- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
دیکھیے ہمارا یہ قول کس قدر درست ثابت ہوا کہ: ''اِس ملک میں جتنے لوگ جماعتِ اسلامی میں سے دلچسپی لینے والے پائے جاتے ہیں، اُتنے لوگ خود جماعت اسلامی میں نہیں پائے جاتے''۔یوں،تقریباً پورا ملک ہی جماعت اسلامی کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر نظر آتا ہے۔
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی جب وجود میں آئی توفرد کی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ۔۔۔ اور کوچہ و بازار سے لے کر ایوانِ اقتدار تک۔۔۔ زندگی کے ہر گوشے میں اصلاح کرنے کے عزم کے ساتھ وجود میں آئی۔ مگرہوا یہ کہ فرد سے لے کر معاشرے تک اور عامۃ الناس سے لے کر اہلِ اقتدار تک، ہر شعبۂ حیات کے لوگ رَل مِل کر اُلٹے جماعت اسلامی ہی کی اصلاح کے درپے ہو گئے ۔ ہر دوسرے تیسرے دن اخبار میں کوئی خبر، کوئی بیان اورکوئی نہ کوئی کالم برائے اصلاحِ جماعتِ اسلامی ضرور چَھپا ملتا ہے۔ کوئی مضمون جماعت اسلامی کے لیے قیمتی مگر مفت مشوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کسی تجزیے میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہوتا ہے کہ:
'' کیا جماعت اسلامی کے نئے امیر جماعت اسلامی کو کامیابی کی راہ پر ڈال سکیں گے؟''
کوئی 'بریکنگ نیوز' دیتاہے کہ:'' جماعت اسلامی کی فکر میں تبدیلی آگئی ہے، اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے''۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی بچاری اس قدر 'سادہ لوح دیہاتی بڑھیا' ہے کہ اُس کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ بیٹھے بٹھائے اُس کی فکر میں تبدیلی آگئی ہے۔ ہم جیسی دوسری بُڑھیائیں اُس کو جاجاکر بتاتی ہیں کہ:' 'امّاں جی! تمھاری فکربدلگئی ہے، آؤ تمھارا خیر مقدم کریں''۔
کسی کے بتائے ہوئے نکتے نے ''جماعت اسلامی پاکستان کے ایک عوامی جماعت نہ بننے میں اہم کردار ادا کیا ہے''۔ مگر نکتہ داں نے یہ نہیں بتایا کہ اس 'غیر عوامی جماعت' کے کارکنان اور ارکان کن 'خواص' سے تشکیل پاتے ہیں اور کس'اشرافیہ' سے اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ البتہ یہ بتاتے ہیں کہ:''جماعت اسلامی پاکستان نے تنگ نظر کمیونسٹ پارٹی کے ہی ڈھانچے کو اپنے ماڈل کے طور پر اپنا لیا ہے''۔ سبحان اﷲ و بحمدہٖ!
