• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن کی فضیلت (قبر کے عذاب سے نجات) ؟؟؟

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
تمام طرق ضعیف ہیں ۔
تعدد طرق سے حسن بننے کے قابل نہیں ۔
ہدایۃ الرواۃ میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے مسنداحمد کی ایک حدیث کو حسن کہا ہے۔لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔
معاوية بن سعيد التجيبي کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ابن حبان نے ثقہ کہا ہے اور ایک جماعت نے ان سے روایت کی ہے اس لئے یہ حسن الحدیث ہے۔
لیکن دوسری طرف امام درقطنی سے اس کی تضعیف ثابت ہے۔[من تكلم فيه الدارقطني في كتاب السنن من الضعفاء والمتروكين والمجهولين 3/ 133]
اس لئے اس روای کے حسن الحدیث ہونے کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اور ترمذی کی جو منقطع روایت طبرانی وغیرہ میں موصولا مروی ہے وہ بھی ضعیف ومنکر ہے۔

http://forum.mohaddis.com/threads/جمعہ-کے-دن-موت-کی-فضیلت،-عذاب-قبر-سے-نجات.26654/
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

جو جمعہ کے دن فوت ہو جائے اس کے پاس منکر نکیر نہیں آتے، کیا یہ درست ہے؟

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو جمعہ کے دن فوت ہو جائے اس کے پاس منکر نکیر نہیں آتے، کیا یہ درست ہے؟



الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح حدیث میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔

(شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی) (الاعتصام جلد نمبر ۲۰ ش نمبر ۳)

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 252

.
 
شمولیت
مئی 13، 2020
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
14
محترم بھائی !
اس حدیث کی تحقیق میں میں نے استاذ العلماء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خاں مدنی حفظہ اللہ کا فتوی اور تحقیق اسی لئے نقل کی ہے۔ کہ آپ جماعت اہل حدیث کے اکابر مفتیوں میں شمار ہوتےہیں ۔ اور اہل الحدیث کے بزرگ ، جید اور مستند علماء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ،
اورعلامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو ضعیف کہنا آپ نے نقل کردیا ہے ، جو علامہ مدنی کے فتوی کی قوی تائید ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل روایت سنن ترمذی سے درج ذیل ہے :
حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، وأبو عامر العقدي، قالا: حدثنا هشام بن سعد، عن سعيد بن أبي هلال، عن ربيعة بن سيف، عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر»
: «هذا حديث غريب». " وهذا حديث ليس إسناده بمتصل ربيعة بن سيف، إنما يروي عن أبي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو، ولا نعرف لربيعة بن سيف سماعا من عبد الله بن عمرو

ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہما کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن يا جمعہ کي رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے“
امام ترمذي کہتے ہيں: - يہ حديث غريب ہے، - اس حديث کي سند متصل نہيں ہے، ربيعہ بن سيف ابوعبدالرحمن حبلي سے روايت کرتے ہيں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے ۔ اور ہم نہيں جانتے کہ ربيعہ بن سيف کي عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہما سے سماع ہے يا نہيں۔
(سنن الترمذي ، حدیث نمبر 1074 )

---------------------------
اور یہی روایت مسند امام احمد ؒ میں تین مقامات پر منقول ہے :
6582 - حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ»
اس کے ذیل میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :
’’ اس کی اسناد ضعیف ہے کیونکہ ربیعہ بن سیف نے عبداللہ بن عمرو سے نہیں سنا ، (یعنی سند منقطع ہے ) گو باقی رجال ثقہ ہیں ‘‘
إسناده ضعيف، ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، وهو وهشام بن سعد ضعيفان، وباقي رجاله ثقات رجال الشيخين، أبوعامر: هو العقدي عبد الملك بن عمرو.
ومن طريق أحمد أخرجه المزي في "تهذيب الكمال" في ترجمة ربيعة بن سيف 9/116.
وأخرجه الترمذي (1074) ، والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (277) من طريق أبي عامر العقدي، بهذا الإسناد.
وأخرجه الترمذي (1074) أيضاً من طريق عبد الرحمن بن مهدي،

-------------------------------
دوسرے مقام پر ہے :
6646 - حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ»
اس کے ذیل میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :
یعنی یہ اسناد بھی ضعیف ہے کیونکہ بقیہ بن ولید جو مدلس ہیں ، اور تدلیس تسویہ کے مرتکب ہیں وہ یہاں ( عن ) سے روایت نقل کر رہے ہیں
إسناده ضعيف. بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- يُدلًس عن الضعفاء وُيسوي (*) ، ويسْتبيح ذلك، قال ابن القطان: وهذا إن صح، فهو مفسد لعدالته.
قال الذهبي: نعم -والله- صح هذا عنه أنه يفعله، وصح عن الوليد بن مسلم،=
بل عن جماعة كبارٍ فعْلُه، وهذه بلية منهم، ولكنهم فعلوا ذلك باجتهاد، وما جوزوا على ذلك الشخص الذي يُسقطون ذكره بالتدليس أنه تعمد الكذب، هذا أمثل ما يُعتذر به عنهم. ولم يتوقف الحافظ ابنُ حجر في جرح من يفعل ذلك، نقله عنه البقاعي كما في "توضيح الأفكار" 1/375.
ومعاوية بن سعيد: هو ابن شريح بن عروة التجيبي الفهمي مولاهم، المصري، لم يوثقه غير ابن حبان. وأبو قييل: تقدم بيان حاله في الحديث الذي قبله، وسيأتي برقم (7050) .
وسلف برقم (6582) بإسناد ضعيف أيضاً، وذكرنا هناك شواهده.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسرے مقام پر یوں ہے
7050 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَعِيدٍ التُّجِيبِيُّ، سَمِعْتُ أَبَا قَبِيلٍ الْمِصْرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ»
إسناده ضعيف، وهو مكرر (6646) . بقية: هو ابن الوليد.
ومعاوية بن سعيد: هو ابن شريح بن عروة التجيبي الفهمي مولاهم، المصري، لم يوثقه غير ابن حبان
یہ اسناد بھی ضعیف ہے کیونکہ معاویہ بن سعید کی ابن حبان کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی ۔
اور دوسرا راوی (ابو قبیل ) ہے جس کے متعلق علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :
وأبو قبيل -واسمه حيي بن هانىء المعافري- وثّقه غير واحد، وذكره ابنُ حبان في "الثقات"، وقال: كان يخطىء، وذكره الساجي في كتابه "الضعفاء"، وحكى عن ابن معين أنه ضعفه. قال الحافظ في "تعجيل المنفعة" ص 277: ضعيف، لأنه كان يكثر النقل عن الكتب القديمة.
-----------------------
اور مصنف عبدالرزاق میں بالاسناد یوں ہے :
5595 - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَاتَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ - أَوْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ - بَرِئَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ» أَوْ قَالَ: «وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ، وَكُتِبَ شَهِيَدًا»
اس میں ابن جریج سے اوپر والا راوی مجہول ہے ، اور ساتھ ہی روایت مرسل ہے کیونکہ ابن شہاب نے صحابی کا ذکر نہیں کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضیلة الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس روایت پر ضعف کے حکم سے رجوع ہے، انوار الصحیفہ و جامع ترمذی دارالسلام کے بعد والے ایڈیشنز میں حسن کہا ہوا ہے شیخ محترم نے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top