• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع کتابی سے متعلق چند توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محنتیں عبث قرار پاتیں، آج تجوید وقراء ات کے ہزاروں مدارس وکلیات اس مملکت خداداد میں موجود نہ ہوتے اور ادارہ رشد کا قراء ات قرآنیہ کے سلسلہ میں قراء ات نمبرز کی اشاعت جیسا عظیم کام بھی سامنے نہ آتا۔ کچھ عرصہ پہے دیگر روایات میں صرف ’تلاوت‘ ہی ایسا ہی جرم تھا جیسا کہ آج مختلف روایات میں مصاحف کی اشاعت!
حتیٰ کہ ہر طلب پر ایک ایک کر کے سات حرف کانزول ہوا ۔(صحیح ابن حبان:۷۳۴) اسی طرح دیگر تمام وہ روایات، جن میں قراء ات کے سلسلہ میں صحابہ﷢ کے باہمی اختلاف کا ذکر ہے، ان میں موجود ہے کہ جب وہ اپنا اختلاف لے کر آپﷺکی خدمت میں پیش ہوئے توآپ ہر ایک کی قراء ت سننے کے بعدیوں فرمایا: ’’ھکذا أُنزِلَتْ،ہکذا أنزلت‘‘۔( صحیح البخاري:۵۰۴۱] خصوصا خود حدیث ’سبعۃ أحرف‘ کے الفاظ ’’أنزِلَ القرآنُ علی سبعۃِ أحرُفٍ‘‘میں غور کیا جائے تو سمجھ آتا ہے کہ پہلی روایت کے مطابق ایک حرف کاآسمان سے آنا، پھر دوسرے حرف کا آسمان سے اترنا اور پھر تیسرے حرف کاآسمان سے نازل ہونا، حتی کہ معاملہ کا سات حروف تک اسی نوعیت پر پہنچ جانا،اسی طرح دوسری قسم کی روایات میں صحابہ﷢ کے مابین مختلف اندازوں سے پڑھنے کے بارے میں ہر ایک کے حوالے سے آپ کا یوں تصدیق کرنا:’’ھکذا أنزلت، ہکذا أنزلت‘‘(صحیح البخاري:۵۰۴۱)اور حدیث ’حروف ِسبعہ‘ میں قرآن کا سات حروف کے ہمراہ نازل ہونے کا ذکر ہونا،یہ سب کچھ بتاتا ہے کہ قراء ات کا یہ تمام اختلاف بنیادی طور پرآسمانوں سے نیچے اترا ہے ، کیونکہ لغت میں نزول کا یہی معنی لکھا ہے کہ شے کا اوپر سے نیچے اترنا۔ ثابت ہوا کہ معاملہ یہ نہیں تھا کہ آپﷺ نے اپنے اجتہاد سے ان کو جائز قرار دیااور اللہ کے تصویب کے ساتھ ان کوشریعت کامقام ملا۔
الغرض جب یہ مقدمہ متعین ہوگیاتو اس حوالے سے یہ سوال کرنا بنیادی طور پر درست نہیں رہتا کہ قراء ات کی اجازت رسول اللہﷺنے اپنے اجتہاد سے دی تھی اورجب یہ مشکل ختم ہوگئی تو پھر اس اجازت کو بعد از اں حضرت عثمان نے صحابہ سمیت یا بالفاظ دیگر امت نے ختم (منسوخ یا موقوف) کردیا۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ ان قراء ات کی اجازت وحی سے ملی تھی، وحی کا ذریعہ صراحتاً اللہ کی طرف سے نزول کاہو یا وحی کا تعلق رسول اللہ ﷺکے اجتہاد اور اس پر اللہ کی تصویب کے قبیل سے ہو، ہر دو صورت میں اس گنجائش کوختم کرنے کے لیے وحی ہی سے نسخ ثابت کرنا ضروری ہے اور اگر وحی سے اس کانسخ ثابت نہ کیاجاسکے تو کسی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جیسے ہمارے ہاں مصالح مرسلہ اور سد الذرائع کی مباحث چلتی ہیں اور حالات کے تحت اگر پیش نظر وقتی وعارضی مشاکل و مصالح ختم ہوجائیں تو ہم ان اجتہادی آراء کو ختم کردیتے ہیں یا نئے حالات کے مطابق بدل دیتے ہیں، تو دین و شریعت کی مباحث میں بھی اسی طرح کا معاملہ حضرت عثمان﷜ اور صحابہ﷢ نے کیا تھا۔ امام ابن حزم﷫ نے الإحکام فی أصول الأحکام اور الفصل فی المِلَل والاھواء والنَّحل میں اس قسم کے عقیدے کو شدید ترین گمراہی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حضرت عثمان﷜ اور صحابہ﷢ نے قطعا ایسا نہیں کیا، بلکہ اگر وہ یوں کرتے تو اس عمل سے ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتے۔(الاحکام:۱؍۵۶۵)
