• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنازہ کے چالیس اہم مسائل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
جنازہ کے اہم مسائل واحکام
(آٹھویں قسط)
مقبول احمد سلفی

(48) میت کے لئے ایصال ثواب کے جائز طریقے :
ابھی ابھی ایصال ثواب کے واسطے آپ نے چند اصول پڑھے ہیں اوراس سے پہلے یہ بتلایا گیا ہے کہ میت کو غیرمشروع طریقوں سے ایصال ثواب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اور ان غیرمشروع طریقوں کا بھی ذکر کیا گیا جو لوگوں میں رائج ہے ، اب یہاں میت کے لئے ایصال ثواب کے مشروع طریقے ذکر کئے جاتے ہیں جن سے میت کو ثواب پہنچتا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ بعض کام ایسے ہیں دنیا میں جن کی انجام دہی سے خود بخود کو میت کو اس کی قبر میں ان کاموں کا ثواب دیا جاتا ہے ۔ ان کاموں کا ذکر صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل روایت میں ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضى الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا اجروثواب اسے مرنے کے بعدبھی ملتا رہتا ہے ۔ صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہو،صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے ۔
اس حدیث میں تین کاموں کا ذکر ہے جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے وہ تین کام صدقہ جاریہ، نفع بخش علم اور صالح اولاد کی دعا ہیں۔
صدقہ جاریہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی حیات میں سماج کے فائدہ کے لئے کوئی بھی ایسا کام کیا ہو جو اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رہے مثلا لوگوں کی بھلائی کے لئے سڑک ، کنواں ،پل، ہسپتال، نل،مسافرخانہ، یتیم خانہ، تعلیم گاہ اور سجدہ گاہ بنایا ہو تو ان کاموں کا اجر قبر میں میت کو اس وقت تک ملتا رہے گا جب تک ان کاموں سےلوگوں کا بھلا ہوتا رہے گا۔ وہ لوگ بھی اس اجر میں شامل ہوں گے جنہوں نے میت کو ان کاموں پر ابھاراہوگا يا ان کاموں میں مدد کیا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ اگر انسان دنیا میں ایسی کوئی بری چیز قائم کرکے جاتا ہے جس سے سماج میں برائی پھیلتی ہے، فتنہ وفساد اور فسق وفجور کا سبب ہے تو میت کے عذاب میں اضافہ ہوگا مثلا کوئی فلم ہال ، جواگھر، نائٹ کلب، بیربار، ڈانس باروغیرہ بناکے مر جائے ۔ اللہ کی پناہ ایسی موت سے ۔
نفع بخش علم سے مراد انسان کا زندگی میں لوگوں کو قرآ ن وحدیث کی تعلیم دینا، دینی کتابیں لکھنا، لکھوانا اور ان کی نشرواشاعت کرنا، تقریر وتحریر کے ذریعہ لوگوں کی علمی رہنمائی کرنا، حصول علم کے لئے کسی قسم کی راہ ہموار کرنا مثلا معلم کی تنخواہ دینا، مدرسہ کی تعمیروترقی میں حصہ لینا، کتابوں کی اشاعت اور طلبہ کے اخراجات برداشت کرناوغیرہ ۔ ان کاموں کا اجر ان سب کو بھی ملے گا جنہوں میت کو ان کاموں کی طرف رہنمائی کی ہو یا ان کاموں پر کسی طرح کا تعاون کیاہو۔ ساتھ ہی یہاں یہ بات بھی معلوم رہے کہ اگر کوئی شخص زندگی میں لوگوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے جس سے گمراہی پھیلتی ہے ، ایسی کتاب یا مضمون لکھتا ہے جس سے علم نہیں جہالت کو شہ ملتی ہے یا ایسی تقریر اور خطبہ دیتا ہے جس سے امت میں اختلاف وانتشار، فرقہ پرستی ، کتاب وسنت سے دوری اور اعمال صالحہ سے تنفرد پیدا ہوتا ہے تووفات کے بعد ایسے میت کے عذاب میں اضافہ کیا جائے گا۔دنیا میں ایسے علماء سوء کی آج کل بڑی تعداد ہے۔اللہ کی پناہ ایسی موت سے ۔
صالح لڑکا کی دعا سے مراد میت اپنے پیچھے نیک اولاد (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ ، نواسی وغیرہ) چھوڑے اور یہ میت کے لئے دعائے خیرکرےتو میت کو اس کا ثواب ملتا ہے ۔ جس طرح والدین کی تربیت یافتہ اولاد کے نیک اعمال کا فیض والدین کو پہنچتا ہے اسی طرح استاد /رہنما اپنی علمی رہنمائی کی وجہ سے رہنمائی پانے والوں کی نیکی سے اجر پاتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم رہے کہ اگر ہم نے اولاد کی تربیت نہیں کی جس کی وجہ سے وہ غلط راستے پر چل پڑا تو ہمیں اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس لئے ہم میں سے ہرمسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی میں یہ تینوں نیک کام کرکے جائے یا ان کاموں پر جس طرح کا ممکنہ تعاون کرسکتا ہےاس طرح کا تعاون کرکے جائے تاکہ ان کا اجر قبر میں بھی ملتا رہے اورایسا کوئی کام کرکے نہ مرے جس سے عذاب میں دوگنااضافہ ہوتا ہے بلکہ برے کاموں پر ذرہ برابر بھی تعاون نہ کرے ، اللہ تعالی نے ہمیں شر کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے کسی سے ایسی خطا سرزد ہوگئی ہوجس کی بدولت قبر میں عذاب بڑھ سکتا ہے تو مرنے سے پہلے توبہ کرلے، کسی نے کمائی کے واسطے مزار بنالیا تھا اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا وہ اللہ سے توبہ کرے اور اس مزار کو ڈھادے تاکہ شرک وکفر کا دروازہ بند ہوجائے پھر کوئی وہاں غیراللہ سے فریاد نہ کرے، نہ کسی قبروں کو سجدہ کرے ۔کسی نے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی وہ اس سے رجوع کرلے ، کسی نے ناج گانے ، شراب وکباب اور فسق وفجور کے کاموں پربرے لوگوں کا تعاون کیا تھا وہ سچے دل سے توبہ کرلے اللہ تعالی بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
مضمون جاری ۔۔۔۔
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
جنازہ کے اہم مسائل واحکام
(نویں قسط )
مقبول احمد سلفی


