• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جماعت المسلمین(رجسڑڈ) کے اصول اور تکفیر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم

شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
جماعت المسلمین کے لڑیچر سے واقفیت رکھنے والے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ درحقیقت ایک تکفیری گروہ ہے،اگرچہ بظاہر مسعود صاحب نے "اہل حق" کی عملی تربیت و اصلاح کے لئے اس پارٹی کی بنیاد رکھی،لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے عجیب و غریب نظریات اور تکفیری رحجانات کی وجہ سے اپنی خود ساختہ جماعت(جماعت المسلمین رجسڑڈ) کو اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی جماعت اور اس میں شمولیت کو فرض و واجب قرار دے دیا۔اس سلسلے میں اس قدد تعصب و غلو کا شکار ہوئے کہ یہ بات ان کے نزدیک مسلم یا غیرمسلم ہونے کا معیار اور کسوٹی بن گئ۔ان کے نزدیک یہ اعتقادیات و ایمانیات کا مسئلہ اور شرائط ایمان کا جز بن گیا۔
بانی فرقہ نے اپنے فرقے کی ترقی و فروغ کے لئےقرآن وحدیث کی بعض نصوص کو سلف صالحین کے منہج کے مطابق سمجھنے کے بجائےاپنے من مانے جدید ترین مفہوم میں پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا،ایسی ایسی شرائط عائد کیں اور ایسے ایسے اصول وضع کیے کہ اہل اسلام کا کوئی فرد خواہ ایمان و تقویٰ کے کتنے ہی بلند درجہ پر فائز ہو لیکن جب تک ان کی بنائی ہوئ پارٹی میں شامل نہ وہ ہو ادنی ترین مسلم و مومن کا درجہ بھی حاصل نہیں کر پائے،بطور ثبوت ان کی چند تحریریں ملاحظہ کریں:
مسعود صاحب ایک سوال کا جواب دیتے ہوئےکہتے ہیں:

۔۔۔۔۔اگر وہ مسلم ہے اور اس دین کو مانتا ہے جو آسمان سے نازل ہوا ہے تو اسی دین میں یہ موجود ہے کہ واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا کہ اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور فرقے فرقے نہ بنو آخر وہ اس آیت پر عمل کیوں نہیں کرتا اگر وہ نہیں کرتا تو وہ بظاہر ااس آیت کا منکر ہے اسی لۓ وہ اس حکم پر عمل نہیں کرتا اور وہ اس حدیث پر عمل کیوں نہیں کرتا تلزم جماعت المسلمین یعنی جماعت المسلمین کو لازم پکڑو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ قرآن مجید پر عمل کرتا ہے اور نہ حدیث پر عمل کرتا ہے تو پھر کس کام کا مسلم ہے؟اس کا محض فرقوں سے بیزار ہونا اس کے مسلم ہونے کی دلیل نہیں۔

(جماعت المسلیمن پر اعتراضات اور انکے جوابات ص۴۲)
اسی طرح ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

غلط فہمی نمبر۴ جو شخص تمام فرقوں سے علٰیحدہ ہو کر صرف قرآن وحدیث پر عمل کرے وہ مشرک نہیں۔میں اسے مسلم سمجھتا ہوں۔
(ازالہ)ایسا شخص نہ قرآن مجید پر عمل کرتا ہے اور نہ حدیث پر۔قرآن مجید میں ہے:واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا۔ اس کا عمل اس آیت پر نہیں۔حدیث میں ہے تلزم جماعۃ المسلمین۔ اس کا عمل اس حدیث پر نہیں تو پھر یہ کہنا کہ وہ قرآن و حدیث پر عمل کرتاہے صحیح نہیں۔
(وقار علی صاحب کا خروج ص۸ طبع جدید ۵۔۶،اعتراضات اور ان کے جوابات ۶،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک اسلام کی آئینہ دار ہیں ص۵۳۲۔۵۳۱)
تعصب و غلو کی انتہا ملاحظہ کریں کہ فرقوں سے علیحدہ ہو کر صرف قرآن وحدیث پر عمل پیرا شخص کو "مسلم" سمجھنا مسعود صاحب اور ان کے قائم کردہ فرقے کے نزدیک "غلط فہمی" ہے چونکہ ان کے ہاں تو قرآن و حدیث پر عمل کی یہی ایک صورت ہے کہ ان کی ایجاد کردہ رجسڑڈ جماعت میں شامل ہو جایئے!پھر مسعود صاحب کا طرز استدلال بھی انتہائی عجیب ہے کہ ایک آیت و حدیث پیش کرکے کہہ دیا کہ اس پر عمل نہیں۔ہر ہر آیت محکمہ و حدیث پر تو ان کی پارٹی کے تمام افراد بھی عمل پیرا نہیں،پھر بھی انہیں مسلم سمجھتے رہنا ان کی ایک "غلط فہمی" نہیں تو اور کیا ہے؟ ان کے اس طرز استدلال کے مطاطق تو شاید ہی کوئی فرد"مسلم" ثابت ہو سکے جب کوئی مسلم ہی نہیں ہو گا تو "جماعت المسلمین" کا وجود ثابت کرنا ایک مضحکہ خیز عمل ٹھہرے گا۔
ایک اور مقام پر مسعود صاحب لکھتے ہیں:

اعتراض:دعوت میں مخالفین کو یہ کہنا کہ ہم تو قرآن و حدیث ہی پیش کرتے ہیں لوگ اپنی طرف لیں تو ہمارا کیا قصور حالانکہ جماعت میں آنے کے بعد مجھے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ آپ ان کو قرآن وحدیث نہیں سناتے بلکہ غیر مسلم ہی سمجھتے ہیں۔"
جواب: اگر سمجھیں تو کوئی بعید از دلیل بھی نہیں۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۳۵)
لیجیے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ اپنے مخالفین کو "غیر مسلم"سمجھنا بعید از دلیل نہیں۔مطلب یہ ہے کہ دلیل سے ایسا ثابت ہے،اب معلوم نہیں کہ وہ دلیل کونسی ہے جس سے فرقہ مسعودیہ کے جمیع مخالفین"غیر مسلم" ثابت ہوتے ہیں؟
ان کے امام ثانی محمد اشتیاق صاحب لکھتے ہیں:

اگر آپ یہ کہیں کہ یہ فرقہ پرست مسلم ہیں یہ بھی جماعت المسلمین ہیں تو آپ کا یہ استدلال احادیث کے خلاف ہو گا۔

(ایک معترض کی غلط فہمیاں ص۹)
رجسڑڈ جماعت کے اس طرح کے غالیانہ،متعصبانہ اور متشددانہ اقاویل و فتاویٰ جات کا ایک طویل سلسلہ ہے کہاں تک ان کا تذکرہ کیا جائے۔ِ؟!فی الوقت ان کے چند ایسے اصول کا تذکرہ مقصود ہے کہ جو انہوں نے اپنے مخالفین کے لئےوضع کیے جن سے موجودہ پوری کی پوری امت مسلمہ کے اسلام و ایمان کی نفی اور ان کا "کافر" ہونا تو لازم آتا ہے۔ساتھ ساتھ گزشتہ امت مسلمہ بالخصوص بہت سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان و اسلام کی نفی اور ان کا "کافر" ہونا لازم آتا ہے۔(نعوذ باللہ)
واضح رہے کہ یہ محض مخالفت برائے مخالفت کا شاخسانہ اور پروپیگنڈا نہیں بلکہ انکی بین اور ٹھوس حقیقت ہے،جس کا مکمل ثبوت اور تفصیل خود انہی کے لڑیچر اور تحریروں سے ملاحظہ کر لیجیے،ان کا ایک اصول یہ ہے:
امیر کی نافرمانی اسلام کو چھوڑ دینا ہے۔
اس سلسلے میں مسعود صاحب کی تحریروں کے چند اقتباسات ملاحظہ کریں،لکھتے ہیں:

جماعت المسلمین ہی وہ واحد جماعت ہے جو امیر کو وہ حیثیت دیتی ہے جو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ٓ------جماعت المسلمین امیر کی اطاعت کو فرض سمجھتی ہے۔امیر کی نافرمانی گویا جماعت کو چھوڑنا ہے اور جماعت کو چھوڑنا جاہلیت کی موت کو دعوت دینا ہے یعنی اسلام کو چھوڑنا ہے۔کوئی جماعت یا فرقہ ایسا نہیں جو امیر کی اطاعت کو ایسی اہمیت دیتا ہو۔
(جماعت المسلمین کا تعارف ص۶تا ۸،جماعت المسلمین کی دعوات ص۲۱ـ۲۲)
مزید لکھتے ہیں کہ:

جماعت کو چھوڑنے والے نے پوری طرح نہیں صرف ایک بالشت جماعت کو چھوڑ دیا تو گویا اس نے اسلام کو چھوڑ دیا۔بتاۓ اسلام کو چھوڑنے والا کیا ہوتا ہے؟ایک بالشت چھوڑنے کا تو یہ حشر ہے اور جو پوری طرح جماعت کو چھوڑ دے وہ کیا ہو گا؟
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۶۔۷)
نیز لکھتے ہیں:

معلوم ہوا کہ لزوم جماعت کے سلسلہ میں اس قدر پابندی کہ امیر کی کسی مکروہ سے مکروہ بات پر بھی صبر کی تلقین کی گئ ہے جماعت کو کسی حالت میں بھی چھوڑنے کی سختی سے ممانعت کی گئ ہے اور علٰیحدگی جاہلیت کی موت قرار دی گئ ہے۔جاہلیت کی موت سے مراد زمانہ جاہلیت کی موت ہے جو حالت کفر کی موت ہے۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۱۵)
ان کے امام ثانی محمد اشتیاق صاحب لکھتے ہیں:

مطلب یہ ہوا کہ بیعت توڑنا،ایک بالشت جماعت چھوڑنا،ایک بالشت امیر کی اطاعت نہ کرنا اور امیر جماعت کا کسی پر نہ ہونا سزا کے لحاظ سے ایک ہی ہیں یعنی وہ اسلام سے خارج ہے۔
(بے حکومت امیر کی بیعت کرنا ص۴۶)
مزید لکھتے ہیں:

جو شخص امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے تو اس کی موت کفر کی موت ہے۔
(تحقیق مزید میں تحقیق کا فقدان ص۴۱)
ان اقتباسات سے واضح طور پر ان کا یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ "امیر سے بالشت برابر بھی دور ہونا اسلام کو چھوڑ دینا ہے"ایسا شخص "اسلام سے خارج" ہو جاتا ہے اور "کفر کی موت مرنا" ہے۔اس کے بعد ان کا ایک اور اصول ملاحظہ کریں:
امیر کی بیعت شرط ایمان سے ہے۔
بانی فرقہ مسعود صاحب اور ان کی بنائی ہوئی رجسڑڈ جماعت کے لوگ امیر کی بیعت کو شرط ایمان سمجھتے ہیں۔اس کے بغیر کوئی بھی فرد"مسلم"نہیں ہو سکتا۔اس سلسلہ میں ان کے مختلف کتابچوں سے چند اقتباسات ملاحظہ کریں:
مسعود صاحب لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من مات و لیس فی عنقہ بیعۃ مات میتٰ جاحلیۃ(صحیح مسلم)اس حدیث کی رو سے بیعت شرائط ایمان میں سے ہے ورنہ جاہلیت کی موت مرے گا یعنی کفر کی موت مرے گا۔کفر کیا موت سے بچنے کے لۓ بیعت شرط ہے۔
(وقار علی صاحب کا خروج ص۷،۸طبع جدید ص۵،جماعت المسلیمن کی دعوات ص۵۳۱)
نیز لکھتے ہیں:

جاہلیت کی موت سے مراد ایام جاہلیت کی موت ہے یعنی کفر کے زمانے کی موت۔۔۔۔۔فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ(ترمذی و سندہ صحیح) اس حدیث نے تشریح کر دی کہ جاہلیت کی موت سے مراد اسلام پر مرنا نہیں ہے بلکہ اسلام چھوڑ کر مرنا ہے۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۲۲)
اشتیاق صاحب کی گھڑی ہوئی ایک حدیث:
اشتیاق صاحب نے اس سلسلہ میں ایک حدیث وضح کرتے ہوئے لکھا:

محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی بیعت نہ کرنے والوں کو اسلام سے خارج قرار دیا۔

(بے حکومت امیر کی بیعت ص۴۶)
اشتیاق صاحب نے اپنی گھڑی ہوئی اس حدیث کا کوئی حوالہ نہ دیا اور نہ دے سکتے ہیں،انشاءاللہ۔"اسلام سے خارج" سمجھنا تو بانی فرقہ کا فہم ہے لیکن اشتیاق صاحب نے اسے "حدیث رسول"بنا ڈالا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اگر صحابہ نے بیعت نہ کی تو؟
مسعود صاحب اور ان کے موجودہ امیر صاحب کی تحریروں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ان کے ہاں"امیر کی بیعت"شرط ایمان ہے،جس کسی نے بیعت نہ کی وہ اسلام کو چھوڑ کر کفر کی موت مرے گا اور اشتیاق صاحب کی ایجاد کردہ حدیث کے مطابق وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ان کے ہاں ان کا یہ قانون و اصول بالکل یقینی اور اٹل ہے،کسی کے لئے کوئی استثناء نہیں حتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مقدس جماعت ہی کیوں نہ ہو۔
ان کے لئے بھی یہی قانون ہے مسعود صاحب نے بڑی دیدہ دیری سے اس بات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوۓ لیکھا:

ہم کہتے ہیں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی ذات بیعت نہ کرنے کےالزام سے پاک ہے لہذا وہ جاہلیت کی موت سے مبرا ہیں۔صلاح الدین صاحب کہتے ہیں الزام تو صحیح ہے لیکن وہ جاہلیت کی موت سے پھر بھی مبرا ہیں۔معلوم نہیں کیوں؟
(الجماعۃ ص۵۶)
اسی طرح لکھتے ہیں:

کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الجماعۃ کے امیر نہیں تھے۔اگر تھے اور یقینا تھے تو پھر ان کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جاہلیت کی موت کیوں نہ مرے؟کیا ان کے لیے اللہ تعالٰی کا قانون بدل جاۓ گا؟
(الجماعۃ ص۲۰۔۲۱)
مزید لکھتے ہیں:

بالفرض محال اگر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تو کیا جاہلیت کی موت مرنے کا قانون بدل جائے گا۔ہرگز نہیں۔قانون قانون ہی رہے گا۔بیعت نہ کرنے کے فعل کو صحابی کی غلطی تصور کیا جائے گا۔
(الجماعۃ ص۲۱)
مسعود صاحب کی ان تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا یہ قانون بالکل اٹل ہے،معاملہ خواہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ہو۔ان کا قانون قانون ہی رہے گا،مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان چند اصول واضح ہو جاتے ہیں جو کچھ اس طرح سے ہیں:
1۔جو شخص بھی جماعت سے بالشت برابر بھی علیحدہ ہو وہ اسلام سے خارج ہو جاۓ گا۔
2۔جو شخص بھی امیر کی بیعت نہ کرے وہ اسلام سے خارج اور کفر کی حالت میں کفر کی موت مرے گا۔
3.جس شخص پر بھی "امیر جماعت "نہ ہو وہ اسلام سے خارج ہے۔
بعض صحابہ کا جماعت سے دور ہونا اور بیعت نہ کرنا:
ان کے ان اصولوں پر موجودہ دور کے تمام اہل اسلام خواہ ان میں اعتقادی و علمی گمراہی کا وجود نہ بھی ہو،ان اصولوں کے سبب دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ٹھہرتے ہیں۔اسی طرح گزشتہ کئ صدیوں کے اہل اسلام بھی،حتی کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بھی۔(نعوذ باللہ)
اب خود مسعود صاحب ہی کی تحریروں سے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا جماعت سے دور رہنا اور امیر کی بیعت نہ کرنا ملاحظہ کریں اس کے بعد انشاءاللہ ان کے اس موقف کا بطلان بھی واضح کر دیا جاۓ گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر:
رجسڑڈ جماعت کے اصولوں کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تقریبا چھ مہینوں تک اسلا م سے خارج رہے۔
چونکہ مسعود صاحب لکھتے ہیں:

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیعت نہ کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ مہینے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ‌کو اطلاع نہ دی اور خود ہی نماز جنازہ پڑھا کر رات کے وقت ان کو دفن کر دیا۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بڑی قددومنزلت تھی۔جب ان کا انتقال ہو گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے چہروں پر خفگی کے آثار دیکھے کیونکہ انہوں نے ابھی تک بیعت نہیں کی تھی (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ان کی تیمارداری کی وجہ سے لوگوں نے ان کو معذور سمجھا تھا لیکن اب یہ بات لوگوں کو ناگوار تھی)۔۔۔۔۔۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا"میں (آج) زوال کے بعد (تمام لوگوں کی موجودگی میں) بیعت کر لوں گا۔"حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی نماز سے فارغ ہو کر آپ منبر پر تشریف لے گۓ۔تشہد پڑھا۔پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیفیت،بیعت کرنے میں تاخیراور ان کی معذرت بیان کی۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (تقریر کی) تشہد پڑھا،مغفرت کی دعا کی اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی عظمت بیان کی،پھر فرمایا"بیعت کرنے میں اس وجہ سے دیر نہیں ہوئی کہ ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس معاملہ میں کسی قسم کا حسد تھا۔۔۔۔۔۔"حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس تقریر(اور بیعت) سے تمام مسلمین ان سے خوش ہو گۓ۔سب نے کہا"تم صحیح بات کو پہنچ گۓ۔"الغرض اس نیک کام کی طرف رجوع کرنے کے بعد تمام مسلمین ان سے (حسب سابق) محبت کرنے لگے۔
مندرجہ بالا واقعہ پر تبصرہ اس واقعہ سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:۔
1۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ملال کی وجہ سے بیعت میں دیر کی۔
۔۔۔۔۔
5۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام قرابت رسول کا کتنا احترام کرتے تھے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خفا نہیں ہوۓ بلکہ ان کی قدرومنزلت کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
11۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی تقریر میں اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کی۔
(صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین ص۶۸۳۔۶۸۴)
تنبیہ: مسعود صاحب نے یہ واقعہ صحیح بخاری کتاب المغازی،باب غزوہ خیبر اور صحیح مسلم ،کتاب الجہاد،باب قول النبی لانورث عن عائشہ سے نقل کیا۔گویا یہ متفق علیہ روایت ہے۔صحیحین کی اس مستندومتفق علیہ روایت اور مسعود صاحب و رجسڑڈ جماعت کے ہاں صحیح ترین تاریخ ان کی اپنی کتاب"صحیح تاریخ الاسلام" کے بیان کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے چھ مہینوں تک بیعت سے تخلف فرمایا،بیعت نہیں کی بقول مسعود صاحب ملال کی وجہ سے بیعت میں دیر کی۔۔۔۔۔۔۔اس طرح رجسڑڈ جماعت کے اصول کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ چھ مہینوں تک اسلام سے خارج رہے۔(نعوذ باللہ)اور پھر بیعت کی تو اسلام میں داخل ہوئے،شرائط ایمان کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ مسعود صاحب کے بقول(تا کہ لوگوں کی "ناراضگی" کا سبب ختم ہو جاۓ)
(نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات)
اس دوران میں لوگ ان سے ناراض و نالاں رہے۔لیکن کسی نے بھی انھیں یہ نہیں کہا کہ جی! آپ شرائط ایمان کی تکمیل کیوں نہیں کرتے؟اسلام سے خارج کیوں ہیں؟پھر مسعود صاحب نے بریکٹ میں اتنے عرصے تک بیعت نہ کرنے کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی طرف سے انہیں معذور سمجھے جانے کی جو تاویل و توجیہ بیان کی کہ "تیمارداری کی وجہ سے معذور سمجھے گئے"لہذا بیعت کو شرط ایمان ٹھہرانے اور اس کے بغیر کسی بھی مسلم کو خارج از اسلام گرداننے کے بعد یہ تاویل بھی لغوولایعنی اور باطل ثابت ہوتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ محض اتنی سی بات کی وجہ سے ایک جلیل القدر صحابی کا "اسلام سے خارج رہنا" کو برداشت کرلیں اور امر بالمعروف نہ کریں۔بھلا"تیمارداری" بھی کوئی مسئلہ ہے کہ شرط ایمان کی تکمیل اور اسلام سے خارج رہنے کے لئےعذر بن سکے؟!
البتہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وعمر رضی اللہ عنہ سمیت جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کی بیعت نہ تو شرط ایمان سے ہے اور نہ اس کے بغیر کوئی فرد اسلام سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ محض مسعود صاحب اور رجسڑڈ جماعت کے توہمات و خیالات فاسدہ اور جدید ترین اختراعات،من گھڑت اور خود ساختہ افکار و نظریات ہیں۔اگر معاملہ ان کی باطل سوچ کے مطابق ہی ہوتا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرتے۔آخر اس میں وقت ہی کتنا لگتا تھا؟
تنبیہ:مسعود صاحب نے اپنی کتاب "الجماعۃ"ص ۲۴ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوری بیعت کا واقعہ نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ بالا بیعت علی الاعلان(علانیہ)بیعت تھی۔
صحیحین کی روایات اور مسعود صاحب کا اصول:
اس بیعت کی حقیقت سے قطع نظر اس موقع پر ہمیں صرف اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت کے مقابلہ میں بیہقی وغیرہ کی روایت پیش کرنا ان کے اپنے محبوب و پسندیدہ ترین اصول کے سخت خلاف ہے۔جس کے ذریعے سے یہ اپنے خلاف صحیح حدیث کو رد کرتے رہے ہیں۔چونکہ ان کا یہ اصول ہے کہ صحیحین کی روایت سے ٹکرانے والی روایت"معلول"اور "ساقط الاعتبار" ہوگی۔ان کا یہ اصول ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کریں۔
ایک صحیح حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس کا متن صحیحین کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے معلول اور ساقط الاعتبار ہے۔
(حدیث تلزم جماعت المسلمین و امامھم پر اعتراض اور جواب ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات ص۴۷۶)
مزید لکھتے ہیں:

