• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت کے متعلق جامعہ بنوریہ عالمیہ کا تازہ ترین فتویٰ

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
جمہوریت کے متعلق ایسا ابہام - لگتا ہے کہ ہمیں تحقیق مناط کی عادت نہیں رہی، یا ہم مصلحتوں کا شکار ہو چکے ہیں
fatwa of jamia banoria about democracy.jpg
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مغربی شراب حرام اور اسلامی شراب حلال۔۔۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
مجھے لاشعوری طور پر خلط مبحث کا معاملہ لگتا ہے میں اپنی سمجھ سے اسکی وضاحت کر دیتا ہوں پھر محترم @حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی اور محترم @اشماریہ بھائی کو تصحیح کے لئے اور رائے دینے کے لئے گزارش کروں گا
فتوی میں لکھا گیا ہے کہ
جمہوریت کا لفظ اکثریتی پارٹی کی حکومت کے لئے مستعمل ہے
میرے خیال میں یہاں پر حکومت کے تصور کی وضاحت نہیں کی گئی کیونکہ ہمارا اکثریت کی پارٹی کی حکومت کے بارے تصور دو طرح کا ہو سکتا ہے
1-جو پارٹی اکثریت میں ہو وہ اس طرح حکومت کرے کہ نظام (قانون) بنانے کا اختیار بھی انکے پاس ہو اور نظام چلانے کا اختیار بھی ان کے پاس ہو

2-جو پارٹی اکثریت میں ہو وہ اس طرح حکومت کرے کہ نظام (قانون) بنانے کا اختیار تو انکے پاس نہ ہو بلکہ اللہ کے پاس ہو اور وہ پارٹی صرف اللہ کے قانون یعنی شریعت کو چلانے کا اختیار رکھتی ہو

میرے خیال میں پہلے تو مفتی صاحبان کو اسکا تعین کرنا چاہئے تھا کہ جمہوریت کا لفظ اوپر دو پوئنٹس میں سے کس کے لئے مستعمل ہے تاکہ فتوی میں غیر شعوری طور پر خلط مبحث نہ ہو سکے
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جمہوریت دوسرے پوائنٹ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور پہلے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے تو پھر مفتی صاحبان کا فتوی درست ہے
اور اگر معاملہ یہ ہے کہ معاشرے میں یہ صرف پہلے نمبر کے لئے مستعمل ہے تو پھر واقعی مفتی صاحبان سے خلط مبحث ہو گیا ہے اسوقت ایسے ہی معاملہ ہو گا جیسے کوئی یہ سمجھے کہ زنا میں کیونکہ جماع ہوتا ہے تو زنا کو جماع پر محمول کرتے ہوئے کہے کہ جس نے زنا کیا ہے اسکے کے سابقے لاحقے کو دیکھیں گے اگر وہ زنا بیوی سے ہو گا تو درست اور اگر غیر بیوی غیر ملک سے ہو گا تو حرام ہو گا خالی زنا پر حکم نہیں لگ سکتا

بھائیوں سے گزارش
میں نے پوسٹ میں کوئی حتمی رائے نہیں دی بلکہ دو احتمالات بتائے ہیں اگر کوئی تیسرا احتمال جانتا ہے تو وہ بتا دے یا پھر پہلے اس بات کو فائنل کیا جائے کہ

جمہوریت ہمارے معاشرے میں عموما اوپر دو پوائنٹس میں بتائے گئے معنوں میں سے کس معنی میں مستعمل ہے
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مفتیِ محترم جمہوریت کی حقیقت ہی سے بے خبر ہیں،حالاں کہ فقہ الواقع سے آگاہی اس منصب کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔
 

