ہماری اکثریت ایک لایعنی بحث میں الجھ جاتی ہے کہ کیا ہمارے حکمران یا ارکان پارلیمنٹ کافر ہیں یا نہیں؛ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے مجازی کافر ہوں یا حقیقی؛ اس نظام کے کفر ہونے پر کوئی دو آرا نہیں ہیں اور اس نظام کے تحت چاہے ایک علماء کی جماعت ہی ہمارے حکمران کے طور پر موجود ہوں پھر بھی یہ نظام کفر ہی ہوگا اور علمائے حق کا اس کے خلاف جدوجہد کرنا ان کی دینی ذمہ داری رہے گا نہ کہ اس نظام کے وظیفہ خوار کی حیثیت میں اس کے محافظ کی۔
ü عبادہ بن صامت نے کہا نبیﷺ نے ہم لوگوں کو بلایا اور ہم نے آپﷺ کی بیعت کی آپﷺ نے جن باتوں کی ہم سے بیعت لی وہ یہ تھیں، کہ ہم بیعت کرتے ہیں اِس بات پر ہم اپنی خوشی اور اپنے غم میں اور تنگدستی اور خوشحالی، اور اپنے اوپر ترجیح دئیے جانے کی صورت میں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور حکومت کے لئے حاکموں سے نزاع نہیں کریں گے لیکن اعلانیہ کفر پر، جس پر اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔[صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث ۱۹۷۸]
مندرجہ بالا حدیث میں بھی کفریہ عمل کے ارتکاب کو وجہ نزاع بتایا گیا ہے نہ کہ حکمران کے کافر حقیقی ثابت ہونے کو۔
میں نے اپنے مضامین میں اس نظام کا کفر چار جہتوں سے ثابت کیا ہے؛ جس میں سے فقط ایک جہت پیش خدمت ہے؛
مضمون ؛ پاکستان کے آئین کی حقیقت
بسم اللہ الرحمان الرحیم
اللھم ارنا الحق حقاً و ا رزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلاً وا رزقنا اجتنابہ
اِس سے پہلے کہ تمام مضامین کا تعلق اور مقصد عمومی طور پر حکومتی نظاموں بالخصوص لبرل مغربی جمہوریت اور اُس کے متعلق اسلامی نقطہ نظر کا بیان تھا؛ یہ مضمون خالصتاً پاکستان میں نافذ اسلامی جمہوریت کے فقط ایک جز "اسلامی آئین" کے متعلق ہے کیونکہ مذہبی جماعتوں ہی کی بات نہیں لادین جماعتیں بھی تو اِسی آئین کی حکمرانی چاہتیں ہیں؛ یہاں مقبول عام مطالبہ یہی تو رہا ہے کہ آئین کو اُس کی اصل" روح" کے ساتھ نافذ کر دیا جائے ؛ مگر یہ "روح" ایک غیر مرئی چیز ہے جو نظر آئے بھی تو ہر کسی کو دوسرے سے مختلف نظر آتی ہے۔ آئین کی اِس "روح" پر بھلا کب اتفاق ہوگا؟ اِس آئین کی یہی تو خوبی ہے کہ ہر آدمی اُسے جیسا دیکھنا چاہتا ہے یہ اُسے ویسا ہی نظر آتا ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا قرار داد مقاصد کی پاکستان کے آئین میں موجودگی آئین کے اسلامی ہونے کے لیے کافی ہے ؟
سوال یہ نہیں ہے کہ آئین کی قرارداد مقاصد میں اللہ کے لئے "حاکم اعلٰی" کا لفظ بولا جاتا ہے یا اُس کے ننانوے ناموں میں سے کس کس نام کا ورد کیا جاتا ہے؟ سوال بہت واضح اور مختصر ہے "یہاں اللہ کی چلتی ہے یا کسی اور کی؟"