اس کے برعکس ایک 'سابق لیفٹسٹ' (یعنی سابق 'تنگ نظر کمیونسٹ') ہونے کے دعویدار دوسرے صاحب بالکل بالعکس خبر لاتے ہیں کہ: ''موجودہ فیوڈل اور انتخابی سسٹم میں ایک درمیانے طبقے کی جماعت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اشرافیہ کی جماعتوں کا مقابلہ کر سکے''۔
یہ منظر دیکھ کر ۔۔۔ دیکھ لیجیے کہ۔۔۔ اب ہم بھی ساری جماعتوں کو چھوڑ چھاڑ (فیشن کے مطابق) صرف جماعت اسلامی ہی کو اپنے کالم کا موضوع بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جب سب کے سب اس گنگا میں اپنے ہاتھ، منہ( وغیرہ) دھو رہے ہوں تو آخر ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اپنے دانشوروں کے بیچ میں بیٹھ کر فخر سے کہہ تو سکیں گے کہ ۔۔۔ 'ہم بھی گنگا نہائے ہوئے ہیں' ۔۔۔ آخر کو جماعت اسلامی کی اصلاح کرنا ہم سب کا دینی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ یہ فریضہ ہم سب بڑے جوش و جذبے اور عزم و ولولے سے سر انجام دیتے ہیں۔ آپ نے ایسا پُرعزم اور پُرجوش 'اصلاحی معاشرہ' کسی اور ملک یا کسی اورقوم میں کاہے کو دیکھا ہوگا؟ ۔۔۔(ایک ایسا معاشرہ جو صرف جماعت اسلامی کی اصلاح کے لیے وجود میں آیا ہو)۔۔۔ یہ رُتبۂ بلند۔۔۔ ہمارے ملک کی کسی بھی سیاسی، مذہبی، دینی یا اصلاحی جماعت کو حاصل نہیں ہو سکا۔
ایک فکرہمیں یہ بھی لاحق ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی نئی اور پرانی جماعتوں میں سے واحد جماعت ایسی بچ گئی ہے جس کے ہاتھ، پاؤں،ناک ، کان، دہن اور دندان سب ابھی تک صحیح سلامت ہیں۔بقول سلیم احمد ۔۔۔ 'یہ آئینہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے' ۔۔۔ وطن عزیز کی یہ اکیلی جماعت ہے جو آج تک سالم اور مسلّم ہے۔ اب تک اس کے سین ، شین، فے، قاف یا لام ، میم ، نون، کاف گروپ بن سکے ، نہ ایسا ہوا کہ اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ کوئی جماعت اسلامی (حقیقی) وجود میںآسکی، نہ جماعت اسلامی (مجازی)۔ بر بنائے اختلاف افراد ہی نہیں، گروہ بھی جماعت اسلامی سے نکل گئے (مگر افسوس کہ اِن میں سے کسی کی بوری بند لاش برامد نہ ہو سکی)۔ یہ سب باتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں اور ہمیں یہ اطمینان (اور دلیل) فراہم کرتی ہیں کہ جماعت اسلامی ہمارے قومی دھارے سے بالکل الگ دھارے میں بہنے والی ایک۔۔۔(تامل) علیٰحدگی پسند۔۔۔ جماعت ہے۔
ایک عظیم قلم کار کاقول ہے''جو جماعت اسلامی میں نہیں وہ اُس کا ناقد ہے''۔اس قول کے قائل اور جماعت اسلامی کے کارکنان، دونوں ہمیں معاف فرمائیں،ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جو جماعت اسلامی میں ہے، وہ بھی اس کا ناقد ہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جماعت اسلامی کے بیشتر وابستگان جماعت کو وقت اتنا نہیں دیتے جتنا مشورے دیتے ہیں۔ممکن ہے کچھ لوگ یہ توجیہ کریں کہ جماعت اسلامی میں دیگر جماعتوں کے علی الرغم احتساب اور خود احتسابی کا رواج اس قدر زیادہ ہے کہ کارکن خواہ کچھ اور کرے یا نہ کرے، تنقید ضرور کرتاہے۔
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے منہ سے کوئی عہدہ طلب کرنے والا ہمارے نزدیک اُس عہدے کے لیے سب سے نا اہل ہے۔ اب آئیے دوسری طرف۔وہ صاحب کہ جن کے متعلق اکبرؔ الٰہ آبادی کا شعر ہے:
یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہے، جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی
جب انھوں نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں سات دُبلی گایوں کو کھا گئی ہیں۔ تب انھیں بتایا گیا کہ زلیخا کے مکر کے نتیجہ میں جس شخص کو تم نے جیل میں بند کر رکھاہے، صرف وہی درست تعبیر بتا سکتا ہے، کیوں کہ اُس کی بتائی ہوئی تمام تعبیریں درست نکلی ہیں۔سو،اس خواب کی تعبیر جب اﷲ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام سے پوچھی گئی تو آپؑ نے تعبیر یہ بتائی کہ سات برس خوشحالی کے آنے کے بعد سات برس قحط سالی کے آئیں گے۔ عزیز مصر نے اس مسئلے سے نمٹنے کا حل پوچھاتو اﷲ کے نبی علیہ السلام نے اس موقع پر واضح الفاظ میں فرمایا کہ خزانے کی کنجیاں میرے حوالے کردے۔ یعنی یہ عہدہ مجھے سونپ دے۔ پھر قرآن نے شہادت دی کہ سوائے مصرکے، اُن برسوں میں کسی ملک کے پاس غلہ نہ تھا۔کیا ان دونوں معاملات کا فرق سمجھنے کی بجائے، آپ اِن کو بھی 'کھلا تضاد' کہہ کر کالمانہ دانشوری کے موتی نہیں رول سکتے؟
کیوں نہیں رول سکتے؟۔۔۔
جرأتِ تنقید ہونی چاہیے!
