• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ والے دن دعا کی قبولیت کی ایک گھڑی !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
1456057_611566662271531_1020774896_n.jpg

جمعہ والے دن دعا کی قبولیت کی ایک گھڑی:


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إن في الجمعة ساعة لا يوافقها عبد مسلم وهو قائم يصلي يسأل الله شيئاً إلا أعطاه إياه – وقال بيده يقللها

''بیشک جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کوئی مسلمان بندہ نماز کی حالت میں اللہ تعالی سے جو کچھ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالی اسکو ضرور عنایت کرتا ہے ـ اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اس وقت کے تھوڑے ہونے کا اشارہ کیا ''

[متفق عليه].
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس کے تعین کے تمام اختلافات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

'' میں ان دو اقوال کو ترجیح دیتا ہوں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں ـ

پہلا قول –
امام کے منبر پر بیٹھنے سے شروع ہوکر نماز ختم ہونے تک رہتا ہے '' عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
{ هي ما بين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة } [مسلم]
'' یہ وقت امام کے منبر پربیٹھنے سے شرو ع ہو کر نماز کے ختم ہونے تک رہتا ہے ـ ''

دوسرا قول –
یہ وہ عصر کے بعد کی گھڑی ہے ، اور دونوں اقوال میں یہی زیادہ راجح ہے (زادالمعاد 1/389ِ-390)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ماشاءاللہ
جزاک اللہ خیرا
اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ساعت نصیب فرمائے اور ہماری جائز خواہشات کو پورا فرمائے آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی
(فتوی الاسلام سؤال و جواب )
تحديد ساعة الاستجابة يوم الجمعة

السؤال
سمعت أن الدعاء في خطبة الجمعة مجاب لأنه هناك ساعة إجابة معينه قد تصادف هذا الدعاء...ولكن يجب علينا أيضا الإنصات للخطيب والتركيز في الخطبة ؟ فكيف نفعل ذالك؟؟ الرجاء الإجابة ؟ أسال الله أن يقويكم

ترجمہ :
جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کا تعین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
میں نے سنا ہے کہ خطبہ جمعہ کے دوران دعا قبول ہوتی ہے، کیونکہ اس دوران قبولیت کی ایک گھڑی ہے، ہو سکتا ہے دعا اس گھڑی میں آجائے۔۔۔ لیکن ہم پر خطبہ سنتے ہوئے خاموش ہونا ، اور دھیان خطبہ کی طرف رکھنا بھی ضروری ہے، تو ہم یہ کس طرح کرسکتے ہیں؟ برائے مہربانی جواب دیجئے، اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو قوت فراہم کرے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نص الجواب

الحمد لله
أولا :
دلت السنة الصحيحة على أن في الجمعة ساعة إجابة ، لا يوافقها عبد مسلم يسأل الله خيرا إلا أعطاه ، كما في الحديث الذي رواه البخاري (5295) ومسلم (852) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فَسَأَلَ اللَّهَ خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ ) .

الحمد للہ
اول:
صحیح احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی ہے، اس لمحے میں کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے اچھی چیز مانگے تو اللہ تعالی اسے عنائت فرماتا ہے: جیسے کہ بخاری: (5295)، اور مسلم: (852) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی مسلمان کھڑے ہوکر نماز کی حالت میں اللہ تعالی سے خیر مانگے تو اللہ تعالی اسے عنائت فرماتا ہے)

وقد اختلف في تحديد وقت هذه الساعة ، على أقوال كثيرة ، أصحها قولان .
قال ابن القيم رحمه الله : " وأرجح هذه الأقوال : قولان تضمنتهما الأحاديث الثابتة ، وأحدهما أرجح من الآخر :
الأول : أنها من جلوس الإمام إلى انقضاء الصلاة ، وحجة هذا القول ما روى مسلم في صحيحه (853) عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ : قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَسَمِعْتَ أَبَاكَ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَأْنِ سَاعَةِ الْجُمُعَةِ ؟
قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ ؛ سَمِعْتُهُ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ :
( هِيَ مَا بَيْنَ أَنْ يَجْلِسَ الْإِمَامُ إِلَى أَنْ تُقْضَى الصَّلَاةُ ) .
وروى الترمذي (490) وابن ماجة (1138) من حديث كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللَّهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ ) !!
قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ ؟
قَالَ : ( حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ إِلَى الِانْصِرَافِ مِنْهَا ) [ قال الشيخ الألباني : ضعيف جدا ]

