ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 580
- ری ایکشن اسکور
- 187
- پوائنٹ
- 77
جمہوریت کی تعریف و تاریخ
جمہوریت کی تعریف
جمہوریت کے لغوی معنی ’’لوگوں کی حکمرانی‘‘ Rule of the People کے ہیں۔ یہ اصطلاح دو یونانی الفاظ Demoیعنی ’’لوگ‘‘ اور Kratos یعنی ’’حکومت‘‘سے مل کر بنا ہے۔ بعض لوگ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ لوگوں کی ’’اکثریت کی بات ماننا‘‘ لیکن درحقیقت یہ ’’اکثریت کی اطاعت ‘‘ کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی مفکر ہیروڈوٹس (Herodotus)کہتا ہے کہ:
’’ جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔
چنانچہ سابق امریکی صدر ’’ابراہم لنکن‘‘ کا یہ قول جو کہ جمہوریت کا نعرہ ہے ،اسی حقیقت کی عکاسی کرتاہے:
“Goverment of the poeple, by the people,for the people”
’’عوام کی حاکمیت ، عوام کے ذریعے ، عوام پر‘‘
تاریخ جمہوریت
جمہوریت کا سب سے پہلا سراغ ہندوستان میں ملتا ہے۔6سو سال قبل از عیسوی اور ’’بدھا‘‘ کی پیدائش سے قبل ہند میں جمہوری ریاستیں موجود تھی اور ان کو Janapadas(جانا پداس)کہا جاتا تھا۔ ان میں سب پہلی ریاست ’’وشانی‘‘ریاست تھی جو کہ آج ’’بہار‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح سکندر اعظم کے دور میں 400 قبل از عیسوی یونانی دانشوروں کے مطابق Sabastai اور Sabaracae کی ریاستیں جو موجودہ پاکستان اور افغانستان ہیں ، یہاں بھی جمہوری حکومت تھی نہ کی شاہی حکومت۔ اسی طرح ۵ صدی قبل مسیح میں Greece میں بھی کونسل اور اسمبلی کا تصور ملتاہے۔ Jalius Cessar اور سینٹ کے سربراہ Ponpey کے درمیان خانہ جنگی کے بعد 49Bc میں پہلی دفعہ ’’رومن ایمپائر‘‘(Roman Empaire) وجود میں آئی۔ اسی طرح تمام جمہوری ادارے ہمیشہ سے ہی جزوی اور محدود جمہوریت کے ساتھ انسانی تاریخ میں موجود رہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) ہندوستان میں پنچائیت
(۲) جرمن قبائلی نظام(Tacitus)
(۳) فرینکش کسٹم آف مارچ فیلڈ (Frankish Custom of March Field)
(۴) آل تھنگ آف پارلیمنٹ آئس لینڈ (All Thing Parliment of Ice Land)
(۵) توتھا سسٹم آف آئر لینڈ (Tutha system of Ireland)
(۶) قریش کا دارالندوہ (قصیٰ ابن کلاب)
جمہوریت کے حوالے سے ایک غلط فہمی
دورِ حاضر میں بشمول دینی عناصر، لوگوں کے ذہن میں جمہوریت کے حوالے سے ایک مغالطہ یہ ہے کہ جمہوریت 200 سال قبل انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ایک نئی قسم ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘ (Liberal Democracy) انقلابِ فرانس کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ چنانچہ اس کے ساتھ یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اس جمہوریت کی تاریخ کیا ہے اور اس کا سفر کیسے طے ہوا ہے؟
1265ء میں انگلستان کی پہلی انتخابی پارلیمنٹ کی صورت میں ’’کامل جمہوریت‘‘ کی طرف پہلا قدم طے ہوا۔ 1517ء میں جب مارٹن لوتھر (MartinLuthar) نے یورپ کی نشاءۃ ثانیہ اور اصلاح (Reformation) کے نام پر اپنے مقالے چرچ کے دروازے نصب کرکے چرچ سے آزادی کا اعلان کردیا۔ یہی نظریہ 1688ء کی’’انگلش سول وار‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، جبکہ ’’سینٹ‘‘(Senate) کے لیڈر کروم ویل (Cromwell) نے انگلستان کے بادشاہ ہنری آئی(Hennry I) کو شکست دیکر سولی پر چڑھا دیا۔ اس انقلاب کو ’’گلوریس ریولیشن‘‘ (Golorios Revelotion) کہا جاتا ہے، اور اسی کے بعد بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوری دور کا آغاز ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ :
(۱) تمام مذاہب برابر قرار پائے، جس کی رو سے (Freedom of religon) کا نظریہ سامنے آیا جوکہ (Free from the religon) یعنی تمام مذاہب سے آزادی کا باعث بنا۔