مگر،جس طرح ہمارا ہر سربراہِ مملکت اور ہر سپہ سالار عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ ہوتا ہے، اُس طرح جماعت اسلامی تنقید سے ہرگز مستثنیٰ نہیں۔ یہ خدا ہے، نہ مرا عشق فرشتوں جیسا۔ نیزیہ فرشتوں اور انبیاء کی جماعت بھی نہیں۔ 'عام انسانوں' کی جماعت ہے۔ بلکہ چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کے مسلمانوں کی جماعت ہے۔غلطیاں اس سے بھی ہوتی ہیں اور ہوئی ہیں۔لیکن تنقید صرف غلطیوں اور شرعی عیوب ہی پر ہونی چاہیے۔ اگر خوبیوں پر بھی تنقید کی جانے لگے تو یہ تنقید نہیں کہی جائے گی۔'تیر اندازی' کہلائے گی۔کیا عجب کہ بہت سے تیر ابھی باقی ہوں۔ پھر سلیم احمد یاد آگئے:
مجھ تک نہیں پہنچے تو ہدف کون تھا اُن کا
جو تیر تھے تِرکش میں، کماں میں نہیں ملتے
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی جب وجود میں آئی توفرد کی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک ۔۔۔ اور کوچہ و بازار سے لے کر ایوانِ اقتدار تک۔۔۔ زندگی کے ہر گوشے میں اصلاح کرنے کے عزم کے ساتھ وجود میں آئی۔ مگرہوا یہ کہ فرد سے لے کر معاشرے تک اور عامۃ الناس سے لے کر اہلِ اقتدار تک، ہر شعبۂ حیات کے لوگ رَل مِل کر اُلٹے جماعت اسلامی ہی کی اصلاح کے درپے ہو گئے ۔ ہر دوسرے تیسرے دن اخبار میں کوئی خبر، کوئی بیان اورکوئی نہ کوئی کالم برائے اصلاحِ جماعتِ اسلامی ضرور چَھپا ملتا ہے۔ کوئی مضمون جماعت اسلامی کے لیے قیمتی مگر مفت مشوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کسی تجزیے میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہوتا ہے کہ:
'' کیا جماعت اسلامی کے نئے امیر جماعت اسلامی کو کامیابی کی راہ پر ڈال سکیں گے؟''
کوئی 'بریکنگ نیوز' دیتاہے کہ:'' جماعت اسلامی کی فکر میں تبدیلی آگئی ہے، اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے''۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی بچاری اس قدر 'سادہ لوح دیہاتی بڑھیا' ہے کہ اُس کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ بیٹھے بٹھائے اُس کی فکر میں تبدیلی آگئی ہے۔ ہم جیسی دوسری بُڑھیائیں اُس کو جاجاکر بتاتی ہیں کہ:' 'امّاں جی! تمھاری فکربدلگئی ہے، آؤ تمھارا خیر مقدم کریں''۔
کسی کے بتائے ہوئے نکتے نے ''جماعت اسلامی پاکستان کے ایک عوامی جماعت نہ بننے میں اہم کردار ادا کیا ہے''۔ مگر نکتہ داں نے یہ نہیں بتایا کہ اس 'غیر عوامی جماعت' کے کارکنان اور ارکان کن 'خواص' سے تشکیل پاتے ہیں اور کس'اشرافیہ' سے اُٹھ کر چلے آتے ہیں۔ البتہ یہ بتاتے ہیں کہ:''جماعت اسلامی پاکستان نے تنگ نظر کمیونسٹ پارٹی کے ہی ڈھانچے کو اپنے ماڈل کے طور پر اپنا لیا ہے''۔ سبحان اﷲ و بحمدہٖ!
