسُوقُ السَّحَابَ دَخَلَ عَلَيَّ آنِفًا ، فَسَلَّمَ عَلَيَّ ، وَذَكَرَ أَنَّهُ يَسُوقُهَا إِلَى وَادٍ بِالْيَمَنِ ، يُقَالُ لَهُ : ضَرْعُ السَّمَاءِ ، فَجَاءَ رَاكِبٌ بَعْدَ ذَلِكَ فَسَأَلْنَاهُ عَنِ السَّحَابَةِ ، فَقَالَ : إِنَّهُمْ مُطِرُوا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ.
ترجمه
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ ہم پر ایک بادل چھایا ہوا تھا اور ہم اس سے بارش کی امید کر رہے تھے۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: ’’وہ فرشتہ جو بادل کو ہانک رہا ہے، وہ ابھی میرے پاس آیا، اس نے مجھے سلام کیا اور بتایا کہ وہ اس بادل کو یمن کے ایک وادی کی طرف لے جا رہا ہے جسے ’ضرع السماء‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک سوار آیا، تو ہم نے اس سے اس بادل کے بارے میں پوچھا، اس نے کہا: ’’اس دن وہاں بارش ہوئی تھی۔‘‘
[الاحاديث المختارة:3488]
تبصرہ:
اس معجزے کو ابن عباس رضی الله عنه کے کسی اور شاگرد نے بیان نہیں کیا . سعید بن جبیر سے بھی جعفر کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کیا. والله اعلم
امام البزار نے کہا:
حَدَّثنا أسيد بن عاصم ، قال : حَدَّثنا عامر بن إبراهيم ، قال : حَدَّثنا يعقوب القمي عن جعفر بن أبي المغيرة عن سَعِيد بن جُبَير ، عَن ابنِ عباس ، رَضِي الله عنهما ، قال : خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وقد أظلتنا سحابة ونحن نطمع فيها فقال : إن الملك الذي يسوقها ، أو يسوق هذه السحابة دخل علي فسلم علي فأخبرني أنه يسوقها إلى وادي كذا.
ترجمه
ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جب کہ ہم پر ایک بادل چھا گیا تھا اور ہم اس سے بارش کی امید کر رہے تھے۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: "وہ فرشتہ جو اس بادل کو ہانک رہا ہے یا اس بادل کو لے کر جا رہا ہے، وہ میرے پاس آیا اور مجھے سلام کیا اور مجھے بتایا کہ وہ اسے فلاں وادی کی طرف لے جا رہا ہے۔"
[مسند البزار:4764]
__________________________________________________
ایک عجیب و غریب روایت:
امام احمد بن حنبل نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، عَنِ ابْنِ أَبْزَى ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ : قَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ حِينَ حُصِرَ : إِنَّ عِنْدِي نَجَائِبَ قَدْ أَعْدَدْتُهَا لَكَ ، فَهَلْ لَكَ أَنْ تَحَوَّلَ إِلَى مَكَّةَ ، فَيَأْتِيَكَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَكَ ؟ قَالَ : لَا ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " يُلْحَدُ بِمَكَّةَ كَبْشٌ مِنْ قُرَيْشٍ ، اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ ، عَلَيْهِ مِثْلُ نِصْفِ أَوْزَارِ النَّاسِ "
ترجمه:
ابن ابزی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان رضی الله عنہما کا محاصرہ شروع ہوا تو سیدنا عبدالله بن زبیر رضی الله عنه نے ان سے عرض کیا کہ میرے پاس بہترین قسم کے اونٹ ہیں جنہیں میں نے آپ کے لئے تیار کر دیا ہے، آپ ان پر سوار ہو کر مکه مکرمه تشریف لے چلیں، جو آپ کے پاس آنا چاہے گا، وہیں آ جائے گا؟ لیکن انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مکه مکرمه میں قریش کا ایک مینڈھا الحاد پھیلائے گا جس کا نام عبدالله ہو گا، اس پر لوگوں کے گناہوں کا آدھا بوجھ ہو گا۔ (میں وہ مینڈھا نہیں بننا چاہتا)۔
[مسند احمد/مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ/حدیث: 461]
.
یہ تحریر الشیخ عبد الله بن الفهد کی ہے.
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
54
ایک اور انوکھی روایت ملی ہے جعفر بن أبي المغيرة کی. جو بلکل ہی منفرد ھے بلکه ثقة رواہ کے خلاف ہے.
حدثنا أبو غسان قال نا عبد السلام بن حرب عن يزيد بن عبد الرحمن عن جعفر أظنه ابن أبي المغيرة عن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبزي عن أبيه قال شهدنا مع علي ثمان مائة ممن بايع بيعة الرضوان قتل منا ثلاثة وستون منهم عمار بن ياسر.

نوٹ:
کوئ کہہ سکتا ھے کہ اس میں یزید بن عبد الرحمن کو شک ہے. تو عرض ھے کہ یزید کو جعفر نام میں کوئ شک نہیں. البتہ یہ شک ھے کہ یہ جعفر بن ابی المغیرہ ہیں یا کوئی اور؟
تو عرض ھے کہ ابن ابزی سے یہی جعفر روایت کرتے ہیں. تو راوی کا گمان بلکل صحیح ھے کہ یہ جعفر بن المغیرہ ہی ہیں.
.
.
دوسری روایت:
امام الدارمی نے کہا:
٥١٧ - أخبرنا إسماعيل بن أبان، عن يعقوب القمي، عن جعفر بن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، قال: «كنت أكتب عند ابن عباس رضي الله عنهما، في صحيفة، وأكتب في نعلي»
[تعليق المحقق] رجاله ثقات غير أن ابن مندة قال: " جعفر بن أبي المغيرة ليس بالقوي في سعيد بن جبير

ایڈمن سے درخواست ھے کہ ام دونوں روایت کو بھی اسی تھریڈ میں شامل کرلیا جائے.
"جعفر بن ابی المغیرہ (جعفر بن دینار) کی سعید بن جبیر سے روایات"
لنک:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,587
ری ایکشن اسکور
6,767
پوائنٹ
1,207
ایڈمن سے درخواست ھے کہ ام دونوں روایت کو بھی اسی تھریڈ میں شامل کرلیا جائے.
السلام علیکم
محترم ناصرصاحب!
حسب خواہش کام سر انجام پہنچا۔۔
اور
وہاں پر صرف تحقیق حدیث کے متعلق سوالات کیے جا سکتے ہیں۔
 
Top