الغرض ابوداؤد کی حدیث صحیحین کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے معلول ہے اور مختلف المتون ہونے کی وجہ سے مضطرب ہے۔
(جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص۱۵،الجماعۃ القدیمہ ص۱۹)
مزید لکھتے ہیں:

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں لفظ"امام" ہے اور ابوداؤد میں لفظ خلیفہ ہے تو بتا یئں کہ رسول اللہ نے کون سا لفظ اپنی زبان اقدس سے ادا فرمایا تھا۔یقینا وہی لفظ ادا فرمایا ہو گا جس لفظ پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم متفق ہیں۔
(الجماعۃ القدیمہ ص۱۹)
نیز لکھتے ہیں:

عبداللہ صاحب! اس حدیث میں "ائمۃ" کا لفظ ہے جش کے معنٰی آپ نے "حاکم" کئےہیں۔حالانکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کے بجائے قوم کا لفظ ہے۔بتائےکون سا لفظ صحیح ہے۔
(الجماعۃ القدیمہ ص۱۹)
تنبیہ:مختلف المتون اور مضطرب پونے کا اعتراض باطل ہے اور الشیخ عبداللہ دامانوی صاحب نے موصوف کو اپنی کتاب :"الجماعۃ الجدیدۃ(طبع مع خلاصۃ الفرقۃ الجدیدہ ص ۴۲)" پر ان لغوولایعنی باتوں کا ایسا علمی و مسلت جواب مرحمت فرمایا کہ پھر تا دم مرگ مسعود صاحب پر سکوت طاری رہا اور اس کا جواب ان سے نہ بن سکا۔پھر"ائمہ" کا لفظ صرف سنن ابی داود ہی میں نہیں بلکہ صحیح مسلم (۱۸۴۷،ترقیم دارالسلام:۴۷۸۵) میں بھی ہے۔تو کیا مسلم کی حدیث بھی ضعیف و معلول ٹھہرے گی؟اگر نہیں اور یقنیا نہیں تو پھر ابوداود کی حدیث کیونکر معلول ہو گئ؟
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

اعتراض: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت تمام محدثین نے بالاتفاق قبول کیا اور عمیر بن الاسود رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام بخاری کے سوا کسی محدث نے روایت نہیں کیا
جواب:یہ کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مزید برآں امام بخاری اکیلے ہی سب پر بھاری ہیں۔صحیح بخاری کی احادیث پر ان کے ہمعصر محدثین نے اتفاق کیا ہے لہذا حدیث کو صحیح کہنے والے صرف امام بخاری نہیںہیں بلکہ سب محدثین ہیں۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۲۹۔۳۰)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری و صحیح مسلم کا جو درجہ ہے وہ کسی پر مخفی نہیں،جس تحقیق و تفتیش اور سخت شرائط کے ساتھ ان کتابوں کو مدون کیا گیا وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔لیکن افسوس کہ تاریخ کے سلسلہ میں اکژ لوگوں نے ان کتابوں سے بے اعتنائی کا ثبوت دیا۔تاریخ کے ان واقعات کو بھی تسلیم کر لیا جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے متصادم تھے۔
(صحیح تاریخ الاسلام مقدمہ ص۳)

اسی طرح لکھتے ہیں:

تاریخی روایات متعدد مقامات پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے ٹکراتی ہیں اور یہ چیز اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ تاریخ کی اکثر روایات ناقابل اعتبار ہیں۔
(صحیح تاریخ الاسلام مقدمہ ص۷)

صحیح مسلم و صحیح بخاری کی اہمیت و حیثیت مسلم،معروف اور معلوم ہے لیکن مسعود صاحب کا یہ اصول ایک مشہور بات:"کلمۃ حق ارید بھا الباطل" کے مصداق ہے۔جب صحیح حدیث بظاہر قرآن مجید سے متعارض ہو تو ہم تطبیق دیتے ہیں پھر صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی حدیث سے اگر کوئی صحیح روایت ٹکراتی محسوس ہو تو تطبیق کیوں نہ دی جائے؟المختصر یہ کہ ٹکراؤ اور تصادم اور پھر اس بنا پر صحیح حدیث کو ساقط الاعتبار قرار دینے والا یہ مسعودی اصول سراسر باطل ہے۔بہر حال مسعود صاحب کے مذکورہ بالا ان اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جو بھی حدیث صحیحین کے خلاف ہو تو وہ معلول یعنی ضعیف اور ساقط الاعتبار ہو گی۔اب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بیعت نہ کرنے سے متعلق صحیحین کی روایت ملاحظہ کریں۔

جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے چہروں پر خفگی کے آثار دیکھے تو آپ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے صلح اور بیعت کی کوشش کی ان مہینوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی۔۔۔۔۔جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو منبر پر تشریف لاۓ،تشہد پڑھا،اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کیفیت اور بیعت سے پیچھے رہ جانے اور ان کی معذرت کو بیان فرمایا۔
(صحیح بخاری:۴۲۴۰؛صحیح مسلم:۱۷۵۹،دارالسلام:۴۵۸۰)
اب مسعود صاحب پر اپنے مذکورہ بالا اصول کے مطابق لازم تھا کہ وہ بیہقی وغیرہ کی روایات کو صحیحین کی صریح روایت کے مقابلہ میں رد کر دیتے ،جیسا کہ و ہ بعض مقام پر اپنے موقف کے خلاف واقع ہونے والی صحیح احادیث کو اپنے اس باطل و خود ساختہ اصول کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔لیکن چونکہ یہاں بیہقی کی روایت ان کے حق میں جاتی ہے تو اس مقام پر ایسا نہیں کیا اور اپنے ہی تراشیدہ اصول کی مخالفت کرکے خود ہی اس کے بطلان کو طشت ازبام کر دیا،
حالانکہ وہ لکھتے ہیں:

کسی اصول کو محض زبان سے تسلیم کرنا اور عملا اس سے روگردانی کرنا حقیقت پسندی کے خلاف ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں سے یہ اصول تسلیم نہیں۔
(دعوت حق ص ۴،جماعت المسلمین کیا دعوات ص ۸۰)
مسعود صاحب کے اس طرز عمل سے واضح ہوتا ہے مسعود صاحب اور انکی رجسڑڈ جماعت نے بھی اپنے اصولوں کو دل کی گہرئیوں سے تسلیم نہیں کیا اور نہ ان لوگوں میں حقیقت پسندی کا کوئی عنصر ہے۔خلاصہ یہ کہ مسعود صاحب کے اصول کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ تک اپنے خلیفہ،امیر،امام کی بیعت نہیں کی تو مسعود صاحب اور رجسڑڈ جماعت کے اصول نیز اشتیاق صاحب کی گھڑی ہوئی روایت کے مطابق وہ چھ مہینوں تک "اسلام سے خارج" رہے۔!
(نعوذ باللہ من ھذا الکفر و الضلالۃ)
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ رضی اللہ عنھم کی تکفیر:
اسی طرح ان کے زیر بحث اصولوں پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے تمام ساتھی بالخصوص جنہیں شرف صحابیت حاصل تھا،رضی اللہ عنہم اجمعین بھی کافر ثابت ہوتے ہیں۔(نعوذ باللہ)چونکہ انہوں نے بھی خلیفہ وقت کی بیعت نہیں کی اور ان سے علیحدہ ہوگۓ تھے۔
چناچہ مسعود صاحب لکھتے ہیں:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوۓ(لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو سزا دینے کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت پیدا ہو گئ،یہ اختلاف بھی درحقیقت اسی سازش کا کارنامہ تھا جو اسلامی حکومت کو تباہ کرنے کے لۓ کی گئ تھی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خلوص اور اختلاف سے کراہت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہونے کے بعد اپنے امراء اور قاضیوں کو ہدایت کی کہ جس طرح تم اب تک فیصلہ کرتے رہے ہو کرتے رہو کیونکہ میں اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں(اختلاف ختم کرنا میری سب سے اہم ذمہ داری ہے اور میں اس کوشش میں لگا رہوں گا)یہاں تک کہ تمام لوگ ایک جماعت بن جائیں یا میں (اسی کوشش و جدوجہد میں)مر جاؤں جس طرح میرے ساتھی مر گئے
(تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۷۶۸)
اور پھر تو یہ معلوم و مشہور اور مسلمہ بات ہے باوجود طرفین کی کوششوں کے صلح نہ ہو سکی یہاں تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب خلافت سیدنا و محبوبنا حسن رضی اللہ عنہ نے سنبھالی پھر صلح ہوئی۔
مسعود صاحب لکھتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوۓ۔خلفیہ ہونے کے کچھ عرصہ بعد وہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف چلے،حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے (جب اس لشکر کو دیکھا تو) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا"میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جب تک وہ اپنے حریفوں کو قتل نہ کرلیں پیٹھ نہ پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دو قرشی آدمیوں کو جن کا تعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے تھا اور جن کا نام عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر تھا بلایا اور ان سے کہا کہ تم جا کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کی بات چیت کرو اور انہیں صلح کی دعوت دو۔---------ان دونوں نےکہا"معاویہ رضی اللہ عنہ تو آپ سے صلح چاہتے ہیں اور آپ سے اسی کی درخواست کرتے ہیں-------الغرض حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہ سے صلح کرلی اور اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حق میں رسول اللہ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ "اللہ اس کے ذریعے مسلمین کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دیکا۔"
(تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۷۷۸۔۷۷۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان نیز بقول مسعود صاحب:سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ میں اس کوشش میں لگا رہوں گا یہاں تک کہ لوگ ایک جماعت بن جائیں،واضح طور پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف تھا،اور وہ ایک جماعت کی شکل میں نہیں تھے بلکہ دو بڑی جماعتوں میں تقسیم تھے۔سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جنہیں شرف صحابیت بھی حاصل تھا جیسے سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ و سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جن میں سے بعض جمل و صفین میں شہید بھی ہو گۓ تھے،تو ئی تمام کے تمام صحابہ اپنے امیر خلیفہ راشد سیدنا علی سے بالشت برابر نہیں بلکہ پوری طرح سے الگ تھے،اسی طرح ان مقدس ہستیوں نے اپنے امیر کی بیعت بھی نہیں کی تو مسعود صاحب اور ان کے فرقہ مسعودیہ کے متفقہ اصول کے مطابق اسلام کو چھوڑے ہوۓ تھے اور اسلام سے خارج تھے۔(نعوذباللہ)اور جو اس دوران فوت ہوۓ یا شہید ہوۓ، نعوذباللہ وہ جاہلیت یعنی کفر کی موت مرے،چونکہ مسعود صاحب کا اٹل قانون ہے اور"قانون قانون ہی رہے گا۔"(استغفراللہ)
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کی تکفیر:
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی دیگر صحابہ کامعاملہ بھی اسی طرح ہے چونکہ انہوں نے بھی بیعت نہیں کی تھی،
مسعود صاحب لکھتے ہیں:

حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیعت سے انکار اور کعبہ کی تعمیر:
جب حضرت یزید رحمہ اللہ خلیفہ ہوۓ تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی۔واقعہ حرہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔۔۔۔۔۔(ان حالات میں جبکہ حکومت ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں رہی تھی حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے امت کی بہبودی کے خیال سے حکومت خود سنبھالنے کا ارادہ کر لیا،انہوں نے حضرت مروان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور اسی بنیاد پر)انہوں نے حضرت عبدالملک رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی بلکہ اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور بیعت لینی شروع کر دی۔
(تاریخ الاسلام والمسلمین ص ۷۹۸)
اس کے علاوہ مسعود صاحب لکھتے ہیں:
جب حرہ کا واقعہ رونما ہوا(یعنی جب حضرت یزید رحمہ اللہ کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا)تو حضرت عبد اللہ بن عمرعبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے (تاکہ اسے بغاوت سے باز رکھیں)
(تاریخ الاسلام والمسلمین ص ۹۵۰)
یہ ابن حنظلہ ،سیدناعبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں"لہ رؤیۃ-----استشھد عبداللہ یوم الحرۃ"واقعہ حرہ میں شہید ہو۔
(تقریب التہذیب:۳۲۹۶)
اور سیدنا عبداللہ بن مطیع بن الاسود بن حارثہ القرشی رضی اللہ عنہبھی صحابی ہیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے کہا:"لہ رؤیۃ و کان و ا س قریش یوم الحرۃ،امرہ ابن الزبیر علی الکوفۃ"یوم حرہ کو قریش کے سربراہ تھے،ابن الزبیر نے انہیں کوفہ کا امیر بنایا تھا۔
(تقریب التہذیب :۳۶۳۷)
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،سیدنا عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ،سیدنا عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ اور اہل مدینہ اپنے امیر سے بھی علیحدگی اختیار کر چکے تھےاور اس کی بیعت بھی نہیں کی تھی اور اسی حالت میں شہید ہوئے۔مسعود صاحب کے ان دو باطل اصولوں کی روشنی میں یہ تمام صحابہ(نعوذ باللہ)اسلام چھوڑ کر اسلام سے خارج ہوگئے اور جاہلیت یعنی کفر کی موت مرے۔(نعوذباللہ)
مسعود صاحب اور ان کی پارٹی کے اصولوں اور تحریروں سے درج بالا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اپنے امیر سے،جماعت سے علیحدہ ہونا اور بیعت نہ کرنا ثابت ہوتا ہے۔
اور یہ تو مسعود صاحب واضح طور پر لکھ چکے ہیں کہ:
بیعت نہ کرنے کی وجہ سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جاہلیت کی موت کیوں نہ مرے؟کیا ان کے لئے اللہ کا قانون بدل جائے گا؟
(الجماعۃ ص ۲۰۔۲۱)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے ہاں بیعت نہ کرنے کی بنا پر درج بالاتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جاہلیت یعنی کفر کی موت مرے۔(نعوذباللہ)
مسعود صاحب،اشتیاق صاحب اور ان کی رجسڑڈ پارٹی کی ان خرافات کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض جلیل القدر صحابہ کا کچھ مدت کے لئے یا مستقل طور پر کافر ہونا لازم آتا ہے۔(نعوذ باللہ)
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
اب یہ دیکھنا ہے کہ صحیح اور درست موقف کیا ہے؟کیا جاہلیت سے مراد کفر ہے؟
ہمارا موقف یہ ہے کہ ان احادیث میں"جاہلیت "سے مراد کفر نہیں بلکہ"جاہلیت کے دور" کا مطلب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی نبوت سے پہلے والا زمانہ مراد ہے۔اور کئ احادیث میں اس لفظ کا استعمال محض اس دور کےلئے بکثرت ہوا ہے۔مشلا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
"کان عاشوراءیومتصومہ قریش فی الجاھلیۃ"
عاشوراءایسا دن کہ قریش دور جاہلیت میں اس کا روزہ رکھا کرتے تھے۔


(صحیح بخاری :۳۸۳۱)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا------------ایک بار وہ کوئی چیز لایا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھایا،غلام نے ان سے کہا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کہاں سے آیا؟انہوں نے کہا:بتاؤ کہاں سے آیا؟غلام نے کہا:"کنت تکھنت لانسان فی الجاھلیۃ"
کہ میں نے جاہلیت میں کسی انسان کے لئے کہانت کی تھی اس نے مجھے اس کے بدلے یہ دیا--------الخ


(صحیح بخاری:۳۸۴۲)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

میں نے کہا:"اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر میں تھے کہ ہمارے پاس یہ بھلائی آئی۔------الخ
(بخاری :۷۰۸۴؛مسلم۱۸۴۷)
ان روایات میں اسلام سے قبل زمانے کو"جاہلیت"کا نام دیا گیا ہے،امام بخاری نے ان احادیث پر کتاب المناقب میں"باب ایام الجاھلیۃ"کا باب قائم کیا۔جاہلیت میں بہت سے عقائد ونظریات اور اعمال تھے جو سب کے سب کفروشرک نہیں تھے،مشلا اللہ تعالٰی کو خالق،مالک،رازق،مدبرالامور ماننا جیسا کہ قرآن مجید میں کئ ایک مقام پر اس کا بیان موجود ہے۔مشلا سورۃ العنکبوت(۶۱،۶۳) اور الزخرف(۸۷)
٭چپ رہنے کا روزہ۔(بخاری:۳۸۳۴)٭جنازہ کے لئے کھڑے ہونا۔(بخاری:۳۸۳۷)٭قومیت کا تعصب(بخاری:۳۵۱۸)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے امور تھے،لیکن ان میں سے کوئی بات کفروشرک نہیں تھی،جہاں بہت سے امور شرکیہ،کفریہ تھے،وہاں ایمان خالص اور شرک و کفر سے بے زار لوگوں کا بھی وجود تھا،اہل ایمان بھی موجود تھے۔
جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ:

جن کو ہم نے کتاب دی ہے اس(کتاب) سے پہلے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔اور جب ان پر (اس کتاب کی) تلاوت کی جائے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں ہم اس سے پہلے بھی مسلم تھے۔انہیں دہرااجر دیا جائے گا اس لئے کہ یہ اس بات پر قائم رہے اور یہ لوگ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(القصص:۵۲تا۵۴)
ان آیات میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جو سیدنا عیسی علیه السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ونزول قرآن سے پہلے"دور جاہلیت"میں ایمان اور حق پر قائم رہے۔
مسعود صاحب ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

قرآن مجید کے نزول کے بعد اہل کتاب دو گروہوں منقسم ہوگئے
۱۔ایک تو وہ جو قرآن مجید کو پہچان گئے پھر بھی ایمان نہیں لائے-----
۲۔دوسرے وہ جو قرآن مجید کو پہچان گئے اور فورا ایمان لے آئے-----
آیت زیر تفسیر میں(اناکنا من قبلہ مسلمین) دوسرے گروہ کے لوگوں کا قول ہے۔یہ قرآن مجید پر اس کے نازل ہونے سے پہلے بھی ایمان رکھتے تھے اور نازل ہونے کے بعد بھی اس پر ایمان لے آئے۔یہ لوگ سنجیدہ اور انصاف پسند تھے-----(اولئک یؤتون اجرھم مرتین)ان کو دگنا اجر دیا جاۓ گا۔(اس لۓ کہ ان میں مندرجہ ذیل صفات پائی جاتی ہیں۔)
1۔(بما صبروا)یہ لوگ اپنی کتاب کے مطابق احکام الٰہی پر جمے رہے اور پھر قرآن مجید کے مطابق احکام الٰہی پر جم گۓ۔نہ احکام الٰہی سے نزول قرآن مجید سے پہلے روگردانی کی اور نہ نزول قرآن مجید کے بعد روگردانی کی۔


