• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت ایک نظام طاغوت

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
جمہوریت ایک نظام طاغوت
((عصر حاضر کے حوالے سےمیدانِ سیاست میں درپیش مسائل میں شریعت ِ مطہر ّہ سے رہنمائی))


الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
الشیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ
اور دیگر علماء کے قلم سے
اردو ترجمہ:حامد محمود حفظہ اللہ​

پیش لفظ
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ))

عالم اسلام کے متعدد ممالک میں اس وقت جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی نظام قائم ہے۔ شریعت کے حوالے سے ہمارے ملک میں بھی عرصۂ دراز سے اس پر لے دے ہو رہی ہے مگر اسکو کھل کر شرک اور طاغوت قرار دینا بہت واضح ہونے کے باوجود ایسا حق ہے جس پر لبوں کو جنبش دینا ہنوز مشکل ہے۔ گو جمہوریت کو کبھی کبھار شرک کہہ لینے والے طبقے کی بہت زیادہ کمی نہیں مگر اس پر قائم نظام سے دشمنی اور عداوت ، جو کہ اسے شرک کہنے کا حتمی اور لازمی تقاضا ہے، ہمارے یہاں تقریباً ناپید ہے۔
اس طبقے میں اگر ایک صِنف شرک اور اہل شرک سے عداوت اور بغض رکھنے کی فرضیت سے ناواقف ہے تو ایسی صنف کا وجود بھی خارج ازامکان نہیں جو اس فرض سے ’’ناواقف‘‘ نظر آنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہو ۔ بلکہ اسلام کی عافیت بھی اسی میں خیال کرتی ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت مغرب میں ہو یا مشرق میں، ایک نظام طاغوت ہے اور اس میں شرکت شرعاً حرام ہے، اتنی بات تو سمجھ آنا آسان ہے۔ مگر کچھ لوگ اس نظام شرک میں شمولیت اختیار کرنا اور مشرکانہ عقائد اور نظریات رکھنے والوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی خیرخواہی کرنا مقصود ہے۔ اگر وہ سمجھیں تو اسلام کی خیرخواہی یہی ہے کہ اسلام کو اور اسکے سب احکام کو اپنی اصل حالت میں رہنے دیا جائے اور مشرکوں سے اسلام کی ازلی دشمنی بحال رکھی جائے۔ بنا بریں عالم اسلام میں ایک عرصہ سے جو بحث چل رہی ہے وہ یہ نہیں کہ آیا سیکولر اور لا دین جماعتوں کی اس طاغوتی نظام میں شرکت یا تعاون جائز ہے یا ناجائز! بلکہ اصل جھگڑا یہ ہے کہ اسلامی جماعتیں ، اسلام کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے، کسی شرکیہ اکٹھ میں شمولیت یا اس سے تعاون کی شرعاً مجاز ہیں یا نہیں؟

اس موضوع کو اجاگر کرنایقینا اہل توحید کا فرض ہے۔ اس فرض سے عہدہ برآہونے کیلئے لکھنا اور بولنا ہی کافی نہیں شاید اور بہت کچھ ناگزیر ہے۔ اس سوچ کے پیشِ نظر یہاں عالم اسلام کے کچھ نامور علماء کا ایک فتوی اردو زبان میں شائع کیا جا رہا ہے جو ہمارے نزدیک مذکورہ بالا موضوع پر بہت حد تک مفید ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ علیہ کا نام تو محتاجِ تعارف نہیں ، حدیث میں صحیح، ضعیف کا معمولی شعور رکھنے والا شخص بھی دور حاضر کے اس محدث سے واقف ہو گا۔ شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ یمن کے بہت بڑے سلفی عالم ہیں۔ فتویٰ میں مذکور دیگر علماء میں سے بیشتر بھی یمن ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ فتویٰ کی عبارت سے واضح ہو گا کہ یہ جمہوریہ یمن کے عام انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی شرکت اور اسلام دشمن و سیکولر قوتوں سے سیاسی اتحادو تعاون کی بابت صادر ہوا ہے۔
یمن ایک ویسا ہی ’’کلمہ گو‘‘ ملک ہے جیسا کہ ہمارا ملک، اسکے حکمران بھی ہمارے حکمرانوں جیسے ’’کلمہ گو‘‘ ہیں اور اسکی سیاسی پارٹیاں بھی ہمارے ہاں کی سیاسی پارٹیوں سے کوئی جوہری فرق نہیں رکھتیں۔ اتنا ضرور ہے کہ یہ فتویٰ صادر کرنے والے علماء عرب ہونے کے ناطے پاکستان کی بہ نسبت یمن کے حالات سے زیادہ واقف ہیں، جس کی بنا پر وہاں کے نظامِ شرک میں شمولیت کے جواز کی دلیلیں، جو وہاں دی جاتی ہیں، ان عرب علماء کے کانوں تک بآسانی پہنچ جاتی ہیں۔ یہ باطل دلائل سن کر ہی ان علماء نے اسکا جواب دینا ضروری سمجھا۔ اب چونکہ ہمارے یہاں بھی ویسی ہی دلیلیں چلتی ہیں اس لیے مفید خیال کیا گیا کہ اردو دان طبقہ میں بھی ان باطل دلائل کے رد پر مشتمل یہ مختصر فتویٰ استفادہ عام کیلئے پیش کیا جائے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ فتویٰ کی افادیت اپنی جگہ مگر فیصلہ دلیل پر ہوتا ہے اور حق صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔

شیخ محمدناصر الدین البانی اور انکے دیگر رفقاء کا یہ فتویٰ گو جمہوری نظام میں شرکت اور تعاون کے بارے میں ہے مگر بغور دیکھا جائے تو کچھ اور تحریکی اور اصولی مباحث بھی اسی فتویٰ کے دلائل سے ثابت ہو جاتے ہیں۔مثلاً وہ حضرات جو انتخابی سیاست کے علاوہ کسی اور میدان میں ایک باطل نظام یا باطل قوت کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمت و نصرت کے قائل (وفاعل) ہیں اور دلیل میں رسول اللہﷺ کا یہود سے میثاق یا حلفِ خزاعہ یا مطعم بن عدی سے پناہ لینا یا صلح حدیبیہ وغیرہ ایسے واقعات پیش کرتے ہیں انکا مختصر مگر کافی اور شافی جواب بھی اسی فتویٰ میں موجود ہے۔

یہ فتویٰ اردن سے عربی میں شائع ہونے والے ایک سلفی ماہنامہ ’’الاصالۃ‘‘ کے شمارہ بابت جمادی الثانیۃ ۱۴۱۳ھ صفحہ ۱۶ تا ۲۴ سے لیا گیا ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
سیاستِ شرعیہ کی بابت دور حاضر کے کچھ مسائل

((اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِاَنْفُسِنَاوَمِنْ سَیِّئٰاتِ اَعْمَالِنَامَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَھُوَالْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔اَمَّابَعْدُ))

یقینا اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد اور میثاق لے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کیلئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں جو انکی خاطر نازل کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ۠ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ(آل عمران:۱۸۷)
’’اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اسکی کسی بات کو نہ چھپانا۔‘‘
اور وہ لوگ اللہ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپا لیں۔ فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَۙ(البقرہ:۱۵۹)
’’بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کیں ہیں (کسی غرضِ فاسد سے ) چھپاتے ہیں، جب کہ ہم نے انہیں لوگوں (کے سمجھانے ) کیلئے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے سو ایسوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔‘‘
پھر علم چھپا رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی وعید سنائی ہےیوں فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ۙ اُولٰٓىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ لَا يُزَكِّيْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ(البقرہ:۱۷۴)
’’بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں وہ جو اللہ تعالیٰ نے کتاب میں نازل کیا ہے، اور اس کے بدلے کچھ تھوڑی سی قیمت لے کھاتے ہیں، تو یہ لوگ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن بات بھی نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا، اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
رسول اللہﷺ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہونے کی غرض سے جس میں آپ نے فرمایا:
((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ قُلْنَا لِمَنْ؟ قَالَ:’’لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ‘‘)) (رواہ مسلم،کتاب الایمان، باب بیان ان الدین نصیحۃ ،ح:۱۵۵)
’’دین تو نصیحت اور خیر خواہی ہے۔ ہم (صحابہ) نے عرض کیا: (اے اللہ کے رسول!) کس کیلئے؟ توآپ نے فرمایا: اللہ کیلئے، اس کی کتاب کیلئے، اسکے رسول کیلئے مسلمان سربراہوں اور عوام کیلئے۔‘‘
اور اس صورت حال کے پیشِ نظر بھی جو کہ امت اسلامیہ کو آج درپیش ہے اور جن سازشوں کے جال امت کے خلاف پھیلائے جا رہے ہیں ۔ خصوصاً ملت میں گھس آنے والے وہ درآمد شدہ افکار جنہوں نے امت کے عقیدہ اور شریعت کو مسخ کر دیا ہے۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر ان لوگوں کا فرض ٹھہرا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کا علم دیا تھا کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ ان درپیش امور کی بابت اللہ کا حکم و فیصلہ کیا ہے؟

