عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
آئین و دستور
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
۳۰؍ اگست ۱۹۸۶ء کو لاہور میں ’متحدہ شریعت محاذ پاکستان‘ کے زیر اہتمام جملہ دینی مکاتبِ فکر کی نمائندہ کمیٹی نے شریعت بل کے ترمیم شدہ مسودے پر اتفاق کیا اور مؤرخہ ۲۶ء اکتوبر ۱۹۸۶ء جامعہ نعیمیہ، لاہور میں ہزاروں اور مشائخ کے عظیم الشان کنونشن میں مولانا سمیع الحق کی طرف سے، قاضی عبد اللطیف کی تائید سے ترمیمی شریعت بل کے لئے قرار داد پیش کی گئی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ سطورِ ذیل میں کمیٹی کی رپورٹ حذف کر کے خالص شریعت بلا کا متن پیش خدمت ہے۔
واضح رہے کہ اسی رپورٹ کی روشنی میں متحدہ محاذ نے آئین میں مجوزہ نویں ترمیم کی اصلاح و تکمیل کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ تاکہ شریعت بل دستور سے ہم آہنگ رہے، گویا آئین میں مطلوبہ ترمیم شریعت بل کی منظوری کی بنیاد قائم کرنے کے لئے ہے جس کا حاصل نفاذِ شریعت ہے۔
ابتدائیہ:
ہر گاہ کہ قرار دادِ مقاصد، جو پاکستان میں شریعت کو بالا دستی عطا کرتی ہے، کو دستور اسلامی جمہوریۂ پاکستان ۱۹۷۳ء کا مستقل بالذات حصہ بنا دیا گیا ہے۔
اور ہر گاہ کہ مذکورہ قرار دادِ مقاصد کے اغراض کو بروئے کار لانے کے لئے ضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
دفعہ نمبر (۱): مختصر عنوان، وسعت اور آغازِ نفاد:
الف) اس ایک کو ’نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۸۶ء‘ کہا جائے گا۔
ب) یہ ایکٹ تمام پاکستان پر وسعت پذیر ہو گا۔
ج) اس ایکٹ میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہ ہو گا۔
د) یہ ایکٹ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
دفعہ نمبر (۲): تعریفات:
اس ایکٹ میں تاوقت یہ کہ متنسے کوئی مختلف مفہوم مطلوب ہو، مندرجہ ذیل اصطلاحات سے وہ مفہوم مراد ہے جو ذیل میں اُنہیں دیا گیا ہے۔ یعنی:
الف) ’قرار دادِ مقاصد‘ سے مراد وہ مفہوم ہے جو آرٹیکل ۲؍ الف، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء میں اسے دیا گیا ہے۔
ب) ’مقررہ‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں۔
ج) ’شریعت‘ سے مراد قرآن و سنت ہیں۔
توضیح:
قرآن و سنت کے اَحکام کی تعبیر کرتے ہوئے درج ذیل مآخذ سے رہنمائی حاصل کی جائے گی:
(۱) سنت خلفائے راشدین (۲) تعامل اہلِ بیت عظام و صحابہ کرام
(۳) اجماعِ اُمت (۴) مسلمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء
دفعہ نمبر (۳): شریعت کی دیگر قوانین پر بالاتری:
کسی دیگر قانون، رواج، تعامل یا بعض فریقوں کے مابین معاملہ یا لین دین میں شامل کسی بھی امر کے اس سے مختلف ہونے کے باوجود شریعت، پاکستان میں بالا تر قانون کی حیثیت سے مؤثر ہو گی۔
دفعہ نمبر (۴): عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی:
ملک کی تمام عدالتیں تمام اُمور و مقدمات بشمول مالی اُمور وغیرہ میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی اور شریعت کے خلاف فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ اگر کسی عدالت میں یہ سوال اُٹھایا جائے کہ آیا کوئی قانون یا فیصلہ شریعت کے منافی ہے، تو اس مسئلہ کے تصفیہ کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔
جملہ مکاتب فکر کا متفقہ ترمیمی شریعت بل ۱۹۸۶ء
اس مضمون کو کتاب وسنت ڈاٹ کام سے پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
۳۰؍ اگست ۱۹۸۶ء کو لاہور میں ’متحدہ شریعت محاذ پاکستان‘ کے زیر اہتمام جملہ دینی مکاتبِ فکر کی نمائندہ کمیٹی نے شریعت بل کے ترمیم شدہ مسودے پر اتفاق کیا اور مؤرخہ ۲۶ء اکتوبر ۱۹۸۶ء جامعہ نعیمیہ، لاہور میں ہزاروں اور مشائخ کے عظیم الشان کنونشن میں مولانا سمیع الحق کی طرف سے، قاضی عبد اللطیف کی تائید سے ترمیمی شریعت بل کے لئے قرار داد پیش کی گئی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ سطورِ ذیل میں کمیٹی کی رپورٹ حذف کر کے خالص شریعت بلا کا متن پیش خدمت ہے۔
واضح رہے کہ اسی رپورٹ کی روشنی میں متحدہ محاذ نے آئین میں مجوزہ نویں ترمیم کی اصلاح و تکمیل کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ تاکہ شریعت بل دستور سے ہم آہنگ رہے، گویا آئین میں مطلوبہ ترمیم شریعت بل کی منظوری کی بنیاد قائم کرنے کے لئے ہے جس کا حاصل نفاذِ شریعت ہے۔
ابتدائیہ:
ہر گاہ کہ قرار دادِ مقاصد، جو پاکستان میں شریعت کو بالا دستی عطا کرتی ہے، کو دستور اسلامی جمہوریۂ پاکستان ۱۹۷۳ء کا مستقل بالذات حصہ بنا دیا گیا ہے۔
اور ہر گاہ کہ مذکورہ قرار دادِ مقاصد کے اغراض کو بروئے کار لانے کے لئے ضروری ہے کہ شریعت کے فی الفور نفاذ کو یقینی بنایا جائے۔
دفعہ نمبر (۱): مختصر عنوان، وسعت اور آغازِ نفاد:
الف) اس ایک کو ’نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۸۶ء‘ کہا جائے گا۔
ب) یہ ایکٹ تمام پاکستان پر وسعت پذیر ہو گا۔
ج) اس ایکٹ میں شامل کسی امر کا اطلاق غیر مسلموں کے شخصی قوانین پر نہ ہو گا۔
د) یہ ایکٹ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
دفعہ نمبر (۲): تعریفات:
اس ایکٹ میں تاوقت یہ کہ متنسے کوئی مختلف مفہوم مطلوب ہو، مندرجہ ذیل اصطلاحات سے وہ مفہوم مراد ہے جو ذیل میں اُنہیں دیا گیا ہے۔ یعنی:
الف) ’قرار دادِ مقاصد‘ سے مراد وہ مفہوم ہے جو آرٹیکل ۲؍ الف، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان ۱۹۷۳ء میں اسے دیا گیا ہے۔
ب) ’مقررہ‘ سے مراد اس ایکٹ کے تحت مقررہ قواعد ہیں۔
ج) ’شریعت‘ سے مراد قرآن و سنت ہیں۔
توضیح:
قرآن و سنت کے اَحکام کی تعبیر کرتے ہوئے درج ذیل مآخذ سے رہنمائی حاصل کی جائے گی:
(۱) سنت خلفائے راشدین (۲) تعامل اہلِ بیت عظام و صحابہ کرام
(۳) اجماعِ اُمت (۴) مسلمہ فقہائے اسلام کی تشریحات و آراء
دفعہ نمبر (۳): شریعت کی دیگر قوانین پر بالاتری:
کسی دیگر قانون، رواج، تعامل یا بعض فریقوں کے مابین معاملہ یا لین دین میں شامل کسی بھی امر کے اس سے مختلف ہونے کے باوجود شریعت، پاکستان میں بالا تر قانون کی حیثیت سے مؤثر ہو گی۔
دفعہ نمبر (۴): عدالتیں شریعت کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کریں گی:
ملک کی تمام عدالتیں تمام اُمور و مقدمات بشمول مالی اُمور وغیرہ میں شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی اور شریعت کے خلاف فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ اگر کسی عدالت میں یہ سوال اُٹھایا جائے کہ آیا کوئی قانون یا فیصلہ شریعت کے منافی ہے، تو اس مسئلہ کے تصفیہ کے لئے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