مجھے لاشعوری طور پر خلط مبحث کا معاملہ لگتا ہے میں اپنی سمجھ سے اسکی وضاحت کر دیتا ہوں پھر محترم
@حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم
@اشماریہ بھائی کو تصحیح کے لئے اور رائے دینے کے لئے گزارش کروں گا
فتوی میں لکھا گیا ہے کہ
جمہوریت کا لفظ اکثریتی پارٹی کی حکومت کے لئے مستعمل ہے
میرے خیال میں یہاں پر حکومت کے تصور کی وضاحت نہیں کی گئی کیونکہ ہمارا اکثریت کی پارٹی کی حکومت کے بارے تصور دو طرح کا ہو سکتا ہے
1-جو پارٹی اکثریت میں ہو وہ اس طرح حکومت کرے کہ نظام (قانون) بنانے کا اختیار بھی انکے پاس ہو اور نظام چلانے کا اختیار بھی ان کے پاس ہو
2-جو پارٹی اکثریت میں ہو وہ اس طرح حکومت کرے کہ نظام (قانون) بنانے کا اختیار تو انکے پاس نہ ہو بلکہ اللہ کے پاس ہو اور وہ پارٹی صرف اللہ کے قانون یعنی شریعت کو چلانے کا اختیار رکھتی ہو
میرے خیال میں پہلے تو مفتی صاحبان کو اسکا تعین کرنا چاہئے تھا کہ جمہوریت کا لفظ اوپر دو پوئنٹس میں سے کس کے لئے مستعمل ہے تاکہ فتوی میں غیر شعوری طور پر خلط مبحث نہ ہو سکے
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جمہوریت دوسرے پوائنٹ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور پہلے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے تو پھر مفتی صاحبان کا فتوی درست ہے
اور اگر معاملہ یہ ہے کہ معاشرے میں یہ صرف پہلے نمبر کے لئے مستعمل ہے تو پھر واقعی مفتی صاحبان سے خلط مبحث ہو گیا ہے اسوقت ایسے ہی معاملہ ہو گا جیسے کوئی یہ سمجھے کہ زنا میں کیونکہ جماع ہوتا ہے تو زنا کو جماع پر محمول کرتے ہوئے کہے کہ جس نے زنا کیا ہے اسکے کے سابقے لاحقے کو دیکھیں گے اگر وہ زنا بیوی سے ہو گا تو درست اور اگر غیر بیوی غیر ملک سے ہو گا تو حرام ہو گا خالی زنا پر حکم نہیں لگ سکتا
بھائیوں سے گزارش
میں نے پوسٹ میں کوئی حتمی رائے نہیں دی بلکہ دو احتمالات بتائے ہیں اگر کوئی تیسرا احتمال جانتا ہے تو وہ بتا دے یا پھر پہلے اس بات کو فائنل کیا جائے کہ
جمہوریت ہمارے معاشرے میں عموما اوپر دو پوائنٹس میں بتائے گئے معنوں میں سے کس معنی میں مستعمل ہے