(تفسیر قرآن عزیز ج۷ص۶۲۴۔۶۲۶)
قرآن مجید کی آیات سے اورپھر مسعود صاحب کی تفسیر سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ "زمانہ جاہلیت"میں جہاں کفر و شرک کا دور دورا تھا،وہاں ایمان اور اہل ایمان کا وجود بھی باقی تھا جو شرک وکفر اور ہر قسم کی بےہودگی سے بچتے ہوئے احکام الٰہی پر قائم رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔(ان میں سے ایک)مومن اہل کتاب ہے جو پہلے بھی مومن تھا پھر نبی پر بھی ایمان لایا تو اس کے لئے دو اجر ہیں۔
(صحیح بخاری:۳۰۱۱)
اس حدیث سے بھی "دور جاہلیت "میں ایمان اور مومنین کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں(اور مسعود صاحب یہ واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں):

ایک مرتبہ بلدح کے نشیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زیدبن عمروبن نفیل سے ہوئی۔آپ کے سامنے ایک دسترخوان رکھا گیا۔آپ نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا۔پھر وہ دسترخوان زید کے سامنے کیاگیا تو انہوں نے فرمایا:میں بھی تمہارے آستانوں پر ذبح کئے ہوئے جانور نہیں کھاتا۔میں تو اس جانور کا گوشت کھاتا ہوںجو صرف اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
(صحیح تاریخ الاسلام ص۳؛بخاری۳۸۲۶)
انہی سے ایک روایت اس طرح ہے اور مسعود صاحب اس کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:

زید بن عمروبن نفیل-----وہ دین حق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے----کہنے لگے مجھے اپنے دین کے متعلق کچھ بتاؤ شاید میں تمہارا دین قبول کر لوں۔-----عیسائی عالم نے کہا تم حنیف ہو جاؤ۔زید نے پوچھا حنیف کیا ہوتا ہے؟اس نے کہا ابراہیم علیه السلام
کا دین جو نہ یہودی تھے نہ عیسائی اور نہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرتے تھے۔جب زید نے ابراہیم کے دین کے متعلق ان عالموں کی گفتگو سنی تو وہاں سے باہر چلے آئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا:اے اللہ میں تجھے گواہ کرتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔

(صحیح تاریخ الاسلام ص۶۸؛بخاری۳۸۲۷)
زید بن عمرو نزول قرآن سے پہلے ایام جاہلت میں تھے لیکن شرک و کفر اور گمراہی سے بے زار تھے اور خالص موحد تھے۔ابراہیم کے دین پر تھے صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی کی عبادت کرتے تھے اور یہ جاہلیت میں ہی فوت ہوچکے تھے۔ان کی موت دور جاہلیت میں ہی ہوئی لیکن کفر وشرک پر نہیں بلکہ دین حنیف پر ہوئی۔
(دیکھئے صحیح تاریخ الاسلام ص۶۸)
اسی طرح بیعت و افراق والی احادیث میں جاہلیت کی موت سے مراد کفر کی موت نہیں،بلکہ زمانہ جاہلیت کی موت کفر پر بھی ہوسکتی ہے اور ایمان پر بھی،جو شخص دین اسلام پر قائم رہے کفر وشرک سے بچا رہے،اس کی موت اسلام پر ہی ہوگی۔جاہلیت کی ایک خصلت انتشار واختلاف بھی تھا لوگ مختلف قبائل و اقوام میں منقسم و منتشر تھے کسی نظم وضبط کے پابند نہ تھے،اسلام نے اتحاد و اتفاق کو قائم کیا۔قیام خلافت کے بعد کہ جب امت کا ایک معتدبہ گروہ خلیفہ پر مجتمع ہو،اجتماعیت قائم ہو پھر کوئی شخص اس اجتماعیت سے دور رہے تو اس کی موت جاہلیت کی ایک خصلت یعنی انتشار و اختلاف پر ہو گی نہ کہ کفر وشرک پر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

لفظ میتہ میم کی کسرہ کے ساتھ ہے اور جاہلیت کی موت سے مراد،اہل جاہلیت کے لوگوں جیسی حالت موت ،بے راہ روی پر کہ اس کا کوئی فرمانرواامام نہ ہو۔چونکہ وہ لوگ اسے نہیں جانتے تھے(کہ ایک حکمران کے منظم نظام کے تحت رہنا ہے)اور ان الفاظ سے مراد یہ نہیں کہ وہ کافر ہو کر مرے گا بلکہ وہ گناہگار ہو کر مرے گا۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تشبیہ اس کے ظاہر پر ہو اس(صورت میں اس) کے معنی یہ ہیں کہ دور جاہلیت کے فرد کی طرح مرے گا اگر چہ وہ خود دور جاہلیت کا فرد نہ بھی ہو۔یا یہ حدیث زجرو توبیخ کےلئے وارد ہوئی ہے اور اس کا ظاہر مراد نہیں ہے۔
(فتح الباری ۱۰/۱۳،تحت رقم الحدیث :۷۰۵۴،مطبوعہ دارالسلام ریاض)
اس بات کو صرف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دور جاہلیت کے لوگ کسی منظم ریاست و حکمران کے ماتحت نہیں تھے اور مختلف قوم قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور قرآن و سنت کے محکم دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام اہل جاہلیت شرک و کفر میں مبتلا نہ تھے بلکہ بہت سے لوگ کفر و شرک سے بیزار بھی تھے،اللہ تعالٰی کی خالص عبادت کرنے والے بھی تھے جیسا کہ اوپر کی شطور میں عرض کیا جا چکا ہے۔اب بغیر کسی دلیل وبرھان کے یہ کہنا کہ یہ لوگ محض دور جاہلیت میں مرنے کی وجہ سے کفروشرک پر مرے صرف ظلم ہی نہیں بلکہ ادعاء علم غیب ہے جس کا بطلان ظاہر وباہر ہے۔
احادیث بیعت اور اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم:
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجماعی طرز عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سلطان یعنی اقتداروحکومت سے علیحدگی اختیار کرلینے سے یا خلیفہ کی بیعت نہ کرنے سے کوئی شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا بلکہ مومن و مسلم ہی رہتا ہے۔
مسعود صاحب لکھتے ہیں:

طریقہ وہی صحیح ہے جو سلف صالحین کا تھا،اس میں نت نئے نظریات کی آمیزش سخت معیوب ہے۔
(تلاش حق ص۴۷)
جب سلف صالحین کا طریقہ ہی صحیح ہے تو دیکھتے ہیں سلف صالحین بالخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا موقف ومنہج کیا تھا؟
ویسے بھی اللہ کے رسول کا فرمان ہے:

تمہاری اس امت کی عافیت اس کے اول حصے میں رکھی گئ ہے اور اس کے آخر حصے میں ایسی مصیبتیں اور ایسے معاملات ہوں گے جنھیں تم نہیں پہچانو گے۔
(صحیح مسلم:۴۷۷۶)
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور احادیث افتراق و بیعت:
پہلے خلیفہ راشد سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں عرصہ چھ ماہ تک(مسعود صاحب کے اصول کے مطابق)سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی،لیکن آپ نے انھیں اسلام سے خارج نہیں سمجھا،اور نہ آپ کی بیعت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی ایک صحابی نے ایسا سمجھا۔اگر بیعت شرط ایمان یا قبولیت اسلام کےلئے لازمی عمل ہوتا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اکابر صحابہ کبھی خاموش نہ رہتے،ضرور بالضرور"امربالمعروف و نہی عن المنکر"کا فریضہ ادا کرتے۔مانعین زکوۃ سے کس طرح انہوں نےقتال کیا؟
مسعود صاحب یہ واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوتے ہی عرب کے بعض لوگوں نے کفر اختیار کرلیا(یعنی زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کا ارادہ کیا)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا"آپ ان لوگوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے"مجھےحکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں-----حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا "اللہ کی قسم میں ضرور اس سے لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ میں تفریق کرے گا------اللہ کی قسم اگر ایک بھیڑ کا بچہ بھی جو وہ رسول اللہ کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تو میں ضرور ان سے اس بچہ کو روک لینے پر جنگ کروں گا۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں"اللہ کی قسم،اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سینے کو کھول دیا تھا،بعد میں میں سمجھ گیا کہ یہ حق ہے۔"(یعنی جنگ کرنا ضروری ہے)
(تاریخ الاسلام ص ۶۸۱)
لیکن بیعت نہ کرنے کے سلسلے میں آپ نے ایسا نہیں کیا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور احادیث افتراق و بیعت:
اسی طرح تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی "من فارق الجماعۃ" اور بیعت والی احادیث کا یہ مفہوم نہیں لیا کہ یہ شرائط ایمان میں سے ہے۔
چناچہ عبید اللہ بن عدی بن خیار رحمہ اللہ نے فرمایا:

وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جبکہ وہ (باغیوں کی بغاوت و خروج کے سبب اپنے گھر میں)محصور تھے انہوں نے کہا:آپ خلیفہ وقت ہیں اور آپ پر جو مصائب آئے ہیں وہ ہم دیکھ رہے ہیں اور ہمیں تو نماز بھی باغی امام پڑھاتے ہیں ہم اس میںحرج محسوس کرتے ہیں،تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں نماز ان میں سے بہترین عمل ہے،جب لوگ نیکی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی کرو اور جب وہ برئے کام کریں تو ان کی برائیوں سے دور رہو یا بچتے رہو۔
(صحیح بخاری :۶۹۵)

جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے اختلاف کیا،آپ کے خلاف بغاوت کی،آپ کو اپنے گھر میں محصور کر دیا اور یہ امیرسے کوئی بالشت برابر علیحدگی نہیں،معمولی اختلاف و افتراق نہیں بلکہ کھلی بغاوت و خروج تھالیکن اس کے باوجود سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنےمامورین کو باغیوں کے پیچھے نماز پڑھتے رہنے کی تاکید کی۔مسلمین کی اجتماعیت یا خلیفہ سے افتراق و علیحدگی اگر کفرو شرک ہوتا یا اسلام سے خروج ہوتا اور بیعت شرط ایمان ہوتی تو کیا کوئی مسلم اس بات کا تصور بھی کر سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی شرائط ایمان و ارکان اسلام سے بھی بے خبر ہوں اور ایک کفر و شرک کے مرتکب،اسلام سے خارج مرتد کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہنے کی اجازت دے دیں۔!اور اس بات کا تصور بھی محال ہے کہ خلیفہ راشد جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت کا شرف بھی حاصل ہو اور وہ خلافت و امارت کے بنیادی بلکہ ان مسائل سے بھی ناواقف و بے خبر ہوں جن کا تعلق(رجسڑڈ جماعت کے اصول کے مطابق)شرائط ایمان سے ہو!اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ‌کا ایک جم غفیر موجود ہو مگر کوئی ایک بھی اس سلسلے میں اصلاح و رہنمائی کا ف ئضہ ادا نہ کرے!اخر عاملہ کی اصل نوعیت کیا ہے؟
قول عثمان رضی اللہ عنہ اور مسعود صاحب کی وضاحت:
اس کی حقیت اور وضاحت خود مسعود صاحب کے قلم سے ملاحظہ کریں،لکھتے ہیں:

صحیح بخاری کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔حدیث نہیں ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
نے امام فتنہ کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی۔یہاں ایک بات یہ دیکھنی ہے کہ امام فتنہ کا اختلاف کیا تھا۔کوئی مذہبی اختلاف نہیںتھا۔اس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سیاسی احکام میں اختلاف تھا۔

(تلاش حق ص ۱۰۸،اشاعت نمبر۱۱ ۲۰۰۴ء)
مسعود صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا فتنہ انتظامی نوعیت کا تھا۔دینی نوعیت کا نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کو کچلنے کی طرف توجہ نہیں دی ورنہ ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دین کی حفاظت کرے اور دین کے خلاف جتنے بھی فتنے اٹھیں ان کا قلع قمع کرے۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات قسط نمبر۱ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک---ص۴۸۰)
ایک اور مقام پر مسعود صاحب نے لکھا:

۳۰:صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے نہیں کی اور نوبت جدال و قتال تک پنہچی---
اس کے بارے میں مسعود صاحب نے کہا :

"صلاح الدین صاحب اس کا ثبوت دیجئے۔
بعد میں صلاح الدین کی دوسری عبارت نقل کرکے مسعود احمد بی ایس سی نے کہا:

المسلم صحابہ کامحولہ بلااختلاف اور حمایت یا مخالفت تنظیمی امور میں تھی اگر دینی امور میں بھی تھی تو عارضی۔نہ انہوں نے اختلاف کو ہوا دی اور نہ کوئی فرقہ بنایا۔
(الجماعۃ ص ۴۶)
یہ ہے اصل حقیقت! مسعود صاحب کی ان تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ امیر سے علیحدہ ہونا،بیعت نہ کرنا وغیرہ کا تعلق انتظامی نوعیت سے ہے دینی نوعیت سے نہیں۔جب یہ معاملہ انتظامی نوعیت کا ہے تو اسے شرائط ایمان کا مسئلہ قرار دینا بدترین جہالت و تناقض نہیں تو اورکیا ہے؟
سیدناعلی رضی اللہ عنہ اور حدیث بیعت و افتراق
گزشتہ شطور میں باحوالہ یہ بات ہو چکی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم کا قصاص کا معاملہ میں ان سے اختلاف ہو گیا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جن میں صحابہ رضی اللہ عنھم بھی تھے انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی نہیں کی۔لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ سمیت کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام سے خارج اور کافر نہیں سمجھا،اس سے واضح ہوتاہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی بیعت کو "انتظامی نوعیت"کا مسئلہ سمجھتے تھے شرائط ایمان کا نہیں۔اس بحث سے چاروں خلفائے راشدین کا نظریہ اور طرز عمل واضح ہو جاتا ہے،
مسعود صاحب لکھتے ہیں:
خلیفہ راشد تو وہی ہو سکتا ہے جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلتاہو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلفاء راشدین کا عمل گویا سنت نبوی کابہترین ثبوت ہو گا اور جس طریقہ پر وہ چلتے رہے ہوں گے وہ طریقہ یقینا نبوی سے ماخوذ ہو گا گویا خلفاء راشدین کی سنت سے سنت رسول اللہ معلوم ہوسکتی ہے۔خلفاء راشدین بلاتفاق کسی ایسے طریقہ پرعمل پیرا نہیں ہو سکتے جس کا نمونہ سنت رسول میں نہ ہو۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص ۳۱)
اس تحریر کے مطابق خلفائے راشدین کا طریقہ تو یقینا سنت کے مطابق ہے لیکن رجسڑڈ جماعت کا طریقہ و طرز عمل یقینا سنت رسول کےبرعکس اور باطل ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور احادیث بیعت:
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے جب اپنی خلافت قائم کی تو بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے ان کی بیعت نہیں کی۔
جیسا کہ مسعود صاحب لکھتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے تخلف:
ایک دن حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میں بیعت کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیعت کرنے پر راضی نہ ہوئے)-----الخ


(تاریخ الاسلام ص ۸۰۰)
لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ یا ان کے ساتھی صحابی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
کو اسلام سے خارج ،کافر یا مرتد سمجھا ہو۔یہ محض رجسڑڈ تکفیری پارٹی کا غلووتعصب ہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور احادیث بیعت و افتراق:
جب یزید کی باقیات سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر غالب آ گئے اور یزیدیوں نے حجاز مقدس پر بھی کنڑول حاصل کر لیا،سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا اور اس بات کو خود مسعود صاحب لکھ چکے ہیں کہ انہوں نے یزید،مروان اور عبدالملک بن مروان کی بیعت نہیں کی تھی،لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے ان کی تکفیر نہیں کی،بلکہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
جو کہ خود یزید کی بیعت کیے ہوئے تھے(بخاری:۷۱۱۱)اس کے باوجود ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے متعلق ان کے کیا خیالات تھے؟ملاحظہ کریں
مسعود صاحب لکھتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ ہوچکا تھا،وہ مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ان کی لاش مدینہ کی ایک گھاٹی میں درخت پر لٹکا دی گئ۔---ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے۔حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کو دیکھکر وہاں کھڑے ہوگئے اور کہا" اے ابوخبیب السلام علیک، اے ابوخبیب السلام علیک، اے ابوخبیب السلام علیک۔----- اللہ کی قسم میں نے پہلے ہی تمہیں اس کام سے منع کیا تھا، اللہ کی قسم میں نے پہلے ہی تمہیں اس کام سے منع کیا تھا، اللہ کی قسم میں نے پہلے ہی تمہیں اس کام سے منع کیا تھا،اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تم بہت روزہ دار ،شب بیدار اور صلہ رحمی کرنے والے تھے ،اللہ کی قسم وہ امت کتنی اچھی ہے جس کا برا(بزعم دشمن)تم جیسا ہو
(تاریخ الاسلام ص ۸۰۱)

دیکھئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ انہیں دعائیں دیتے رہے،ان کی نیکیوں کا تذکرہ کرتے رہے ان کی تعریفیں کرتے رہے،اگر "جاہلیت" سے مراد کفر ہی ہوتا اور ان کی موت کفر پر ہوتی(نعوذباللہ)تو کیا اس صورت میں وہ ان کی نیکی اور تقویٰ کا ذکر کرتے ان کے لئے دعائیں مانگتے؟یقینا نہیں کیونکہ کفر و شرک کی موجودگی میں نیکی و تقویٰ کس کام کا!
مفہوم حدیث اور صحابہ کا اجماع:
یہ ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماعی طرز عمل کہ وہ خلیفہ وقت کی بیعت نہ کرنے والوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج اور کافر نہیں سمجھتے تھے۔دوسری طرف مسعود صاحب اور ان کا رجسڑڈ فرقہ ہے کہ جو شخص ان کی رجسڑڈ پارٹی میں شامل نہ ہو،ان کے محکوم ومامور بے اختیارامیر صاحب کی بیعت نہ کرے،خواہ وہ عقیدتاو عملا متقی پرہیز گار ہی کیوں نہ ہو،یہ اسے "غیر مسلم "دائرہ اسلام سے خارج اور کافر سمجھتے ہیں،اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسعود صاحب اور ان کے قائم کردہ فرقے کا رویہ اجماع صحابہ کے برخلاف و برعکس ہے۔
مسعود صاحب اور انکی جماعت کا سبیل المؤمنین سے انحراف:
مسعود صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں:

روایات بالا سے ثابت ہوا کہ چاروں رکعتوں میں قرآت کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔نہ صرف امام کے لئے بلکہ مقتدی کے لئے بھی۔کیا صحابہ کا یہ اجماع آپ کے نردیک حجت ہے۔اگر نہیں تو پھر یہ سبیل المؤمنین نہیں ہے جس پر آپ چل رہے ہیں۔سورۃ نساء کے الفاظ "ویتبع غیر سبیل المومنین"(آیت نمبر ۱۱۵)پر غور کیجیے۔
(التحقیق فی جواب التقلید ص ۸۸)
مسئلہ قراءت خلف الامام پر تو "اجماع" کا دعویٰ محل نظر ہے لیکن مسعود صاحب کی جماعت کے سارے افراد مسئلہ بیعت میں کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے یہ بات پیش نہیں کر سکتے کہ انہوں نے بیعت نہ کرنے والوں پر کفر یا اسلام سے خارج ہو جانے کا فتویٰ لگایا ہو،نہ بسند صحیح و حسن اور نہ نہ بسند ضعیف،حالانکہ ضعیف تو مردود روایت ہوتی ہے۔گویا اس پر صحابہ رضی اللہ عنھم کا اجماع یقینی و متفق علیہ ہے تو مسعود صاحب کی درج بالا تحریر کے مطابق وہ خود اور ان کی پوری پارٹی یقینا"سبیل المؤمنین"سے منحرف ہے۔
اور سبیل المؤمنین سے انحراف کوئی معمولی جرم نہیں۔
مسعود صاحب کی محولہ آیت میں اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
اور جو شخص مخالفت کرے رسول کی بعد اس کے کہ اس کے لئے ہدایت واضح ہوگئ اور وہ مومنین کے راستے کے علاوہ کسی اور راستہ کی پیروی کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرتا ہے اور(پھر) ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
(النسا:۱۱۵)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا اجماعی طرز عمل ہمارے لئے ہدایت جاننے کا ایک روشن ذریعہ ہے۔
مسعود صاحب بہت سے دلائل نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

