• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت اور خلافت کے چمپین

نعمان اکرم

مبتدی
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
21
"جمہوریت کفر ہے "باقی سارے کام ہوگئے ہیں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ان کے نزدیک خلافت اور جمہوریت رہ گیا ہے ۔۔
میں جب کسی کو خلافت کے حق میں، جمہوریت کی مخالفت کرتے ہوئے اور اسی طرح جمہوریت کے حق میں، خلافت کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے۔ دونوں کے حامیوں کی ایک دوسرے کی مخالفت میں اور اپنی اپنی عینک لگا کر دونوں نظاموں کو دیکھنے والوں کی سوچ پر۔ کئی مسلمان اور اسی طرح کئی مغرب کے دلدادہ بھی ان ملتے جلتے نظاموں کو اپنے اپنے نام دیتے ہیں اور ایک دوسرے کی مخالفت میں دوسرے کے نظام کی بھی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
عام طور پر جمہوریت کی تین اقسام (بلاواسطہ، نمائندگانی اور آئینی جمہوریت) ہیں۔ فی الحال ان اقسام کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، کیونکہ یہاں اس کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت کے تحت اس وقت دنیا میں کئی قسم کے طرزِ حکومت چل رہے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال صدارتی اور پارلیمانی نظام وغیرہ ہیں۔ جمہوریت میں صدر یا وزیراعظم یا دونوں ہوتے ہیں۔ جنہیں پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی کے نمائندگان منتخب کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح خلافت میں خلیفہ ہوتا ہے، جس کو مجلس شوریٰ منتخب کرتی ہے۔ غور کریں! یہاں تک فرق صرف اپنے اپنے رکھے ہوئے ناموں کا ہے۔ کوئی اسے قومی اسمبلی کہتا ہے تو کوئی مجلس شوری کہتا ہے جبکہ صدر، وزیراعظم یا خلیفہ کو چند ”بڑے لوگوں“ کا ایک گروہ ہی منتخب کرتا ہے۔
یہاں سے ایک قدم آگے چلیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی یا مجلس شوری کن لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے؟ جمہوریت والے کہتے ہیں قومی اسمبلی کے نمائندے عوام منتخب کرتے ہیں جبکہ خلافت والے کہتے ہیں کہ مجلس شوری پرہیزگار، اچھے، ایماندار، معزز اور صاحب رائے وغیرہ لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں قومی اسمبلی والا کھاتا تو صاف ہوا کہ انہیں عوام منتخب کرتے ہیں، مگر مجلس شوری والے معتبر اور صاحب رائے لوگوں کے معاملے پر شاید کچھ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ ”معتبر“ کی وضاحت کون کرے گا اور یہ کیسے منتخب ہوں گے۔ آخر کون بتائے گا، کون فیصلہ کرے گا کہ فلاں معتبر و معزز ہے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ جی بس معزز معزز ہوتا ہے اور نظر آ جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بھائیو! بتاؤ تو سہی کہ کیسے نظر آتا ہے؟ آخر جانچ پرکھ کا کوئی پیمانہ تو ہو گا صاحبو ؟
بہرحال کوئی پیمانہ نہیں بتایا جاتا اور الٹا جس پیمانے کی مخالفت کی جاتی ہے، جس پیمانے کو فراموش کیا جاتا ہے، میری نظر میں حقیقتاً وہی اصل پیمانہ ہے اور وہ پیمانہ ہے گواہی۔ ایک جزا و سزا بروز قیامت ہو گی مگر دنیا میں اکثر معاملات میں جزا و سزا کا پیمانہ اللہ تعالیٰ نے ”انسان کی گواہی“ کو مقرر کیا ہے۔ اس کو مزید سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک انسان جرم کرتا ہے مگر جرم کا کوئی ثبوت نہیں۔ اب وہ مجرم تو ہے لیکن اسے تب تک سزا نہیں ہو سکتی جب تک چند لوگ اس کے جرم کی گواہی نہ دیں۔ اب گواہی نہیں تو قاضی کو اسے بری کرنا ہی ہو گا۔ پس ثابت ہوا کہ چاہے کوئی مجرم ہو مگر آپ اسے تب تک مجرم نہیں کہہ سکتے جب تک گواہی موجود نہ ہو۔ جس طرح کسی کا جرم گواہی کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے بالکل ایسے ہی کسی کی اچھائی بھی گواہی کی بنیاد پر ثابت ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا مثال کو اُلٹا لیتے ہیں یعنی پہلے کسی کو مجرم ثابت کرنے کی مثال دی ہے اب کسی کو نمازی ثابت کرنے کی مثال دیتا ہوں۔ ایک بندہ بڑی نمازیں پڑھتا ہے مگر آج تک کسی نے اسے نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو کیا معاشرہ اس شخص کو نمازی مان لے گا؟ گو کہ وہ نمازی ہے اور اس کا اجر اسے اللہ ضرور دے گا مگر بات بروز قیامت کی نہیں بلکہ بات تو دنیا کی ہے اور دنیا میں فطرت کا قانون یہی ہے کہ سزا اور جزا گواہی پر ہی ہو گی۔ اللہ کی نظر میں کسی کے تقویٰ کا معیار چاہے جو بھی ہو لیکن دنیا میں کسی شخص کے کردار کی جو گواہی معاشرہ دے گا وہ شخص وہی کہلائے گا یعنی دنیا میں اس کام کی طاقت معاشرے کو سونپ دی گئی ہے۔ معاشرہ گواہی دیتا ہے کہ فلاں معتبر و معزز ہے تو وہ بندہ ہے۔ اگر معاشرہ گواہی نہیں دیتا تو وہ بندہ نہیں۔
ہاں تو اب آپ کا کیا خیال ہے کہ دنیا میں معزز کون ہوتا ہے؟ وہ جو خود کو معزز کہے یا وہ جس کی لوگ گواہی دیں۔ دنیا کے لئے یہی نظام بنا دیا گیا ہے کہ جن کی اچھائی کی لوگ گواہی دیتے ہیں وہ معزز قرار پاتے ہیں۔ اب یہ تو معاشرے کی تربیت اور ان کے اچھائی کے پیمانے کے معیار پر ہے کہ وہ کسے معزز بناتے ہیں۔ آیا وہ اچھے لوگوں کو بہتر مقام دیتے ہیں یا چور ڈاکو کو معزز بنا دیتے ہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ہر خاص و عام گواہی نہیں دے سکتا بلکہ سچے لوگ ہی گواہی دے سکتے ہیں۔ پھر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گواہی دینے والے کی سچائی کا کیا پیمانہ ہو گا؟ آخر کون بتائے گا کہ فلاں سچا ہے؟ اس کا جواب بھی وہی ہے، معاشرہ کی رائے ہی بتاتی ہے کہ فلاں کیا ہے اور کیا نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بات عام لوگوں کی رائے سے ہی شروع ہوتی ہے اور اوپر تک جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس میں عام لوگ خاص کو اور خاص اپنے سے زیادہ خاص کو منتخب کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ مجلس شوریٰ کے معزز لوگ خودبخود اوپر آ جاتے ہیں۔ جی بالکل خودبخود آ سکتے ہیں مگر غور کریں تو اس ”خودبخود“ کے پیچھے عوام ہی ہوتی ہے۔ وہ معزز اسی لئے قرار پاتے ہیں کیونکہ عوام انہیں معزز بناتی ہے۔ بہرحال کان چاہے اِدھر سے پکڑو یا اُدھر سے۔ حقیقت یہی ہے کہ لوگوں کی طاقت، رائے اور گواہی سے ہی سب کچھ ہوتا آیا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا۔ لوگوں کی رائے سے مجلس شوری بناؤ یا قومی اسمبلی، مجلس شوری خلیفہ منتخب کرے یا قومی اسمبلی وزیر اعظم، بات ایک ہی ہے بس ہر کسی نے اپنا اپنا نام دے رکھا ہے۔
کئی لوگ خلافت کا مطلب صرف یہ لیتے ہیں کہ جب پوری امت مسلمہ کا ایک حکمران ہو گا تو وہ خلیفہ ہو گا۔ جبکہ ایسا نہیں بلکہ خلافت تو خلیفہ منتخب کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ حکمران بنانے کا طریقہ کار ہی تو واضح کرتا ہے کہ حکمران خلیفہ ہے، بادشاہ ہے یا ڈکٹیر وغیرہ ہے۔ ویسے مغرب والے یورپی یونین بنا سکتے ہیں تو مسلمان متحد ہو کر خلافت کیوں نہیں بنا سکتے۔ مگر ٹھہرو! پہلے یہ بات تو سمجھ لو کہ خلیفہ جمہوری طریقے سے ہی بنے گا، خلیفہ عوام کی رائے سے ہی منتخب ہو گا۔
عوام کو بعیت کرنی پڑے گی جیسے عوام ووٹ دیتی ہے ایسے ہی بعیت کرے گی۔ پہلے جمہوریت کے ذریعے ہر ہر مسلمان ملک میں معزز لوگ چن کر مجلس شوری بنے گی، پھر ہر ملک کی مجلس شوری اپنے ملک کا خلیفہ چنے گی، پھر تمام ممالک کے خلفاء کی ایک مجلس شوری ہو گی اور یہ خلفاء کی مجلس شوری ایک ”خلیفہ اعظم“ چنے گی۔