اللہ کی توحید[1] کے اقرار کے ساتھ ساتھ دین کے احکام پر عمل کی نیت چونکہ ایمان[2] میں شامل ہے اور دنیا میں اِس نیت کی موجودگی اور غیر موجودگی کا انحصار فقط انسان کے قول پر ہے ؛ اور چونکہ آئین پاکستان ایک تحریری دستاویز ہے، تو اِسی نظریہ کے تحت ہم پاکستان کے اسلامی آئین کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا دین پر عمل کی نیت تحریری طور پر قرارداد مقاصد میں اللہ کے لئے "حاکم اعلٰی" کے اقرار کے ساتھ موجود ہے یا نہیں۔ اگر تحریری طور پر "حاکم اعلٰی "کے اقرار کے ساتھ عمل کی نیت بھی موجود ہے تو کم از کم نظریاتی طور پر تو ملک میں رائج حکومتی نظام کو اِسلامی جمہوری نظام کہلانے کا دعوٰی حق ثابت ہو جائے گا۔
سوال نمبر ۲: کیا پاکستان کے "اِسلامی آئین" میں لبرل مغربی جمہوریت[3] کے کچھ خصائص موجود ہیں؟
جیسا کہ بیان کیا جا چکا کہ کسی چیز کا اسلامی ہونا "موجبہ کلیہ" [تمام جز کا اثبات یا موجود ہونا] ہے، جبکہ غیر اسلامی ہونا "سالبہ جزئیہ" [کسی جز کا انکار یا غیر موجود ہونا]ہے تو اِس سوال کے جواب میں تو کوئی ایک مماثلت بھی اکتفا کر جاتی مگر بات کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چند مماثلتیں پیش کی جا رہیں ہیں۔
· لبرل مغربی جمہوریت کے اصول "مساوات اور آزادی" سے ہم آہنگ؛
جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور اُن پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں۔ [آئین پاکستان؛ تمہید؛ صفحہ نمبر ۱]
ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اُس پر عمل کرنے اور اُس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا؛ اور۔۔۔۔[آئین پاکستان؛ حصہ دوئم؛ بنیادی حقوق اور حکمت عملی کے اصول؛ باب ۔ ۱ ۔ بنیادی حقوق ؛۲۰۔الف؛ صفحہ نمبر۱۲ ]
· لبرل مغربی جمہوریت کے اصول " آئین و دستور کی بالا دستی اور تقدس " سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے قرآن و سنت کی قید سے آزاد دستور کی غیر مشروط اطاعت کا تقاضا ۔
دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اُس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو واجب تعمیل ذمہ داری ہے۔[آئین پاکستان؛ حصہ اول ، ابتدائیہ ؛ ۵ ۔۲؛ صفحہ نمبر ۴]
· لبرل مغربی جمہوریت کے اصول " آئین و دستور کی بالا دستی اور تقدس " سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے قرآن و سنت کی قید سے آزاد دستور کی غیر مشروط اطاعت اور اُس کے تحفظ اور دفاع کا عہد۔
عہدہ سنبھالنے سے قبل، چیف جسٹس پاکستان، صدر کے سامنے، اور عدالت عظمیٰ کا کوئی دوسرا جج چیف جسٹس کے سامنے، اُس عبارت میں حلف اٹھائے گا جو جدول سوم میں درج کی گئی ہے۔[آئین پاکستان؛ حصہ ہفتم؛ نظام عدالت؛ باب ۲؛ پاکستان کی عدالت عظمیٰ ؛۱۷۸؛ صفحہ نمبر ۱۰۵]
جدول سوم ۔ حلف کی عبارت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ بحیثیت چیف جسٹس پاکستان میں اپنے فرائض و کار ہائے منصبی ایمانداری، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفا داری کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق انجام دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اُس کا تحفظ اور دفاع کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
