عبدالمجید رانا
رکن
- شمولیت
- اپریل 23، 2013
- پیغامات
- 46
- ری ایکشن اسکور
- 53
- پوائنٹ
- 31
جماعت المسلمین(رجسڑڈ) کے اصول اور تکفیر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم
تالیف
ابوالاسجدصدیق رضا حفظہ اللہ
جماعت المسلمین(رجسڑڈ) کے اصول اور تکفیر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم
ابوالاسجدصدیق رضا حفظہ اللہ
۔۔۔۔۔اگر وہ مسلم ہے اور اس دین کو مانتا ہے جو آسمان سے نازل ہوا ہے تو اسی دین میں یہ موجود ہے کہ واعتصمو ابحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا کہ اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑو اور فرقے فرقے نہ بنو آخر وہ اس آیت پر عمل کیوں نہیں کرتا اگر وہ نہیں کرتا تو وہ بظاہر ااس آیت کا منکر ہے اسی لۓ وہ اس حکم پر عمل نہیں کرتا اور وہ اس حدیث پر عمل کیوں نہیں کرتا تلزم جماعت المسلمین یعنی جماعت المسلمین کو لازم پکڑو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ قرآن مجید پر عمل کرتا ہے اور نہ حدیث پر عمل کرتا ہے تو پھر کس کام کا مسلم ہے؟اس کا محض فرقوں سے بیزار ہونا اس کے مسلم ہونے کی دلیل نہیں۔
(وقار علی صاحب کا خروج ص۸ طبع جدید ۵۔۶،اعتراضات اور ان کے جوابات ۶،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک اسلام کی آئینہ دار ہیں ص۵۳۲۔۵۳۱)غلط فہمی نمبر۴ جو شخص تمام فرقوں سے علٰیحدہ ہو کر صرف قرآن وحدیث پر عمل کرے وہ مشرک نہیں۔میں اسے مسلم سمجھتا ہوں۔
(ازالہ)ایسا شخص نہ قرآن مجید پر عمل کرتا ہے اور نہ حدیث پر۔قرآن مجید میں ہے:واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا۔ اس کا عمل اس آیت پر نہیں۔حدیث میں ہے تلزم جماعۃ المسلمین۔ اس کا عمل اس حدیث پر نہیں تو پھر یہ کہنا کہ وہ قرآن و حدیث پر عمل کرتاہے صحیح نہیں۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۳۵)اعتراض:دعوت میں مخالفین کو یہ کہنا کہ ہم تو قرآن و حدیث ہی پیش کرتے ہیں لوگ اپنی طرف لیں تو ہمارا کیا قصور حالانکہ جماعت میں آنے کے بعد مجھے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ آپ ان کو قرآن وحدیث نہیں سناتے بلکہ غیر مسلم ہی سمجھتے ہیں۔"
جواب: اگر سمجھیں تو کوئی بعید از دلیل بھی نہیں۔
اگر آپ یہ کہیں کہ یہ فرقہ پرست مسلم ہیں یہ بھی جماعت المسلمین ہیں تو آپ کا یہ استدلال احادیث کے خلاف ہو گا۔
(جماعت المسلمین کا تعارف ص۶تا ۸،جماعت المسلمین کی دعوات ص۲۱ـ۲۲)جماعت المسلمین ہی وہ واحد جماعت ہے جو امیر کو وہ حیثیت دیتی ہے جو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ٓ------جماعت المسلمین امیر کی اطاعت کو فرض سمجھتی ہے۔امیر کی نافرمانی گویا جماعت کو چھوڑنا ہے اور جماعت کو چھوڑنا جاہلیت کی موت کو دعوت دینا ہے یعنی اسلام کو چھوڑنا ہے۔کوئی جماعت یا فرقہ ایسا نہیں جو امیر کی اطاعت کو ایسی اہمیت دیتا ہو۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۶۔۷)جماعت کو چھوڑنے والے نے پوری طرح نہیں صرف ایک بالشت جماعت کو چھوڑ دیا تو گویا اس نے اسلام کو چھوڑ دیا۔بتاۓ اسلام کو چھوڑنے والا کیا ہوتا ہے؟ایک بالشت چھوڑنے کا تو یہ حشر ہے اور جو پوری طرح جماعت کو چھوڑ دے وہ کیا ہو گا؟
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۱۵)معلوم ہوا کہ لزوم جماعت کے سلسلہ میں اس قدر پابندی کہ امیر کی کسی مکروہ سے مکروہ بات پر بھی صبر کی تلقین کی گئ ہے جماعت کو کسی حالت میں بھی چھوڑنے کی سختی سے ممانعت کی گئ ہے اور علٰیحدگی جاہلیت کی موت قرار دی گئ ہے۔جاہلیت کی موت سے مراد زمانہ جاہلیت کی موت ہے جو حالت کفر کی موت ہے۔