اگر اس معاملے کو کسی اصول کے طور پر تسلیم کرلیا جائے تو دین حنیف کے بے شمار وہ احکامات، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کی مشاکل کو سامنے رکھتے ہوئے رخصتوں کے ضمن میں پیش کیے ہیں، ان کے بارے میں ملحدین کویہ کہنے کا موقعہ مل جائے گا کہ جب وہ مشاکل ومصالح ختم ہوجائیں یاحالات کا پس منظر بدل جائے تو دین کے اس قسم کے اَحکامات کو اجماعی یا انفرادی اجتہاد سے ختم کیا جاسکتاہے۔ ایسا عقیدہ رکھنا اللہ کے علم وحکمت کے اوپر صریح اعتراض اور رسول اللہ ﷺ کے ختم نبوت کے واضح انکار کے مترادف ہے۔ منکرین حدیث نے اسی مکروفریب سے قرآن میں خصوصا اور حدیثوں میں عموما وارد شدہ بے شمار جزئی احکامات کا اپنے تئیں انکار یا اجتہاد کے نام پر نسخ کرڈالا ہے، جیسے قتال کا انکار، کتاب وسنت میں وارد شدہ حدود وتعزیرات کا انکار، حجاب کا انکار، اسبال ِازار کا جواز، ڈارھی کا انکار، تصویر اور بت سازی کا جواز اور دیگر وہ کچھ جس سے پورے دین اسلام کا نقشہ الٹ کر رہ گیا ہے اور ایک نئے سیکولر اور لبرل اسلام کی تصویر سامنے آرہی ہے۔میں اس ضمن میں قرآن مجید میں وارد شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پیش کرنا ہی بیان کے لیے کافی سمجھتا ہوں:
’’لٰکِنِ اللّٰہ یَشْہَدُ بِمَا أنْزِلَ اِلَیْکَ أنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ وَالمَلٰـئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَ وَکَفیٰ بِاللّٰہِ شَہِیْدًا ‘‘(النساء:۱۶۶)
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی شے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالی کو کسی ذات، تمام جن وانس حتی کہ تمام فرشتوں تک کی حاجت نہیں، چہ جائیکہ ایک شے کو اللہ بطور اپنے حکم کے پیش کردیں اور سمجھا جائے کہ اللہ کے حکم کو پوری امت مل کر ختم کر سکتی ہے۔۱ھ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باقی عوام کے حوالے سے اس حد تک تشویش بھی مناسب نہیں کیونکہ اولا تو وہ دینی الجھنوں کے لئے علماء سے رجوع کرتے ہیں اور علماء کرام کا قراء ات متواتر کے قرآن ہونے پر اجماع ہے۔ ثانیا عوام میں روایات مختلفہ میں تلاوت آج سے نہیں تقریباً نصف صدی سے جاری ہے۔ قاری عبدالباسط اور قاری عبدالصمد المصری اور قاری محمد صدیق منشاوی رحمہمااللہ کی مختلف روایات میں تلاوت کے کیسٹیں ہر گھر میں موجود ہیں اور آج ان کو دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ انہوں نے بھی متعدد روایات میں تلاوت کی طرح اسی غرض سے ڈالی تھی تاکہ عوامی سطح پر قراء اتِ قرآنیہ کو رواج ملے۔ فجزاھم اﷲ خیرالجزاء