· لبرل مغربی جمہوریت کے اصول " آئین و دستور کی بالا دستی اور تقدس " سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے قرآن و سنت کی قید سے آزاد دستور کا غیر مشروط تحفظ اور دفاع کا عہد۔
صدر ؛ وزیر اعظم؛ وفاقی وزیر یا وزیر مملکت؛ قومی اسمبلی کا اسپیکر یا سینٹ کا چیئرمین ؛ قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر یا سینٹ کا ڈپٹی چیئرمین ؛ قومی اسمبلی کا رکن یا سینٹ کا رکن ؛ صوبے کا گورنر ؛ وزیر اعلٰی یا صوبائی وزیر ؛ کسی صوبائی اسمبلی کا اسپیکر ؛ کسی صوبائی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر ؛ کسی صوبائی اسمبلی کا رکن ؛ وفاقی شرعی عدالت کا چیف جسٹس یا جج کے حلف میں موجود ایک عبارت۔
جدول سوم ۔ حلف کی عبارت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اُس کا تحفظ اور دفاع کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دستورکے حامی حضرات اِس مرحلہ پر یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ چونکہ پاکستان کا دستور اسلامی ہے تو اُس پر مزید قرآن و سنت کی تحریری قید اضافی اور غیر ضروری ہے۔ یہ اعتراض صرف اُسی صورت میں بجا ہوتا اگر [نعوذ باللہ من ذالک] اُس کو تحریر کرنے والوں کے نزدیک پاکستان کا اسلامی دستور اپنے مضامین اور مفاہیم و محاسن [مطالب اور خوبیاں] میں قرآن و سنت سے زیادہ جامع اور اکمل ہوتا جبکہ محض یہ سوچ بھی کفر ہے۔
· لبرل مغربی جمہوریت کے اصول " پارلیمنٹ کے لا محدود اختیارات " سے ہم آہنگ؛ تابوت میں ایک نہیں دو آخری دو کیل؛
دستور میں کسی ترمیم پر کسی عدالت میں کسی بناء پر چاہے جو کچھ ہو کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا۔[آئین پاکستان؛ حصہ یاز دہم؛دستور کی ترمیم؛ ۲۳۹۔۵؛ صفحہ نمبر ۱۵۸]
ازالہ شک کے لئے، بذریعہ ہذا قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی ترمیم کرنے کے مجلس شوریٰ [پارلیمنٹ] کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔[آئین پاکستان؛ حصہ یاز دہم؛دستور کی ترمیم؛ ۲۳۹۔۶؛ صفحہ نمبر ۱۵۸]
سوال نمبر ۳: کیا وفاقی شرعی عدالت "آئین "یا "قوانین "میں غیر اسلامی شقوں کے خاتمے کے لیے مئوثر ادارہ نہیں ہے ؟
وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار قانون سازی نہیں بلکہ آئین اور قانون میں موجود شقوں کے اِسلامی اور غیر اِسلامی ہونے کے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔ تو اِس سوال کے جواب سے قارئین کو اِس اِسلامی آئین کا دین کے احکامات پر عمل کرنے کی نیت کا احساس شروع ہو گا؛ جس کے شروع میں ہی علی اعلان تحریر کر دیا گیا کہ ہم دین کی کچھ باتوں کو مانیں گے اور کچھ کو نہیں۔
"قانون" میں کوئی رسم و رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو مگر اِس میں دستور، مسلم شخصی قانون، کسی عدالت یا ٹریبیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا، اِس بات کے آغاز نفاذ سے [دس] سال کی مدت گزرنے تک، کوئی مالی قانون یا محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے اور جمع کرنے یا بنکاری یا بیمہ کے عمل اور طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے؛ اور۔۔۔۔۔۔۔[آئین پاکستان؛ حصہ ہفتم؛نظام عدالت؛ باب ۳الف؛وفاقی شرعی عدالت؛ ۲۰۳ب۔ج؛ صفحہ نمبر۱۱۹]