-----کہ جن لوگوں کے ایسے فضائل ہوں ان سے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ سیاست کے میدان میں للہیت کو چھوڑ کر دنیا دار اور مکار بن جائیں گے۔غیر اسلامی سیاست کو منظور کرلیں گے اور محض دنیوی مفاد کی خاطر یا بزدلی سے کلمہ حق کہنے سے گریز کریں گے اور کسی غیر شرعی حاکم اور اس کے غیر شرعی احکام پر خاموش تماشائی بن جائیں گے۔ظاہر ہے کہ وہ جماعت جس میں خلوص اور للہیت کی فروانی ہو،وہ لوگ جو ہر وقت رضائے الٰہی کے طالب رہتے ہوں،جنہوں نے اپنے خون ست اسلام کی آبیاری کی ہو وہ کس طرح اپنی آنکھوں سے اسلام کی پامالی دیکھ کر خاموچ رہ سکتے ہیں۔
(تاریخ الاسلام ص ۶۴۷)
جب معاملہ یہ ہے اور یقینا یہی ہے کہ ہر صاحب ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم کے متعلق ایسا ہی اعتقاد رکھے گا۔اب رجسڑڈ جماعت کے افراد بتائیں کہ اگر بیعت واقعی شرط ایمان ہوتی،بیعت نہ کرنے سے بندہ اسلام سے خارج ہو جاتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ایمانیات کے اس مسئلہ ہر وہ بات کیوں بیان نہیں کی جسے آپ لوگ حق سمجھتے ہیں؟اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسے ایمانیات کا مسئلہ سمجھتے نہیں تھے اور اس پر صحابہ رضی اللہ عنھم کا اجماع ہے۔
اجماع صحابہ سے متعلق مسعود صاحب لکھتے ہیں:

کسی دینی فعل پر اجماع صحابہ بھی حجت ہے۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صحابہ کے فعل کا سرچشمہ ایک ہے اور وہ سرچشمہ سنت ہی ہو سکتی ہے۔
(وقار علی صاحب کا خروج ص۹جدید طبع ص۷،جماعت المسلمین کی دعوات ص۵۳۳)
اسی طرح وہ لکھتے ہیں:

اجماع صحابہ حکما حدیث ہی کی ایک قسم ہے۔قرآن مجید یا حدیث کا انکار کرنے والا،ان کو حجت شرعیہ اور ماخذ قانون نہ ماننے والا کافر ہے۔
(ہمارے عقائد ص۴؛جماعت المسلمین کی دعوات---ص۳۰)
اس کے باوجود بھی اگر رجسڑڈ جماعت کے افراد بیعت و افتراق سے متعلق احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے طرز عمل سے واضح ہونے والے ان کے اجماعی مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے تو اپنے ہی مذکورہ بالافتویٰ کفر کی زد میں ہوں گے اور یہ بھی واضح ہو جائے کہ ان کے ہاں اصول محض وضع کئے جاتے ہیں ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔
مسعود صاحب کے چند قضات
اب مسئلہ زیر بحث سے متعلق مسعود صاحب کے چند تناقضات بھی ملاحظہ کرتے جائیں۔
پہلا تناقض:ایک طرف تو مسعود صاحب امیر کی بیعت کو شرط ایمان بتلاتے ہیں دوسری طرف یہ بھی لکھتے ہیں:"
۵۷ صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے بیعت نہیں کی،حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی۔صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے دور فتن میں کسی سے بیعت نہیں کی"
(حوالہ مذکورہ ص ۱۷ کالم نمبر ۳)

المسلم:صلاح الدین صاحب نے خود ہی "دور فتن"کہہ کر بیعت نہ کرنے کے عذر کو بیان کر دیا۔اب ہم کیا لکھیں----
(الجماعۃ ص ۵۸)
اس مقام پر مسعود صاحب نے"دور فتن" کو بیعت نہ کرنے کے لئے "عذر"تسلیم کر لیا۔اگر بیعت واقعی شرط ایمان ہوتی تو محض "دور فتن"اس کے لئے عذر نہ بن سکتا۔کیا رجسڑڈ جماعت کے افراد کوئی اور ایسی بات پیش کر سکتے ہیں کہ جو "شرط ایمان"ہو لیکن "دور فتن" میں اس پر عمل نہ کرنا عذر بن سکتا ہو؟اور "دور فتن" میں اس پر عمل نہ کرنے کی گنجائش ہو؟فتنوں کے دور میں تو ایمان کی حفاظت کی بہت زیادہ تاکید ملتی ہے لہذا ایسے دور میں"شرط ایمان "پر عمل کیوں ضروری نہیں؟
دوسرا تناقض:مسعود صاحب کا دوسرا تناقض یہ ہے کہ جناب نے اس مقام پر صلاح الدین صاحب کو دیتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور کو "دور فتن" قرار دے دیا چونکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ،مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی کی بیعت نہیں کی تھی۔
جبکہ مسعود صاحب لکھتے ہیں :

ہم تو نہیں سمجھتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ شر کا زمانہ تھا۔ہم تو اسے خیر کا زمانہ سمجھتے ہیں۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات قسط نمبر ۱ ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک---ص۴۷۹۔۴۸۰)
مسعود صاحب کے نزدیک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دور شر کا زمانہ نہیں کیونکہ وہ خلیفہ تھے جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور کو "دورفتن"یعنی"شر کا زمانہ"قرار دے رہے ہیں کیا وہ خلیفہ نہ تھے؟
تیسرا تناقض:مسعود صاحب نے خیروالقرون میں خلافت راشدہ کے زمانہ کو "دور فتن"کہہ کر بیعت نہ کرنے کے لئے "عذر"تسلیم کر لیا۔لیکن آج کے حقیقی اور واقعی "دور فتن" اور شر کے زمانے کو بیعت نہ کرنے کے لئے عذر تسلیم نہیں کیا۔آج جو ان کے امیر کی بیعت نہیں کرتا یہ اسے اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب"دور فتن"جلیل القدر صحابہ کے بیعت نہ کرنے کے لئے عذر ہو سکتا ہے تو آج کا بدترین پر فتن دور بیعت نہ کرنے کے لئے عذر کیوں نہیں بن سکتا؟
جبکہ مسعود صاحب لکھتے ہیں:

رسول اللہ نے "تلزم جماعت المسلمین وامامہم"کے زمانہ کو شر کا زمانہ کہا ہے
(اعتراضات اور ا ن کے جوابات،قسط نمبر۱ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک---ص۴۸۰)
جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسعود صاحب اپنے دور کو شر کا زمانہ ہی سمجھتے تھے۔
جیسا کہ ان کے دور امارت میں شائع کردہ ایک کتابچہ میں واضح طور پر لکھا ہے:

اب یہ جو ہمارا دور ہے،شر و فتن کا دور،تباہی وبربادی کا دور----کیا اس دور کے بارے میں بھی کتاب وسنت سے کوئی لائحہ عمل،کوئی مشورہ،کوئی رہنمائی یا کوئی حکم ملتا ہے؟
(دعوت حق ص۲۳،اشاعت دوم،سال طباعت ۱۹۹۴ءاور ۱۹۹۶ء)
اس کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث نقل کی گئ ہے۔اس وضاحت کے باوجود مسعود صاحب اور ان کی رجسڑڈ جماعت والوں کا ان کی بیعت نہ کرنے کی بنا پر موجودہ کے جمیع اہل اسلام کو کافر اور اسلام سے خارج سمجھنا کھلا تناقض نہیں تو اور کیا ہے؟
چوتھا تناقض:اس سلسلے میں مسعود صاحب کا چوتھا تناقض یہ ہے کہ بیعت کو شرط ایمان قرار دینے کے باوجود دوسری طرف یہ بھی لکھتے ہیں:

امیر سے علیحد گی گناہ عظیم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
---جس شخص کو امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے تو صبر کرے کیونکہ جو شخص سلطان سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہوا اسکی موت جاہلیت کی موت ہوگی(صحیح بخاری کتاب الفتن و صحیح مسلم کتاب الامارۃ)----اور جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں (امیر کی) بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔"


(اجتماعیت اور اسلام سلسلہ اشاعت نمبر ۱۰۴،رجب ۱۴۰۴ھ ص۳۔۴)
نیز لکھتے ہیں:

جماعت سے علیحدہ ہونا گنا ہ عظیم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
----جوشخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا اور (اسی حالت میں)مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔


(حوالہ بالا ص ۲،جماعت المسلمین کی دعوات ص۱۵۳)
مندرجہ بالا اقتباسات میں امیر سے علیحدگی اختیار کرنے اور بیعت نہ کرنے کی احادیث پر "گناہ عظیم"کی سرخی قائم کی اور انہیں گناہ عظیم یعنی گناہ کبیرہ قرار دیا۔
مسعود صاحب ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ہمارے ہاں بھی ایک لحاظ سے درجہ بندی ہے۔صلاح الدین صاحب کا بیان صحیح نہیں بلکہ اتہام ہے۔ہمارے ہاں کفر اور شرک،کبیرہ گناہ اور صغیرہ گناہ تینوں کی درجہ بندی موجود ہے۔ہم گناہ صغیرہ یا کبیرہ کے مرتکب کو کافر نہیں کہتے ،مسلم ہی کہتے ہیں۔
(الجماعۃ ص۳۳)
ایک طرف تو جاہلیت کی موت والی احادیث پیش کرکے اس سے کفر کی موت مراد لیتے ہیں دوسری طرف بیعت نہ کرنے اور امیر یا جماعت سے علیحدگی والی وہی احادیث پیش کرکے اس سے گناہ عظیم مراد لیتے ہیں پھر ان کی طرف سے یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر نہیں مسلم ہی کہتے ہیں۔تو پمفلٹ"اجتماعیت اور اسلام" کے اقتباسات کی روشنی میں"جماعت اور امیر" سے علیحدگی اختیار کرنے والا اور بیعت نہ کرنے والا محض گناہ کبیرہ کا مرتکب ٹھہرتا ہے۔لیکن ان کی اپنی وضاحت کی روشنی میں"مسلم"ہی رہتا ہے کافر نہیں ہو جاتا دوسری طرف وہ شرائط ایمان کا تارک ،کافر اور اسلام سے خارج ٹھہرتا ہے کیا یہ واضح تضادوتناقض نہیں؟
مسعود صاحب کی تکفیری دعوت:
اس سلسلے میں مسعود صاحب کا پانچواں تناقض نہایت ہی عجیب ہے۔الجماعۃ نامی کتاب جس میں مسعود صاحب نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر بالفرض محال صحابی رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت نہ کی تو جاہلیت کی موت مرنے والا قانون قانون ہی رہے گا۔ہم ابتدا میں باحوالہ ان کی مکمل عبارت نقل کر آئے ہیں۔لیکن اسی کتاب میں وہ سابق مدیر تکبیر صلاح الدین صاحب کو یہ دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
جماعت المسلمین کے امیر کے ہاتھ پر بیعت نظام باطل کے مٹانے کے لئے ہی کی جاتی ہے تو پھر یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لیجئے یا دور رہتے ہوئے بھی اسکی تائیدوحمایت میں سرگرم ہو جایئے۔
(الجماعۃ ص ۵۵۔۵۶)
حیرت ہے کہ مسعود صاحب امیر کی بیعت کو شرط ایمان قرار دیتے رہے اور کفر کی موت سے بچنے کے لئے ضروری و لازمی قرار دیتے رہے،اس کے باوجود صلاح الدین صاحب کو یہ دعوت دی کہ یا بیعت کر لیجیے یا دور رہتے ہوئے---الخ جب بیعت شرط ایمان ہے تو مسعود صاحب کو یہ اتھارٹی کہاں سے حاصل ہو گئ کہ وہ کسی کو شرط ایمان کی تکمیل نہ کرنے کی دعوت دے دیں،ان کے اصولوں کے مطابق تو مسعود صاحب کی یہ دعوت خالص کفر اختیار کرنے کی دعوت ہے،نیز شریعت سازی بھی۔معلوم ہوتا ہے کہ لاشعور میں خود مسعود صاحب بھی یہ سمجھتے تھے کہ امیر کی بیعت نہ تو شرط ایمان ہے اور نہ یہ کفر و اسلام کا مسئلہ(واللہ اعلم وعلمہ اتم)وگرنہ صلاح الدین صاحب کو ہرگز ایسی دعوت نہ دیتے جو ان کے اپنے اصولوں کی رو سے خالص کفریہ دعوت ٹھہرتی ہے۔رجسڑڈ جماعت کے افراد بتلائیں کہ ان کے فرقہ بانی امیر صاحب اس کفریہ دعوت دینے کے بعد ان کے خانہ ساز تکفیری قوانین و اصول کا شکار ہو کر "کافر"ہوئے یا تکفیری اصول محض مخالفین ہی کے لئے ایجاد کیے گئے ہیں؟
المختصر!یہ کہ مسعود صاحب کے خودساختہ اور باطل اصول کی روشنی میں بیعت نہ کرنے کی وجہ سےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے بہت سے صحابہ رضی اللہ عنھم کی تکفیر ہوتی ہے۔جن اصولوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تکفیر ہوتی ہو وہ اصول کبھی حق نہیں ہو سکتے۔ان کا باطل ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے بانی و امیر ثانی کی محبت میں غرق ہو کرصحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی تکفیر پر راضی رہتے ہیں یا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ان من گھڑت اصولوں کو باطل قرار دیتےانھیں چھوڑ دیتے ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
کلیم حیدر نے کہا ہے:
جزاکم اللہ خیرا بھائی
جزاک اللہ خیرا۔
عکرمہ نے کہا ہے:
اللہ۔۔آپ کی کاوش کو قبول فرمائے۔آمین
آمین ثمہ آمین۔
اللہ سبعانہ و تعالٰی سے دعا ہے کہ "فرقہ الجدیدۃ جماعت المسلمین رجسڑڈ"کو اپنے باطل عقائد سے توبہ کرنے اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق قرآن وحدیث کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور ہمیں بھی سلف صالحین کے فہم کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثمہ آمین۔
 

محمد عاصم

مشہور رکن
شمولیت
مئی 10، 2011
پیغامات
236
ری ایکشن اسکور
1,027
پوائنٹ
104
الحمدللہ گجرات میں ہم لوگوں نے اس تکفیری جماعت کو ناکوں چنے چبوائے ہیں آخر ایک دفعہ ان کے گجرات کے امیر نے یہ کہہ کر کہ ہم کو حکم ملا ہے کہ آپ لوگوں سے دین کے معامے میں کوئی بات چیت نہ کی جائے لہذا ہم لوگ آپ سے دین پر کوئی بات نہیں کریں گے، باقی آپ لوگ ہزار بار ہمارے پاس آئیں ہم آپ کی خدمت و مہمان گزاری کریں گے پر دین کے کسی بھی مسئلے میں کوئی بات چیت نہیں کریں گے اس کے بعد ہم لوگوں نے ان کے پاس جانا چھوڑ دیا۔
ہمارے پاس دین کا اتنا علم بھی نہیں تھا پھر بھی یہ تکفیری ہمارے سوالوں اور اعتراضات کا کوئی جواب نہ دے سکے تھے، یہ بالکل جاہل لوگ ہیں اور مسعود بی ایس سی کے مقلد ہیں بلکہ اندھے مقلد ہیں۔
اللہ ان کو ہدایت دے آمین
 
شمولیت
اکتوبر 31، 2013
پیغامات
85
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
28
جماعت المسلمین(کراچی رجسٹرڈ) پر ایک نظر! از: حافظ عبد اللہ بہاولپوری لنک