اس گھڑی کی تعیین کے بارے میں متعدد اقوال ہیں، جن میں سے دو صحیح ہیں۔

چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ان تمام اقوال میں سے صحیح دو اقوال ہیں، جو کہ ثابت شدہ احادیث کے ضمن میں آئے ہیں، ان دونوں میں سے بھی ایک صحیح ترین قول ہے:

پہلا قول:
یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، اس قول کی دلیل صحیح مسلم (853) کی روایت ہے، جسے ابو بردہ بن ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، آپ [ابو بردہ]کہتے ہیں کہ مجھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا:کیا تم نے اپنے والد [ابو موسی اشعری] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے بارے میں روایت کرتے ہوئے سنا ہے؟
میں [ابو بردہ] نے کہا: جی ہاں؛ میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے کہتے ہوئے سنا: (یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لیکر نماز کے مکمل ہونے تک ہے)
ترمذی: (490) اور ابن ماجہ : (1138) میں کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی کی روایت ہے کہ وہ اپنے والد سے، اور وہ اسکے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے، جس میں کوئی بھی بندہ اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے ، تو اللہ تعالی اسے وہی عنائت فرماتا ہے!!) صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کونسی گھڑی ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نماز کھڑی ہونے سے لیکر نماز ختم ہونے تک) [اس حدیث کے بارے میں شیخ البانی کہتے ہیں: "ضعیف جدا"یعنی یہ روایت سخت ضعیف ہے]

والقول الثانى : أنها بعد العصر ، وهذا أرجح القولين ، وهو قول عبد الله بن سلام ، وأبي هريرة ، والإمام أحمد ، وخلقٌ .
وحجة هذا القول ما رواه أحمد في مسنده (7631) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا خَيْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَهِيَ بَعْدَ الْعَصْرِ ) [ في تحقيق المسند : حديث صحيح بشواهده ، وهذا إسناد ضعيف ]
وروى أبو داود (1048) والنسائي (1389) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( يَوْمُ الْجُمُعَةِ اثْنَتَا عَشْرَةَ سَاعَةً ، لَا يُوجَدُ فِيهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ إِيَّاهُ فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ ) [ صححه الألباني ] .
وروى سعيد بن منصور في سننه عن أبي سلمة بن عبد الرحمن ، أن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اجتمعوا ، فتذاكروا الساعة التي في يوم الجمعة ، فتفرقوا ولم يختلفوا أنها آخر ساعة من يوم الجمعة . [ صحح الحافظ إسناده في الفتح 2/489] .

وفي سنن ابن ماجه (1139) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ قُلْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ : ( إِنَّا لَنَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا قَضَى لَهُ حَاجَتَهُ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَأَشَارَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ بَعْضُ سَاعَةٍ ، فَقُلْتُ : صَدَقْتَ ، أَوْ بَعْضُ سَاعَةٍ .
قُلْتُ : أَيُّ سَاعَةٍ هِيَ ؟ قَالَ : هِيَ آخِرُ سَاعَاتِ النَّهَارِ . قُلْتُ : إِنَّهَا لَيْسَتْ سَاعَةَ صَلَاةٍ ؟! قَالَ : بَلَى ، إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا صَلَّى ثُمَّ جَلَسَ لَا يَحْبِسُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ ، فَهُوَ فِي الصَّلَاةِ ) صححه الألباني ....