اوپر درج کی گئیں محرمات کے بعد اگر کوئی "قانون" یا "قانون کا حکم "وفاقی شرعی عدالت خدانخواستہ اسلام کے منافی قرار دے ہی دے تو یہ واحد عدالت ہے جس کے فیصلے پر مندرجہ ذیل چار قدغن [روک ٹوک، ممانعت، مناہی، پابندی، بندش] ہیں ۔
اگر عدالت فیصلہ کرے کہ کوئی قانون یا قانون کا حکم اسلامی احکام کی منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں حسب ذیل بیان کرے گی:۔
[الف] اُس کے مذکورہ رائے قائم کرنے کی وجوہ؛ اور
[ب] وہ حد جس تک وہ قانون یا حکم بایں طور پر منافی ہے؛
اور اُس تاریخ کی صراحت کریگی جس پر وہ فیصلہ مئوثر ہوگا؛
مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ، اس میعاد کے گزرنے سے پہلے جس کے اندر عدالت عظمٰی میں اُس کیخلاف اپیل داخل ہو سکتی ہو یا جبکہ اپیل بایں طور پر داخل کر دی گئی ہو تو اُس اپیل کے فیصلہ سے پہلے مئوثر نہیں ہو گا۔ [آئین پاکستان؛ حصہ ہفتم؛نظام عدالت؛ باب ۳الف؛وفاقی شرعی عدالت؛ ۲۰۳د۔۲؛ صفحہ نمبر۱۲۲]
اب اگر کوئی "قانون" یا "قانون کا حکم "خالصتاً اپنی بد بختی کی وجہ سے اوپر والی شق کے مطابق پھر بھی اسلام کے منافی قرار پا ہی گیا؛ تو اِسی عدالت کے لیے ایک اور طُرّہ امتیاز یہ ہے کہ وہ اِس بات کو بھی یقینی بنائے کہ اللہ اور اُس کا رسولﷺ خوش ہوں یا نہ ہوں؛ مذکورہ کاروائی میں ملوث فریق اُس کے فیصلہ سے ضرور خوش ہو کر لوٹیں ورنہ اُس کے فیصلہ کو سرد خانہ کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ [انا للہ و انا الیہ راجعون]
آرٹیکل ۲۰۳د کے تحت عدالت کے سامنے کسی کاروائی کا کوئی فریق جو مذکورہ کاروائی میں عدالت کے قطعی فیصلہ سے ناراض ہو، مذکورہ فیصلے سے ساٹھ یوم کے اندر عدالت عظمٰی میں اپیل داخل کر سکے گا۔
[مگر شرط یہ کہ وفاق یا کسی صوبے کی طرف سے اپیل مذکورہ فیصلے سے چھ ماہ کے اندر داخل کی جا سکے گی۔]۔ [آئین پاکستان؛ حصہ ہفتم؛نظام عدالت؛ باب ۳الف؛وفاقی شرعی عدالت؛ ۲۰۳و۔۱؛ صفحہ نمبر۱۲۵]
عدالت عظمٰی اور عدالت ہائے عالیہ چونکہ قرآن و سنت کے بجائے پاکستان کے "اِسلامی آئین" کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہیں تو وہ اپنے فیصلوں میں مندرجہ بالا قد غن اور تضحیک سے پاک ہیں۔
اور آخر میں اِس بات کو یقینی رکھا کہ وفاقی شرعی عدالت اپنے ہر فیصلہ میں اسلامی دستور کی سر بلندی کی علم بردار عدالت عظمٰی کے تابع ہی رہے تاکہ کہیں اُس کی اسلام کی تعبیر اِسلامی جمہوریہ پاکستان کے "اِسلامی آئین" کی حدود سے باہر نہ نکل جائے۔
اِس آرٹیکل کے تابع، عدالت عظمٰی کو کسی عدالت عالیہ کے صادر کردہ فیصلوں، ڈگریوں، حتمی سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرنے اور ان پر فیصلہ صادر کرنے کا اختیار ہوگا۔ [آئین پاکستان؛ حصہ ہفتم؛ نظام عدالت؛ باب ۲؛ پاکستان کی عدالت عظمیٰ ؛۱۸۵۔۱؛ صفحہ نمبر ۱۰۷]
سوال نمبر ۴: کیا اسلامی احکام کا نفاذ آئین کے "حصہ نہم" کے مطابق حکومت کی آئینی ذمہ داری نہیں ہے ؟