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جماعت المسلمین پر ایک نظر

حافظ عبد اللہ بہاولپوری (رحمہ اللہ تعالٰی )
کمپوزنگ: ابوبکرالسلفی
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ وہ ہر طریقے سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نیک کو نیکی کے رنگ میں، بد کوبدی کے رنگ میں ۔ اس کا زیادہ تر وار اہل حق پر ہوتا ہے ۔ خصوصاً اہل حدیث پر ، کیوں کہ یہی اہل حق ہیں، جن کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ کبی اس محاذ پر کبھی اس محاذپر۔
اہل حدیث پر وار کرنے کے لیے پہلے توشیطان اغیار سے کام لیتا ہے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ اغیار اہل حدیث کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر قرآن و حدیث کا نام لینے والوں میں سے ہی وہ کسی کو منتخب کرکے اپنا کام لیتا ہے۔ کراچی کے مسعود بی ۔ ایس سی صاحب اب شیطان کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔ وہ آج کل ان سے اپنا کام لے رہا ہے۔ اس لیے مسعود صاحب، اپنی سادہ لوحی اور علم و فہم ک کمی کی وجہ سے دن داروں کے لیے فتنہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ نام قرآن و حدیث کا لیتے ہیں، لیکن مخالفت اہل حدیث کی کرتے ہیں۔ اگر مسعود صاحب شیطان کے ہتھے چڑھے ہوئے نہ ہوتے تو وہ اہل حدیث کی مخالفت نہ کرتے۔
آخر غربا والوں نے بھی تو اپنی جماعت بنائی۔ اپنا سلسلہ چلایا ، لیکن اہل حدیث کی مخالفت نہیں کی۔ اپنی کار کردگی کو غربا کے نام سے نمایاں کیا ، لیکن جماعت حق سے اپنا سلسلہ نہیں توڑا۔ اگر مسعود صاحب عقل والے ہوتے، ان کی قسمت سیدھی ہوتی تو وہ ضرور سوچتے کہ جب اہل حدیث بھی قرآن و حدیث کو مانتے ہیں ، میں بھی قرآن و حدیث کا نام لیتا ہوں تو میں اہل حدیث کی مخالفت کیوں کروں۔اگر کسی اہل حدیث سے کوئی اختلاف ہو تو اس سے گفتگو کروں، نہ کہ اہل حدیث جماعت کی مخالفت شروع کردوں۔ اب مسعود صاحب نے اہل حدیث کی مخالفت پر کم باندھ رکھی ہے، وہ اس کی مخالفت میں ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے اہل حدیث کو بدعتی اور گمراہ بتاتے ہیں اور خود اہل حق بنتے ہیں اور لوگوں کو اہل حدیث سے متنفر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اہلحدیث سے متنفر ہوگا وہ پھر کہاں جائے گا۔ ترقی کرکے تو آدمی اہل حدیث بتاتا ہے۔ اہل حدیث سے ترقی کرکے پھر وہ کدھر جاسکتا ہے۔
مَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ[10:یونس:32]
اہل حدیث کے بعد تو پھر گمراہی ہی گمراہی ہے۔ شیطان کے گمراہ کرنے کی تکنیک بھی یہی ہے۔ پہلے وہ حق میں تشکیک پیدا کرتا ہے، پھر لوگوں کو حق سے ہٹاتا ہے۔ جب کوئی حق سے ہٹ جاتا ہے تو پھر وہ اس کو اپنا بنالیتا ہے۔
انسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ[7:الاعراف:175]
مسعود صاحب نے جماعت المسلمین نام کا ایک جال تیار کیا ہے، جو بہت غضب کا اور بڑا دلفریب ہے جس میں وہ قرآن و حدیث کا نام لے کر اہل حدیث کو پھانستے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اہل حدیث فرقہ وارانہ نام ہے۔ اس لیے یہ ناجائز ہے ۔ اہل حدیث جماعت ہندوستان میں بنی ہے اور جماعت المسلمین قدیم سے ہے۔ اس کا ذکر بخاری و مسلم میں بھی ہے۔ اور یہی اصل جماعت ہے، حال آنکہ "جماعت المسلمین" بالکل ایک نئی جماعت ہے جس کا ماضی نہ مستقل جڑ نہ بنیاد۔ ہرلحاظ سے (مَالَھَا قَرَار)۔1385ھ میں مسعود صاحب نے اس کی بنیاد رکھی ۔ یہ جماعت خاص بیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے بھی بعد یہ پیدا ہوئی۔ یہ اس زمانے میں پیدا ہوئی جب فتنوں کا دور اور انحاط کا زور تھا۔ ظاہر ہے کہ جس " مسلمین" کی بنیاد بیسویں صدی میں مرزا قادیانی کے بھی بعد رکھی گئی ہو وہ کیسی "مسلمین" ہوگی؟
مسعود صاحب کا حال اس عقل والے کا ہے جو ہلدی کی ایک گھٹی لے کر پنساری بن بیٹھا تھا۔ مسعود صاحب کو کہیں حدیث میں "جماعت المسلمین" کا لفظ نظر آگیا، پھر آؤ بیٹھا تھا۔ مسعود صاحب کو کہیں حدیث میں " جماعت المسلمین" کا لفظ نظر آگیا، پھرآؤ دیکھا، نہ تاؤ فوراً دکان کھول دی اور جماعت المسلمین کا بورڈ لگادیا۔ یہ نہ سوچا کہ جماعت المسلمین کا لفظ جس معنی میں لے رہا ہوں حدیث میں اس معنی میں ہے بھی یا نہیں۔ بورڈ لگانے کی کی۔ اگر جماعت المسلمین کا لفظ حدیث(( فَیَشھدنَ جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ))[بخاری، کتاب العیدین باب اعتزال الحیض المصلی، ص77، رقم:981 ۔ مشکوۃ، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ العیدین ، فصل اول، رقم:1431]
(عورتیں جماعت المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں) میں اس معنی میں ہوتا جس معنی میں مسعود صاحب نے لے کر ایک نیا فرقہ کھڑا کردیا ہے تو کیا رسول اللہ ﷺ صرف عورتوں کو ہی حکم دیتےء کہ وہ جماعت المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں۔ مردوں کو حکم نہ دیتے کہ وہ بھی جماعۃ المسلمین کے ساتھ عید گاہ جائیں، کسی اور فرقے کے ساتھ نہ جائیں۔ کیا جماعت المسلمین صرف عورتوں کے لیے ہی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو ہی حکم دیا۔ اگر یہ لفظ اس معنی میں ہوتا جس معنی میں مسعود صاحب نے لیا ہے تو سب سے پہلے محدثین جماعت المسلمین کی بنیاد رکھتے ۔ مسعود صاحب ہی بتائیں، کیا محدثین نے ان کی طرح جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنائی؟ اگر بنائی تو اس کا حوالہ دیں۔ اگر نہیں بنائی تو کیوں؟ یا جماعت المسلمین کا لفظ جو بخاری اور مسلم میں ہے، امام بخاری، امام مسلم یا کسی اور محدث کو نظر نہ آیا ۔ اگر آیا اور یقیناً نظر آیا تو انھوں نے جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت کیوں نہ بنائی۔
جب مسعود صاحب جیسا ایک بے علم جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ سکتا ہے تو محدثین نے جماعت المسلمین نام کی کسی جماعت کی بنیاد کیوں نہ رکھی، وہ کیوں اہل حدیث ہی کہلواتے رہے۔ جب انھوں نے ایسا نہیں کیا، تو صاف ظاہر ہے کہ حدیث میں جماعت المسلمین کا لفظ اس معنی میں نہیں جس معنی میں مسعود صاحب نے لے کر بیسویں صدی کے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھ دی۔ مسعود صاحب ایک طرف اپنی جماعت کی کڑیاں بخاری و مسلم کی حدیث سے ملا کر اس کو قدیم ترین ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف اپنے رسالے" جماعت المسلمین کا پس منظر" میں لکھتے ہیں ۔ چند درد مند حضرات نے اہل حق کی اصلاح کے لیے 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد ڈالی، میں پوچھتا ہوں جب جماعت المسلمین کی بنیاد1385ھ میں رکھی گئی تو کیا اس سے پہلے اس نام کی کوئی جماعت نہ تھی ؟ اگر کوئی جماعت نہ تھی تو وہ اہل حق کون تھے جن کی اصلاح کے لیے اس جماعت کی بنیاد رکھی گئی؟ اور کس جماعت سے وہ تعلق رکھتے تھے؟ کیا آج بھی وہ اہل حق ہیں یا نہیں؟ اگر آج بھی اہل حق ہیں تو وہ کون ہیں اور اگر آج ان میں سے کوئی اہل حق نہیں رہا، سب گمراہ ہوگئے تو جماعت المسلمین نے اچھی اصلاح کی کہ سارے اہل حق گمراہ ہوگئے ۔ اور اگر 1385ھ سے پہلے بھی جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت تھی تو پھر 1385ھ میں بنیاد ڈالنے کے کیا معنی؟ اگر مسعود صاحب یہ کہیں کہ ار جگہ تو یہ جماعت اس سے پہلے بھی تھی لیکن کراچی میں اس کی بنیاد 1385ھ میں رکھی گئی تو میں پوچھتا ہوں دوسری جگہ دنیا میں کہاں کہاں یہ جماعت تھی؟ کون کون اس کے امیر تھے؟ آج تک اس جماعت کے بڑے بڑے علماء کون کون ہوئے ہیں؟ انھوں نے کون کون سی کتابیں لکھی ہیں؟ جن پر جماعت المسلمین کا مرغوب ٹھپہ ایسے ہی ہو جیسے آج کل مسعود اور مرغوب صاحبان لگاتے ہیں۔
اگر مسعود صاحب ماضی میں اس جماعت کا کوئی اتا پتانہ بتا سکیں تو انھیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ ایک نئی جماعت ہے جو بیسویں صدی کے آخر میں معرض وجود میں آئی ہے۔ جس کا بخاری و مسلم میں مذکور جماعت المسلمین سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہو جماعت المسلمین اور اس کی بنیاد بیسویں صدی میں رکھی جائے۔ کیا رسول اللہ ﷺ کی امت اتنی صدیاں بغیر جماعت المسلمین کے ہی رہی؟ رسول کریم نے اس جماعت المسلمین کےبارے میں تو فرمایا تھا((لاَتَزَالُ طَائِفَۃ مَّن اُمَّتِی)) [بخاری ، کتاب العتصام، باب قول النبی ص609، رقم:7311) کہ وہ ہمیشہ رہے گی۔ آپ ﷺ نے اس کے مذہب کے بارے میں فرمایا تھا: (مَا أنَا عَلَیہِ وَ اّصحَابِی)) [مشکٰوۃ، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، رقم:171) کہ ان کا مذہب اہل سنت والجماعت والا ہوگا۔ مسعود صاحب یا تو اپنی جماعت کا اس نام کے ساتھ ہر زمانہ میں موجود ہونا ثابت کریں، ورنہ تسلیم کریں کہ "جماعت المسلمین" آپ والی جماعت نہیں بلکہ وہ جماعت المسلمین اہل حدیث ہی ہے جو شروع زمانے میں اپنے اصلی نام سے موسوم تھی۔ جب فرقے بن گئے تو وہ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسعود صاحب جتنی اہل سنت ، اہل حدیث ناموں کی مخالفت کریں گے اتنا ہی ان کی جماعت کا جھوٹا اور بے بنیاد ہونا واضح ہوگا۔ کیوں کہ پہلے ان کی جماعت نہیں تھی اور جو جماعت حقہ اہل سنت اور اہل حدیث کے نام سے پہلے سے چلی آرہی ہے اس کو وہ مانتے نہیں۔ آخر یہ خلاکیسے پورا ہوگا۔
اگر مسعود صاحب کی قسمت سیدھی ہوتی تو وہ ضرور تسلیم کرتے کہ اہل حدیث ہی وہ جماعت المسلمین ہے جس کا ذکر بخاری و مسلم میں ہے۔ کیوں کہ اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جو قدیم سے ہے، جس کی ایک زبردست تاریخ ہے جس کا شاندار ماضی ہے اور درخشاں مستقبل ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی جب آئیں گے تو اسی مذہب اہل حدیث پر ہوں گے، کیوں کہ یہی اصل اسلام ہے۔
مسعود صاحب کہتے ہیں اصل جماعت المسلمین ہم ہیں جس کا خیر القرون کی جماعت المسلمین کی طرح کوئی فرقہ ورانہ نام نہیں۔ ہمارا ایک ہی نام"مسلم" ہے جو اللہ نے رکھا ہے۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب آپ کی جماعت المسلمین وہ نہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھی، کیوں کہ آپ کی جماعت المسلمین کی بنیاد 1385ھ میں رکھی گئی ۔ اگر یہ پہلے والی جماعت المسلمین ہوتی تو 1385ھ میں اس کی بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ توپہلے سے ہی چلی آرہی تھی ۔ جب آپ نے 1385ھ میں بنیاد رکھی تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ جماعت المسلمین ہے۔
مسعود صاحب! آپ کی جماعت المسلمین اس لیے بھی خیر القرون والی جماعت المسلمین نہیں کہ آپ کے عقائد و مسمات وہ نہیں جو پہلے کی جماعت المسلمین کے تھے۔ اُس جماعت المسلمین کا یہ دعویٰ ہر گز نہیں تھا کہ"مسلم" کے سوا کوئی اور نام رکھنا جائز نہیں۔ جو کوئی اسلام کا مترادف لقب رکھے وہ بھی فرقہ پرست ہے۔ مسعود صاحب! اگر پہلی جماعت المسلمین کا بھی یہی دعویٰ تھا جو آپ کا ہے تو اس کا ثبوت کسی کتاب سے دیں ۔ بلکہ رسول کریمﷺ نے جہاں گمراہ فرقوں کا ذکر کرکے ایک ناجی فرقے کا ذکر کیا ہے وہاں انھوں نے جماعت المسلمین کا نام نہیں لیا۔ اگر مسعود صاحب کا مذہب صحیح ہوتا کہ اہل حق کا جماعت المسلمین کے سوا کوئی دوسرا نام ہی نہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور جماعت المسلمین کا نام لیتے۔ جب آپ ﷺ نے جماعت المسلمین کا نام نہیں بلکہ((مَااَنَا عَلَیہِ وَاَصحَابیِ)) کہا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ مسعود صاحب والی جماعت المسلمین غلط ہے جو کہتی ہے کہ جماعت المسلمین کے سوا تمام نام فرقہ پرستی اور گمراہی کے نام ہیں۔ حالانکہ آج تک کوئی اہل حق ایسا نہیں گزرا جس نے کہا ہو جماعت المسلمین کے سوا کوئی اچھا لقب رکھنا بھی گمراہی ہے ۔ مسعود صاحب پہلے"مسلمینی" ہیں جنھوں نے یہ دعویٰ کیا ہے۔
مسعود صاحب! اگر آپ یہ کہیں کہ نام تو ہمارا وہی "جماعت المسلمین" ہے جو بخاری و مسلم میں ہے تو میں کہتا ہوں فقط نام سے کیا ہوتا ہے، نام تو جعلی چیزوں کا بھی وہی ہوتا ہے جو اصلی چیزوں کا ہوتا ہے۔ نام سے ہی تو لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ اس لیے فقط نام نہیں دیکھا جاتا، خصوصیات بھی دیکھی جاتی ہیں۔ جن سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ چیز جعلی ہے یا اصلی، احادیث کو دیکھ کر ہی تو مرزا قادیانی نے مسیح موعود نام رکھا تھا۔ مہدی نام کو دیکھ کر ہی تو جھوٹےء اور نقلی مہدی بنے۔ مسعود صاحب! بے شک نام آپ کا وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے،لیکن آپ کی جماعت وہ نہیں کیوں کہ یہ تو پیدا کہی 1385ھ میں ہوئی ہے ۔ اگر وہ ہوتی تو مسلسل چلی آتی۔ 1385ھ میں بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
مسعود صاحب! آپ کہتے ہیں ہمارا نام جماعت المسلمین ہے۔ میں کہتا ہوں جماعت المسلمین تو یہود نصاریٰ بھی تھے۔ کیا اللہ نے آپ کی طرح ان کا نام مسلمین نہیں رکھا تھا۔ جب یہود و نصاریٰ بھی جماعت المسلمین ، امت محمدیہ ساری مسلمین ، حتیٰ کہ ہمارے ملک کے بنگالی اور میراثی بھی مسلمین ، آپ بھی مسلمین، بلکہ شیعہ تو مومنین۔۔۔ تو فرق کیا
رہا؟ مسعود صاحب فقط جماعت المسلمین نام رکھنے سے کچھ نہیں بنتا۔ جب تک آپ کا سلسلہ اس جماعت حق سے نہ جڑ جائے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا ((لَا تَزَال طَائِفَۃ اُمَّتِی))[بخاری، کتاب الاعتصام، بابا قول النبیﷺ ص:609،رقم:7311] اور((مَااَنَا عَلَیہِ وَاَصحَابیِ))[مشکٰوۃ، کتاب الایمان بابا الاعتصام بالکتاب والسنۃ رقم:171] ۔
آپ "جماعت المسلمین"نام کو اچھالتے ہیں حال آنکہ ایسے رسمی ناموں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (لَایَبقٰی الاِسلاَمِ اِلاَّ اِسمُہُ)) [مشکوۃ:کتاب العلم، رقم:276]ایک زمانہ ایسا بھی آجائے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ مسعود صاحب! آپ بھی صرف نام کو پیٹتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ اصل اسلام کیا ہے اور وہ کہاں ہے؟ اہل حدیث جو اصل اسلام کے علمبردار ہیں۔ ان کی آپ مخالفت کرتے ہیں اور جماعت المسلمین جو بالکل ایک نیا فرقہ ہے اس کو آپ اہل حق بتاتے ہیں۔ مسعود صاحب آخر آپ کو نظر کیوں نہیں آتاکہ تیرہ چودہ سو سال سے کونسی جماعت اہل باطل کا مقابلہ کر رہی ہے ۔ کیا وہ آپ کی جماعت المسلمین ہےجو 1385ھ میں بنی ہے۔؟ آپ قدیمسے باطل کا مقابلہ کرنے والوں کو بدعتی بتاتے ہیں اور خود جو کل پیدا ہوئے ہیں ، اہل حق بنتے ہیں۔ مسعود صاحب یاد رکھیے جو اہل حق کو گمراہ بتاتا ہے وہ خود گمراہ ہوتا ہے۔ آخر اس کے ذہن میں کوئی کجی ہوتی ہے تو اس کا سیدھا الٹا نطر آتا ہے۔ اور الٹا سیدھا۔
مسعود صاحب! آپ نے 1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تو کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جماعت المسلمین کی بنیاد نہیں رکھی جاتی۔ جب لوگ مسلمان بنتے جاتے ہیں تو جماعت المسلمین خود بخود بن جاتی ہے۔ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھناتو ایسے ہی ہےجیسے اسلام کی بنیاد رکھنا۔ اس لیے احیاء اسلام یا تجدید اسلام کی تحریکیں تو دنیا میں بہت اٹھیں۔ یہ تو مسعود صاحب ! ماشاء اللہ آپ ہی ہیں جنھوں نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی ہے۔ بعید نہیں کہ آپ کا کوئی بھائی اسلام کی بنیاد رکھنے والا بھی اٹھ کھڑا ہو۔
مسعود صاحب! یقین جانیں، جب آپ نے جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تھی تو اہل نظر تو اسی وقت کہتے تھے کہ مسعود بے چارہ مخلص ہو تو ہو لیکن بے عقل ضرور ہے کیوں کہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنانا کسی عقل مند کا کام نہیں۔ اگر اس کو مسلم نام ہی کی کوئی جماعت بنانا منظور تھی تو تنظیم المسلمین یا اصلاح المسلمین نام کی کوئی جماعت بنا کر اپنا شوق پورا کر لیتا، مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا مسلمانوںمیں ایک نئے فرقے کے اضافے کے سوا اور کچھ نہیں۔ غیر مسلمانوں کے مقابلے میں تو اس نام کا کوئی فائدہ ہو بھی سکتا ہے اور کچھ نہیں تو مسلمان اس نام پر اکھٹے ہی ہو جاتے ہیں جیسا کہ مسلم لیگ میں ہوئے اور یہ حقیقت ہے کہ کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی کامیابی کی بڑی وجہ مسلم لیگ کا یہ نام تھا، لیکن اب پاکستان مین اس نام کا کچھ اثر نہیں کیوں کہ پاکستان مین سارے مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے مقابلے میں مسلم لیگ کا نام کوئی کشش نہیں رکھتا، بلکہ مسلمانوں میں جماعت المسلمین نام کی کوئی جماعت بنانا لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ے کیوں کہ اس سے دوسرے مسلمان کی تحقیر بلکہ تکفیر کا پہلو نکلتا ہے۔ اس سے اپنے فخر اور تعلیٰ کا اظہار ہوتا ہے۔ عام مسلمانوں سے علیحڈگی کا تصور پیدا ہوتا ہے جو بھی جماعت المسلمین کا نام سنتا ہے وہ طنزاً پوچھتا ہے آپ جماعت المسلمین ہیں تو کیا ہم جماعت الکافرین ہیں۔ جماعت اسلامی پر بھی یہی اعتراض تھا کہ یہ جماعت اسلامی ہے ، تو باقی کیا غیر اسلامی ہیں۔ مسعود صاحب! آپ نے کچھ نہ سوچا مسجھا مسلم لیگ کا ریڈی میڈ نام لے کر جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ دی۔