اس کے برعکس ایک 'سابق لیفٹسٹ' (یعنی سابق 'تنگ نظر کمیونسٹ') ہونے کے دعویدار دوسرے صاحب بالکل بالعکس خبر لاتے ہیں کہ: ''موجودہ فیوڈل اور انتخابی سسٹم میں ایک درمیانے طبقے کی جماعت کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اشرافیہ کی جماعتوں کا مقابلہ کر سکے''۔
یہ منظر دیکھ کر ۔۔۔ دیکھ لیجیے کہ۔۔۔ اب ہم بھی ساری جماعتوں کو چھوڑ چھاڑ (فیشن کے مطابق) صرف جماعت اسلامی ہی کو اپنے کالم کا موضوع بنانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جب سب کے سب اس گنگا میں اپنے ہاتھ، منہ( وغیرہ) دھو رہے ہوں تو آخر ہم کیوں پیچھے رہیں؟ اپنے دانشوروں کے بیچ میں بیٹھ کر فخر سے کہہ تو سکیں گے کہ ۔۔۔ 'ہم بھی گنگا نہائے ہوئے ہیں' ۔۔۔ آخر کو جماعت اسلامی کی اصلاح کرنا ہم سب کا دینی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ یہ فریضہ ہم سب بڑے جوش و جذبے اور عزم و ولولے سے سر انجام دیتے ہیں۔ آپ نے ایسا پُرعزم اور پُرجوش 'اصلاحی معاشرہ' کسی اور ملک یا کسی اورقوم میں کاہے کو دیکھا ہوگا؟ ۔۔۔(ایک ایسا معاشرہ جو صرف جماعت اسلامی کی اصلاح کے لیے وجود میں آیا ہو)۔۔۔ یہ رُتبۂ بلند۔۔۔ ہمارے ملک کی کسی بھی سیاسی، مذہبی، دینی یا اصلاحی جماعت کو حاصل نہیں ہو سکا۔
ایک فکرہمیں یہ بھی لاحق ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی نئی اور پرانی جماعتوں میں سے واحد جماعت ایسی بچ گئی ہے جس کے ہاتھ، پاؤں،ناک ، کان، دہن اور دندان سب ابھی تک صحیح سلامت ہیں۔بقول سلیم احمد ۔۔۔ 'یہ آئینہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے' ۔۔۔ وطن عزیز کی یہ اکیلی جماعت ہے جو آج تک سالم اور مسلّم ہے۔ اب تک اس کے سین ، شین، فے، قاف یا لام ، میم ، نون، کاف گروپ بن سکے ، نہ ایسا ہوا کہ اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ کوئی جماعت اسلامی (حقیقی) وجود میںآسکی، نہ جماعت اسلامی (مجازی)۔ بر بنائے اختلاف افراد ہی نہیں، گروہ بھی جماعت اسلامی سے نکل گئے (مگر افسوس کہ اِن میں سے کسی کی بوری بند لاش برامد نہ ہو سکی)۔ یہ سب باتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں اور ہمیں یہ اطمینان (اور دلیل) فراہم کرتی ہیں کہ جماعت اسلامی ہمارے قومی دھارے سے بالکل الگ دھارے میں بہنے والی ایک۔۔۔(تامل) علیٰحدگی پسند۔۔۔ جماعت ہے۔