ابن حلبی

مبتدی
شمولیت
نومبر 23، 2013
پیغامات
38
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
19
جمہوریت ایک مغربی لفظ اور مغربی اصطلاح ہے، جس کا اطلاق ''عوام کی قانون سازی کے ذریعے عوام کے لیے عوام کی حکومت '' پرہوتاہے ۔ پس عوام ہی بالادست او ر بااختیار ہیں، جو زمامِ اقتدار کے مالک ہیں ۔ وہ اپنے ارادے کے مطابق چلیں گے اور اسی ارادے کو استعمال کریں گے۔ وہ کسی اور قوت کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں۔ اور صاحبِ اختیار ہونے کی وجہ سے عوام ہی اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام اور قوانین بنوائیں گے۔ او راپنے مقررکردہ حکمرانوں او ر ججوں کے ذریعے ان قوانین اور نظاموں کو نافذ کریں گے۔ چونکہ عوام قوت کا سرچشمہ ہیں،لہٰذایہ لوگ (حکمران او رجج) انہی سے قوت حاصل کریں گے۔ اورعوام کے ہر فرد کو ریاست بنانے ،حکمران مقرر کرنے ،قوانین اور نظام وضع کرنے کا مساوی حق حاصل ہے ۔
جمہوریت کی اصل، یعنی عوام کا بذاتِ خودحکومت کرنا، اسی طرح ہے کہ تمام کے تمام لوگ ایک میدان میں جمع ہوجائیں اورنظام اور حکمرانی کے قوانین بنائیں، اپنے معاملات کو چلائیں اور جن امور کے فیصلے کی ضرورت ہو، ان کا فیصلہ کریں ۔ لیکن چونکہ تمام عوام کا قانون سازی کا ادارہ بنانے کے لیے ایک میدان میں اکٹھا ہونا ممکن نہیں، اسی لیے وہ مجلسِ قانون ساز کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، اور اسی کو پارلیمنٹ کہا جاتاہے ۔ جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی عوام کی خواہشات کی نمائندگی کرتی ہے او ر عوام کے ارادوں کا یہی سیاسی ڈھانچہ ہے۔ یہی حکومت تشکیل دیتاہے اور یہی مملکت کے لیے سربراہ کا چناؤ کرتاہے ،تاکہ وہ سربراہ عوام کے ارادوں کو نافذ کرنے کے لیے ان کا وکیل او رحاکم بنے ۔ وہ اپنی قوت بھی عوام سے حاصل کرتاہے، جنہوں نے اپنے بنائے ہوئے قوانین او ر نظاموں کے مطابق حکومت کرنے کے لیے اسے منتخب کیا ہے۔ لہٰذا اصل بالادستی عوام کی ہے۔ وہی قانون بناتے ہیں اور وہی ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے حکمران کا انتخاب کرتے ہیں ۔
چنانچہ جمہوری نظام کا منبع صرف اور صرف انسان ہے ، وحی یا دین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

جمہوریت کی تفصیل کو مندرجہ ذیل نقاط میں سمویا جا سکتا:
(1) جمہوریت انسانی عقل کی ایجاد ہے، اور یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ نہیں۔ یہ آسمانی وحی پر بھروسہ نہیں کرتی اور نہ اُن ادیان کی بنیاد پر پروان چڑھی ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پرنازل فرمایا۔
(2) یہ دین کی دنیادی امور سے جدائی ، اور پھر اس کے نتیجے میں ریاست سے علیحدگی کے عقیدے سے نکلی ہے۔
(3) یہ دو افکار کی بنیاد پر قائم ہے :
(الف) حاکمیت ِاعلیٰ عوام کی ہے ۔
( ب) اختیارات کا سرچشمہ عوام ہیں ۔
(4) یہ اکثریت کی حکومت ہے۔ حکمرانوں او رپارلیمنٹ کے اراکین کا انتخاب ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پرہوتاہے، اور تمام فیصلے اکثریت کی رائے کی بناء پرکیے جا تے ہیں ۔
(5) یہ عام آزادیوں کی بات کرتی ہے جو درج ذیل ہیں :
(الف) عقیدے کی آزادی
(ب) آزادیٔ رائے
(ج) ملکیت کی آزادی
(د) شخصی آزادی
ان آزادیوں کا رعایا کے ہر فرد کے لیے میسر ہونا لازمی ہے ،تاکہ ہر شخص اپنی حاکمیتِ اعلیٰ کو استعمال کرنے اور اسے خود چلانے کے قابل ہو۔ نیزوہ حکام کے انتخاب اور پارلیمنٹ کے اراکین کے انتخاب میں، بغیر کسی دباؤ اور زبردستی کے، مکمل آزادی سے شامل ہونے کا حق استعمال کرنے پر قادر ہو ۔

پس جمہوریت کا اسلام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
63
اِنا للہ وانا الیہ راجعون
خود کو شیخ الہند کا جانشین کہتے ہوئے ایسوں کو شرم آنی چاہیے۔
اللہ ان کو ہدایت دے۔
 
Top