عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,870
- پوائنٹ
- 157
جمہوریت ایک نظام طاغوت
((عصر حاضر کے حوالے سےمیدانِ سیاست میں درپیش مسائل میں شریعت ِ مطہر ّہ سے رہنمائی))
((عصر حاضر کے حوالے سےمیدانِ سیاست میں درپیش مسائل میں شریعت ِ مطہر ّہ سے رہنمائی))
الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ
الشیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ
اور دیگر علماء کے قلم سے
الشیخ مقبل بن ھادی الوادعی رحمہ اللہ
اور دیگر علماء کے قلم سے
اردو ترجمہ:حامد محمود حفظہ اللہ
پیش لفظ
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ))
عالم اسلام کے متعدد ممالک میں اس وقت جمہوریت کے نام سے ایک سیاسی نظام قائم ہے۔ شریعت کے حوالے سے ہمارے ملک میں بھی عرصۂ دراز سے اس پر لے دے ہو رہی ہے مگر اسکو کھل کر شرک اور طاغوت قرار دینا بہت واضح ہونے کے باوجود ایسا حق ہے جس پر لبوں کو جنبش دینا ہنوز مشکل ہے۔ گو جمہوریت کو کبھی کبھار شرک کہہ لینے والے طبقے کی بہت زیادہ کمی نہیں مگر اس پر قائم نظام سے دشمنی اور عداوت ، جو کہ اسے شرک کہنے کا حتمی اور لازمی تقاضا ہے، ہمارے یہاں تقریباً ناپید ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت مغرب میں ہو یا مشرق میں، ایک نظام طاغوت ہے اور اس میں شرکت شرعاً حرام ہے، اتنی بات تو سمجھ آنا آسان ہے۔ مگر کچھ لوگ اس نظام شرک میں شمولیت اختیار کرنا اور مشرکانہ عقائد اور نظریات رکھنے والوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی خیرخواہی کرنا مقصود ہے۔ اگر وہ سمجھیں تو اسلام کی خیرخواہی یہی ہے کہ اسلام کو اور اسکے سب احکام کو اپنی اصل حالت میں رہنے دیا جائے اور مشرکوں سے اسلام کی ازلی دشمنی بحال رکھی جائے۔ بنا بریں عالم اسلام میں ایک عرصہ سے جو بحث چل رہی ہے وہ یہ نہیں کہ آیا سیکولر اور لا دین جماعتوں کی اس طاغوتی نظام میں شرکت یا تعاون جائز ہے یا ناجائز! بلکہ اصل جھگڑا یہ ہے کہ اسلامی جماعتیں ، اسلام کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے، کسی شرکیہ اکٹھ میں شمولیت یا اس سے تعاون کی شرعاً مجاز ہیں یا نہیں؟اس طبقے میں اگر ایک صِنف شرک اور اہل شرک سے عداوت اور بغض رکھنے کی فرضیت سے ناواقف ہے تو ایسی صنف کا وجود بھی خارج ازامکان نہیں جو اس فرض سے ’’ناواقف‘‘ نظر آنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہو ۔ بلکہ اسلام کی عافیت بھی اسی میں خیال کرتی ہو۔
اس موضوع کو اجاگر کرنایقینا اہل توحید کا فرض ہے۔ اس فرض سے عہدہ برآہونے کیلئے لکھنا اور بولنا ہی کافی نہیں شاید اور بہت کچھ ناگزیر ہے۔ اس سوچ کے پیشِ نظر یہاں عالم اسلام کے کچھ نامور علماء کا ایک فتوی اردو زبان میں شائع کیا جا رہا ہے جو ہمارے نزدیک مذکورہ بالا موضوع پر بہت حد تک مفید ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ علیہ کا نام تو محتاجِ تعارف نہیں ، حدیث میں صحیح، ضعیف کا معمولی شعور رکھنے والا شخص بھی دور حاضر کے اس محدث سے واقف ہو گا۔ شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ یمن کے بہت بڑے سلفی عالم ہیں۔ فتویٰ میں مذکور دیگر علماء میں سے بیشتر بھی یمن ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ فتویٰ کی عبارت سے واضح ہو گا کہ یہ جمہوریہ یمن کے عام انتخابات میں اسلامی جماعتوں کی شرکت اور اسلام دشمن و سیکولر قوتوں سے سیاسی اتحادو تعاون کی بابت صادر ہوا ہے۔
یمن ایک ویسا ہی ’’کلمہ گو‘‘ ملک ہے جیسا کہ ہمارا ملک، اسکے حکمران بھی ہمارے حکمرانوں جیسے ’’کلمہ گو‘‘ ہیں اور اسکی سیاسی پارٹیاں بھی ہمارے ہاں کی سیاسی پارٹیوں سے کوئی جوہری فرق نہیں رکھتیں۔ اتنا ضرور ہے کہ یہ فتویٰ صادر کرنے والے علماء عرب ہونے کے ناطے پاکستان کی بہ نسبت یمن کے حالات سے زیادہ واقف ہیں، جس کی بنا پر وہاں کے نظامِ شرک میں شمولیت کے جواز کی دلیلیں، جو وہاں دی جاتی ہیں، ان عرب علماء کے کانوں تک بآسانی پہنچ جاتی ہیں۔ یہ باطل دلائل سن کر ہی ان علماء نے اسکا جواب دینا ضروری سمجھا۔ اب چونکہ ہمارے یہاں بھی ویسی ہی دلیلیں چلتی ہیں اس لیے مفید خیال کیا گیا کہ اردو دان طبقہ میں بھی ان باطل دلائل کے رد پر مشتمل یہ مختصر فتویٰ استفادہ عام کیلئے پیش کیا جائے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ فتویٰ کی افادیت اپنی جگہ مگر فیصلہ دلیل پر ہوتا ہے اور حق صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔
شیخ محمدناصر الدین البانی اور انکے دیگر رفقاء کا یہ فتویٰ گو جمہوری نظام میں شرکت اور تعاون کے بارے میں ہے مگر بغور دیکھا جائے تو کچھ اور تحریکی اور اصولی مباحث بھی اسی فتویٰ کے دلائل سے ثابت ہو جاتے ہیں۔مثلاً وہ حضرات جو انتخابی سیاست کے علاوہ کسی اور میدان میں ایک باطل نظام یا باطل قوت کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمت و نصرت کے قائل (وفاعل) ہیں اور دلیل میں رسول اللہﷺ کا یہود سے میثاق یا حلفِ خزاعہ یا مطعم بن عدی سے پناہ لینا یا صلح حدیبیہ وغیرہ ایسے واقعات پیش کرتے ہیں انکا مختصر مگر کافی اور شافی جواب بھی اسی فتویٰ میں موجود ہے۔
یہ فتویٰ اردن سے عربی میں شائع ہونے والے ایک سلفی ماہنامہ ’’الاصالۃ‘‘ کے شمارہ بابت جمادی الثانیۃ ۱۴۱۳ھ صفحہ ۱۶ تا ۲۴ سے لیا گیا ہے۔