جماعت المسلمین کا نام رکھا تو آپ نے نادانی میں ہے، لیکن اب قرآن و حدیث کا سہارا لے کر اس کو (Justify) کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں وہ وہ تاویلیں کرتے ہیں کہ مرزا قادیان کو بھی باوجود اس کی کمال تاویل بازی کے مات کردیتے ہیں اور آیات و احادیث کے غلط ترجمے کرتے ہیں۔ عبارتوں کا مطلب بگاڑتے ہیں۔ غرض یہ کہ اپنی جماعت المسلمین کو بچانے کے لئے الٹے سیدھے استدلال کو دیکھ کر بسوں اور گاڑیوں مین فولاد کا کشتہ بیچنے والوں کا طرز استدلال یاد آجاتا ہے کہ بیچنا تو ہوتا ہے ان کو اپنا کشتہ فولاد، لیکن پڑھتے ہیں آیت: وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ[57:الحدید:25] تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ان کا کشتہ فولاد اللہ تعالیٰ کا تیار کیا ہوا ہے۔ اور اس کا نسخہ قرآن مجید میں موجود ہے اور اس کشتے میں ان کی تمام بیماریوں کا علاج ہے۔ مسعود صاحب! آپ بھی اپنی جماعت المسلمین کا تاثر کچھ اسی قسم کا دیتے ہیں کہ جیسے یہ جماعت خود اللہ نے بنائی ہے، اللہ نے ہی اس کا نام رکھا ہے اور اللہ نے ی مسعود بی ۔ ایس سی صاحب کو اس کا امیر مبعوث کیا ہے۔ کیوں کہ ایک مسعود صاحب کی ذات ہی دنیا میں ایسی رہ گئی تھی جو زہن پرستی سے محفوظ تھی، باقی ساری دنیا ذہن پرست ہوگئی تھی۔ اس لیے اب جماعت المسلمین ہی دنیا میں ایک ایسی جماتع ہے جو ضلالت کے سمندر سفینہ نجات ہے جو اس میں سوا ہوگا گمراہی سے بچ جائے گا ورنہ گمراہی کے سمند میں غرق ہوجائے گا۔
مسعود صاحب! اپنی جماعت المسلمین کے دفاع کے لیے جو کچھ جائز، ناجائز آپ کرسکتے تھے آپ نے کیا، لیکن بات وہی رہی کہ باطل خواہ کتنی بھی ملمع سازی کر لے باطل ہی رہتا ہے ۔ جھوٹ کتنا بھی سچا بنے جھوٹ ہی رہتا ہے۔ آپ کی جماعت المسلمین 1385ھ میں بنی ہے، پہلے نہیں تھی حالانکہ اسلام اور مسلمین پہلے سے چلے آرہے ہیں۔ اگر آپ کی جماعت المسلمین اصلی ہوتی، نقلی نہ ہوتی تو آپ کو 1385ھ میں اس کی بنیاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس جماعت المسلمین کی بنیاد آپ نے 1385ھ میں رکھی ہے وہ ایک نیا فرقہ ہے اور نیا فرقہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
سعود صاحب سب کو معلوم ہے کہ آپ نے جماعت المسلمین اب بنائی ہے اور یہ بالکل جعلی ہے۔ یہ وہ نہیں جو"خر القرون" میں تھی لیکن آپ کہتے ہیں یہ جماعت المسلمین وہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں مسعود صاحب! آپ کی یہ جماعت المسلمین وہ کیسے ہوسکتی ہے۔یہ تو ہمارے سامنے بنی ہے۔ آپ کہتے ہیں نام تو وہی ہے 'مسعود صاحب! آپ کا اور آپ کی جماعت المسلمین کا حال اس سید کا ہے جو بیسویں صدی میں لوگوں کے سامنے سیدبنا تھا۔ کسی نے اس پر دھوکا دہی کا مقدمہ دائر کر دیا جس میں وہ ماخوذ ہوگیا۔ اس نے اپنی صفائی میں گواہ پیش کیا۔ گواہ نے گواہی دی کہ یہ سید ہے کیوں کہ ہمارے سامنے بنا ہے۔ عدالت نے کہا جواب سید بنا ہو سید کیسے ہوسکتاہے۔ سید تو وہ ہوتا ہے جو سیدوں کی اولاد ہو اور نسلاً بعد نسلاً چلا آرہا ہو۔ یہ سید کیسا؟ سو یہی حال آپ کا ہے اور آپ کی جماعت کا۔ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھی تو آپ نے سمند ر کے کنارے کراچی میں، اور حوالے دیتے ہیں بخاری و مسلم کے کہ یہ وہی جماعت ہے جو خیر القرون میں تھی۔ مسعود صاحب! یہ جماعت وہ تو تب ہوتی جب یہ نسلاً بعد نسل مسلسل چلی آرہی ہوتی ۔ جب اس کی بنیاد ہی 1385ھ میں رکھی گئی ہے تو یہ وہ کیسے ہوسکتی ہے؟
مسعود صاحب! آپ نے" جماعت المسلمین" کی بنیاد رکھ کر "مسلم" نام کا پمفلٹ نکال کر یہ ثابت کیا ہے کہ آج تک(ھُوَ سَمَّا کُم المُسلِمِینَ) کا مطلب سمجھنے والا کوئی نہیں ہوا۔ سلف سے خلف تک سب فرقہ پرست ہی تھے جنھوں نے فرقہ وارانہ نام رکھے۔ جماعت المسلمین کی بنیاد نہ رکھی۔کچھ مقلدبن گئے، کچھ اہل حدیث۔۔ وہ تقلید کرکے گمراہ ہوگئے، یہ اہل حدیث نام رکھ کر تباہ ہوگئے۔ جب مسلم کوئی نہ رہا تو مسعود بے چارے کو از سر نو
1385ھ میں جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنا پڑی۔
مسعود صاحب! مسعود عثمانی کا حال بھی آ پ جیسا ہی ہے۔ وہ بھی آپ کا بھائی ہے ۔ وہ کہتا ہے توحید آج تک میرے سوا کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ توحیدخالص کا نسخہ اب بیسویں صدی میں مجھے ہی ملا ہے۔پہلے سب مشرک ہوگئے۔ آپ کو "مسلمینی" ڈس گئی، اس کو "توحید" لڑگئی۔ آپ دونوں نے سلف و خلف کو مشرک ، گمراہ اور فرقہ پرست قرار دیا ۔ اس طرح آپ دونوں مسعود ین شقیقین بن گئے۔ یہ ساری مار آپ پر اس لیے پڑی کہ آپ سلف کی راہ سے ہٹ گئے اور نئی راہ نکال لی۔ اگر آپ دونوں سلف کی لائن میں رہتے تو یوں شیطان کے ہتھے نہ چڑھتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((اِنَّ الشَّیطٰنَ ذِئب الاِنسَان کَذِئبُ الغَنَم یَأ خُذُ الشاذَّۃَ وَالقَاصیِۃَ وَالنَّاحیَۃَ وَاِیَّاکُم وَالشعَابَ وَعَلیِکُم بِالجَمَاعَۃِ وَالعَامَّۃِ))[مشکوۃ، کتاب الایمان باب العتصام بالکتب والسنۃ، الفصل الثالث ، رقم:184۔۔ مسند أحمد ،5/243 رقم:21602 ایضاً 5/233، رقم:21524)
شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کے لیے بیڑیا ہوتا ہے جو علیحدہ رہنے والی بکری کا شکار کرلیتا ہے، اسی طرح شیطان ان لوگوں کا شکار کرلیتا ہے جو سلف کی لائن سے نکل جاتے ہیں اور بلآ خر((مَن شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ))[مشکوۃ، کتاب الایمان ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، رقم:173۔ ۔ ۔جامع ترمذی ابواب الفتن،باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ، ص1869، رقم:2167]کے تحت دوذخ میں چلے جاتے ہیں۔
مسعود صاحب! سلف کی لائن میں رہنا بہت ضروری ہے۔ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو بھی یہی تاکید کی ہے اور ہمیں بھی ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ، فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ[6:النعام:90] اے نبیﷺ! پہلے نبیوں کی لائن میں رہیے۔۔۔۔ صحابہ کو حکم ہے: (فَاتَّبِعُونِی) میرے نبی ﷺ کی لائن میں رہو۔ پھر فرمایا: وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ[31:لقمان:15] میری راہ پر چلنے والے پیشروؤں کی لائن میں رہو۔ نئی لائن نہ بناؤ۔ گارنٹی دی ہے کہ میری راہ پر چلنے والے اہل حق لازماًہمیشہ رہیں گے تاکہ لائن نہ ٹوٹے ۔ اسی لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم اہل حق کی لائن میں رہو۔ ان کی لائن سے باہر نہ نکلو۔ اگر تم اہل حق کی لائن سے باہر نکلو گے تو شیطان فوراً تمھارا شکار کرلےگا۔ شیطان شکار کرتا ہی اس وقت ہے جب آدمی سلف کی لائن سے نکل کر نئی راہ نکالتا ہے۔
مسعود صاحب! دل آپ کا مانتا ہے کہ اہل حدیث ہی اہل حق ہیں ۔ ان کے سوا کوئی اہل حق نہیں، لیکن اب جماعت المسلمین آپ کے لیے فتنہ بن گئی ہے۔ اب آپ اہل حدیث کی مخالفت میں ہی اپنی جماعت کی خیر سمھجتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اگر اہل حدیث" اہل حق" نہیں تو کیا مقلدین اہل حق ہیں یا مرزائی اور اہل قرآن اہل حق ہیں، یا شیعہ مومنین اہل حق ہیں؟ آخر آپ کی جماعت المسلمین کے وجود میں آنے سے پہلے کون اہل حق تھے۔ اگر وہ اہل حدیث ہی تھے تو وہ آپ کی جماعت المسلمین کے وجود میں آنے کے بعد فرقہ پرست اور گمراہ کیسے ہوگئے ۔ اگر وہ اہل حدیث نہیں تھے تو وہ کون تھے؟ اگر آپ کہیں کہ میں نے جماعت المسلمین کی بنیاد ہی اس وقت رکھی تھی جب کہ کوئی اہل حق نہ تھا۔ چاروں طرف گمراہی ہی گمراہی تھی، گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا تو میں کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا' کیوں کہ امت محمدیہﷺ پر ایسا دور کبھی آیا ہے نہ آئے گا کہ اہل حق معدوم ہوں۔ آپ کی جماعت المسلمین کے باطل ہونے کی بڑی دلیل ہی یہ ہے کہ اس کا پچھلی صدیوں میں کوئی نام ونشان نہیں تھا۔
یہ کیسے ہوسکتا کہ اتنی صدیاں امت محمدیہ اندھیرے میں رہے اور اب بیسویں صدی میں آپ روشنی کا میناربن کر نمودار ہوں۔ قرآن پکار پکار کر کہہ رہاہے اور قرآن ہر زمانے کے لیے ہے: مَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا[73:المزمل:19] وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ[31:لقمان:15]
میری راہ بھی موجود ہے' مٹی نہیں۔ اس کے راہی بھی موجود ہیں۔ ان کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔جو کوئی چاہے اللہ کی راہ اختیار کرلے ۔ اگر اہل حق کوئی نہ ہو تو اللہ کی راہ اختیار ہی نہیں کی جاکتی ۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( لاَتَذَالُ طَائِفَۃََ مَن اُمَّتِی۔۔۔ الخ))[بخاری، کتاب الاعتصام باب قول النبی ص609، رقم:7311] اہل حق ہمیشہ رہیں گے۔ مسعود صاحب! آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ جماعت المسلمین سے پہلے اہل حق نہیں تھے؟ جب آپ مانتے ہیں کہ دین قرآن و حدیث کا نام ہے تو پھر آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ آپ کے وجود میں آنے سے پہلے حاملین قرآن و حدیث کون تھے۔ قرآن و حدیث کن کا مذہب تھا۔ کیا موجودہ فرقوں میں سوائے اہل حدیث کے آپ کو کوئی ایسا فرق نظر آتا ہے جس کا مذہب صرف قرآن و حدیث ہو۔ جب نہیں اور یقیناً نہیں تو آپ کیسے کہتے ہیں کہ اہل حدیث"اہل حق" نہیں؟
مسعود صاحب! یہ آپ کو کتنا مغالطہ ہے کہ مسلم کے سوا کوئی اور نام نہیں ہوسکتا ۔ نام صرف ایک یعنی"مسلم" ہی ہے۔ اس مغالطے کی وجہ سے ہی آپ نے جماعت المسلمین بنائی ہے اور اس مغالطے کی وجہ سے ہی آپ اہل حدیث کو گمراہ بتاتے ہیں۔ آپ کا یہ مغالطہ صرف لا علمی کی وجہ سے ہے، ورنہ قرآن و حدیث کی رو سے کوئی دوسرا اوصفی اور امتیازی نام رکھنا منع نہیں۔ قرآن وحدیث سے آپ ایک دلیل ایسی پیش نہیں کرسکتے جو آپ کے اس مذہب کو ثابت کرے۔ آپ نے اپنے رسالے"مسلم" میں بہت سی قرآنی آیات لکھی ہیں جن میں "مسلم" کا لفظ ہے۔ آپ اس سے استدلال یہ کرتے ہیں کہ نام صرف ایک یعنی مسلم ہی ہے اور کوئی دوسرا نام نہیں، حال آنکہ ان آیات سے ہر گز آپ کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔ گفتگو اس میں نہیں کہ مسلم نام ہے یا نہیں۔ گفتگو اس میں ہے کہ مسلم کے علاوہ کوئی اور نام جائز ہے یا نہیں؟ آپ کوئی ایسی دلیل پیش کریں جس سے یہ ثابت ہو کہ مسلم کے علاوہ کوئی اور نام جائز نہیں اور ہ آپ قطعاً نہیں کرسکتے۔
اگر آپ کہیں کہ قرآن کہتا ہے(وَلَا تَفَرَّقُوا) فرقے فرے نہ بنو۔۔ مختلف ناموں سے فرقے بنتے ہیں۔ میں کہتا ہوں مسعود صاحب! یہ استدلال بھی آپ کا غلط ہے۔ فرقے ناموں سے نہیں بنتے، فرقے مذہب کی تبدیلی سے بنتے ہیں۔ اگر مذہب ایک ہو اور تعارفی نام مختلف بھی ہوں تو کوئی فرقہ پرستی نہیں۔ وہ ایک ہی فرقہ ہے۔ ایک چیز کے کئی نام ہوسکتے ہیں۔ اگر مذہب صحیح ہو تو مذہب کی مناسبت سے کئی نام ہوسکتے ہیں۔ ناموں کو اتنی اہمیت نہیں۔ اصل اہمیت مذہب اور دین کو ہے۔ اگر مذہب غلط ہو تو نام خواہ کتنا اچھا ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ آ پ اپنا نام مسلم رکھتے ہیں، مسلم کتنا اچھا نام ہے' لیکن چونکہ آپ کا مذہب غلط ہے اس لیے آپ کو اس نام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح شیعہ مؤمنین کہلاتے ہیں' مومنین کتنا پیارا نام ہے' لیکن جب مذہب صحیح نہیں تو مومن نام کا ان کو کوئی فائدہ نہیں۔
نام پر اصرار کرنا اور مذہب کو نہ دیکھنا یہ یہود و نصاریٰ کا شیوہ ہے۔ یہود ونصاریٰ کہتے تھے۔كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا[2:البقرہ:135] یہود و نصاریٰ بن جاؤ ہدایت والے ہو جاؤ گے۔ وہ یہودی و نصاریٰ نام رکھنے کو ہی ہدایت سمجھتےتھے ' اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا[2:البقرہ:135] دین ابراہیم کو اپناؤ'ناموں پر نہ مرو۔ یہود نصاریٰ کہتے تھے: لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ[2:البقرہ:111] جنت مٰں صرف یہود و نصاریٰ ہی جائیں گے' اور کوئی نہیں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا: بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّـهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ۔۔۔۔الخ[2:البقرہ:112] کیوں نہ جائے گا جو بھی اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے آگے جھکادے وہی جنت میں جائے گا۔۔۔۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ[2:البقرہ:62] جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کسی خاص نام کے گروہ کے ساتھ خاص نہیں۔ جنت میں ہر وہ شخص اور گروہ جائے گا جس کا ایمان اور عمل درست ہوگا، خواہ وہ امت محمدیہ کے مومنین ہوں یا پہلی امتوں مثلاً یہود ونصاریٰ اور صابئین کے نیک لوگ ہوں۔
مسعود صاحب! قرآن پاک کی آیت واضح طور پر آپ کے مذہب کو جھوٹا ثابت کرتی ہے۔ اس آیت میں واضح ہے کہ نام بے شک مختلف بھی ہوں لیکن مذہب ایک ہونا چاہیے۔ دین اسلام ۔ مسعود صاحب ! آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک کتنے نیک لوگ گزرے ہیں۔ وہ مسلمین بھی تھے ' لیکن اپنی امتوں کے لحاظ سے انکے نام اور بھی تھے۔ ہر نبی کی امت مسلمین ہوتے ہوئے مختلف امتیازی ناموں سے مشہور رہی ہے۔ جیسے یہود ونصاریٰ' اہل کتاب'صابی' قوم تبع وغیرہ ۔ لہٰذا آپ کا یہ کہنا کہ نام صرف ایک یعنی مسلم ہے اور کوئی نہیں ایجاد بندہ ہے اور یہ عقیدہ گندہ ہے۔ اس میں یہود یا نہ رنگ ہے، اسلامی رنگ نہیں۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ صرف یہی نہیں کہ یہ نظر یہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات آج تک کسی عالم نے بھی نہیں کہی کہ مسلم کے سوا کوئی و صفی نام جائز نہیں۔ خواہ وہ اسلام کا معروف وممیز ہی کیوں نہ ہو۔یہ صرف آپ کے ذہن کی پیداوار ہے۔
مسعود صاحب! یہ آپ کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے قلابازیاں خود کھاتے ہیں ' غلط فتوے اوروں پر لگاتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کا حال غلام محمد پرویز والا نہ ہو۔ وہ بھی آپ کی طرح سے دفتری آدمی تھا۔ ساری عمر تو کی کلرکی۔ جب ریٹائر ہوگیا اسلام کو طلوع کرنے لگا ۔ تھا بے علم۔ فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا کا مصداق ہو گیا۔ آپ بھی ساری عمر تو رہے بی ۔ ایس سی اور اب بنا لی جماعت المسلمین اور کرنے لگے تفسیر قرآن ۔ اب اللہ ہی خیر کرے۔
آپ کا رسالہ" مسلم" بتاتا ہے کہ آپ کومغالطہ یہ ہے کہ مسلم نام"علم" ہے۔ اس لیے یہ بد لانہیں جاسکتا ہے۔ میں کہتا ہوں مسلم علم نہیں، یہ ایک خطاب ہے ، جو اللہ کی طرف سے اپنے فرمان برداروں کو دیا جاتا ہے۔ لیکن مسعود صاحب ! اگر آپ کو سمجھانے کے لیے تھوڑیدیر کے لیے یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ مسلم"علم" ہے تو پھر کیا علم کے بعد کوئی وصفی نام رکھا نہیں جاسکتا۔؟ آخر یہ کس دین کا مسئلہ ہے؟ مسعود صاحب! جو بھی کوئی علم کے بعد وصفی نام رکھتا ہے وہ اپنے علم کو نہیں بدلتا ، علم وہی رہتا ہے۔ القاب وغیرہ اور رکھ لیتا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اہل حدیث ہوتا ہے وہ مسلم بھی ہوتا ہے اور اہل حدیث بھی۔ بقول آپ کے مسمل اس کا اصل نام ہے، یعنی علم ہے، اہل حدیث کا وصفی نام ہے یعنی لقب ہے اور ایک ذات کے مختلف اوصاف کے لحاظ سے کئی کئی نام ہوسکتے ہیں۔اللہ کے کتنے نام ہیں؟ رسول اللہ ﷺ کے کتنے نام ہیں؟ قرآن مجید کے کتنے نام ہیں؟ اسلام کے کتنے نام ہیں؟ ہر شخص کے علم کے علاوہ کئی کئی نام ہوتے ہیں،بلکہ بعض دفعہ تو غیر علمی نام اتنا مشہور ہو جاتا کہ علم کا پتا ہی نہیں رہتا۔ حضرت ابوہریرہؓ کا کیا نام تھا؟ یقین کے ساتھ کسی کو معلوم نہیں، وہ اپنی کنیت سے ہی مشہور ہیں۔