(بے حکومت امیر کی بیعت کرنا ص۴۶)مطلب یہ ہوا کہ بیعت توڑنا،ایک بالشت جماعت چھوڑنا،ایک بالشت امیر کی اطاعت نہ کرنا اور امیر جماعت کا کسی پر نہ ہونا سزا کے لحاظ سے ایک ہی ہیں یعنی وہ اسلام سے خارج ہے۔
(تحقیق مزید میں تحقیق کا فقدان ص۴۱)جو شخص امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے تو اس کی موت کفر کی موت ہے۔
(وقار علی صاحب کا خروج ص۷،۸طبع جدید ص۵،جماعت المسلیمن کی دعوات ص۵۳۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:من مات و لیس فی عنقہ بیعۃ مات میتٰ جاحلیۃ(صحیح مسلم)اس حدیث کی رو سے بیعت شرائط ایمان میں سے ہے ورنہ جاہلیت کی موت مرے گا یعنی کفر کی موت مرے گا۔کفر کیا موت سے بچنے کے لۓ بیعت شرط ہے۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۲۲)جاہلیت کی موت سے مراد ایام جاہلیت کی موت ہے یعنی کفر کے زمانے کی موت۔۔۔۔۔فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ(ترمذی و سندہ صحیح) اس حدیث نے تشریح کر دی کہ جاہلیت کی موت سے مراد اسلام پر مرنا نہیں ہے بلکہ اسلام چھوڑ کر مرنا ہے۔
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی بیعت نہ کرنے والوں کو اسلام سے خارج قرار دیا۔
(الجماعۃ ص۵۶)ہم کہتے ہیں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی ذات بیعت نہ کرنے کےالزام سے پاک ہے لہذا وہ جاہلیت کی موت سے مبرا ہیں۔صلاح الدین صاحب کہتے ہیں الزام تو صحیح ہے لیکن وہ جاہلیت کی موت سے پھر بھی مبرا ہیں۔معلوم نہیں کیوں؟
(الجماعۃ ص۲۰۔۲۱)کیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الجماعۃ کے امیر نہیں تھے۔اگر تھے اور یقینا تھے تو پھر ان کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جاہلیت کی موت کیوں نہ مرے؟کیا ان کے لیے اللہ تعالٰی کا قانون بدل جاۓ گا؟
(الجماعۃ ص۲۱)بالفرض محال اگر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تو کیا جاہلیت کی موت مرنے کا قانون بدل جائے گا۔ہرگز نہیں۔قانون قانون ہی رہے گا۔بیعت نہ کرنے کے فعل کو صحابی کی غلطی تصور کیا جائے گا۔
(صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین ص۶۸۳۔۶۸۴)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیعت نہ کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھ مہینے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہکو اطلاع نہ دی اور خود ہی نماز جنازہ پڑھا کر رات کے وقت ان کو دفن کر دیا۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بڑی قددومنزلت تھی۔جب ان کا انتقال ہو گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے چہروں پر خفگی کے آثار دیکھے کیونکہ انہوں نے ابھی تک بیعت نہیں کی تھی (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ان کی تیمارداری کی وجہ سے لوگوں نے ان کو معذور سمجھا تھا لیکن اب یہ بات لوگوں کو ناگوار تھی)۔۔۔۔۔۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا"میں (آج) زوال کے بعد (تمام لوگوں کی موجودگی میں) بیعت کر لوں گا۔"حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی نماز سے فارغ ہو کر آپ منبر پر تشریف لے گۓ۔تشہد پڑھا۔پھرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیفیت،بیعت کرنے میں تاخیراور ان کی معذرت بیان کی۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (تقریر کی) تشہد پڑھا،مغفرت کی دعا کی اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کی عظمت بیان کی،پھر فرمایا"بیعت کرنے میں اس وجہ سے دیر نہیں ہوئی کہ ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اس معاملہ میں کسی قسم کا حسد تھا۔۔۔۔۔۔"حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس تقریر(اور بیعت) سے تمام مسلمین ان سے خوش ہو گۓ۔سب نے کہا"تم صحیح بات کو پہنچ گۓ۔"الغرض اس نیک کام کی طرف رجوع کرنے کے بعد تمام مسلمین ان سے (حسب سابق) محبت کرنے لگے۔