دوسرا قول یہ ہے کہ :

یہ گھڑی عصر کے بعد ہے، اور یہ قول پہلے سے زیادہ راجح ہے، اسی کے عبد اللہ بن سلام ، ابو ہریرہ، امام احمد، اور بہت سے لوگ قائل ہیں۔

اس قول کی دلیل امام احمد کی مسند میں روایت کردہ حدیث (7631) ہے، جسے ابو سعید خدری، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بلاشبہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان بندہ اللہ تعالی سے کوئی بھی اچھی چیز مانگے تو اللہ اسے وہی عنائت فرماتا ہے، اور یہ گھڑی عصر کے بعد ہے) [مسند احمد کی تحقیق میں ہے کہ: یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے، لیکن یہ سند ضعیف ہے]

اسی طرح ابو داود: (1048) اور نسائی: (1389) میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (جمعہ کا دن بارہ پہر[گھڑیوں ]پر مشتمل ہے، ان میں سے ایک لمحہ ایسا ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے کچھ بھی مانگے تو اللہ تعالی اُسے وہی عطا فرما دیتا ہے، تم اسے جمعہ کے دن عصر کے بعد آخری لمحہ میں تلاش کرو )[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے]

اور اسی طرح سعید بن منصور نے اپنی سنن میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے نقل کیا ہے کہ : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک جگہ جمع ہوئے، اور جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو مجلس ختم ہونے سے پہلے سب اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ یہ جمعہ کے دن کے آخری وقت میں ہے"

[حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" 2/489 میں اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے]

اور سنن ابن ماجہ (1139)میں عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہا:"ہم کتاب اللہ [یعنی تورات ] میں جمعہ کے دن ایک گھڑی [کا ذکر ]پاتے ہیں، جس گھڑی میں جو کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے کچھ مانگے تو اللہ تعالی اسکی وہی ضرورت پوری فرما دیتا ہے۔

عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [میری تصحیح کرتے ہوئے]اشارہ کیا: (یا گھڑی کا کچھ حصہ!؟)
میں نے کہا: آپ نے درست فرمایا: گھڑی کا کچھ حصہ۔
میں نے [آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے]عرض کیا: یہ گھڑی کونسی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے)
میں نے کہا: جمعہ کے دن آخری لمحہ نماز کا وقت تو نہیں ہوتا؟!
آپ نے فرمایا: صحیح کہتے ہو، لیکن جب کوئی مؤمن بندہ نماز پڑھ کر بیٹھ جائے، اور اسے نماز کا انتظار کہیں جانے سے روکے تو وہ شخص بھی نماز ہی میں ہے"
[اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے]

وفي سنن أبي داود (1046) والترمذي (491) والنسائي (1430) من حديث أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُهْبِطَ وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ وَفِيهِ مَاتَ وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ مُسِيخَةٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ حِينَ تُصْبِحُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنْ السَّاعَةِ إِلَّا الْجِنَّ وَالْإِنْسَ وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ حَاجَةً إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهَا قَالَ كَعْبٌ ذَلِكَ فِي كُلِّ سَنَةٍ يَوْمٌ فَقُلْتُ بَلْ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ قَالَ فَقَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ فَقَالَ صَدَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ثُمَّ لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ فَحَدَّثْتُهُ بِمَجْلِسِي مَعَ كَعْبٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ قَدْ عَلِمْتُ أَيَّةَ سَاعَةٍ هِيَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ لَهُ فَأَخْبِرْنِي بِهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ هِيَ آخِرُ سَاعَةٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ كَيْفَ هِيَ آخِرُ سَاعَةٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلِّي فِيهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ حَتَّى يُصَلِّيَ قَالَ فَقُلْتُ بَلَى قَالَ هُوَ ذَاكَ . قال الترمذي : حديث حسن صحيح . وفي الصحيحين بعضه [ صححه الألباني ] " انتهى من "زاد المعاد" (1/376).
ثانيا :
على القول بأنها من جلوس الإمام إلى انقضاء الصلاة ، لا يعني ذلك أن المأموم ينشغل بالدعاء ويعرض عن سماع الخطبة ، بل يستمع للخطبة ، ويؤمن على دعاء إمامه فيها ، ويدعو في صلاته ، في سجوده ، وقبل سلامه .
ويكون بذلك قد أتى بالدعاء في هذه الساعة العظيمة ، وإن أضاف إلى ذلك الدعاء في آخر ساعة بعد العصر ، فهو أولى وأحسن .