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ باقی رہا یہ مسئلہ کہ کیا پاکستان کی سطح پر قرآن کریم کی مختلف قراء ات میں اشاعت کے حوالے سے کچھ کام ہواہے یانہیں؟ اس بارے میں عرض یہ ہے کہ آج سے تقریباً بیس سال پہلے حضرت قاری رحیم بخش صاحب﷫ نے جمیع قراء ات قرآنیہ میں الگ پاروں کی شکل میں قراء ات کے اختلافات کو جمع کر دیا تھا۔ ہمارا یہ یقین ہے کہ اگر ان کو وسائل میسر ہوتے تو وہ باقاعدہ مصاحف کی شکل میں بھی انہیں شائع فرما دیتے، اس کے علاوہ قراء ت اکیڈمی لاہور نے قرآن کریم کے حاشیہ پر جمیع قراء ت کو بھی کئی برس قبل شائع کردیاتھا یہ مصحف اگرچہ شامی مصحف کی فوٹو کاپی ہے لیکن عرض یہ ہے کہ اس کام کو سب سے اس طرز یعنی حاشیہ قرآن پر قراء ات کے اختلاف کو سب سے پہلے ہندوستان میں کیا گیا۔ باقی رہی عالم اسلام کی بات تو چار متداول روایات، روایت بزی وقنبل، دار القراء ات البانیہ سے قرآنی متن کے طور پر شائع ہو چکی ہیں او ردو مزید غیر متداول روایات ہشام اور ابن ذکوان پر کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں دار الصحابہ مصر تمام روایات متواترہ کو قرآن کریم کے حاشیہ پر الگ الگ اور مشترک طور پر دونوں صورتوں میں شائع کر چکا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مولانا مفتی شعیب عالم صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر قرآن کریم کے رسم وضبط کا خیال رکھے بغیر قرآن کریم کی اشاعت کی جائے تو یہ حرام اور ناجائز ہے اور اگر رسم و ضبط کا خیال کربھی لیا جائے پھر بھی فقہی مصلحت کی بنیاد پر قرآن کریم کی اشاعت نہیں ہونی چاہئے۔
قرآن کریم کی اشاعت بارے میں تو ہم نے صراحتاً ذکر کیا ہے کہ پاکستان کا کوئی دارہ یہ کام نہیں کر رہا، باقی رہا یہ مسئلہ کہ علم الرسم، ضبط اور علم الفواصل کا پورا پورا لحاظ رکھنا ضروری ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ جن محققین نے کویت کے لیے ایک تحقیقی کام کیا ہے اور وہ تمام بحمدﷲ قراء ات قرآنیہ کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ علم الرسم،علم الضبط اور علم الفواصل کے بھی ماہر تھے۔جہاں تک پاکستانی مصاحف میں علم الرسم، علم الضبط اور علم الفواصل کا جو معیار ہے اگر ہم وہ بیان کر دیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان محققین نے رسم وضبط کا کس حد تک اہتمام کیا ہے!
واضح رہے کہ ان محققین قراء ات نے کویت کیلئے جو کام کیا ہے اس میں رسم، ضبط، علم الفواصل اور عد الآی کیلئے اصل مصادر و مراجع کے ساتھ ساتھ ’ مجمع ملک فہد‘ کی طرف سے شائع شدہ مصاحف کوبنیاد بنایا ہے جن کی صحت پر عالم اسلام کے تمام محقق اہل فن کا اتفاق ہے۔
 
Last edited by a moderator:

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مولانا شعیب﷾ سے شکوہ
مولانا شعیب عالم﷾ اپنے تفصیل فتویٰ کے آخر میں فرماتے ہیں:
’’مذکورہ اَقدام کے اعلان کے ساتھ ہی مسلمانوں کے پرسکون ماحول میں اضطراب پیدا ہوچکا ہے۔ سوالات کی کثرت اس آنے والے طوفان کی خبر دے رہی ہے۔جب یہ طوفان درودیوار کے ساتھ ٹکرائے گا اس وقت اس کی شدت ہر کس و ناکس جان لے گا۔ کاش ہم اس کی آمد سے قبل بادلوں کے بدلتے ہوئے تیور اور سمندر کی مضطرب موجوں سے اس کا اندازہ لگاسکیں کچھ بعید نہیں کہ یہ کوشش و جسارت آگے چل کر کتاب اللہ کے ابدی وعدے کو غیر مؤثر بنانے کی اسکیم کا حصہ ہو۔‘‘
اس پیرا گراف میں جو تاثر دیا گیا ہے اس سے خود مولانا بھی بخوبی آگاہ ہیں اور قارئین بھی اندازہ کرسکتے ہیں۔ جس سے ان کے مخاطبین کو شدید تکلیف ہوئی ہے کہ ہم تو وہ کام کررہے ہیں جو خود آپ جیسے علماء اور جامعہ العلوم الاسلامیہ جیسے مدارس کا تھاتو آپ نے ہمارے بارے میں بھی مذکورہ جذبات کا اظہار کردیا ہے ان محولہ سطور میں جوبات زیادہ قابل اعتراض اور قابل توجہ ہیں ہم عرض کئے دیتے ہیں۔
محترم مولانا نے فرمایا کہ اس اَقدام کے اعلان کے ساتھ ہی مسلمانوں کے پرسکون ماحول میں اضطراب پیدا ہوچکا ہے۔ سوالات کی کثرت اس آنے والے طوفان کی خبر دے رہی ہے۔
تو سب سے پہلے تو کسی ایسے اقدام کا اعلان ہوا ہی نہیں ہے اور پھر اس سے مسلمانوں کے پُرسکون ماحول میں قطعاً کوئی اضطراب پیدا نہیں ہوا، جن کے ماحول میں اضطراب پیداہوا ہے وہ اس پرویز کی روحانی اولاد ہے جس کی تکفیر خود اہل السنۃ والجماعت کرچکے ہیں۔ یہ بے چینی ان منکرین حدیث و قرآن کو ہوئی ہے جو کہ حدیث کے انکار کی بہت بڑی بنیاد ان روایات کو بھی بناتے ہیں جن میں قراء ات قرآنیہ کی تائید موجود ہے تو ان کے بحر مردار میں تلاطم یقینی ہے اگر میرے محترم مولانا کو اس کا اندازہ نہیں ہے تو ’طلوع اسلام ‘اور ’البلاغ‘ کے چند سابقہ شمارے اُٹھا کر دیکھ لیں کہ ان کے وجود بیمار میں کس قدر ہیجان کی کیفیت ہے اور آپ کے ہاں سوالات کی کثرت بھی انہی کے چیلے چانٹوں کی طرف سے ہے اور خود مذکورہ سائل ذاکر حسین بھی اسی طبقہ کا فرد ہے جس کی بیمار ذہنی کااندازہ آپ اس سوالات کے مختلف اسالیب سے کرسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باقی یہ طوفان جن کی درودیوار کو سے ٹکرائے گا وہ آپ اور ہم نہیں ہیں وہ یہ منکرین حدیث ہیں جن کے چیخنے چلانے کے باوجود اللہ کے اس نور کی تکمیل ہوکر رہے گی۔ ’’وَاﷲ مُتِمُّ نُوْرِہٖ‘‘
جناب شیخ! آپ کے ان الفاظ نے ہمارے قرآنی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے ’’کچھ بعید نہیں کہ یہ کوشش و جسارت آگے چل کر کتاب اللہ کے ابدی حفاظت کے وعدے کو غیر مؤثر کرنے کی اسکیم ہو۔‘‘
اگر آپ ان جملوں کی گہرائی پر غور فرمائیں تو اَندازہ ہو گا کہ خادمین قرآن کیلئے یہ کس قدر تکلیف کاباعث ہیں، کیا ہمارے اَسلاف جو آپ کے بھی اَسلاف ہے انہوں نے جو بھی کام کیاہے اُسے ’جسارت‘ کے لفظ سے خراج تحسین پیش کرناچاہئے؟ ہم نے حضرت قاری عبد اللہ مکی ، حضرت قاری عبد الرحمن مکی، حضرت قاری عبد المالک المکی﷫، حضرت قاری اظہار احمد تھانوی﷫، حضرت قاری شریف صاحب، حضرت قاری حسن شاہ حضرت قاری محی الاسلام ،حضر ت قاری فتح محمد پانی پتی﷫، حضرت قاری رحیم بخش پانی پتی﷫ کی برسوں کی محنتوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر قراء ات نمبرز کی شکل میں آپ کی نذر کیا ہے۔ یا پھر یہ کہ کیا قرآن کریم کی وہ اشاعت جو دیگر روایات میں اس وقت پورے عالم اسلام میں ہورہی ہے۔ کیا اُسے ’جسارت‘ کہنا چاہئے اور اس سارے کام کو قرآن کریم کی ابدی حفاظت کو غیر مؤثر کرنے کی اسکیم کہنی چاہئے یقیناً یہ بہت بڑا کلمہ ہے جو اہل قرآن کی صدیوں کی محنت کو یک لخت خاک میں ملا دیتا ہے۔اللہ ہمیں صحیح صورت حال کو سمجھنے کی توفیق دے اور ہمیں بھی محافظین قرآن کی قابل رشک صف میں روزِقیامت کھڑا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسرے فتوی کے بارے میں گزارشات
منکرین حدیث کے گروہ سے کسی خیر و بھلائی کی امید تو کبھی نہیں رہی، لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ’منکروں کا ٹولہ‘ ایک وقت بنیادی انسانی اور اخلاقی قدروں سے بھی تہی دامن ہوجائے گا ۔
ان سطور سے ہمارا مقصود اَپنے ان اَلفاظ کی وضاحت کرنا ہے جنہیں حضرت مکی نے اپنی فریضہ کی انجام دہی میں بہت اچھالا ہے، لیکن سب سے پہلے ہم ذاکر حسین کے اِستفتاء اور حضرت کے فتویٰ میں بکھیرے گئے علمی و تحقیق فن پاروں کی بھی نشاندہی ضروری سمجھتے ہیں تاکہ علم و حکمت کے متلاشی اپنی پیاس بجھانے کی غرض سے اس علم کے ’بحرالکاہل‘ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
بلا تاخیر ہم ذاکر صاحب کے سوال اور مفتی صاحب کے جواب کا تذکرہ کرتے ہیں۔
بعد از سلام کچھ یوں گویا ہوئے ہیں۔
’’لاہور سے اہل حدیثوں کے ایک انتہا پسند گروپ کا ماہنامہ ’رُشد‘ نکلتا ہے۔ ‘‘
سب سے پہلے تو ہم ان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے مفتی صاحب و مسلمانان پاکستان کے علم میں اِضافہ فرمایا ہے کہ ’لاہور سے ماہنامہ رُشد نکلتا ہے‘ باقی رہی بات ’اہلحدیثوں کے ایک انتہا پسند گروپ‘ کی تو ہمارے مجلہ کے ٹائٹل، بیک ٹائٹل، سرورق پر کسی جگہ بھی مکتوب نہیں ہے کہ یہ اہلحدیثوں کا نمائندہ مجلہ ہے، بلکہ اگر جناب والا بیک ٹائٹل کو بغور نہیں سرسری نظر سے بھی پڑھ لیتے تو واضح ہوجاتا کہ صاحبان ’رُشد‘ کس نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ رُشد کے الحمدﷲ اغراض میں یہ بات شامل ہے کہ ُرشد کامقصد کسی خاص فقہی مکتبۂ خیال کے بجائے دینِ اسلام کی ترجمانی کرنا تاکہ وحدت اُمت مرحومہ کو قائم رکھا جاسکے۔ رہا ’انتہا پسند گروپ‘ تو یہ جملہ ان منکرین حدیث و قران نے اپنے پرانے دکھوں کے مداوے کے طور پر درج کیا ہے کیونکہ الحمدﷲ ادارہ اپنے مؤقر جریدے ماہنامہ ’محدث‘ کے ذریعہ ’فتنہ انکار حدیث‘ کی سرکوبی کرتا رہتا ہے، باقی رہی یہ بات کہ پاکستان کے جمیع مکاتب فکر ہمیں کس نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ آپ ’رُشد‘ قراء ات نمبر حصہ دوم، سوم میں علماء کے فتاویٰ ،تبصرہ جات سے بخوبی اَندازہ کرسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:
