محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
اور یوسف بھائی محمد علی جناح کا یہ بیان :چند باتیں تو واضح ہیں۔
۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح خاندانی اعتبار سے آغا خانی اسماعیلی تھے۔ لیکن جب ان کی بیوی کا انتقال ہوا تو بمبئی کے جماعت خانے کی طرف سے ان سے ان کی حیثیت کے مطابق ایک خطیر رقم کا مطالبہ ہوا تاکہ جنت میں ان کی بیوی کی بکنگ کی جاسکے، آغا خانی عقیدہ کے مطابق :) اس پر قائد اعظم نے پہلی مرتبہ اپنے مذہب کے بارے میں لب کشائی کی کہ وہ صرف مسلمان ہیں اور وہ والے مسلمان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت یعنی قرآن و حدیث میں ایسی کوئی رسم ہے تب ہی وہ یہ رقم دیں گے، ورنہ نہیں۔ اس انکار کے بعد بمبئی جماعت خانہ نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا، اس خوف سے کہ کہیں دیگر لوگ بھی اس طرح رقم دینے سے انکار کرنا شروع نہ کر دیں۔ اس مقدمہ میں قائد اعظم نے اسماعیلی فرقہ سے اظہار برات اور خود کو ایسا مسلمان ڈیکلیئر کیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو مانتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد ہی انہوں نے قرآن و حدیث کا تفصیلی مطالعہ کیا۔ یہ مطالعہ ایک بیرسٹری پاس کامیاب وکیل نے کیا تھا، جو عام لوگوں سے زیادہ ذہین اور ہائی آئی کیو کا حامل تھا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اصل اسلام کو پہچان کر اس پر "ایمان " لے آئے تھے۔
لیکن وہ جلد ہی سیاسی طور پر بہت مصروف ہوگئے۔ کانگریس سے وابستگی کے دوران وہ ہندو ذہنیت سے بخوبی آگاہ تھے، لہٰذا مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت حاصل کرنے کی خاطر مسلم لیگ جوائن کیا اور سر دھڑ سے ایک نکاتی ایجنڈہ، مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کے قیام میں لگ گئے جہاں قرآن و سنت کے مطابق مسلمان زندگی بسر کرسکیں۔ پاکستان کے بارے میں ان کے مسلسل بیانات اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا ایمان قرآن اور اسلام پر کتنا مستحکم تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران انہوں نے کبھی بھی شیعہ ازم یا اسماعیلی مذہب کی بات نہیں کی اور نہ ہی شیعہ یا اسماعیلی مذہبی رہنماؤں کی کوئی بات مانی کہ پاکستان کو شیعہ یا اسماعیلی اسٹیٹ بنایا جائے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ وہ سیاست میں اترنے کے بعد بہت زیادہ "پریکٹسنگ مسلم" نظر نہیں آئے۔ لیکن کوئی یہ دعویٰ بھی نہیں کرسکتا یا ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکتا کہ قائد اعظم کی زندگی میں شیعہ ازم یا اسماعیلی فرقے کی کوئی جھلک کبھی نظر آئی ہو۔ انہوں نے کبھی ماتم نہیں کیا، محرم کے کسی جلوس میں اس طرح بھی شرکت نہیں کیا جیسے آج کل بعض سنی سیاسی رہنما (نام نہاد) اتحاد بین المسلمین کی خاطر شرکت کرتے ہیں تا ہم یہ حقیقت ہے کہ فاطمہ جناح کے مرنے کے بعد ان کے سامان سے شیعہ کا امتیازی نشان "پنجہ" ضرورملا تھا۔ گویا وہ ذہنی طور پر اسماعیلی یا شیعہ تھیں۔ واضح رہے کہ شیعہ، اسماعیلی اور بوہری مسالک میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔
میرے سارے سکے کھوٹے ہیں پاکستان میں نے اور میرے ٹائپ رائٹر نے بنایا
مجھے یاد آ رہا ہے کہ یہ بیان میں نے ڈاکٹر صفدر محمود یا سرفراز مرزا کی کسی کتاب میں پڑھا تھا اور ایک کتاب پاکستان شعیوں نے بنایا اس میں تو شاید ایک اخبار کی کٹنگ بھی لگائی گئی تھی مجھ سے کہیں ضائع ہو گئی ورنہ یہاں لگاتا
لیکن ایک بات حقیقت ضرور ہے کہ محمدعلی جناح کو قائد اعظم نہیں کہنا چاہیے اور دوسری بات اگر وہ واقعی سنی مسلمان تھے تو ابتدائی طور پر پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور پر چلانے ککے لیے انہوں کیا کیا تھا ؟
کچھ بھی نہیں اور رہی سہی کسر ان کے جانشین عالیشان لیاقت علی خان نے پوری کر دی تھی؟؟؟؟؟