ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
محنتیں عبث قرار پاتیں، آج تجوید وقراء ات کے ہزاروں مدارس وکلیات اس مملکت خداداد میں موجود نہ ہوتے اور ادارہ رشد کا قراء ات قرآنیہ کے سلسلہ میں قراء ات نمبرز کی اشاعت جیسا عظیم کام بھی سامنے نہ آتا۔ کچھ عرصہ پہے دیگر روایات میں صرف ’تلاوت‘ ہی ایسا ہی جرم تھا جیسا کہ آج مختلف روایات میں مصاحف کی اشاعت!
حتیٰ کہ ہر طلب پر ایک ایک کر کے سات حرف کانزول ہوا ۔(صحیح ابن حبان:۷۳۴) اسی طرح دیگر تمام وہ روایات، جن میں قراء ات کے سلسلہ میں صحابہ کے باہمی اختلاف کا ذکر ہے، ان میں موجود ہے کہ جب وہ اپنا اختلاف لے کر آپﷺکی خدمت میں پیش ہوئے توآپ ہر ایک کی قراء ت سننے کے بعدیوں فرمایا: ’’ھکذا أُنزِلَتْ،ہکذا أنزلت‘‘۔( صحیح البخاري:۵۰۴۱] خصوصا خود حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کے الفاظ ’’أنزِلَ القرآنُ علی سبعۃِ أحرُفٍ‘‘میں غور کیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ پہلی روایت کے مطابق ایک حرف کاآسمان سے آنا، پھر دوسرے حرف کا آسمان سے اترنا اور پھر تیسرے حرف کاآسمان سے نازل ہونا، حتی کہ معاملہ کا سات حروف تک اسی نوعیت پر پہنچ جانا،اسی طرح دوسری قسم کی روایات میں صحابہ کے مابین مختلف اندازوں سے پڑھنے کے بارے میں ہر ایک کے حوالے سے آپ کا یوں تصدیق کرنا:’’ھکذا أنزلت، ہکذا أنزلت‘‘(صحیح البخاري:۵۰۴۱)اور حدیث ’حروف ِسبعہ‘ میں قرآن کا سات حروف کے ہمراہ نازل ہونے کا ذکر ہونا،یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ قراء ات کا یہ تمام اختلاف بنیادی طور پرآسمانوں سے نیچے اترا ہے ، کیونکہ لغت میں نزول کا یہی معنی لکھا ہے کہ شے کا اوپر سے نیچے اترنا۔ ثابت ہوا کہ معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپﷺ نے اپنے اجتہاد سے ان کو جائز قرار دیااور اللہ کے تصویب کے ساتھ ان کوشریعت کامقام ملا۔
الغرض جب یہ مقدمہ متعین ہوگیاتو اس حوالے سے یہ سوال کرنا بنیادی طور پر درست نہیں رہتا کہ قراء ات کی اجازت رسول اللہﷺنے اپنے اجتہاد سے دی تھی اورجب یہ مشکل ختم ہوگئی تو پھر اس اجازت کو بعد از اں حضرت عثمان نے صحابہ سمیت یا بالفاظ دیگر امت نے ختم (منسوخ یا موقوف) کردیا۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ان قراء ات کی اجازت وحی سے ملی تھی، وحی کا ذریعہ صراحتاً اللہ کی طرف سے نزول کاہو یا وحی کا تعلق رسول اللہ ﷺکے اجتہاد اور اس پر اللہ کی تصویب کے قبیل سے ہو، ہر دو صورت میں اس گنجائش کوختم کرنے کے لیے وحی ہی سے نسخ ثابت کرنا ضروری ہے اور اگر وحی سے اس کانسخ ثابت نہ کیاجاسکے تو کسی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جیسے ہمارے ہاں مصالح مرسلہ اور سد الذرائع کی مباحث چلتی ہیں اور حالات کے تحت اگر پیش نظر وقتی وعارضی مشاکل و مصالح ختم ہوجائیں تو ہم ان اجتہادی آراء کو ختم کردیتے ہیں یا نئے حالات کے مطابق بدل دیتے ہیں، تو دین و شریعت کی مباحث میں بھی اسی طرح کا معاملہ حضرت عثمان اور صحابہ نے کیا تھا۔ امام ابن حزم نے الإحکام فی أصول الأحکام اور الفصل فی المِلَل والاھواء والنَّحل میں اس قسم کے عقیدے کو شدید ترین گمراہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عثمان اور صحابہ نے قطعا ایسا نہیں کیا، بلکہ اگر وہ یوں کرتے تو اس عمل سے ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتے۔(الاحکام:۱؍۵۶۵)
اگر اس معاملے کو کسی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو دین حنیف کے بے شمار وہ احکامات، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی مشاکل کو سامنے رکھتے ہوئے رخصتوں کے ضمن میں پیش کیے ہیں، ان کے بارے میں ملحدین کویہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ جب وہ مشاکل ومصالح ختم ہوجائیں یاحالات کا پس منظر بدل جائے تو دین کے اس قسم کے اَحکامات کو اجماعی یا انفرادی اجتہاد سے ختم کیا جاسکتاہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ کے علم وحکمت کے اوپر صریح اعتراض اور رسول اللہ ﷺ کے ختم نبوت کے واضح انکار کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث نے اسی مکروفریب سے قرآن میں خصوصا اور حدیثوں میں عموما وارد شدہ بے شمار جزئی احکامات کا اپنے تئیں انکار یا اجتہاد کے نام پر نسخ کرڈالا ہے، جیسے قتال کا انکار، کتاب وسنت میں وارد شدہ حدود وتعزیرات کا انکار، حجاب کا انکار، اسبال ِازار کا جواز، ڈارھی کا انکار، تصویر اور بت سازی کا جواز اور دیگر وہ کچھ جس سے پورے دین اسلام کا نقشہ الٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئے سیکولر اور لبرل اسلام کی تصویر سامنے آرہی ہے۔میں اس ضمن میں قرآن مجید میں وارد شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پیش کرنا ہی بیان کے لیے کافی سمجھتا ہوں:
’’لٰکِنِ اللّٰہ یَشْہَدُ بِمَا أنْزِلَ اِلَیْکَ أنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالمَلٰـئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَ وَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْدًا ‘‘(النساء:۱۶۶)
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالی کو کسی ذات، تمام جن وانس حتی کہ تمام فرشتوں تک کی حاجت نہیں، چہ جائیکہ ایک شے کو اللہ بطور اپنے حکم کے پیش کردیں اور سمجھا جائے کہ اللہ کے حکم کو پوری امت مل کر ختم کر سکتی ہے۔۱ھ