مندرجہ بالا واقعہ پر تبصرہ اس واقعہ سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں:۔
1۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ملال کی وجہ سے بیعت میں دیر کی۔
۔۔۔۔۔
5۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ کرام قرابت رسول کا کتنا احترام کرتے تھے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خفا نہیں ہوۓ بلکہ ان کی قدرومنزلت کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
11۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی تقریر میں اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کی۔
(حدیث تلزم جماعت المسلمین و امامھم پر اعتراض اور جواب ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات ص۴۷۶)اس کا متن صحیحین کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے معلول اور ساقط الاعتبار ہے۔
(جماعت المسلمین پر اعتراضات اور ان کے جوابات ص۱۵،الجماعۃ القدیمہ ص۱۹)الغرض ابوداؤد کی حدیث صحیحین کی حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے معلول ہے اور مختلف المتون ہونے کی وجہ سے مضطرب ہے۔
(الجماعۃ القدیمہ ص۱۹)صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں لفظ"امام" ہے اور ابوداؤد میں لفظ خلیفہ ہے تو بتا یئں کہ رسول اللہ نے کون سا لفظ اپنی زبان اقدس سے ادا فرمایا تھا۔یقینا وہی لفظ ادا فرمایا ہو گا جس لفظ پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم متفق ہیں۔
(الجماعۃ القدیمہ ص۱۹)عبداللہ صاحب! اس حدیث میں "ائمۃ" کا لفظ ہے جش کے معنٰی آپ نے "حاکم" کئےہیں۔حالانکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کے بجائے قوم کا لفظ ہے۔بتائےکون سا لفظ صحیح ہے۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص۲۹۔۳۰)اعتراض: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت تمام محدثین نے بالاتفاق قبول کیا اور عمیر بن الاسود رضی اللہ عنہ کی روایت کو امام بخاری کے سوا کسی محدث نے روایت نہیں کیا
جواب:یہ کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مزید برآں امام بخاری اکیلے ہی سب پر بھاری ہیں۔صحیح بخاری کی احادیث پر ان کے ہمعصر محدثین نے اتفاق کیا ہے لہذا حدیث کو صحیح کہنے والے صرف امام بخاری نہیںہیں بلکہ سب محدثین ہیں۔
(صحیح تاریخ الاسلام مقدمہ ص۳)قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری و صحیح مسلم کا جو درجہ ہے وہ کسی پر مخفی نہیں،جس تحقیق و تفتیش اور سخت شرائط کے ساتھ ان کتابوں کو مدون کیا گیا وہ اپنی نظیر آپ ہیں۔لیکن افسوس کہ تاریخ کے سلسلہ میں اکژ لوگوں نے ان کتابوں سے بے اعتنائی کا ثبوت دیا۔تاریخ کے ان واقعات کو بھی تسلیم کر لیا جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے متصادم تھے۔
(صحیح تاریخ الاسلام مقدمہ ص۷)تاریخی روایات متعدد مقامات پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے ٹکراتی ہیں اور یہ چیز اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ تاریخ کی اکثر روایات ناقابل اعتبار ہیں۔