یہ سوال اُس معمہ کا دوسرا حصہ ہے جس کے پہلے حصہ کا جواب قارئین سوال نمبر تین کے جواب میں مطالعہ کر چکے اور اِس سوال کے جواب میں قارئین کو اِس اسلامی آئین کی دین کے احکامات پر عمل کی نیت کا مکمل احساس ہو جانا چاہیے؛
تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔۔۔۔۔[آئین پاکستان؛ حصہ نہم؛ اسلامی احکام؛۲۲۷۔۱؛ صفحہ نمبر ۱۴۵]
مندرجہ بالا شق وہ مشہور زمانہ شق ہے جو قرارداد مقاصد کے ساتھ پیش کر کے اِس آئین کے اسلامی ہونے کے ڈھنڈورا پیٹنے میں ہر سطح پر استعمال ہوتی ہے۔ جب کہ اِس شق کی پہلی بیڑی اُسی صفحہ پر اُس کے نیچے تحریر ہے۔
شق [۱] کے احکام کو صرف اُس طریقہ کے مطابق نافذ کیا جائے گا جو اِس حصہ میں منضبط ہے۔ [آئین پاکستان؛ حصہ نہم؛ اسلامی احکام؛۲۲۷۔۲؛ صفحہ نمبر ۱۴۵]
یہ تمام طریقے چونکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے نافذ عمل ہوں گے تو چلیں مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کون کون سے "عملی" طریقے ہیں جو اِس باب کی شق [ا] کے نفاذ کے لیے اِس باب میں منضبط [باضابطہ، باوقار، مرتب، طے شدہ، ضابطے میں لایا ہوا]کیے گیے ہیں۔
پہلا طریقہ؛
صدر یا کسی صوبے کا گورنر، اگر چاہے یا اگر کسی ایوان یا کسی صوبائی اسمبلی کی کل رکنیت کا دو بٹا پانچ حصہ یہ مطالبہ کرے تو کسی سوال پر اسلامی کونسل سے مشورہ کیا جائے گا کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلام کے احکام کے منافی ہے یا نہیں۔[آئین پاکستان؛ حصہ نہم؛ اسلامی احکام؛۲۲۹؛ صفحہ نمبر ۱۴۶]
دوسرا طریقہ؛
ایسی تدابیر کی جن سے نافذ العمل قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا نیز ان مراحل کی جن سے گزر کر محولہ تدابیر کا نفاذ عمل میں لانا چاہیے سفارش کرنا۔[آئین پاکستان؛ حصہ نہم؛ اسلامی احکام؛۲۳۰۔۱؛ج؛ صفحہ نمبر ۱۴۷]
تیسرا طریقہ؛
مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کی رہنمائی کے لئے اسلام کے ایسے احکام کی ایک موزوں شکل میں تدوین کرنا جنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جا سکے۔[آئین پاکستان؛ حصہ نہم؛ اسلامی احکام؛۲۳۰۔۱؛د؛ صفحہ نمبر ۱۴۷]
اگرچہ یہ تینوں طریقے اپنی افادیت اور اثر انگیزی کے حساب سے انتہائی کمزور اور بودے تھے مگر سونے پر سہاگہ اِسی اسلامی احکام کے باب میں مندرجہ ذیل شق بھی شامل ہے؛
جب کوئی ایوان، کوئی صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر، جیسی بھی صورت ہو، یہ خیال کرے کہ مفاد عامہ کی خاطر اُس مجوزہ قانون کا وضع کرنا جس کے بارے میں سوال اٹھایا گیا تھا مشورہ حاصل ہونے تک ملتوی نہ کیا جائے، تو اِس صورت میں مذکورہ قانون مشورہ مہیا ہونے سے قبل وضع کیا جا سکے گا؛
مگر شرط یہ ہے کی جب کوئی قانون اسلامی کونسل کے پاس مشورے کے لئے بھیجا جائے اور کونسل یہ مشورہ دے کہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے تو ایوان، یا جیسی بھی صورت ہو، صوبائی اسمبلی، صدر یا گورنر اُس طرح وضع کردہ قانون پر دوبارہ غور کرے گا۔[آئین پاکستان؛ حصہ نہم؛ اسلامی احکام؛۲۳۰۔۳ ؛ صفحہ نمبر ۱۴۷]
