• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن وتشکیل قراء ات کی مختصرتاریخ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) منازل أحزاب (سات منازل احزاب)
یہ ساتوں فایط عزومیں جمع ہیں فاء فاتحہ کی، ہمزہ انعام کا، یاء یونس کی، طاء طٰہٰ کی، عین عنکبوت کی، زاء زمرکی، واو واقعہ کی رمز ہے۔ یہ سات منازل جمعہ سے شروع ہو کر جمعرات تک ختم ہوتی ہیں حضرت عثمان، حضرت زید، حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود﷢ کامعمول یہی تھا اور اعراب تجزیہ تنقیط قرآن وغیرہ کی تمام خدمات خلفاء بنوامیہ کے عہد میں سرانجام ہوئی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فائدہ
ان منازل کے عمل میں جمعیت دارین کے متعلق عجیب وغریب تاثیر ہے (شاہ عبد العزیز ﷫) اورقبولیت دعا وقضاء حاجات میں بھی مؤثر ہیں۔(ابن عباس)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فائدہ
اہل مصر ومغرب قرآن کوساٹھ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جن میں سے ہرایک کو حزب کے نام سے موسوم کرتے ہیں، جو تقریبا نصف پارہ ہوتاہے ۔پھر ہر حزب کے چار حصے بنالیتے ہیں، جن میں سے ہرایک کو ربع حزب یامقرء ا کہتے ہیں۔
ابن جزری ﷫ وغیرہ آئمہ کے زمانہ میں قرآن کے اجزاء دو طرح بنائے جاتے تھے ۔
(١) ایک سوبیس :جن میں سے ایک ایک جزوکا افراد روایات میں خیال کیا جاتاتھا اوراس طرح ہرروایت چارماہ کی مدت میں ختم کرتے تھے۔
(٢) دو سوچالیس اجزاء جن میں سے ایک ایک جزو کا جمع الجموع میں خیال کیا جاتا تھا اوراس طرح آٹھ ماہ میں پورے قرآن کی جمع الجموع مکمل کرلیتے تھے۔ (النشر: ۲، باب إفراد القراء ات وجمعہا)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) علامات رکوع
یہ علامات بھی خموس واعشار کی طرح شارع u سے ثابت نہیں بلکہ ان کومشائخ فقہاء اورعلماء ما وراء النہر نے مقرر کیا ہے۔ (ان کے تقرر کازمانہ تقریبا تین سو(۳۰۰ھ) کاشروع ہے) جب ہمارے مشائخ حنفیہ بالخصوص مشائخ بخارہ نے یہ دیکھاکہ لوگوں نے تروایح کی مقدار قراء ت کے اندازہ کیلئے تعاشیر (آیتوں کے دس دس ہونے کی نشانیاں ) لگائی ہوئی ہیں اور وہ ہر دس آیتوں پر ایک رکعت کرتے ہیں اوراس طرح پورے مہینے میں سنت کے موافق ایک ختم کرتے ہیں(کیونکہ بیس تراویح یومیہ کے حساب سے پورے ماہ کی کل رکعتیں چھ سوبنتی ہیں اورآیتوں کا شمار چھ ہزار سے کچھ زائد ہے پس اس طرح ہررکعت میں دس دس آیتیں پڑھنے سے پورے مہنے میں ایک قرآن ختم ہوتاہے) تو انہوں نے یہ خیال کیاکہ ان علامتوں میں کوئی خاص حسنِ کامل فائدہ اور زیادہ نفع نہیں کیوںکہ ان میں مضامین ومعانی کالحاظ قطعا نہیں حتیٰ کہ بعض اوقات یہ نشانی ایسے موقع پر ہوتی ہے، جہاں رکعت کاختم کرنا مناسب نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ایک دو آیتوں کا ملانا ضروری ہوتا ہے تاکہ مضمون پورا ہو جائے ۔نیز ان علامتوں کی رعایت سے ختم قرآن آخری رات میں ہوتاہے حالانکہ شب قدرکی فضیلت حاصل کرنے کے لئے ستائیسویں شب میں ختم کرنا زیادہ عمدہ ہے( کیوں کہ شب قدرکی زیادہ احادیث ا سی رات کے متعلق آئی ہیں لیکن اس کاالتزام بدعت ہے)اس لئے ان حضرات نے رکوع کی علامتیں وضع کیں اورقرآن کے پانچ سوچالیس(۵۴۰) رکوع مقررکئے جن میں دوباتوں کی رعایت وپابندی رکھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اول یہ کہ کوئی رکوع قراء ت کی فرض مقدارسے کم نہ ہوچنانچہ کوئی رکوع بھی ایسا نہیں جوتین چھوٹی آیتوں یاایک لمبی آیت سے کم ہواور قرآن کی آخری چھوٹی چھوٹی سورتیں سب کی سب مستقل رکوع ہیں۔
دوم یہ کہ ہررکوع ایک پورے مضمون پر مشتمل ہو جس میں کلمات کے شمار ومقدار کا لحاظ بھی ملحوظ ہو۔ہاں اگر کسی مضمون کو رکوع سے کافی لمبا دیکھا تو اس کے دو یااس سے زیادہ رکوع بنادئیے اسی طرح اگر کسی مضمون کو رکوع سے کافی چھوٹا دیکھا تو اس کوپورے رکوع کے بجائے اس کا ایک جزو بنادیا یہ بات تمام رکوعوں میں ملحوظ ہے۔
البتہ سورۃواقعہ عٰ کے پہلے رکوع میںقدرے خدشہ ہے کیونکہ وہ لأصحب الیمین پر ختم ہوتا ہے حالانکہ مضمون اس کے بعد کی دو آیتوں کے ملانے سے پورا ہوتاہے۔ اس کا حل یوں ہوسکتاہے کہ چونکہ یہ رکوعات ائمہ فن سے منقول نہیں بلکہ اجتہادی وفقہی ہیں نیز ان کے مقامات اورشمارمیں بھی اختلاف ہے چنانچہ متاخرین کے نزدیک کل رکوع پانچ سو اٹھاون(۵۵۸) ہیں اس لئے اس کا اتباع واجب نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ رکوع وثلۃ من الأخرین پر پورا ہوتاہے اسی پر رکعت کا ختم کرنا مناسب ہے ۔نیزیہ بھی احتما ل ہے کہ شروع میں تو بعض کم علم لوگوں نے اس کو مقرر کر دیا ہو لیکن پھر بعد والوں نے اسی کومعمول ولازم بنا لیاہو۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس جگہ قصہ یامضمون پوراہوتاہے یاجہاں امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان﷜نے جمعہ کی نماز میں رکوع کیاہے وہاں یہ شکل (ع) لکھ دیتے ہیں جو رکع کا مخفف ہے لیکن یہ بعید ہے۔ علامت رکوع (ع) پرتین ہندسے لکھتے ہیں جن میں سے اوپر والا ہندسہ سورت کے رکوع کی اورنیچے والا پارہ کے رکوع کی اور درمیان والا آیتوں کی تعداد ظاہرکرتاہے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔
(مبسوط شمس الأئمۃ سرخسي ﷫ (المتوفی ۴۹۰ھ ؁یا ۵۰۰ھ؁ ): ۲؍ ۱۴۶، قاضی خان (۵۹۲ھ؁):۱؍ ۲۱۷،۲۱۸برہامش، عالمگیر یہ،عالمگیری : ۱ ،تیسیر البیان)

٭_____٭_____٭
 
Top