۱۔جمہوریت کے متعلق حکم:

جمہوریت کے بانی اور علمبرداران اس کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کیلئے‘‘ اور یہ کہ سب اختیارات (مینڈیٹ اینڈ پاور) کا سرچشمہ عوام ہیں۔ جمہوریت، اس لحاظ سے اسلامی شریعت اور اسلام کے عقیدہ کے منافی اور ضد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے چندایک فرامین ملاحظہ ہوں
((اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ))
’’حکم (قانون )چلانا صرف اللہ کا حق ہے۔‘‘ (یوسف: ۴۰)

((وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ))(المائدہ:۴۴)
’’اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔

((اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ))(الشوری:۲۱)١ؕ
’’کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کیلئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔‘‘

((فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا))(النساء:۶۵)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔‘‘
((وَلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا)) (الکھف:۲۶)
’’اور وہ (اللہ تعالیٰ) اپنے حکم میں کسی کوشریک نہیں کرتا۔‘‘

مزید برآں یہ کہ جمہوریت ایک نظامِ طاغوت ہے۔ اور طاغوت سے ہمیں کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَاوَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ] (البقرۃ: ۲۵۶)
’’پس جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط کڑے کو پکڑا کہ جو ہر گز ٹوٹنے والا نہیں ہے ۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
[وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوااللّٰہَ وَاجْتَنِبُواالطَّاغُوْتَ] (النحل:۳۶)
’’اور ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت (کی پرستش) سے دور رہو۔‘‘

((اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ يَقُوْلُوْنَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَبِيْلًا))(النساء:۵۱)
’’تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب سے حصہ دیا گیا ہے،(ان کا حال یہ ہے کہ )وہ بتوں اور طاغوت (ہر وہ چیز جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو) پر ایمان لاتے ہیں اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔‘‘
لہٰذا جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یا تو ’’اللہ پر ایمان‘‘اور اسکا نازل کیا ہوا قانون ہو گا یا پھر ’’طاغوت پر ایمان ‘‘اور اسکا کہا قانون ہو گا۔ کیونکہ اللہ کی شریعت کے متصادم ہر نظام ہی طاغوت ہے، رہے وہ لوگ جو جمہوریت کو اسلامی شورائیت کا پرتو قرار دیتے ہیں تو انکی رائے کسی اعتبار کے قابل نہیں۔ کیونکہ شوریٰ کی نوبت وہاں آتی ہے جہاں شریعت سے نص موجود نہ ہو اور اِس(شوریٰ) کے مجاز بھی صرف دین کے عالم اور متقی اہلِ حلّ و عقد ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ پیچھے بات گزر چکی جمہوریت اسکے برعکس ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
۲۔تعدُّد (اَفکار و اَحزاب ) کا حکم:


یہ بھی جمہوریت ہی کی پیداوار ہے۔ اسکی دو صورتیں ہیں:
1۔تعددِ افکار یعنی کثیر فکری و اعتقادی آزادی،
2۔تعددِ احزاب یعنی کثیر جماعتی نظام،

جہاں تک تعدد ِ افکار کا تعلق ہے تو اسکی رو سے جمہوری نظام کے اندر لوگوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ جو چاہیں اعتقاد رکھیں۔ انکو اجازت ہے کہ وہ اسلام سے نکل کر کسی بھی مذہب یا ملت کو اختیار کر لیں چاہے وہ یہودیت ہو، عیسائیت ہو، کیمونزم ہو، سوشلزم ہو یا سیکولرزم۔ جبکہ دین ِ اسلام میں ارتداد (مرتد ہو جانا) اسی چیز کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

((اِنَّ الَّذِيْنَ ارْتَدُّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطٰنُ سَوَّلَ لَهُمْ وَ اَمْلٰى لَهُمْ۔۔ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ۔(محمد:۲۵،۲۶)
’’بے شک جو لوگ راہ ہدایت ظاہر ہونے کے بعد پیٹھ پھیر گئے شیطان نے یہ کام انہیں مزین کر دکھایا۔ اور انہیں طول (لمبی عمر کا وعدہ) دیا، یہ اس لیے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب سے بیزار ہیں یہ ان سے کہتے ہیں کہ بعض کاموں میں ہم تمہاری بات بھی مانیں گے اور اللہ کریم ان کی سرگوشیوں(پوشیدہ مشوروں) سے واقف ہے۔‘‘
اور فرمایا :

{وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَھُوَکَافِرٌ فَاُوْلٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃِ وَاُوْلٰٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَاخٰلِدُوْنَ} ( البقرۃ: ۲۱۷)
’’اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت دونوں میں برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ دوزخ میں جانے والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اور فرمایا:

[وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًافَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ] (آل عمران: ۸۵)
’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو گا ، وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
جہاں تک تعددِاحزاب (کثیر الجماعتی نظام) کا تعلق ہے تو اسکی رُو سے تمام جماعتوں اور پارٹیوں کیلئے قطع نظر اس کے کہ ان کے افکار اور عقائد کیا ہیں، میدان کھلا ہے کہ وہ انتخا بات کے راستے سے مسلمانوں پر حکومت چلائیں۔ اس سے مسلم اور غیر مسلم میں مساوات لازم آتی ہے۔ جو کہ شریعت کے اُن قطعی اور حتمی دلائل کی خلاف ورزی ہے جن کی رُو سے مسلمانوں پر دوسرے افکار کے حاملین کا حکمران بننا حرام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا] (النسآء:۱۴۱)
’’اور اللہ کریم کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔‘‘

اور فرمایا :
[يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ] (النساء: ۵۹)
’’مومنو! اللہ تعالیٰ اور( اس کے) رسول کی فرمانبرداری کرو اور (انکی بھی)جو تم میں سے صاحب ِ حکومت ہیں ۔‘‘

[اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ] (القلم:۳۵‘۳۶)
’’کیا ہم فرمانبرداروں کومجرموں کی طرح کر دیں گے تمہیں کیاہواہے کیسافیصلہ کرتے ہو؟‘‘

مزید برآں یہ کہ یہی کثیر فکری اور کثیر جماعتی نظام، تفرقہ اور اختلاف کا سبب ہے جبکہ تفرقہ و اختلاف اللہ کے عذاب کا موجب ہے

ارشاد ربّانی ہے:
[وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرّقُوْاوَاخْتَلَفُوْامِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ ھُمُ الْبَیِّنَاتُ وَاُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ] (آل عمران ۱۰۵)
’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہو گئے۔ اور واضح احکام آنے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے۔یہی ہیں وہ لوگ جن کے لیے بہت بڑاعذاب ہے۔‘‘
یہ تفرقہ و اختلاف اس امر کا موجب بھی ہے کہ جو اسکا مرتکب ہو اللہ اور اس کا رسول اس سے بری و بیزار ہوں ۔جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا:
[اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْادِیْنَھُمْ وَکَانُوْاشِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ] (الانعام:۱۶۰)
’’جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے راستے نکالے اور کئی کئی گروہ ہو گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

رہے وہ لوگ جو اس تعدد کو مسلکوں کے تعدد (کئی ایک فکری راستوں) کی بجائے منشوروں کا تعدد قرارد یتے ہیں یا پھر علماء اور ائمہ اسلام کے مابین ہونے والے فقہی اختلافات کی طرز کے اختلافات قرار دیتے ہیں تو یہ بات واقعہ کے سراسر خلاف ہے۔ مزید برآں یہ کہ ہر پارٹی کا منشور دراصل اسکی فکر اور اسکے عقیدے ہی سے برآمد ہو کر آتا ہے۔ چنانچہ کسی سوشلسٹ کا منشور لازماً سوشلزم ہی سے نکلا ہوگا اور ایک جمہوریت پرست سیکولر کا منشور جمہوریت کے اصولوں سے … علی ہذا القیاس یہی مثال دوسری پارٹیوں کی ہو گی۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
۳۔سیکولرپارٹیوں کیساتھ اتحاد:

اتحاد (تحالف) کا مطلب ہے طرفین میں کچھ ایسے امور پر اتفاق ہونا جن کی بابت دونوں ایک دوسرے کی نصرت اور پشت پناہی کریں۔ رہی تنسیق تو جیسا کہ لسان العرب (۱۲/۲۳۰) میں آیا ہے کہ ہر چیز میں نسق کا مطلب ہے اشیاء میں کسی امر کا ایک ہی نظام اور قانون پر ہونا۔ تنسیق کا مطلب ہے تنظیم کرنا، جو کہ اتحاد (تحالف) سے زیادہ قوی لفظ ہے۔ اب یہ تنسیق جو ہو گی توجمہوریت کی نصرت کیلئے ، تعددِ افکار و احزاب کیلئے، اپنی اور دوسرے کی رائے کیلئے اور پر امن طور پر اقتدار میں ایک دوسرے کے ساتھ باری لینے کیلئے ہوگی۔ جیسا کہ متعدد ملکوں میں اسلامی جماعتیں سیکولر پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتے کرتی رہی ہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال یمن میں ’’یمنی اتحاد برائے اصلاح ‘‘نامی جماعت کا عرب سوشلسٹ ’’بعث پارٹی ‘‘کے ساتھ اتحاد ہے۔ تو یہ اتحاد اور ایسی تنسیق اسلام میں حرام ہے۔ کیونکہ یہ گناہ اورزیادتی پر تعاون ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[وَتَعَاوَنُوْاعَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُوْاعَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ] ( المائدہ:۲)
’’اور (دیکھو) آپس میں مدد کیا کرو نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں، اور نہ مدد کیا کرو گناہ اور ظلم کے کاموں میں۔‘‘

اور فرمایا:
{وَلَا تَرْکَنُوْااِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْافَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآء ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ} ( ھود:۱۱۳)
’’اور جو لوگ ظالم ہیں انکی طرف مائل نہ ہونا، نہیں تو تمہیں (جہنم کی) آگ آ لپٹے گی اوراللہ کے سواتو تمہاراکوئی مددگارنہیں پھر(جب تم ظالموں کے شریک ہوگے تو)تم کو (اللہ کیطرف سے)مددنہ ملے گی۔‘‘
اور فرمایا:
{یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تَتَّخِذُوْابِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَأْلُوْ نَکُمْ خَبَالًا وَدُّوْامَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاھِہِمْ وَمَاتُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیَاتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ}(آل عمران:۱۱۸)
’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے علاوہ کسی اور (مذہب کے آدمی) کو اپنارازدان،(ولی، دوست) نہ بناؤ یہ لوگ تمہاری خرابی ( اورفتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے۔ اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو)تمہیں تکلیف پہنچے ان کے مونہوں سے تو یقینا دشمنی ظاہر ہو چکی ہے، اور جو (کینہ) ان کے سینوں میں مخفی ہے وہ کہیں زیادہ ہے اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کر سنا دی ہیں۔‘‘
مزید برآں یہ کہ اس تنسیق اور اس اتحاد کے لوازم میں یہ بات شامل ہے کہ یہ ایک دوسرے سے اظہار قربت و مودّت کریں، جبکہ یہ امر اسلامی عقیدۂ ’’وَلاء وبَرَاء‘‘ میں خلل انداز ہوتا ہے۔ یہ وَلاء (اللہ کے دوستوں سے دوستی) اور بَرَاء (اللہ کے دشمنوں سے برأ ت) تو ایمان کی زنجیر کے مضبوط ترین جوڑ ہیں۔

جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ} ( المائدۃ:۵۱)
تم میں سے جو شخص ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے ہو گا۔‘‘ ’’

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
((اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ))(متفق علیہ،البخاری، الادب، باب علامۃ الحب فی اللہ لقولہ تعالی:’’ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ‘‘ح:۶۱۶۸‘۶۱۶۹‘۶۱۷۰ومسلم البروالصلۃ والادب ‘باب المرء مع من احب ‘ح:۶۷۱۸)
’’آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرے گا۔‘‘
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
غیر اسلامی قوتوں سے اتحاد اور تنسیق کرنے والے بعض دلائل سے استدلال بھی کرتے ہیں جبکہ یہ دلائل انکا دعویٰ ثابت نہیں کرتے۔ ان حضرات کے دلائل یہ ہیں:

پہلی دلیل:
رسول اللہﷺ کا یہود کا حلیف ہونا۔

اس کا جواب متعدد پہلوؤں سے ہے:
1۔سند کے لحاظ سے یہ ثابت ہی نہیں کیونکہ یہ روایت مُعضَل (معضل وہ روایت ہوتی ہے جس کی سند میں دو یا دو سے زائد راوی یکے بعد دیگرے ساقط ہوں ایسی منقطع روایت سے مسئلہ کیسے ثابت ہوگا؟)یعنی ضعیف ہے، جوکہ قابلِ حجت نہیں ۔
2۔اس وثیقہ کو اگر صحیح مان لیا جائے تب بھی اسکی شقیں موجودہ سیاسی اتحاد کے مضمون سے ہرگز مماثلت نہیں رکھتیں۔
3۔اسلامی شریعت میں یہود کا حکم ان لوگوں کے حکم سے مختلف ہے جو اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
4۔ان لوگوں کو اس اتحاد کیلئے ’’اِضطِرَار‘‘ بھی درپیش نہیں کیونکہ شرعی معنی میں اِضطِرَار(حالات و واقعات کا ایسی شکل اختیار کرلیناکہ جان و عزت بچانے کیلئے برائی اختیار کئے بغیر چارہ نہ رہے)کی صورتحال واقع نہیں ہوتی لہٰذا شرطِ اضطرار مفقود ہے۔
5۔اگر ایسا اتحاد رسول اللہﷺ سے صحیح ثابت ہو تو بھی (بعد میں نازل ہونے والے) جزیہ کے احکام کی رو سے منسوخ ہو گا۔
6۔رسول اللہ ﷺاسلامی ریاست کے سربراہ تھے جبکہ دعوت الی اللہ کے مرحلہ میں کسی جماعت یا کسی پارٹی کو یہ حق نہیں کہ وہ خود کو ریاست اسلامی کا قائم مقام ٹھہرا لے۔
7۔یہود ریاست ِ اسلامی کی رعایا کا ایک حصہ تھے۔ یہ کسی ہمسر کا اپنے ہمسر سے اتحاد نہ تھا۔

دوسری دلیل:
بنو خزاعہ کا رسول اللہﷺ کا حلیف ہونا

جواب کی تفصیل یہ ہے:
۱۔صحیح یہ ہے کہ بنو خزاعہ مسلمان تھے جیسا کہ سیرت میں بنو خزاعہ کا یہ قول آتا ہے:
((ثَمَّ اَسْلَمْنَافَلَمْ نَنْزَعْ یَدًا وَقَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَسُجَّدًا)) (البدایۃ والنھایۃ ۴/۲۷۷ وتاریخ طبری۳/۴۵ والسیرۃ لابن ہشام ۴/۳۶،۳۷ الرحیق المختوم اردو)
’’پھر ہم مسلمان ہو گئے ہم اس سے دست کش نہ ہوئے۔ ان لوگوں نے ہمیں رکوع اور سجدہ کی حالت میں قتل کیا۔‘‘

۲۔ان (بنو خزاعہ) کو مشرک فرض کر لیا جائے۔ تب بھی ایک اصلی کافر کا حکم ان لوگوں سے مختلف ہو گا جو اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے سے گریز کریں۔
۳۔اس وقت جو اتحاد کیا جاتا ہے اس کا مضمون’’ حلفِ خزاعہ‘‘ کے مضمون سے مختلف ہے۔ چنانچہ ان پارٹیوں کے سیاسی اتحاد کا جو معاملہ ہے اسکی طرف تو پیچھے اشارہ کر دیا گیا۔ رہا حلف خزاعہ تو اس میں نہ تو کسی حق بات سے دستبرداری ہوئی تھی اور نہ کسی باطل امر پر رضا مندی ظاہر کی گئی تھی۔

تیسری دلیل:
ابو طالب اورمُطعِم بن عدی کارسول اللہ کو پناہ دینا
انکی ایک اور دلیل ہے کہ مُطعِم بن عدی اور ابو طالب نے رسول اللہ کو پناہ دی تھی۔
جواب:
اس کا یوں سمجھیں کہ موجودہ سیاسی اتحاد میں حق سے دستبرداری ہوتی ہے کیونکہ سیاسی اتحاد کرنے والوں کے موقف، متعارض ہیں۔
کبھی کہتے ہیں :
یہ سیکولر پارٹیاں ہیں؛ کبھی کہتے ہیں یہ تعدد و اختلاف منشوروں کا ہے نہ کہ مسلکوں کا؛ کبھی کہتے ہیں فلاں پارٹی اپنی موجودہ حالت میں مرتد تو ہے مگر اب وہ توبہ کر آئی ہے تب وہ پارٹی والوں کو مسلمان اور ان کی توبہ کو درست قرار دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ دلیل دینے کی کیا ضرورت ہے کہ نبیﷺ یہود اور مشرکین کے حلیف بنے تھے؟ اور اگر انکو مرتد قرار دیتے ہیں تو ان سے تحالف (اتحاد)کیسے کر لیا؟ یہ صاف تعارض ہے! حقیقت یہ ہے کہ اگر ان (سیکولر پارٹیوں) کا تائب ہونا فرض کر لیا جائے تب بھی شرعاً ان پارٹیوں پر یہ باتیں لاز م تھیں۔
الف:
یہ (سیکولر) لوگ اپنے اپنے سابقہ عقیدہ اور مشہور عام رویہ سے براء ت اور بیزاری کا اعلان کرتے اور کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کرتے کہ جو منہج انہوں نے پہلے اختیار کر رکھا تھا وہ غلط تھا۔
ب:
(یہ سیکولر) قوتیں ایسی ہر بات سے دستبردار ہو جاتیں جو اسلام سے ظاہری یا باطنی طور پر متصادم ہو۔