(صحیح بخاری:۴۲۴۰؛صحیح مسلم:۱۷۵۹،دارالسلام:۴۵۸۰)جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے چہروں پر خفگی کے آثار دیکھے تو آپ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے صلح اور بیعت کی کوشش کی ان مہینوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تھی۔۔۔۔۔جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی تو منبر پر تشریف لاۓ،تشہد پڑھا،اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کیفیت اور بیعت سے پیچھے رہ جانے اور ان کی معذرت کو بیان فرمایا۔
(دعوت حق ص ۴،جماعت المسلمین کیا دعوات ص ۸۰)کسی اصول کو محض زبان سے تسلیم کرنا اور عملا اس سے روگردانی کرنا حقیقت پسندی کے خلاف ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی گہرائیوں سے یہ اصول تسلیم نہیں۔
(تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۷۶۸)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوۓ(لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو سزا دینے کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت پیدا ہو گئ،یہ اختلاف بھی درحقیقت اسی سازش کا کارنامہ تھا جو اسلامی حکومت کو تباہ کرنے کے لۓ کی گئ تھی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خلوص اور اختلاف سے کراہت:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہونے کے بعد اپنے امراء اور قاضیوں کو ہدایت کی کہ جس طرح تم اب تک فیصلہ کرتے رہے ہو کرتے رہو کیونکہ میں اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں(اختلاف ختم کرنا میری سب سے اہم ذمہ داری ہے اور میں اس کوشش میں لگا رہوں گا)یہاں تک کہ تمام لوگ ایک جماعت بن جائیں یا میں (اسی کوشش و جدوجہد میں)مر جاؤں جس طرح میرے ساتھی مر گئے
(تاریخ الاسلام و المسلمین ص ۷۷۸۔۷۷۹)حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوۓ۔خلفیہ ہونے کے کچھ عرصہ بعد وہ ایک بڑے لشکر کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف چلے،حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے (جب اس لشکر کو دیکھا تو) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا"میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جب تک وہ اپنے حریفوں کو قتل نہ کرلیں پیٹھ نہ پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دو قرشی آدمیوں کو جن کا تعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے تھا اور جن کا نام عبدالرحمٰن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر تھا بلایا اور ان سے کہا کہ تم جا کر حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے صلح کی بات چیت کرو اور انہیں صلح کی دعوت دو۔---------ان دونوں نےکہا"معاویہ رضی اللہ عنہ تو آپ سے صلح چاہتے ہیں اور آپ سے اسی کی درخواست کرتے ہیں-------الغرض حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہ سے صلح کرلی اور اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حق میں رسول اللہ کی پیشین گوئی پوری ہوئی کہ "اللہ اس کے ذریعے مسلمین کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرا دیکا۔"
(تاریخ الاسلام والمسلمین ص ۷۹۸)حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیعت سے انکار اور کعبہ کی تعمیر:
جب حضرت یزید رحمہ اللہ خلیفہ ہوۓ تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی۔واقعہ حرہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔۔۔۔۔۔(ان حالات میں جبکہ حکومت ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں رہی تھی حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے امت کی بہبودی کے خیال سے حکومت خود سنبھالنے کا ارادہ کر لیا،انہوں نے حضرت مروان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور اسی بنیاد پر)انہوں نے حضرت عبدالملک رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی بلکہ اپنی خلافت کا اعلان کر دیا اور بیعت لینی شروع کر دی۔