’’جس نے اپنے جون ۲۰۰۹ء کے صفحہ ۲۷۸ پر لکھا ہے کہ اختلاف قراء ت پر مبنی تین اختلافی قرآنی مصاحف (ورش کا، قالون کا، دوری کا) پاکستان سے باہر شائع ہو چکے ہیں۔‘‘
جبکہ صفحہ ۶۷۸ پر یہ عبارت یا اس سے ملتی جلتی عبارت یا کسی بھی اُسلوب میں ہم نے یہ خبر دی ہو کہ مصاحف شائع ہوچکے ہیں، سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مجھے تو حیرت جناب مفتی صاحب پر ہے کہ خود انہوں نے بھی یہ زحمت نہ فرمائی کہ کم سے کم تصدیق کے لیے سارا مجلہ نہیں کم اَزکم صفحہ نمبر۶۷۸ کو ہی دیکھ لیتے کہ ذاکر صاحب کی بصارت کہیں ٹھوکر ہی نہ کھا گئی ہو۔ سائل بعد اَز نکتہ اوّل یوں گویا ہوتے ہیں:
’’اب موجودہ قرآن کریم کے علاوہ مزید ۱۶ قاریوں کے اختلافات والے قرآنی مصاحف وہ شائع کردے گا۔‘‘
ہم اپنے مؤقر سوال نویس اور جواب نویس سے کم از کم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم نے صفحہ نمبر ۶۷۸ پرکس جگہ لکھا ہے کہ رُشد عنقریب اسے شائع کر رہا ہے یا مستقبل میں اس کو شائع کرنے کا پروگرام رکھتا ہے، بلکہ ہم نے تو اُن عالمی اداروں کی خدمت میں بھی یہ عرض کیا ہے کہ اگر علمی سطح پر اس کام کو کر بھی لیا جائے تو اس کو لائبریریوں تک ہی محدود رکھا جائے، اگر عوامی سطح پر لانا بھی ہے تو پہلے عوام میں اس قدر آگہی و شعور پیدا کیا جائے تاکہ کسی فتنہ کا اندیشہ نہ رہے۔ باقی کلیۃالقرآن کے فضلاء نے جو ایک علمی کام سر انجام دیا ہے اس کے بارے میں بھی کھلے لفظوں لکھا ہے کہ کویت کے ایک عالمی ادارے کے لیے کیا ہے اور ان سے سفارش کی ہے کہ وہ مصاحف کے سلسلہ میں معروف عالمی اداروں سے نظرثانی کئے بغیر شائع نہ کریں۔ جیسا کہ اسی قراء ات نمبر ۱ کے صفحہ نمبر ۶۸۱ پر ہماری سفارشات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اصل میں جو تکلیف طبقہ مذکورہ یعنی ’منکرین کے ٹولے‘ کو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے کہا کہ انکار حدیث کے فتنے کا بھی اس سے سدباب ہو گا۔ ان کے پیٹ میں مروڑ اس بات اُٹھا ہے کہ کہیں ہماری غیر مسلم چاکری، اور اُن سے مسلمانوں میں فتنے پھیلانے کے لیے جو من و سلویٰ بٹورتے ہیں اُس کے سلسلہ پر ختم شد کی مہر ثبت نہ ہوجائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِس کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
’’تاریخ اسلام میں یہ اس زمانہ کی نئی بدعت ہوگی۔ خلافت راشدہ سے اُموی خلافت، عباسی خلافت، عثمانی (ترکی) خلافت میں کبھی ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی برصغیر میں ایسا ہوا ہے حتیٰ کہ کسی غیر مسلم تک کو اس کی جرأت نہیں ہوئی۔‘‘