ایک عظیم قلم کار کاقول ہے''جو جماعت اسلامی میں نہیں وہ اُس کا ناقد ہے''۔اس قول کے قائل اور جماعت اسلامی کے کارکنان، دونوں ہمیں معاف فرمائیں،ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ جو جماعت اسلامی میں ہے، وہ بھی اس کا ناقد ہی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جماعت اسلامی کے بیشتر وابستگان جماعت کو وقت اتنا نہیں دیتے جتنا مشورے دیتے ہیں۔ممکن ہے کچھ لوگ یہ توجیہ کریں کہ جماعت اسلامی میں دیگر جماعتوں کے علی الرغم احتساب اور خود احتسابی کا رواج اس قدر زیادہ ہے کہ کارکن خواہ کچھ اور کرے یا نہ کرے، تنقید ضرور کرتاہے۔
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے منہ سے کوئی عہدہ طلب کرنے والا ہمارے نزدیک اُس عہدے کے لیے سب سے نا اہل ہے۔ اب آئیے دوسری طرف۔وہ صاحب کہ جن کے متعلق اکبرؔ الٰہ آبادی کا شعر ہے:
یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہے، جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی
جب انھوں نے خواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں سات دُبلی گایوں کو کھا گئی ہیں۔ تب انھیں بتایا گیا کہ زلیخا کے مکر کے نتیجہ میں جس شخص کو تم نے جیل میں بند کر رکھاہے، صرف وہی درست تعبیر بتا سکتا ہے، کیوں کہ اُس کی بتائی ہوئی تمام تعبیریں درست نکلی ہیں۔سو،اس خواب کی تعبیر جب اﷲ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام سے پوچھی گئی تو آپؑ نے تعبیر یہ بتائی کہ سات برس خوشحالی کے آنے کے بعد سات برس قحط سالی کے آئیں گے۔ عزیز مصر نے اس مسئلے سے نمٹنے کا حل پوچھاتو اﷲ کے نبی علیہ السلام نے اس موقع پر واضح الفاظ میں فرمایا کہ خزانے کی کنجیاں میرے حوالے کردے۔ یعنی یہ عہدہ مجھے سونپ دے۔ پھر قرآن نے شہادت دی کہ سوائے مصرکے، اُن برسوں میں کسی ملک کے پاس غلہ نہ تھا۔کیا ان دونوں معاملات کا فرق سمجھنے کی بجائے، آپ اِن کو بھی 'کھلا تضاد' کہہ کر کالمانہ دانشوری کے موتی نہیں رول سکتے؟
کیوں نہیں رول سکتے؟۔۔۔
جرأتِ تنقید ہونی چاہیے!
مگر،جس طرح ہمارا ہر سربراہِ مملکت اور ہر سپہ سالار عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ ہوتا ہے، اُس طرح جماعت اسلامی تنقید سے ہرگز مستثنیٰ نہیں۔ یہ خدا ہے، نہ مرا عشق فرشتوں جیسا۔ نیزیہ فرشتوں اور انبیاء کی جماعت بھی نہیں۔ 'عام انسانوں' کی جماعت ہے۔ بلکہ چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کے مسلمانوں کی جماعت ہے۔غلطیاں اس سے بھی ہوتی ہیں اور ہوئی ہیں۔لیکن تنقید صرف غلطیوں اور شرعی عیوب ہی پر ہونی چاہیے۔ اگر خوبیوں پر بھی تنقید کی جانے لگے تو یہ تنقید نہیں کہی جائے گی۔'تیر اندازی' کہلائے گی۔کیا عجب کہ بہت سے تیر ابھی باقی ہوں۔ پھر سلیم احمد یاد آگئے:
مجھ تک نہیں پہنچے تو ہدف کون تھا اُن کا
جو تیر تھے تِرکش میں، کماں میں نہیں ملتے