(تاریخ الاسلام والمسلمین ص ۹۵۰)جب حرہ کا واقعہ رونما ہوا(یعنی جب حضرت یزید رحمہ اللہ کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا)تو حضرت عبد اللہ بن عمرعبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے (تاکہ اسے بغاوت سے باز رکھیں)
(الجماعۃ ص ۲۰۔۲۱)بیعت نہ کرنے کی وجہ سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جاہلیت کی موت کیوں نہ مرے؟کیا ان کے لئے اللہ کا قانون بدل جائے گا؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
"کان عاشوراءیومتصومہ قریش فی الجاھلیۃ"
عاشوراءایسا دن کہ قریش دور جاہلیت میں اس کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا------------ایک بار وہ کوئی چیز لایا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اس میں سے کھایا،غلام نے ان سے کہا آپ کو معلوم ہے کہ یہ کہاں سے آیا؟انہوں نے کہا:بتاؤ کہاں سے آیا؟غلام نے کہا:"کنت تکھنت لانسان فی الجاھلیۃ"
کہ میں نے جاہلیت میں کسی انسان کے لئے کہانت کی تھی اس نے مجھے اس کے بدلے یہ دیا--------الخ
(بخاری :۷۰۸۴؛مسلم۱۸۴۷)میں نے کہا:"اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر میں تھے کہ ہمارے پاس یہ بھلائی آئی۔------الخ
(القصص:۵۲تا۵۴)جن کو ہم نے کتاب دی ہے اس(کتاب) سے پہلے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔اور جب ان پر (اس کتاب کی) تلاوت کی جائے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں ہم اس سے پہلے بھی مسلم تھے۔انہیں دہرااجر دیا جائے گا اس لئے کہ یہ اس بات پر قائم رہے اور یہ لوگ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
قرآن مجید کے نزول کے بعد اہل کتاب دو گروہوں منقسم ہوگئے
۱۔ایک تو وہ جو قرآن مجید کو پہچان گئے پھر بھی ایمان نہیں لائے-----
۲۔دوسرے وہ جو قرآن مجید کو پہچان گئے اور فورا ایمان لے آئے-----
آیت زیر تفسیر میں(اناکنا من قبلہ مسلمین) دوسرے گروہ کے لوگوں کا قول ہے۔یہ قرآن مجید پر اس کے نازل ہونے سے پہلے بھی ایمان رکھتے تھے اور نازل ہونے کے بعد بھی اس پر ایمان لے آئے۔یہ لوگ سنجیدہ اور انصاف پسند تھے-----(اولئک یؤتون اجرھم مرتین)ان کو دگنا اجر دیا جاۓ گا۔(اس لۓ کہ ان میں مندرجہ ذیل صفات پائی جاتی ہیں۔)
1۔(بما صبروا)یہ لوگ اپنی کتاب کے مطابق احکام الٰہی پر جمے رہے اور پھر قرآن مجید کے مطابق احکام الٰہی پر جم گۓ۔نہ احکام الٰہی سے نزول قرآن مجید سے پہلے روگردانی کی اور نہ نزول قرآن مجید کے بعد روگردانی کی۔
(صحیح بخاری:۳۰۱۱)تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔(ان میں سے ایک)مومن اہل کتاب ہے جو پہلے بھی مومن تھا پھر نبی پر بھی ایمان لایا تو اس کے لئے دو اجر ہیں۔
(صحیح تاریخ الاسلام ص۳؛بخاری۳۸۲۶)ایک مرتبہ بلدح کے نشیب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زیدبن عمروبن نفیل سے ہوئی۔آپ کے سامنے ایک دسترخوان رکھا گیا۔آپ نے اس میں سے کھانے سے انکار کر دیا۔پھر وہ دسترخوان زید کے سامنے کیاگیا تو انہوں نے فرمایا:میں بھی تمہارے آستانوں پر ذبح کئے ہوئے جانور نہیں کھاتا۔میں تو اس جانور کا گوشت کھاتا ہوںجو صرف اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
زید بن عمروبن نفیل-----وہ دین حق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے----کہنے لگے مجھے اپنے دین کے متعلق کچھ بتاؤ شاید میں تمہارا دین قبول کر لوں۔-----عیسائی عالم نے کہا تم حنیف ہو جاؤ۔زید نے پوچھا حنیف کیا ہوتا ہے؟اس نے کہا ابراہیم علیه السلام