اِس باب کی تمام شقوں کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ [افسوس صد افسوس] قانون وضع کرنے کے لیے تو مفاد عامہ کا جواز بھی بہت ہے مگر اِس کے کالعدم ہونے کے لیے قرآن و حدیث کے دلائل کو یہ حیثیت بھی حاصل نہیں ہے۔
شق [۱] کو عملی شکل میں لانے کا عمل تو اِس باب میں "مشورہ"؛ "سفارش" اور "رہنمائی" سے آگے بڑھتا ہی نہیں ہے اور جمہوریت پسند دینی طبقہ کی کسی بھی ان تھک محنت کا نتیجہ محض اُس غیر اسلامی وضع کردہ قانون پر غور کرنے کے ایک غیر مرئی وعدہ کی صورت میں ہے۔ [انا للہ و انا الیہ راجعون]
اِس موضوع کے خاتمہ سے پہلے مندرجہ ذیل دو شقوں کا مطالعہ اُن لوگوں کے لیے کافی ہو گا جو اب بھی اگر کسی ذہنی مخمصہ کا شکار ہیں؛ یہ دونوں شقیں تمام غیر اسلامی آئینی شقوں اور قوانین کو دوام بخشنے کی لیے پاکستان کے اسلامی آئین میں بدرجہ اتم موجود ہیں؛
شق [۱] کے تحت صادر شدہ کوئی فرمان بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا، اور اُس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک کہ ہر ایوان اُسے نامنظور کرنے کی قرارداد منظور نہیں کرتا یا دونوں ایوانوں میں اختلاف کی صورت میں اُس وقت تک جب تک ایسی قرارداد مشترکہ اجلاس میں منظور نہ ہو جائے۔[آئین پاکستان؛ حصہ دواز دہم؛ متفرقات؛باب ۷؛عبوری؛۲۶۷۔۲ ؛ صفحہ نمبر ۱۷۷]
بجز جیسا کہ اِس آرٹیکل میں قرار دیا گیا ہے، تمام موجودہ قوانین، اِس دستور کے تابع، جس حد تک قابل اطلاق ہوں اور ضروری تطبیق کے ساتھ اُس وقت تک بدستور نافذ رہیں گے جب تک متعلقہ مقنّنہ [قانون ساز اسمبلی]انہیں تبدیل یا منسوخ نہ کر دی یا اُن میں ترمیم نہ کرے۔[آئین پاکستان؛ حصہ دواز دہم؛ متفرقات؛باب ۷؛عبوری؛۲۶۸ ۔۱؛ صفحہ نمبر ۱۷۸]
اِس سارے تجزیہ سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ اِس نظام کے وظیفہ خواروں نے تو اِس منافقانہ نظام کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی پیش بندی کی ہوئی ہے مگر ہمارے دینی طبقہ نے کیوں اپنا وزن اِس نظام کے پلڑے میں رکھا ہوا ہے یہ بات ایک معمہ سے کم نہیں ہے۔ اسی دینی طبقہ کی وجہ سے یہ دجل سے بھرپور نظام ہماری اکثریت کی نظروں میں اسلامی کہلاتا ہے ۔ تو کیا ہمارا دینی طبقہ اِس نظام کے دوام میں دانستہ یا نادانستہ طور پر شریک عمل نہیں ہے اور روز محشر اِس کا جوابدہ نہیں ہے؟
لا الہ الا اللہ ؛ لا الہ الا اللہ ؛ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللھم صل علی سیدنا محمد و علی اٰلہٖ و صحبہٖ و بارک و سلم تسلیماً کثیرا کثیرا
[1]مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ کلمہ توحید کی شرائط [کاوش نمبر ۲]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[2] مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ اول]؛ ایمان کی حقیقت [کاوش نمبر ۴]" کا مطالعہ فرمائیں۔
[3]
مزید تفصیل کے لیے " بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو [حصہ دوم]؛
جمہوریت کی حقیقت [کاوش نمبر ۳]" کا مطالعہ فرمائیں۔