مسعود صاحب! حقیقت یہ ہے کہ مسلم کوئی علم نہیں۔ یہ بھی مومن کی طرح ایک وصفی نام ہے جس کے معنی ہیں فرماں برداری کرنے والا مطیع ومنقاد۔ قرآن مجید اور وصفی ناموں کی طرح مسلم کو بھی ایک وصفی نام قرار دیتا ہے۔ یہ کوئی علم نہیں۔ چنانچہ ملاحظہ ہو اِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ۔۔۔۔ الخ[33:الاحزاب:35] اگر مسلم علم ہوتا تو اندازبیاں یہ نہ ہوتا کہ مسلم معطوف علیہ اور مومن اور صادق وغیرہ معطوف ۔ اللہ نےجب مسلمین پر باقی وصفی نامون کا عطف کیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم علم نہیں۔ بلکہ ایک وصفی نام ہے۔ جیسا کہ مؤمن وصادق نام ہیں۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ جیسے اپنے آپ کو مومن وصادق کہنا اور جماعت المومنین اور جماعت الصادقین بنان جائز نہیں اسی طرح اپنے آپ کو مسلم کہنا اور جماعت المسلمین بنانا جائز نہیں کیوں کہ یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننے والی بات ہے اور شریعت ایسے نام رکھنے سے منع کرتی ہے جس میں اپنی مدح کا پہلو نکلتا ہو، یا اپنی پاک بازی اور بڑائی کا اظہار ہو یا اپنے کسی عمل کا سراہنا پایا جاتا ہو۔ اس لیے اپنے آپ کو "المصلی" (نمازی)"الصائم"(روزے دار) "الحاج"(حاجی) کہلوانا جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ مسلم یا مومن نہیں کہلواتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جماعت المسلمین نام کی کسی جماعت کی بنیاد نہیں رکھی۔ چونکہ وہ مسلم تھے اس لیے خود بخود جماعت المسلمین تھے۔ ان کو اجماعت المسلمین نام رکھنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ بیماری پہلے معتزلہ کو تھی کہ وہ اپنے آپ کو اہل التوحید واہل العدل کہتے تھے۔ یا شیعہ کو تھی کہ وہ مومنین بنتےتھے۔ اب یہ بیماری آپ کو لگ گئی ہے کہ آپ مسلمین کہلاتے ہیں، حال آنکہ جس طرح جماعت المؤمنن واہل حق کہلاتا جائز نہیں۔ اس طرح جماعت المسلمین کہلانا بھی جائز نہیں۔
1-مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ جب ہم مسلم ہیں تو مسلم کیوں نہ کہلائیں، میں پوچھتا ہوں کہ آپ مومن ہیں یا نہیں؟ اگر آپ مومن نہیں تو پھر آپ مسلم بھی نہیں اور اگر آپ مومن ہیں تو پھر آپ مومن کیوں نہیں کہلاتے ؟ اس طرح آپ صادق ہیں تو صادق کیوں نہیں کہلاتے۔؟ جماعت المسلمین کی بجائے جماعت الصادقین کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے۔؟ مسعود صاحب! یہ ضروری نہیں کہ آدمی جو ہو وہ کہلائے بھی۔ صحابہؓ جن کو رسول اللہ ﷺ نے جنتی کہا تھا، وہ جنتی ہونے کے باوجود جنتی نہ کہلاتے تھے۔
2- اگر آ پ کہیں کہ مسلمین نام اللہ نے رکھا ہے، ہم مسلمین کیوں نہ کہلائیں، میں کہتا ہوں کہ اللہ کے مسلم نام رکھنے کے یہ معنی نہیں۔ کہ مسلم ہمارا ذاتی نام ہے، اس لیے ہم مسلمین کہلاتے پھریں۔ مسلم نام رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنے فرمانبرداروں کا نام مسلمین رکھا ہے، جو اللہ کے فرمانبردار بن جائیں گے اللہ کے نزدیک ان کا یہ نام ہوگا۔ اللہ نے یہ نام اس وقت رکھا تھا جب ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ہم نے کوئی عمل بھی نہیں کیا تھا۔ اگر یہ نام ہمارے کہلانے کے لیے ہوتا تو اللہ ہماری پیدائش سے پہلے یہ نام نہ رکھتا۔ جب تک عملاً فرمان برداری نہ ہو تو مسلم کیسا اور جب مسلم نہ ہو تو مسلم نام کیسا؟ مسعود صاحب! آ پ ہی بتائیں کہ فرماں برداری سے پہلے آدمی مسلم کہلاسکتا ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا ہماری پیدائش سے پہلے کا رکھا ہوا نام ہمارے مسلم کہلانے کی دلیل کیسے ہو سکتا ہے؟ ذاتی نام تو ذات کے وجود میں آنے سے پہلے بھی رکھا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی وصف سے متصف تو کوئی ذات اس وقت ہو سکتی ہے جب وہ وصف اس ذات میں موجود ہو۔ مسلم ایک وصفی نام ہے جس کے معنی ہیں فرمانبردار۔ جب کوئی انسان فرماں برداری کے وصف سے موصوف ہوگا تو وہ مسلم نام کا مستحق ہوگا۔ پہلے کیسے مسلم کہلاسکتا ہے۔؟
3- اگر آپ کہیں ہم مسلمین اس لیے کہلاتے ہیں کہ اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے ، میں پوچھتا ہوں اللہ نے سب کا نام مسلمین رکھا ہے، یا خاص خاص کا؟ اگر سب کا نام مسلمین رکھا ہے تو پھر دنیا میں سب مسلمین کیوں نہیں؟ اتنے کافرکیوں ہیں؟ کیا اللہ نے کافروں کے نام بھی مسلمین کھا ہے؟ اگر اللہ نے سب کا نام مسلمین نہیں رکھا، خاص خاص کا نام مسلمین رکھا ہے تو پھر وہ خاص کون ہیں؟ کیا وہ آپ کی جماعت المسلمین ہے یا اور بھی ہیں؟ اگر اور بھی ہیں تو کیا وہ اہل حق نہیں؟ اگر اور نہیں بلکہ صرف آپ کی جماعت المسلمین ہے تو پھر اللہ کی تیار کردہ مسلمین کی وہ لسٹ دکھائیں تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ اس میں آپ کا نام ھی ہے یا نہیں؟ اگر آپ مسلمین کی وہ لسٹ نہ دکھا سکے اور آپ کبھی بھی نہیں دکھا سکتے تو آپ تسلیم کریں کہ اللہ نے مسلم نام ضرور رکھا ہے لیکن یہ پتا نہیں کس کس کا؟ ۔۔۔۔ مسعود صاحب! جب آپ کو پتا ہی نہیں کہ اللہ نے کس کس کا نام مسلم رکھا ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں۔
4- مسعود صاحب! آ پ جو کہتے ہیں اللہ نے(سَمَّا کُمُ المُسلِمِینَ) [22:الحج:78) کہا ہے، اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اس( سَمَّاکُمُ) میں ضمیر مخاطب"کُمُ" سے کون لوگ مراد ہیں؟ کیا صرف صحابہؓ یا بعد والے بھی؟ اگر بعد والےبھی ہیں تو پھر کیا آپ اس "کُمُ" میں شامل ہیں یا نہیں؟ مسعود صاحب! جب تک آپ یہ ثابت نہ کرسکیں کہ اس"کُمُ" میں آپ بھی شامل ہیں، آپ (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) سے استدلال کیسے کر سکتے ہیں؟
5- مسعود صاحب! آپ جو کہتے ہیں کہ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہا ہے اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں، اسی لیے ہم نے جماعت المسلمین بنائی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ فقط اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے کوئی مسلم کہلا سکتا ہے یا اللہ کے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے کے بعد بھی مسلم کہلانے کے لیے مسلم بننے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ کہہ کہ فقط اللہ کے(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے ہر آدمی مسلم کہلاسکتا ہے، میں کہتا ہوں پھر عمل کرنے کی کیا ضرورت ؟مسلم تو پھر ہر آدمی اس وقت سے ہی ہے جب سے اللہ نے یہ نام رکھا ہے۔ اگر آپ کہیں کہ فقط اللہ کے(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے کوئی آدمی مسلم نہیں کہلاسکتا، مسلم کہلانے کے لیے تو مسلم بننے کی ضرورت ہے ، میں کہتا ہوں پھر آپ مسلمین کہلانے کے لیے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) سے استدلال کیوں کرتے ہیں؟ پھر مسلم کہلانے ک دلیل مسلم ہونا ہے، نہ کہ اللہ کا (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہنا۔ اس لیے آپ پہلے اپناہونا ثابت کریں، پھر مسلمین کہلائیں اور اپنا مسلم ہونا آپ ثابت نہیں کرسکتے ۔ اس لیے آپ کا مسلمکہلانا اور جماعت المسلمین بنانا غلط ہے۔
6- مسعود صاحب آپ جو مسلمین کہلاتے ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہا ہے، میں پوچھتا ہوں اللہ کے(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کہہ دینے سے کیا ہر ایک کو مسلم کہلانے کا حق مل جاتا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کے تحت ہر ایک کو مسلم کہلانےکا حق ہے پھر تو ہر کوئی مسلم کہلاسکتا ہے، خواہ مرزائی ہو یا مشرک۔ اگرا ٓپ کہیں کہ ہر کوئی مسلم نہیں کہلا سکتا، مسلم صرف وہی کہلا سکتا ہے جو مسلم ہو۔ میں کہتا ہوں پھر(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) سے مسلم کہلانے پر آپ کا استدلال کرنا بے کار ہے۔(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کے تحت پھر یا تو ہر مشرک اور مرزائی بھی مسلم کہلا سکتا ہے ا پھر اس کے تحت کوئی بھی مسلم نہیں کہلا سکتا؟ مسلم صرف وہی کہلا سکتا ہے جو مسلم ہو اور یہ پتا نہیں کہ مسلم کون ہے؟ اللہ ہی سب کو بہتر جانتا ہے اس لیے آپ کا (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کے تحت مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا باطل ہے۔
7- مسعود صاحب! جب یہ طے ہے کہ اللہ کی فرماں برداری کے بغیر کوئی بھی مسلم نہیں ہو سکتا کیوں کہ مسلم کا معنی ہی فرماں برداری کرنے والا ہے، جو فرماں برداری نہ کرے وہ مسلم نہیں تو آدمی زندگی میں مسلم کیسے کہلاسکتا ہے؟ کیوں کہ فرماں برداری کا عمل موت تک جاری رہتا ہے اور جب تک فرماں برداری مکمل نہ ہو اللہ کے نزدیک مسلم نہیں بن سکتا، لہٰذا آپ کا مسلمین کہلانا اور جماعت المسلمین بنانا غلط ہے۔
8- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے ، اس لیے ہم مسلمین کہلاتے ہیں، میں کہتا ہوں مسلمین نام اللہ نے ہر ایک کا نہیں رکھا۔ مسلمین نام اللہ نے ہی رکھا ہے جو اللہ کے نزدیک مسلمین بننے والے ہیں اور اللہ کے نزدیک مسلم وہی بنتا ہے جس کا خاتمہ اسلام پر ہو۔کیوں کہ اپنے خاتمے کا کسی کو پتا نہیں۔ اس لیے زندگی میں مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا ایک چھچھوری حرکت ہے۔ اپنے انجام ے ڈرنے والا کوئی دانا بینا ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔ مسعود صاحب! آپ نے جماعت المسلمین تو بنالی اس وجہ سے کہ اللہ نے ہمارا نام مسلمین رکھا ہے۔ لیکن یہ کبھی غور نہیں کیا کہ جب اللہ نے ہمارا یہ نام رکھا ہے تو اس نام سے اللہ ہم سے خطاب کیوں نہیں کرتا؟ سارےقرآ ن مجید مین اللہ نے ایک دفعہ بھی ہمیں اس نام سے نہیں پکارا۔ بلکہ جہاں بھی پکارا ہے (یٰایُّھَاالمُومِنُونَ) ۔۔۔ (یٰاَیُّھَاالَّذِیِنَ أمَنُوا)۔۔۔(یٰاعِبَادِی) سے پکارا ہے تو ثابت ہوا کہ مسلم نام ضررور ہے ، لیکن زندگی میں زندہ رہتے ہوئے کوئی اس نام کا مستحق نہیں، کیوں کہ فرماں برداری مکمل ہونے سے پہلے یہ نام رکھا ہی نہیں جاسکتا، کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یٰایُّھَاالمُسلِمُونَ سے خطاب نہیں کرتا۔
10- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ جب ہم زندگی میں مسلم نہیں کہلاسکتے تو اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کیوں کہا ہے؟ میں کہتا ہوں (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) ہمیں مسلمان بنانے کے لیے کہا ہے۔ مسلمان کہلانے کے لیے نہیں کہا۔ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) اس لیے کہا ہے کہ ہمیں مسلم بننے کی ترغیب ہوتاکہ ہمیں معلوم ہو کہ مسلمین ایک خطاب ہے جو اللہ اپنے فرمانبرداروں کو دیتا ہے۔ اگر ہم فرمانبردار بنیں گے تو یہ ہمیں ملے گا۔ اللہ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ)اس لیے نہیں کہا کہ ہم فرماں برداری کا کورس پورا کرنے سے پہلے مسلم کہلانے لگ جائیں۔ مسعود صاحب! آپ نے (سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کا منشا و مطلب تو سمجھا نہیں' جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ دی۔ مسلم دنیا مین فرداًً فرداً ہمارا نام نہیں کہ ہم مسلم کہلاتے پھریں۔ مسلمین تو در اصل فرمان برداروں کی اس کلاس کا نام ہے جس میں مسلم بننے کے لیے کلمہ پڑھ کر داخلہ لیا جاتا ہے۔ اس کلاس کا نام تو اللہ نے پہلے سے ہی مسلمین رکھ دیا ہے، لیکن کلمہپڑھ کر کوئی داخلہ لینے والا اس وقت تک مسلم نہیں کہلاسکتا جب تک وہ اسلام کا امتحان پاس کرکے اللہ سے مسلم ہونے کی سند نہ حاصل کرلے۔
ایم ۔ اے کی کلاس کو تو ایم ۔ اے پہلے ہی کہہ دیتے ہیں' لیکن ایم اے کہلانے اور اپنے نام کے ساتھ ایم اے لکھنے کا مجاز کوئی اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ ایم اے پاس کر کے ایم اے کی ڈگری لے لے۔ جب تک وہ ایم اے کی ڈگری نہ لے لے، ایم اے نہیں خہلاسکتا۔ اسی طرح جب تک وہ مسلم ہونے کی ڈگری نہ لےلے، مسلم نہیں خہلاسکتا۔ جو ایسا کرے وہ احمق ہے۔ فرعون نے یہی حماقت توکی تھی کہ اپنی موت کے وقت کلمہ پڑھ کر(وَاَنَامِنَ المُسلمِینَ)[10:یونس:90] کہہ دیا۔ ڈگری نہیں لی، فرماں برداری کا کورس پورا نہ کیا۔ اللہ نے (آلاٰن) کہہ کر ڈانٹ دیا کہ داخلے کا اب وقت نہیں۔ زندگی میں تو مسلم بنا نہیں۔ اب تیرے(وَاَنَامنَ المُسلِمِینَ) کہنے کا کیا تک؟
مسعود صاحب! مسلم ہونے کی ڈگری زندگی رہتے ہوئے نہیں ملتی' کیوں کہ زندہ رہتے ہوئے فرماں برداری کا کورس ختم نہیں ہوتا' فرماں برداری کا کورس تو موت تک جاری رہتا ہے اس لیے آدمی موت تک مسلم بنتا ہی رہتا ہے۔ موت سے پہلے سالام کی تکمیل نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ موت کے وقت بھی مسلم بننے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے(وَلاَ تَمُوتُنَّ اِلاَّ وَاَنتتُم مُسلِمُونَ)[3:آل عمران:102] یعنی تم پر موت نہ آ۴ے مگر اس حال مین کہ تم مسلم ہو۔۔۔۔ یوسف علیہ السلام نے بھی موت کے وقت مسلم ہونے کی دعاء کی( تَوَفَّنِی مُسلِما) [12:یوسف:101] اللہ مجھے مسلم ہونے کی حالت مین موت دینا، یعنی مسلمبنا کر مارنا، عام مسلمانوں کے لیے بھی یہ دعا ہے۔(رَبَّنَا اَفرغ عَلَینَا صَبراََ وَّ تَوفَّنَا مُسلِمِینَ)[7:الاعراف:126] چوں کہ موت سے پہلے کوئی آدمی مکمل مسلم نہیں ہوتا اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یٰاَیُّھَاالمُسلم سے خطاب بھی نہیں کرتا۔ ابراہیم علیہ السلام نبی ہیں، اس کے باوجود اللہ حکم دیتا ہے۔(اَسلِم) مسم بن۔ یعنی فرماں برداری کرتا رہ۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا:(اَسلَمتُ لِرَبَّ العَالَمِینَ) [2:البقرہ:131] میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سپرد کردیا ہے، میں فرماں برداری کرتا رہوں گا۔۔۔ نوح علیہ السلام کہتے ہیں:[ اُمِرتُ اَن اَکُونَ منَ المُسلِمِینَ)[27:النمل:90]اگرچہ میں نبی ہوں، لیکن مجھے یہی حکم ملا ہے کہ میں فرماںبرداری کرتا رہوں۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی یہی حکم ہے: (اُمِرتُ اَن اَکُونَ مِنَ المُسلِمینَ) (اُمِرتُ لِاَن اَکُونَ اَوَّلَ المُسلِمِینَ)[39:الزمر:12] (اِنَّی اُمِرتُ اَن اَکُونَ اّوَّلَ مَن اَسلَمَ)[6:انعام:14] جوں ہی اللہ کا حکم آئے سب سے پہلے فرماں برداری تو کر۔
مسعود صاحب اگر آپ کہیں کہ رسول اللہﷺ تو فرماتے ہیں (وَاَنَا اَوَّلُ المُسلمِینَ) میں سب سے پہلے مسلم ہوں، میں کہتا ہوں یہاں مسلم لغوی معنوں میں ہے کہ حکم آنے پر سب سے پہلے"فرماں برداری کرنے والا" میں ہوں۔ اگر اول السلمین کے معنی پہلا مسلم ہو تو پھر(اُمِرتُ اَن اَسلَمَ لِرَبَّ العَالَمِینَ) کہنے کی کیا ضرورت ؟ مسلم تو وہ پہلے ہی تھے۔ اول المسلمین سے مکمل اور اول مسلم ہونا مراد نہیں بلکہ سب سے پہلے فرماں برداری کرنے والا ہے۔ یہی وضاحت ان آیات میں ہے(اُمِرتُ لِاَن اَکُونَ اَوَلَ المُسلِمِینَ)۔۔۔۔ (اِنَّی اُمِرتُ ان اَکُونَ اَوَّلَ مَن اَسلَمَ) اگر رسول اللہ ﷺ اول المسلمین تھے تو پھر(اَوَّل المُسلِمینَ) اور( اَوَّلَ مَن اَسلَمَ) بننے کے کیا معنی؟ مسعود صاحب! جب انبیاء موت تک مسلم ہونے کی دعا کرتے رہے تو آپ کازندگی میں مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا، مسلم کہلانا اور جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا بچکانہ حرکت نہیں تو اور کیا ہے؟ ہم جب میراثیوں کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمین کہتے ہیں تو ہم ہنستے تھے ۔آپ بی ایس سی ہو کر بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ آخر آ پ بی۔ ایس سی ہی نکلے، عالم تو نہ نکلے۔مسعود صاحب! اگر آپ عالم ہوتے تو کبھی جماعت المسلمین بنانے کی غلطی نہ کرتے۔ آپ کو اس سے بھی خیال نہ آیا کہ آج تک کسی نے سلف سے لے کر خلف تک مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے کا شوق نہیں کیا، اس بے عقلی کا شوق مین کیوں کروں؟
11- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ جب ہم زندگی مین مسلمنہیں کہلاسکتے تو پھر ہم ایک دوسرے کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں دوسرے کو مسلم کہنا اور بات ہے اور خود مسلم کہلانا یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بنانا اور بات ہے۔ ایم اے کے طالب علموں کا تعارف تو ایم اے کے نام سے ہی کرایا جاتا ہے، لیکن ایم اے کا کوئی طالب علم خود کو ایم اے کہہ یا لکھ نہیں سکتا۔ دوسرا جو مسلم کہتا ہے وہ عرف کے اعتبار سے کہتا ہے، مسلمانوں والے نام اور کام دیکھ کر اپنے خیال کی بنا پر کہتا ہے۔ ا س لیے دوسرے کو مسلمان کہنے والا گناہ گار نہیں، کیوں کہ وہ کسی کے باطن اور اس کے خاتمے سے باخبر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اس کا دوسرے کو مسلم کہنا اپنے حسن ظن کی بنا پر اور مجازاً ہوتا ہے اور مجاز حقیقت نہیں ہوتا۔ برعکس اس کے جو مسلم کہلاتا ہے یا جماعت المسلمین نام کی جماعت بناتا ہے وہ مسلم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ گناہ گار ہے کیوں کہ مسلم ہونے کا دعویٰ کرنا گویا اپنےا نجام سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرنا ہے کہ میرا خاتمہ اسلام پر ہوگا۔ حال آنکہ کسی کو اپنے خاتمے کا پا نہیں۔ اس لیے قرآن مجید(فَلَاتُزکُّوا اَنفُسَکُم ھُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی)[53:نجم:32] کے تحت ایسے ناموں اور دعاوی سے منع کرتا ہے۔