کہتے ہیں کہ خلافت میں اسلامی قانون رائج ہوتا ہے اور خلیفہ اللہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں عوام کی اکثریت کی مرضی کا قانون رائج ہوتا ہے اور صدر یا وزیراعظم عوام کو جوابدہ ہوتا ہے۔ میں یہ بات تو تفصیل سے کر چکا ہوں کہ خلافت ایک جمہوری طریقہ ہے۔ اب اس قانون کی بات یوں سمجھیں کہ جب عوام مسلمان ہو گی تو ظاہر ہے کہ وہ اسلامی قانون رائج کرنے کے حق میں ہو گی تو ایسے بندے کو منتخب کرے گی جو اسلامی قانون رائج کرے گا، بالکل اسی طرح اگر عوام اسلامی قانون کے حق میں نہیں ہو گی تو اسلامی قانون رائج نہیں ہو گا بلکہ جو عوام کہے گی وہی قانون ہو گا۔ رہی بات اللہ یا عوام کو جوابدہ کی تو ایک اچھا مسلمان ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی جوابدہ ہے۔ اب کئی لوگوں کو عوام کو جوابدہ ہونے پر اعتراض ہو گا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ والا وہ واقعہ یاد کریں جس میں ایک بندے نے خلیفہ وقت سے فقط اک کپڑے کے ٹکڑے کا جواب مانگ لیا تھا۔ آسان الفاظ میں یہ کہ طریقہ جمہوری ہی ہو گا۔ اب ملک مسلمانوں کا ہوا تو خودبخود اسلامی قانون رائج ہو جائے گا اور اگر غیرمسلموں کا ہے تو وہ اپنی مرضی کا قانون رائج کر لیں گے۔ اگر حکمران (خلیفہ یا صدر وغیرہ) مسلمان ہو گا تو وہ اللہ کو جوابدہ ہو گا اور اگر حکمران غیر مسلم ہوا تو اس کی مرضی۔
اسلام کے اولین دور (خلافت راشدہ) کے مسلمان کسی کو تاحیات خلیفہ بنانے پر راضی تھے تو انہوں نے تاحیات بنا لیا۔ آج کے مسلمان اگر تاحیات کی بجائے خاص عرصے کے لئے بنانا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں اور اسلام میں اس چیز کی کوئی پابندی نہیں۔ اسلام نے خلافت (طرزِحکومت) کے معاملے میں ”جرنل“ اصول واضح کیے ہیں اور باقی مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ حالات کے مطابق اصول بنا لیں کہ آیا خلیفہ تاحیات ہو گا یا خاص عرصے کے لئے، آیا رائے (ووٹ) زبانی لینا ہے یا تحریری صورت میں، آیا اٹھارہ سال والا رائے دے سکتا ہے یا بیس اکیس سال والا، آیا ہر کوئی ووٹ دے سکتا ہے یا صرف پڑھے لکھے لوگ، آیا ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے کی رائے برابر ہے یا پھر کچھ ”پوائنٹس“ کا فرق ہے وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال عوام کی رائے تو لینی ہی پڑے گی، ورنہ خلافت بادشاہت بن جائے گی۔
مسلمانوں کا نظام خلافت سیدھا سیدھا جمہوری ہے اور اسلام میں بادشاہت یا ”ڈکٹیٹر“ کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ موجودہ جمہوریت کی کونسی قسم، خلافت کے قریب ترین ہیں، یا موجودہ جمہوریت کی نوک پلک سنوارنے کی ضرورت ہے۔ لیکن خلافت جمہوری طریقہ ہی ہے۔ بس خلافت میں وہ عوامل جن پر اللہ تعالی کا فیصلہ آچکا ہے اس میں عوام کی نہیں بلکہ اللہ کی چلے گی اور اسی طرح باقی معاملات اجتہاد کر ذریعے ہونگے۔ ہمارے ہاں چونکہ بدعنوانی عروج پر ہے اور عوام اس سے تنگ ہیں تو اس نظامِ جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ بدعنوان حکمران منتخب کون کرتا ہے؟ کیا وہ عوام سے منتخب ہو کر نہیں جاتے؟ گو کہ خلافت بھی ایک جمہوری طریقہ ہے لیکن ہم اسے علیحدہ علیحدہ بھی کر لیں تب بھی جب تک اکثریتی عوام میں شعور نہیں آئے گا۔کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ مزید ایک جمہوری طریقے کو خلافت کہو یا کوئی اور نظام کہو، معزز لوگوں کے گروہ کو مجلس شوری کہو یا قومی اسمبلی، حاکم وقت کو خلیفہ کہو یا صدر کہو، ان ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، تبدیلی تو تب آئے گی جب عوام کسی ”بندے کے پتر“ کو منتخب کرے گی۔
 
شمولیت
جولائی 11، 2015
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
10
جمہوریت کے دو جز ہیں ایک یہ کہ حکمران کیسے بنے دوسرا یہ کہ حکمران بن جانے کے بعد وہ قانون کس کا چلائے
اعتراض دوسرے پر ہے اور اآپ پہلے کے حق میں دلائل دے کر خوش ہو رہے ہیں کہ میں نے قائل کر لیا
 
Top