والله أعلم .
اسی طرح سنن ابو داود: (1046)، ترمذی: (491) اور نسائی: (1430) میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جن دنوں میں سورج طلوع ہوتا ہے، ان میں افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن میں آدم [علیہ السلام] کو پیدا کیا گیا، اسی دن دنیا میں انہیں اتارا گیا، اور اسی دن میں انکی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن انکی وفات ہوئی، جمعہ کے دن ہی قیامت قائم ہوگی، اور جنوں و انسانوں کے علاوہ ہر ذی روح چیز قیامت کے خوف سے جمعہ کے دن صبح کے وقت کان لگا کر خاموش رہتی ہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا ہے، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے، جس گھڑی میں کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنی کوئی بھی ضرورت مانگے تو اللہ تعالی اسکی ضرورت پوری فرما دیتا ہے)

تو کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک جمعہ میں ہوتا ہے؟
میں [ابو ہریرہ]نے کہا: بلکہ ہر جمعہ کو ایسے ہوتا ہے۔
تو کعب نے تورات اٹھائی اور پڑھنے لگا، پھر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔

ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ اسکے بعد میں عبد اللہ بن سلام کو ملا، اور انہیں اپنی کعب کے ساتھ مجلس کا تذکرہ بھی کیا، تو عبد اللہ بن سلام نے [آگے سے یہ بھی کہہ دیا] : مجھے معلوم ہے یہ کونسی گھڑی ہے!

ابو ہریرہ کہتے ہیں، میں نے ان سے التماس کی کہ مجھے بھی بتلاؤ یہ کونسی گھڑی ہے؟
تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے۔
پھر میں نے [اعتراض کرتے ہوئے] کہا: یہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیسے ہوسکتی ہے؟! حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان نماز پڑھتے ہوئے اسے پا لے) اور یہ وقت نماز پڑھنے کا وقت نہیں ہے[کیونکہ اس وقت نفل نماز پڑھنا منع ہے]؟!

تو عبد اللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: (جو شخص کسی جگہ بیٹھ کر نماز کا انتظار کرے تو وہ اس وقت تک نماز میں ہے جب تک نماز ادا نہ کر لے)
ابو ہریرہ کہتے ہیں: میں نے کہا: بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
تو عبد اللہ نے کہا: یہاں [نماز سے ] یہی مراد ہے۔"

امام ترمذی کہتے ہیں کہ: یہ حدیث حسن اور صحیح ہے، جبکہ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی اس حدیث کا کچھ حصہ روایت ہوا ہے، [اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے]" انتہی

ماخوذ از: "زاد المعاد": (1/376)

دوم:

اگر یہ کہا جائے کہ یہ گھڑی امام کے بیٹھنے سے لیکر نماز مکمل ہونے تک ہے، تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی دعا میں اتنا مشغول ہوجائے کہ خطبہ سننے سے بالکل توجہ ہٹ جائے، بلکہ خطبہ بھی سنے، اور امام کی دعا پر آمین بھی کہے،اپنی نماز میں سجدے ، اور تشہد میں سلام سے قبل بھی دعا کرے۔

چنانچہ یہ عمل کرنے سے اس عظیم گھڑی میں دعا کرنے کا موقع پا سکتا ہے، اور اسکے ساتھ اگر عصر کے بعد غروب آفتاب سے قبل بھی دعا مانگ لے تو یہ اور بھی اچھا اور بہتر ہے۔

واللہ اعلم .
https://islamqa.info/ar/answers/82609/
 
Top