محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل 65 سالہ ملا عبد القادر ڈھاکہ کی مرکزی جیل میں پھانسی پر جھول کر شہادت (ان شاء اللہ) کے رتبے سے سرفراز ہو گئے۔
عبدالقادر ملّا پر الزام تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے تحت قائم کی گئی البدر نامی تنظیم کے رکن تھے جنہوں نے بنگالی ہونے کے باوجود بنگہ قوم پرستی کے بجائے اسلام کے ناطے سے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا 14 اگست 1948 کو موجودہ بنگلہ دیش کے ضلع فرید پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1968 میں راجندر کالج فرید پور سے گریجوایشن کی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے کیا تھا۔ انہوں نے بطور صحافی بھی قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ بنگلہ زبان کے روزنامے ''سنگرام'' ڈھاکہ کے ایگزکٹو ایڈیٹر اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے ممبر رہے ہیں۔
5 فروری 2013ء کو بنگلہ دیش کی متعصب عدالت نے عبدالقادر کو سزائے موت کی سزا سننے کے بعد عبدالقادر ملا نے بلند آواز میں 'اللہ اکبر' کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے عدالت میں موجود ججوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ''ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کرنے پر تمہیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کریگا''۔
عدالتی فیصلے کے بعد عبدالقادر ملا مطمئن اور خوش نظر آ رہے تھے۔ عدالت سے نکلتے وقت انہوں نے میڈیا کے سامنے فتح کا ( victory) کا نشان بنایا تھا۔
20 ستمبر کو ان کے صاحبزادے نے اپنے عظیم والد سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو بتا تھا کہ 'میرے والد نے مجھ سے کہا ہے کہ بیٹا مَیں کتنا خوش قسمت ہوں کہ جوانی میں جس شہادت کی دعا مانگا کرتا تھا اللہ کے فضل سے اب وہ میرے سامنے ہے، اس شہادت پر غم نہ کرو بلکہ شہادت کی قبولیت کے لئے رب سے دعا مانگو''
عبدالقادر ملّا پر الزام تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے تحت قائم کی گئی البدر نامی تنظیم کے رکن تھے جنہوں نے بنگالی ہونے کے باوجود بنگہ قوم پرستی کے بجائے اسلام کے ناطے سے پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا 14 اگست 1948 کو موجودہ بنگلہ دیش کے ضلع فرید پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے 1968 میں راجندر کالج فرید پور سے گریجوایشن کی اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے کیا تھا۔ انہوں نے بطور صحافی بھی قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہ بنگلہ زبان کے روزنامے ''سنگرام'' ڈھاکہ کے ایگزکٹو ایڈیٹر اور بنگلہ دیش نیشنل پریس کلب کے ممبر رہے ہیں۔
5 فروری 2013ء کو بنگلہ دیش کی متعصب عدالت نے عبدالقادر کو سزائے موت کی سزا سننے کے بعد عبدالقادر ملا نے بلند آواز میں 'اللہ اکبر' کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے عدالت میں موجود ججوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ''ایسا غیر منصفانہ فیصلہ کرنے پر تمہیں کوئی اچھے نام سے یاد نہیں کریگا''۔
عدالتی فیصلے کے بعد عبدالقادر ملا مطمئن اور خوش نظر آ رہے تھے۔ عدالت سے نکلتے وقت انہوں نے میڈیا کے سامنے فتح کا ( victory) کا نشان بنایا تھا۔
20 ستمبر کو ان کے صاحبزادے نے اپنے عظیم والد سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد میڈیا کے نمائندوں کو بتا تھا کہ 'میرے والد نے مجھ سے کہا ہے کہ بیٹا مَیں کتنا خوش قسمت ہوں کہ جوانی میں جس شہادت کی دعا مانگا کرتا تھا اللہ کے فضل سے اب وہ میرے سامنے ہے، اس شہادت پر غم نہ کرو بلکہ شہادت کی قبولیت کے لئے رب سے دعا مانگو''