چوتھی دلیل:
رسول اللہﷺ کا مشرکین کے ساتھ مقامِ حدیبیہ پر صلح کرنا
اس کا جواب یہ ہے کہ:
1۔وہ اسلامی ریاست تھی جسے اپنے جنگی دشمنوں سے صلح (جنگ بندی) کاہر ایسا معاہدہ کرنے کا حق تھا جسے وہ مفسدت کے مقابلے میں راجح مصلحت سمجھتی ہو۔
2۔سیکولر پارٹیوں کے اسلامی اتحادیوں کی صورتحال کے برعکس، صلح حدیبیہ میں اسلام کی کسی بات سے جوہری دستبرداری نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ نے الرحمن الرحیم کی جگہ (بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ) لکھ دیا۔ رہی یہ بات کہ آپ نے (اس وثیقہ میں) رسول اللہ نہ لکھا تو اس بات سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے اپنی رسالت کی نفی کر دی تھی۔ بلکہ آپ نے فرمایا تھا’’ وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘ اللہ کی قسم !میں یقینا اور بے شک اللہ کا رسول ہوں۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
سیاسی انتخابات کا حکم


جمہوری طریقہ سے عمل میں آنے والے انتخابات بھی حرام اور ناجائز ہیں۔ کیونکہ نہ تو منتخب ہونے والوں میں اور نہ ہی منتخب کرنے والوں میں ان شرعی مواصفات کی شرط لگائی جاتی ہے جو اسلامی شریعت میں ولایت عامہ یا ولایت خاصہ کیلئے ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ انتخابات اس طریقہ سے اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ مسلمانوں پر اقتدار کا حق ان لوگوں کو ملنے لگے جن کو یہ اقتدار سونپنا تو کجا بلکہ ان کو شریک مشورہ تک کرنا جائز نہیں۔ مزید برآں یہ کہ اسکو منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ قانون ساز مجلس نمائندگان اور ان نمائندہ ایوانوں کا رکن بنے جو اپنا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے نہیں بلکہ اکثریت سے طے کرتے ہیں۔

بنا بریں یہ طاغوتی ایوان ہیں انکو سرے سے تسلیم کرنا جائز نہیں کجا یہ کہ ایک مسلمان انکو وجود میں لانے کیلئے دوڑ دھوپ کرے اور انکو قائم کرنے میں تعاون کرے۔ درآں حالیکہ یہ (ایوان) اللہ کی شریعت سے مصروفِ جنگ ہوں۔ مزید برآں یہ کہ یہ مغربی طریقہ کار ہے اور یہود و نصاریٰ کی پیداوارہے جبکہ ان سے مشابہت رکھنا شرعاً ناجائز ہے۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ شریعت میں حکمران کے چناو کی بابت کوئی طے شدہ طریقہ کار ثابت نہیں اور اس بنا پر انتخابات میں کوئی حرج نہیں۔ تو اسے کہا جائے گا کہ یہ غلط ہے کہ یہ بات شریعت سے ثابت نہیں بلکہ حکمرانوں کے انتخاب کے طریق ہائے کار کی بابت صحابہ کرام نے جو کچھ کیا وہ سب کے سب شرعی طریق ہائے کار ہیں۔
رہا سیاسی جماعتوں کا طریقۂ کار تو اسکی ممانعت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے لیے کوئی (شرعی) ضابطے مقرر نہیں اور جو مقرر ہیں وہ اس بات کا موجب ہیں کہ ایک غیر اسلامی قوت کو اقتدار ملے جبکہ فقہاء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اسکو جائز کہتا ہو۔

سیاسی معاملات کا حکم

احترامِ باہمی کا سمجھوتہ:

اس سمجھوتے کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قوتیں جمہوری اصولوں کو پختہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر کفر کا حکم نہ لگائیں جبکہ اس معاملہ میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ جس کو اللہ اور اسکا رسول کافر قرار دے اسے کافر ہی قرار دیا جائے، جسے اللہ اور اسکا رسول فاسق قرار دے اسے فاسق ہی قرار دیا جائے اور جسے اللہ اورا س کا رسول گمراہ کہے اسے گمراہ ہی کہا جائے۔ اسلام میں (عیسائیت کی طرز پر) نہ تو مغفرت کے چیک چلتے ہیں اور نہ مغفرت سے محروم کرنے کے۔ ایک گناہ گار مسلمان کی تکفیر کرنا تو، جب تک وہ کسی معصیت کو روا نہ سمجھ لے،سوائے اس کے جو اسلام کے ناقض ہیں اہل سنت والجماعت کے منہج میں نہیں۔ رہی انسانی وضع کردہ آئینوں اور دستوروں کی بات جن میں سے ایک جمہوریہ یمن کا آئین بھی ہے تو علماء یمن نے اس میں موجود رخنوں اور شریعت سے متصادم امور کی اتنی وضاحت کر رکھی ہے کہ ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔

ہمارا (اہل سنت کا) دعوت الی اللہ کا طریق ِکار جو سب کو جان لینا چاہئے:
۱۔فہم ِسلف کی بنیاد پر کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہﷺ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دینا۔
۲۔ہم اپنا یہ اہم ترین دینی فریضہ سمجھتے ہیں کہ درآمد شدہ افکار اور درآئندہ بدعات کا مقابلہ علم نافع اورد عوت الی اللہ کے ساتھ کیا جائے اسکے لئے بیداری پیدا کی جائے۔ عقائد اور مفہومات درست کئے جائیں اور اس پر مسلمانوں کی وحدت کو مجتمع کیاجائے۔
۳۔ہم سمجھتے ہیں کہ تختے الٹنا ،قاتلانہ حملے کرنا،کروانااورفتنۂ وفسادبرپاکرنا امت کی ضرورت نہیں۔ بلکہ امت کی ضرورت یہ ہے کہ اسکو ایمانی تربیت دی جائے اور فکر کو صاف ستھرا بنایا جائے، امت کو اپنی شوکتِ رفتہ اور عظمتِ گم گشتہ کی راہ پر پھر سے گامزن کرنے کیلئے مقدوربھرسعی وکاوش کی جائے کہ یہی سب سے کامیاب ذریعہ ہے۔

آخر میں ہم متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بیان شائع کرنے کا ایک سبب یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ کچھ حلقے یمن میں اسلام اور علماء کی ترجمانی کرتے ہوئے کچھ ایسے مسائل میں کلام فرما رہے ہیں جو کہ اسلامی پارٹیوں نے اپنا رکھے ہیں۔ یہ حلقے ان جماعتوں کو انکی سیاسی روش میں موجود تناقضات اور شرعی انحرافات کے باوجود، شرعی جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ سو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حضرات صرف اپنی نمائندگی کرتے ہیں یا پھر اس پارٹی کی جس کی یہ رکنیت رکھتے ہیں، اعتبار بہرحال دلیل کا ہو گا نہ کہ کسی کثرت کا یا کسی قیل و قال کا۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی سَیِّدِنَامُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

یہ فتویٰ اہل سنت والجماعت کے بعض علماء کی جانب سے عام مسلمانوں کیلئے جاری ہوا۔

یہاں ان علمائے کرام کے نام اور دستخط کی عکسی نقل موجود ہے۔
محمد ناصر الدین الالبانی مقبل بن ہادی الوادعی
محمد بن عبدالوہاب الوصابی عبداللہ محمد عتان
عبدالمجید بن (محمود) الریمی محمد (عبداللہ) الإمام
محمد بن ………… عایض بن ………
عبدالعزیز بن یحییٰ البرعی حسین عمر محفوظ
إسماعیل بن ابراہیم


بشکریہ:ادارہ منبر التوحیدو السنہ
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
جمہوریت کفر ہے ۔۔۔۔یہودیوں کا ایجاد کردہ نظام۔۔۔۔اور جو لوگ اس کا ساتھ دے رہے ہیں وہ اپنے دین کو بیچ رہے ہیں

جب اعلما اکرام ہی جمہوریت کے ہق میں کہیں گے تو کون اللہ کے بنائے نظام کی آواز بلند کرے گا

اور کریں بھی کیسے پہلے دین اسلام کی تو صحیح تعلیمات تو ہر گھر پہنچے۔۔۔۔۔پہر تو لوگو کو صحیح اور غلط کی پہچان ہوگی ۔۔۔
 
Top