سائل ذاکر کی تاریخ بینی اور پھر قرآنی معلومات بھی بہت خوب ہیں کہ ِاختلافِ قراء ات کے ساتھ آج تک دنیا میں کوئی مصحف نہیں شائع ہوا۔ تو اس سلسلہ میں مشورہ مخلصانہ یہ ہے کہ آپ نے ہماری ان چند سطروں کی نقاب کشائی کیلئے جو چند دنو ں میں اِسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کر ڈالا ہے بہتر یہ تھا کہ آپ صرف خلافتِ راشدہ کے دور کا ہی تحقیقی مطالعہ فرما لیتے تو بخوبی علم ہوجاتا کہ مصاحف ِعثمانیہ میں بھی باہم فرق تھا۔ اور مزید گزارش ہے کہ اپنی اس تاریخی ریسرچ میں ہوسکے تو قراء ات نمبر حصہ اوّل کے مضمون ’مروجہ قراء اتِ قرآنیہ اور مطبوع مصاحف کا جائزہ‘ کو بھی شامل فرما لیں یا پھر کم ازکم قراء ات نمبر حصہ دوم کے ٹائٹل کو ہی دیکھ لیں تاکہ تاریخ اسلامی کے قرآنی پہلو کا بھی آپ کو علم ہوسکے۔ باقی یہ کہ آپ کو بات کی سمجھ کس قدر آتی ہے تو اس بارے میں ہم سوائے نیک خواہش کے اور دعا کے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
اس کے بعد ہم الجواب کی طرف آتے ہیں اور فاضل مفتی صاحب کی اِفتاء نظری کا جائزہ لیتے ہیں۔ خطبہ کے بعد تمہید کا آغاز ہوتا ہے، فرماتے ہیں:
’’جیسا کہ سائل نے سوال میں اس حقیقت کا اظہار کردیا ہے کہ اختلاف قراء ت پر مبنی قرآنی مصاحف شائع کرنے کی جرأت خلافتِ راشدہ سے اُموی خلافت، عباسی خلافت، عثمانی (ترکی) خلافت تک حتیٰ کہ شیعہ مملکت ایران تک میں نہ شاہ کے زمانہ میں نہ خمینی کے بعد کسی نے بھی نہیں کی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس پر یہ مثل خوب صادق آتی ہے: ’چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ‘
کہ چھوٹے میاں ایران کا تذکرہ بھول گئے تھے بڑے میاں نے اسے بھی شامل کردیا۔ ہماری گذارش ہے کہ دوبارہ دنیا کا نقشہ گھما کر تسلی کر لیں ممکن ہے کوئی ملک رہ گیا تاکہ بعد کی پشیمانی سے قبل از وقت بچا جاسکے۔
دوسری لطیفے کی بات یہ ہے کہ بڑے میاں یہاں کوئی اپنی بات ذکر نہیں کررہے بلکہ چھوٹے میاں کی ہے بات کو دوہرا رہے ہیں۔ جیسا کہ ان مذکورہ بالا اِقتباس سے واضح ہے لیکن لگتا ہے فتویٰ لکھتے وقت شاید ہوا تیز چل رہی تھی کہ جو مقدس سوال نامہ سامنے سے غائب ہوگیا ہے کیونکہ سوال میں سائل نے ایران کا اور ایران کے دونوں اَدوار قبل اَز انقلاب اور بعد اَز اِنقلاب کا تذکرہ نہیں کیا جو شاید سہواً ہوگیا ہے اور اسی طرح سائل ذی وقار نے برصغیر کا تذکرہ کیا جو بڑے میاں عمداً، سہواً یا نشۃً بھول گئے ہیں۔ بہرحال قارئین درست فرمالیں۔
اس کے بعد پھر مفتی صاحب کے کیا کہنے! بس قرآنی معلومات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ کرتے بھی کیوں نہ، وہ قرآنی مرکز کے صدر نہیں ہیں؟
فرماتے ہیں:
’’پہلی مرتبہ، یہ حرکت مشہور مستشرق آرتھر جیفرے نے بیسویں صدی میں کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘
لگتا ہے ان کی نظر ’رُشد ‘قراء ات نمبر اول کے مضمون ’اختلاف ِقراء اتِ قرآنیہ اور مستشرقین‘ پر پڑگئی ہے کیونکہ جن صدر صاحب کو یہ نہیں پتہ کہ قرآن کے اعراب پرکس نے کام کیا ہے ان کی جانے بلا کہ مستشرقین کے کام کی نوعیت کیا ہے؟ مزید فرماتے ہیں:
’’ان نادان دوستوں کی پشت پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اَیسا دماغ کام کررہا ہے جو چاہتا ہے کہ خلافت ِراشدہ سے خلافت عثمانیہ (ترکی) تک کے اِجماع اُمت کے خلاف ان سے اس بدعت کی جرأت کرائے جو درحقیقت قرآن دشمنی پر منتج ہوتی ہے۔‘‘
 
Top