کا دین جو نہ یہودی تھے نہ عیسائی اور نہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرتے تھے۔جب زید نے ابراہیم کے دین کے متعلق ان عالموں کی گفتگو سنی تو وہاں سے باہر چلے آئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا:اے اللہ میں تجھے گواہ کرتا ہوں کہ میں دین ابراہیم پر ہوں۔
(فتح الباری ۱۰/۱۳،تحت رقم الحدیث :۷۰۵۴،مطبوعہ دارالسلام ریاض)لفظ میتہ میم کی کسرہ کے ساتھ ہے اور جاہلیت کی موت سے مراد،اہل جاہلیت کے لوگوں جیسی حالت موت ،بے راہ روی پر کہ اس کا کوئی فرمانرواامام نہ ہو۔چونکہ وہ لوگ اسے نہیں جانتے تھے(کہ ایک حکمران کے منظم نظام کے تحت رہنا ہے)اور ان الفاظ سے مراد یہ نہیں کہ وہ کافر ہو کر مرے گا بلکہ وہ گناہگار ہو کر مرے گا۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تشبیہ اس کے ظاہر پر ہو اس(صورت میں اس) کے معنی یہ ہیں کہ دور جاہلیت کے فرد کی طرح مرے گا اگر چہ وہ خود دور جاہلیت کا فرد نہ بھی ہو۔یا یہ حدیث زجرو توبیخ کےلئے وارد ہوئی ہے اور اس کا ظاہر مراد نہیں ہے۔
(تلاش حق ص۴۷)طریقہ وہی صحیح ہے جو سلف صالحین کا تھا،اس میں نت نئے نظریات کی آمیزش سخت معیوب ہے۔
(صحیح مسلم:۴۷۷۶)تمہاری اس امت کی عافیت اس کے اول حصے میں رکھی گئ ہے اور اس کے آخر حصے میں ایسی مصیبتیں اور ایسے معاملات ہوں گے جنھیں تم نہیں پہچانو گے۔
(تاریخ الاسلام ص ۶۸۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوتے ہی عرب کے بعض لوگوں نے کفر اختیار کرلیا(یعنی زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کا ارادہ کیا)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا"آپ ان لوگوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے"مجھےحکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں-----حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا "اللہ کی قسم میں ضرور اس سے لڑوں گا جو نماز اور زکوۃ میں تفریق کرے گا------اللہ کی قسم اگر ایک بھیڑ کا بچہ بھی جو وہ رسول اللہ کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تو میں ضرور ان سے اس بچہ کو روک لینے پر جنگ کروں گا۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں"اللہ کی قسم،اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سینے کو کھول دیا تھا،بعد میں میں سمجھ گیا کہ یہ حق ہے۔"(یعنی جنگ کرنا ضروری ہے)
(صحیح بخاری :۶۹۵)وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جبکہ وہ (باغیوں کی بغاوت و خروج کے سبب اپنے گھر میں)محصور تھے انہوں نے کہا:آپ خلیفہ وقت ہیں اور آپ پر جو مصائب آئے ہیں وہ ہم دیکھ رہے ہیں اور ہمیں تو نماز بھی باغی امام پڑھاتے ہیں ہم اس میںحرج محسوس کرتے ہیں،تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا :لوگ جتنے اعمال کرتے ہیں نماز ان میں سے بہترین عمل ہے،جب لوگ نیکی کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیکی کرو اور جب وہ برئے کام کریں تو ان کی برائیوں سے دور رہو یا بچتے رہو۔
صحیح بخاری کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔حدیث نہیں ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