(۲) کلیسا اور اسٹیٹ میں جدائی ہوگئی یعنی ریاست کے معاملات میں مذہب کا عمل دخل ختم کر دیا گیا۔
(۳) Bank of England کا قیام عمل میں آیا جس کے ذریعے سرمایا دارنہ نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
(۴) سیاست جاگیرداروں Land Lords سے منتقل ہوکر سرمایہ داری میں منتقل ہوگئی۔
انقلابِ فرانس(French Revuolation) جس کو انسانی تاریخ میں’’جمہوریت‘‘ کی ابتداء کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل والٹیئر Volataire (1778-1694) اور روسل Rossel (1778-1712) جیسے بد قماش اور بدمعاش انسانوں کے فلسفوں اور نظریات کا نتیجہ تھا جن کو آج انسانی تاریخ کے عظیم مفکرین کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔ ان بدقماشوں کے عقائد میں یہ بات شامل تھی کہ ’’عیسائیت ‘‘ پر عمل کرنا دراصل گھر پر کام کرنے والی خادماؤں پر لازم ہے، ہمیں اس کی ضرورت نہیں اور ان لوگوں کے عشق ومحبت کے افسانے اور زناکاریاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چنانچہ ان دونوں کی تحریروں کے نتیجےمیں1789ء انقلابِ فرانس رونما ہوا جس کے درجِ ذیل بھیانک نتائج نکلے:
(۱) لامذہبیت (Seculerism) کو قانونی تشخص حاصل ہوا۔
(۲) مذہب سے آزادی حاصل ہوئی۔ یعنی مذہب کو ایک بے کار اور useless شے سمجھا گیا۔
(۳) سیاسی حقوق میں مساوات کے تصور کو تسلیم کیا گیا جس کی رو سے معاشرے کے ہر فرد کے حق رائے دہی کو بغیر کسی تخصیص کے برابر تسلیم کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں Liberal Democracy کا فلسفہ معرض وجود میں آیا۔
(۴) تقسیم الحکم یعنی نظام حکومت کو تثلیث کی شکل میں تقسیم کر دیا گیا۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ۔
(۵) آزاد انتخاب کا تصور سامنے آیا۔
(۶) اور یہودیوں کا سب سے بڑا شیطانی ہتھیار ’’بینک ‘‘یعنی بینک آف فرانس قیام عمل میں آیا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس Liberal Democracy کو 1900ء تک یعنی انقلابِ فرانس کے 100سال تک بقیہ دنیا میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور 1900ء تک کل تین ہی ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ اور فرانس ان جمہوری اصولوں پر قائم تھے۔ ’’جمہوریت ‘‘ کو اصل فروغ پہلی جنگ عظیم اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور خصوصاً جنگ عظیم دوم کے بعد حاصل ہوا۔
اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانۂ جنگی کے بعد (Colonolization) اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی۔ جیسے جنگ عظیم اول کے بعد آسٹریا، ہنگری اور ترکی وغیرہ میں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں، ’’کلو نائیزیشن‘‘ کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں، اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں ۔
موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ2001ء میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003ء میں اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں دو خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطیٰ میں اسی جمہوریت کے نفاذ کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پس جان لیجئے کہ کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی ۔
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جمہوریت کو فروغ دینے کے لئے ہمیشہ سے ہی مذہب اباحیت، دین کے منکر، مذہب اور دین کو جدا کرنے والے اور سودی کاروبار کو فروغ دینے والے بنے۔ لہٰذا نفاذ اور استحکام جمہوریت کے نتیجے میں ہمیشہ دین مغلوب، مذہب سے دوری، اخلاقی انحطاط اور سودی کاروبار کو استحکام اور فروغ ملا اور آج پاکستان میں بھی جمہوری دانشوروں اور علمبردار طبقے میں زیادہ تر یہی لوگ نظر آئیں گے۔