12- مسعود صاحب! اگر آپ کہیں کہ اپنے آپ کو مسلم کہنا تو قرآن مجید سے ثابت ہے، میں کہتا ہوں نوہ بطور دعویٰ اور نام کے نہیں، وہ بطور ا اعتراف و تعارف اور اقرارو اظہار کے ہے۔ جیسے ہم اشھد کہہ کر کلمہ پڑھتے ہیں۔۔۔ یہ مستقل طور پر مسلم کہلانے اورجماعت المسلمین بنانے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کبھی کبھار تحدیث نعمت کے طور پر یا اظہار عبودیت یا کفار سے امیتاز کے لیے اپنےا ٓپ کو مسلم ومومن کہنا اور ظاہر کرنا جائز ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں: (رَبَّنَا أمَنَّا) ۔۔( وَنَحنُ لہُ مُسلِمُونََ) ۔۔۔ (اِشھَدُوا باَنَّا مُسلِمُونَ) [3:آل عمران:64]۔۔۔ (اِنَّیِ مِنَ المُسلِمِینَ) [41:فصلت:33] کی قسم کے الفاظ آتے ہیں۔ سب اسی طور پر ہیں۔ ان سے مسلم کہلانے اور جماعت المسلمین بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں۔
مسعود صاحب! آپ بڑے دعوے سے اپنےا ٓپ کو مسلم کہتے ہیں، اسی لیے آپ نے جماعت المسلمین بنائی۔ میں پوچھتا ہوں آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ مسلم ہیں۔ آپ اپنے مسلم کہلانے کی سند تو دکھائیں۔ اگر آپ کہیں کہ (ھُو سَمَّا کُمُ المُسلِمِینَ) ہمارے مسلم کہلانے کی سند ہے ۔ میں کہتا ہوں(سَمَّا کُمَ المُسلِمِینَ) تو مسلم نام کی سند ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کا فرماں بردار کا نام مسلم ہے۔(سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ) کسی کے مسلم کہلانے کی سند نہیں ہوسکتا اگر کسی کے مسلم کہلانے کی یہی سند ہو تو اس کا پیش کر کے تو ہر کوئی مشرک اور مرزائی مسلم ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔
آپ کی سند تو وہ ہوسکتی ہے جو آپ کے نام کی ہو۔ جب آپ اپنے نام کی "مسلم ہونےکی" سند نہیں دکھا سکتے تو آپ کو مسلم کہلانے کا کیا حق ہے؟
مسعود صاحب! آپ کا یہ استدلال مرزائیوں جیسا ہے کہ دعویٰ خاص دلیل عام، مرزائی دعویٰ تو مرزا قادیان کی نبوت کا کرتے ہیں، دلائل اجرائے نبوت کے دیتے ہیں، اس طرح آپ دعویٰ تو اپنے مسلم ہونے کا کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں(سَمُّا کُمُ المُسلمِینَ) جب کہ(سَمُّا کُمُ المُسلمِینَ) سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ اللہ کے ہاں آپ کا نام بھی مسلم ہے۔ ایسا بھی تو ہوا ہے کہ بڑے بڑے نعت خواں اور امام مسجد ہندو جاسوس نکلے۔
مسعود صاحب! اگر آپ کہیں رسول اللہ ﷺ نے بھی تو جماعت المسلمین نام رکھا ہے، میں کہتا ہوں رسول اللہ ﷺ نے کسی خاص کا نام جماعت المسلمین نہیں رکھا۔ آپ نےعام مسلمانوں کو ہی جماعت المسلمین کہا ہے۔ آپ نے اس نام کی کوئی خاص جماعت نہیں بنائی جیسے آپنے بنالی ہے۔ جماعت المسلمین سےا ٓپ کی مراد عام مسلمان ہی تھے جیسا کہ دوسری حدیث میں آپ نے فرمایا: ((عَلَیکُمُ بِالجَمَاعَۃِ وَالعَامَّۃَ)) جسے سواد اعظم بھی کہتے ہیں۔ اس سے کوئی علیحدہ مخصوص جماعت مراد نہیں۔ وہی اہل حق مراد ہیں جن کی رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اکثریت تھی جو بعد میں اہل السنۃ والجماعۃ اور اہل حدیث کے نام سے مشہور ہوئے۔ مسعود صاحب رسول اللہﷺ نے تو عام مسملانوں کو جماعت المسلمین کہا ہے جس میں عبد اللہ بن ابی اور اس کی پارٹی بھی شامل تھی آپ نے اس کو اپنی بیسوی صدی کی جماعت المسلمین کی دلیل بنا لیا۔مسعود صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جماعت المسلمین کی بناید رکھ کر بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اب بجائے اس کے کہ آپ توبہ کرکے اصلاح کر لیں آپ اپنی غلطی کو ثابت کرنے کے لے ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ کبھی(سَمَّا کُمُ المُسلمینَ) سے استدلال کرتے ہیں،کبھی ایک دو جگہ جو حدیث میں جماعۃ المسلمین کا لفظ آگیا ہے اس کو سہارا بناتے ہیں، لیکن بات پھر بھی نہیں بنتی۔ بنے بھی کیسے ۔ ایک تو بات غلط ، دوسرے مسعود صاحب آپ نے ساری عمر تو کی دفتروں میں غلامی، اب ریٹائر منٹ پر سوچ لیا امامت و خلافت کی۔ سمجھ تھی نہیں' مشورہ کسی سے لیا نہیں۔ جماعت المسلمین کا لفظ حدیث میں کہیں نظر آگیا۔ میدان بھی خالی پایا کہ اس نام کی دنیا میں جماعت بھی کوئی نہیں۔ جماعت المسلمین نام بھی بہت اچھا ہے' خوب چمکداررہے گا۔ سب کے لیے قابل قبول ہے۔ اس نام سے کوئی انکار بھی نہیں کرے گا۔ دھڑا دھڑ لوگ جماعت المسلمین کے حال میں پھنسیں گے۔ اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد جماعت المسلمین بنا کر امام المسلمین بن کر خلیفۃ المسلمین بننے کا اچھا چانس ہے۔ اب دن رات آپکا(( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم))[بخاری: کتاب الفتن' باب کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ، ص591 ، رقم:7084۔۔ مسلم: کتاب الامارۃ' باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن'ص1009 رقم:51] پر زور ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جماعت المسلمین میں شامل ہوجانا اور اس کے امام(مسعود بی۔ ایس سی) سے چمٹ جانا' اسے نہ چھوڑنا ورنہ دوزخ میں جاؤ گے۔
مسعود صاحب! آپ نے دیوانے ہوکر جماعت المسلمین توبنالی، یہ نہ سوچا کہ اتنے فرقے ہوئے، اتنے بڑے بڑے عالم ہوئے اگر جماعت المسلمین نام رکھنے کا ہوتا تو ایسا پیارا اور جاذب نظر نام تویوں فارغ پڑارہتا ۔ کسی کی تو نظر پڑتی ۔ کوئی تواپنی جماعت کا یہ نام رکھتا' کوئی تو اس نام کی جماعت بناتا جو فرقہ پرستی کو ختم کرنے والی ہوتی۔ جب آج تک کسی نے اس نام کی جماعت نہیں بنائی تو ظاہر ہے' یہ نام رکھنے کا نہیں ' لیکن آپ نے ایک نہ سوچی' جماعت المسلمین کی بنیاد رکھنے کی کی۔ مسعود صاحب! آپ نےا پنی حیثیت کو نہ دیکھا کہ مین انجان آدمی نا سمجھ' نا تجربہ کار' صرف بی۔ ایس سی، ساری عمر تو گزاری دفتروں میں نوکری کرنے میں اب خلیفۃ المسلمین دیکھنے کا خواب دیکھ رہا ہوں۔ کہاں ایک بی۔ ایس سی بابو اور کہاں سارے جہان کا خلیفۃ المسلمین ۔ پھر بدقسمتی یہ کہ آپ سے ضبط بھی نہ ہوسکا کہ چپکے چپکے اپنا کام چلاتے رہتے' شیطان کے اکسانے پر شور مچانا شروع کردیا کہ سب فرقوں کے نام غلط ہیں' نام صرف ایک میرا ہی ٹھیک ہے جو میں نے رکھا ہے' یعنی جماعت المسلمین ۔ باقی سب فرقہ پرستی اور گمراہی کے نام ہیں۔
مسعود صاحب ! خلیفۃ المسلمین بننے کے شوق مین آپ نے جماعت المسلمین بھی بنا ڈالی اور امام المسلمین بھی بن گئے، لیکن آپ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کام کیا کرتے ہیں؟ کیا امام المسلمین والے ایسے کام کرتے ہیں' یا مولویوں والی حرکتیں ۔ کسی کو کافر بنا دیا، کسی کو مشرک کہہ دیا' کسی کو فرقہ پرست اور گمراہ قرار دے دیا۔ کچھ فتوے بازی کرلی' کچھ پمفلٹ بازی کرلی۔ کیا امام المسلمین کا یہ کام ہوتا ہے؟ مسعود صاحب! اگر آپ اپنا امام المسلمین والا ایک کام بھی دکھا دیں تو ہم آپ کو فوراً امام مان لیں۔ حرکتیں کرتے ہیں مولویوں والی اور خواب دیکھتے ہیں خلیفۃ المسلمین کے ' فٹ کرتے ہیں اپنے اوپر حدیث۔(( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم))کو اور رہتے ہیں جنرل ضیاء کے ڈنڈے کے نیچے۔ کبھی امام المسلمین بھی کسی کا تابع اور محکوم ہوتا ہے؟
مسعود صاحب! جب آپ اقامت دین نہیں کرسکتے' باطل کے خلاف سینہ سپر نہیں ہوسکتے تو آپ امام المسلمین کیسے ؟ اگر آپ (( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم)) کا مصداق ہیں بتایئے آپ کے پہلے ہے کیا؟ طاقت آپ کے پاس نہیں، اختیار آپ کو کوئی حاصل نہیں' ایسے خصی اور ناکارہ امام سے چمٹے رہنے کا حکم رسول اللہﷺ کیسے دے سکتے ہیں۔ مسعود صاحب(( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم)) آپ سے زیادہ صدر ضیاء پر فٹ آتی ہے۔ وہ صاحب اقتدار اور بااختیار بھی ہے۔ اس کے ساتھ مسلمان بھی ہیں۔ اسلام کا بھی کچھ نہ کھ کر ہی رہا ہے اور نہیں تو آپ سے تو زیادہ ہی کر رہا ہے۔ ((فَاعتزِلُتلکَ الفِرَقَ کُلَّھَا)) کا مطلب اصل میں یہی ہے کہ جو پارٹیاں اقتدار کی بھوکی ہیں' دین کو ان سے کوئی سروکار نہ ہو' جیسا کہ ہمارے ملک کی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ان سے علیحدہ رہو۔ مسعود صاحب! کر تو آپ کچھ سکتے نہیں اور دعوے آپ امام المسلمین بننے کے کرتے ہیںَ یقین جانیں جیسے مرزا قادیان کی نبوت' ویسی آپ کی امامت۔ اس کی نبوت نقلی اور آپ کی امامت اور مسلمینی نقلی۔ اس نے آیات و احادیث کو توڑ مروڑ کر اپنی نبوت پرسیت کیا۔ آپ نے غلط طور پر اپنی امامت پر فٹ کیا۔
مسعودصاحب! اگر آپ کی قسمت سیدھی ہے تو اب بھی واپس اپنے ٹھکانے پر آجایئے۔ اگر آپ اسی طرح خلیفۃ المسلمین بننے کے خواب دیکھتے رہے تو مزید گمراہ ہو ں گے۔ آپ کے پچھےو کوئی زبردست شیطان لگا ہوا ہے جو آپ کو دھکیل رہا ہے۔ اگر آپ نے رجوع نہ کیا تو وہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کا حال اب
كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا[6:الانعام:71] والا ہوگیا ہے۔ اہل حدیث آپ کو دعوت دے رہے ہیں۔ ادھر آجائیں' شیطان کے ہتھے نہ چڑھیں، لیکن آپ کوئی نہیں سن رہے۔
مسعود صاحب ہم تو پتا نہیں کہ اللہ کے نزدیک مسلم ہیں بھی یا نہیں۔ صحابہ جو یقیناً مسلم، مومن، متقی وغیرہ سب کچھ تھے وہ بھی آپ کی طرح جماعت المسلمین نہیں کہلواتے تھے، جماعت المسلمین والمؤمین نہیں بناتے تھے۔ صرف اس وج سے کہ وہ اس مسئلہ سے واقف تھے۔ ان کے پیش نظر قرآن تھا۔ وہ جانتے تھے کہ قرآن(فَلاَ تُزَکُّوا اَنفُسَکُم وَھُوَاَ علَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) [53:النجم:32] کے تحت مسلم اور مومن کہلانے سے منع کرتا ہے۔ یہودیوں کا کردار بھی ان کے سامنے تھا جو بڑے ادعائی نام رکھتے تھے۔ خود ہی ابناء اللہ احباء اللہ بنے پھرتے تھے۔ اللہ نے یہ کہہ کر ان کی مذمت فرمائی۔أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُم بَلِ اللَّـهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ[4:النساء:49] کیا تو ان یہودیوں کو نہیں دیکھتا(جو اپنے ناموں کے ذریعے) اپنی پاکبازی کا اظہار کرتے ہیں۔ حال آنکہ پاک تووہ ہوتا ہے جسے اللہ پاک کرے یا پھر اللہ پاک کہے۔ یہ حدیث رسول بھی ان کے سامنے تھی۔ ایک عورت کا نام برہ تھا۔ آپ نے بدل کر زینب رکھ دیا' صرف اسی وجہ سے کہ اس نام میں اپنی نیکی کا ادعا پایا جاتا ہے، کیوں کہ برہ کا مطلب ہے نیک۔ اس لیے مسعود صاحب آپ کا مسلم کہلانا اور جماعت المسلمنی بنانا ایک ناجائز حرکت ہے۔
اس کے علاوہ جماعت المسلمین نام رکھنے سے اپنی تعلیٰ اور فخر کا اظہار ہوتا ہے۔ جس سے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے اور یہ نفرت افتراق کا موجب بنتی ہے۔ (سَمَّا کُمُ المُسلمینَ) کو دلیل بنا کر ہر مشرک و بدعتی کو مسلمان کہلانے کا جواب ملتا ہے۔اگر اسی اصول پر ہر ایک مسلمان کہلانے لگ جائے، تو مسلمانوں کے کفر وشرک پر پرہ پڑتا ہے ۔ اس طرح اہل ھق اور اہل باطل میں امتیاز نہیں رہتا۔ سب مسلم ٹھہرتے ہیں۔ مسعود صاحب! جماعت المسلمین بنا کر آپ نے بہت غلطی کی ہے۔ کسی جماعت کی قیادت کے آپ بالکل لائق نہ تھے۔ نہ علم 'نہ تجربہ۔ امام المسلمین بن کر آپ اس حدیث کا مصداق ہوگئے۔اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوساً جُھَّالاً۔۔ فَضَلُّوا وَاَضلُّوا[بخاری: کتاب العلم' باب کیف یقبض العلم ص11، رقم:100۔۔ مشکوۃ : کتاب العلم 'فصل اول'رقم:206]آپ بھی گمراہ ہوئے ۔ لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ کاش آپ کسی سے مشورہ کرلیتے ۔ اب آپ کو جماعۃ المسلمین کا ایسا خبط ہوگیا ہے کہ آپ اپنی جماعت اور امامت کی خاطر قرآن و حدیث کی تھریف کرنے لگ گئے ہیں۔ یہاں قرآن مجید میں آپ کو مسلم کا لفظ نظر آجاتا ہے ' آپ اس کو جماعت المسلمین بنالیتے ہیں۔ آپ نے حضرت حذیفۃؓ والی حدیث (( تَلزَم جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَ اِمَا مَھُم)) کو توڑ مروڑ کر اپنے اوپر فٹ کیا حالانکہ اس کا مصداق آپ کسی صورت بھی نہیں۔ ترمذی کی حدیث((فَادعُوا یدَعوَی اللہِ الَّذِی سَمَّاکُمُ المُسلِمِینَ المُومِنِینَ عِبادَاللہِ)) [صحیح ابن خزیمۃ' کتاب الصیام' باب ذکر تمثیل الصائم فی طیب ریح المسک اذ ھواطیب الطیب 3/196 رقم:1895۔۔۔ جامع ترمذی ' کتاب الادب ' ابواب الامثال' باب جاء فی مثل الصلوۃ والصٰام الصدقہ ص1939، رقم:2863] کا ترجمہ اور مطلب آپ نے بگاڑ ا۔ بہت سی قرآنی آیات کا جن میں مسلم کا لفظ ہے آپ نے مطلب غلط لیا۔ سلیمان علیہ السلام اس عورت کو جو ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئی تھی خط لکھتے ہیں۔( اَلاَّ تَعلُوا عَلَی وَاتُونی مُسلِمینَ)[ 27:النمل:31] یعنی سرکشی نہ کرو۔ مطیع و فرمان بردار ہوکر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔ آپ نے اپنے مطلب کے لیے اس کا ترجمہ یوں کیا کہ" میرے ساتھ سرکشی نہ کرو اور مسلم بن کر میرے پاس آجاؤ"۔ مسلمین کا لفظ یہاں بالکل اپنے لغوی معنوں میں تھا۔ یعنی مطیع و فرمان بردار ، لیکن آپ نے ترجمہ میں مسلم لکھ کر صرف اپنا پوائنت بنایا ۔ اسی طرح(اِشھَدُوا بِاَنَّا مُسِلمُونَ) [3:آل عمران:64] کا ترجمہ بھی آپ نے غلط کیا کہ ہم تو صرف مسلم ہیں، حالانکہ قرآن کے الفاظ اس معنی کے بالکل متحمل نہیںَ سورۃ ھود کی آیت (فَھَل اَنتُم مُسلِمُونَ)[11:ھود:14] کا ترجمہ کرنے میں تو آپ نے غضب ہی کردیا۔ ترجمہ کرتے وقت آپ کو ذرا خود خدا نہ رہا۔ آپ ترجمہ کرتے ہیں کہ کیا آپ اپنے آپ کو صرف مسلم کہنے کے لیے تیار ہیں؟ مسعود صاحب اگر آپ مین رتی بھر بھی ایمان ہے تو آپ ہی یہ بتائیں کہ کیا آیت اس ترجمہ یا اس معنی اور مطلب کی متحمل ہے۔ کیا یہ آیت کا ترجمہ پکار پکار کر نہیں کہہ رہا کہ یہ کسی خبطی اور ذہن پرست کا ترجمہ ہے' کیا یہ قرآن میں تحریف نہیں۔ ایسی حرکت سے تو مرزا بھی شرماجاتا۔ یہودی جو (کُونُوا ھُوداً او نَصَارٰی تَھتَدُوا) [2:البقرہ:135] کہتے تھے۔ یہ تحریف ہی کیا کرتے تھے۔ آپ بھی امام المسلمین ہوکر یہ تحریف کرتے ہیں۔ مسعود صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ جماعت المسلمین کی بنیاد رکھ کر بہت گناہ گار ہوئے۔ پہلا گناہ آپ نے یہ کیا کہ جماعت المسلمین نام کی جماعت بنائی، حالانکہ اس نام کی جماعت بنانا شرعاً بالکل ناجائز ہے۔ دوسرا گناہ یہ کیا کہ جماعت المسلمین کے دفاع میں اہل حدیث کی مخالفت شروع کر دی ۔ اس کی شامت آپپر یہ پڑی کہ آپ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے لگ گئے۔ جب آدمی ایک گناہ کر کے اللہ سے توبہ نہیں کرتا تو شیطان اس کو اس سے بڑے گناہ میں الجھاد یتا ہے۔ اس طرح ایک گناہ دوسرے گناہ کا موجب بن جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے(اِنَّمَا استَزَلَّھُم الشَّیطٰنُ ببَعضِ مَا کَسَبُوا)[3:آل عمران:155]مسعود صاحب! اگر آپ نے توبہ نہ کی تو بعید نہیں کہ اللہ آپ کو مزید کسی گناہ میں دھکیل دے۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہ توبہ کر لیں۔ سب سے پہلے اپنی جماعت کا نام بدلیں۔ ی ہنام رکھنا آپ کی گمراہی کی اصل بنیاد ہے اس کے علاوہ اہل الحدیث کی مخالفت بند کردیں، یہ بھی اللہ کے غضب کا سبب ہے۔ اگر آپ اہل حدیث کی مخالفت نہ کرتے تو شاید اللہ آپ کو یوں دکھا نہ دیتا کہ آپ قرآن و حدیث میں تحریف کرنے لگ جاتے۔ مسعود صاحب جو نئی راہ نکالتا ہے اس کو تاویل بازی اور تحریف کرنی ہی پڑتی ہے۔ جب آپ اہل حدیث کی راہ سے ہٹ گئے۔ جماعت المسلمین بنالی تو آپ و یہ تاویلیں کرنی پڑیں۔ آپ کے رسائل خاص کر آپ کا رسالہ"مسلم" تو اس بات کی پوری نشان دہی کرتا ہے کہ آپ کے ذہن میں بہت کجی ہے۔ مسعود صاحب! خدا سے ڈیئے ایسا نہ ہو کہ( فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ اللہُ قُلُوبَھم وَاللہُ لاَیَھدِی القَومَ الفَاسِقِینَ)[61:الصف:5] والا معاملہ ہو۔[/SIZE]
 
Top