نے امام فتنہ کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی۔یہاں ایک بات یہ دیکھنی ہے کہ امام فتنہ کا اختلاف کیا تھا۔کوئی مذہبی اختلاف نہیںتھا۔اس کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سیاسی احکام میں اختلاف تھا۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات قسط نمبر۱ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک---ص۴۸۰)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا فتنہ انتظامی نوعیت کا تھا۔دینی نوعیت کا نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ کو کچلنے کی طرف توجہ نہیں دی ورنہ ہر خلیفہ کا فرض ہے کہ وہ دین کی حفاظت کرے اور دین کے خلاف جتنے بھی فتنے اٹھیں ان کا قلع قمع کرے۔
اس کے بارے میں مسعود صاحب نے کہا :۳۰:صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے نہیں کی اور نوبت جدال و قتال تک پنہچی---
بعد میں صلاح الدین کی دوسری عبارت نقل کرکے مسعود احمد بی ایس سی نے کہا:"صلاح الدین صاحب اس کا ثبوت دیجئے۔
(الجماعۃ ص ۴۶)المسلم صحابہ کامحولہ بلااختلاف اور حمایت یا مخالفت تنظیمی امور میں تھی اگر دینی امور میں بھی تھی تو عارضی۔نہ انہوں نے اختلاف کو ہوا دی اور نہ کوئی فرقہ بنایا۔
(اعتراضات اور ان کے جوابات ص ۳۱)خلیفہ راشد تو وہی ہو سکتا ہے جو قرآن مجید اور سنت نبوی پر چلتاہو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلفاء راشدین کا عمل گویا سنت نبوی کابہترین ثبوت ہو گا اور جس طریقہ پر وہ چلتے رہے ہوں گے وہ طریقہ یقینا نبوی سے ماخوذ ہو گا گویا خلفاء راشدین کی سنت سے سنت رسول اللہ معلوم ہوسکتی ہے۔خلفاء راشدین بلاتفاق کسی ایسے طریقہ پرعمل پیرا نہیں ہو سکتے جس کا نمونہ سنت رسول میں نہ ہو۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے تخلف:
ایک دن حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میں بیعت کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیعت کرنے پر راضی نہ ہوئے)-----الخ
(تاریخ الاسلام ص ۸۰۱)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ ہوچکا تھا،وہ مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ان کی لاش مدینہ کی ایک گھاٹی میں درخت پر لٹکا دی گئ۔---ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے۔حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کو دیکھکر وہاں کھڑے ہوگئے اور کہا" اے ابوخبیب السلام علیک، اے ابوخبیب السلام علیک، اے ابوخبیب السلام علیک۔----- اللہ کی قسم میں نے پہلے ہی تمہیں اس کام سے منع کیا تھا، اللہ کی قسم میں نے پہلے ہی تمہیں اس کام سے منع کیا تھا، اللہ کی قسم میں نے پہلے ہی تمہیں اس کام سے منع کیا تھا،اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ تم بہت روزہ دار ،شب بیدار اور صلہ رحمی کرنے والے تھے ،اللہ کی قسم وہ امت کتنی اچھی ہے جس کا برا(بزعم دشمن)تم جیسا ہو
(التحقیق فی جواب التقلید ص ۸۸)روایات بالا سے ثابت ہوا کہ چاروں رکعتوں میں قرآت کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔نہ صرف امام کے لئے بلکہ مقتدی کے لئے بھی۔کیا صحابہ کا یہ اجماع آپ کے نردیک حجت ہے۔اگر نہیں تو پھر یہ سبیل المؤمنین نہیں ہے جس پر آپ چل رہے ہیں۔سورۃ نساء کے الفاظ "ویتبع غیر سبیل المومنین"(آیت نمبر ۱۱۵)پر غور کیجیے۔
(النسا:۱۱۵)اور جو شخص مخالفت کرے رسول کی بعد اس کے کہ اس کے لئے ہدایت واضح ہوگئ اور وہ مومنین کے راستے کے علاوہ کسی اور راستہ کی پیروی کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھرتا ہے اور(پھر) ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔
(تاریخ الاسلام ص ۶۴۷)-----کہ جن لوگوں کے ایسے فضائل ہوں ان سے کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ سیاست کے میدان میں للہیت کو چھوڑ کر دنیا دار اور مکار بن جائیں گے۔غیر اسلامی سیاست کو منظور کرلیں گے اور محض دنیوی مفاد کی خاطر یا بزدلی سے کلمہ حق کہنے سے گریز کریں گے اور کسی غیر شرعی حاکم اور اس کے غیر شرعی احکام پر خاموش تماشائی بن جائیں گے۔ظاہر ہے کہ وہ جماعت جس میں خلوص اور للہیت کی فروانی ہو،وہ لوگ جو ہر وقت رضائے الٰہی کے طالب رہتے ہوں،جنہوں نے اپنے خون ست اسلام کی آبیاری کی ہو وہ کس طرح اپنی آنکھوں سے اسلام کی پامالی دیکھ کر خاموچ رہ سکتے ہیں۔
(وقار علی صاحب کا خروج ص۹جدید طبع ص۷،جماعت المسلمین کی دعوات ص۵۳۳)کسی دینی فعل پر اجماع صحابہ بھی حجت ہے۔اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صحابہ کے فعل کا سرچشمہ ایک ہے اور وہ سرچشمہ سنت ہی ہو سکتی ہے۔
(ہمارے عقائد ص۴؛جماعت المسلمین کی دعوات---ص۳۰)اجماع صحابہ حکما حدیث ہی کی ایک قسم ہے۔قرآن مجید یا حدیث کا انکار کرنے والا،ان کو حجت شرعیہ اور ماخذ قانون نہ ماننے والا کافر ہے۔
(حوالہ مذکورہ ص ۱۷ کالم نمبر ۳)۵۷ صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی،حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضر ت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید سے بیعت نہیں کی،حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت نہیں کی۔صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد نے دور فتن میں کسی سے بیعت نہیں کی"
(الجماعۃ ص ۵۸)المسلم:صلاح الدین صاحب نے خود ہی "دور فتن"کہہ کر بیعت نہ کرنے کے عذر کو بیان کر دیا۔اب ہم کیا لکھیں----
(اعتراضات اور ان کے جوابات قسط نمبر ۱ ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک---ص۴۷۹۔۴۸۰)ہم تو نہیں سمجھتے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانہ شر کا زمانہ تھا۔ہم تو اسے خیر کا زمانہ سمجھتے ہیں۔
(اعتراضات اور ا ن کے جوابات،قسط نمبر۱ص۵،جماعت المسلمین کی دعوات اور تحریک---ص۴۸۰)رسول اللہ نے "تلزم جماعت المسلمین وامامہم"کے زمانہ کو شر کا زمانہ کہا ہے
(دعوت حق ص۲۳،اشاعت دوم،سال طباعت ۱۹۹۴ءاور ۱۹۹۶ء)اب یہ جو ہمارا دور ہے،شر و فتن کا دور،تباہی وبربادی کا دور----کیا اس دور کے بارے میں بھی کتاب وسنت سے کوئی لائحہ عمل،کوئی مشورہ،کوئی رہنمائی یا کوئی حکم ملتا ہے؟
امیر سے علیحد گی گناہ عظیم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
---جس شخص کو امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے تو صبر کرے کیونکہ جو شخص سلطان سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہوا اسکی موت جاہلیت کی موت ہوگی(صحیح بخاری کتاب الفتن و صحیح مسلم کتاب الامارۃ)----اور جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں (امیر کی) بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔"
جماعت سے علیحدہ ہونا گنا ہ عظیم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
----جوشخص جماعت سے بالشت بھر بھی علیحدہ ہوا اور (اسی حالت میں)مر گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔
(الجماعۃ ص۳۳)ہمارے ہاں بھی ایک لحاظ سے درجہ بندی ہے۔صلاح الدین صاحب کا بیان صحیح نہیں بلکہ اتہام ہے۔ہمارے ہاں کفر اور شرک،کبیرہ گناہ اور صغیرہ گناہ تینوں کی درجہ بندی موجود ہے۔ہم گناہ صغیرہ یا کبیرہ کے مرتکب کو کافر نہیں کہتے ،مسلم ہی کہتے ہیں۔
(الجماعۃ ص ۵۵۔۵۶)جماعت المسلمین کے امیر کے ہاتھ پر بیعت نظام باطل کے مٹانے کے لئے ہی کی جاتی ہے تو پھر یا تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لیجئے یا دور رہتے ہوئے بھی اسکی تائیدوحمایت میں سرگرم ہو جایئے۔
جزاک اللہ خیرا۔کلیم حیدر نے کہا ہے:جزاکم اللہ خیرا بھائی
آمین ثمہ آمین۔عکرمہ نے کہا ہے:اللہ۔۔آپ کی کاوش کو قبول فرمائے۔آمین