میت کے لئے ایصال ثواب کے مشروع طریقے :
قاعدہ یہی ہے کہ ہے میت کو اصلا اپنے ہی عمل کا ثواب ملتا ہے جیساکہ چند بنیادی اصول کے تحت ہم نے دلائل سے اندازہ لگایا ہے اور پھر مسلم شریف کی حدیث سے معلوم ہوا کہ میت نے خود اپنی زندگی میں صدقہ جاریہ ، نفع بخش علمی کام کیا ہو یا صالح اولاد چھوڑی ہو جو دعا کرے تو میت کو ان تین کاموں کا اجر قبر میں ملتا ہے ۔ یہ تینوں کام خود میت نے کئے ہیں تو ان کا اجر باقی رہتا ہے ۔
شریعت میں ایسے بھی بعض کام ہیں جن کو میت نے خود نہیں کیا ہے ، کوئی دوسرا میت کی جانب سے انجام دے گا اور ان کا اجر میت کو قبر میں پہنچے گا ۔ وہ چند کام ہیں جنہیں ہم ایصال ثواب کے مشروع طریقے کہہ کہتے ہیں ۔

٭ میت کے قرض کی ادائیگی :
قرض کا معاملہ بہت ہی سنگین ہے ،اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے جس کے ذمہ قرض باقی رہ گیا قیامت میں اس کی نیکی بقدربدلہ قرض خواہ کو دیدی جائے گی ۔بخاری میں ہےجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایسے شخص کا جنازہ لایا جاتا جس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پوچھتے کہ کیا یہ شخص اپنا قرض ادا کرنے کے لئے کچھ مال چھوڑ کر مرا ہے؟ اگر یہ بتایا جاتا کہ یہ شخص اتنا مال چھوڑ کر مرا ہے جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جناہ پڑھ لیتے اور اگر یہ معلوم ہوتا کہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں مرا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ خود نہ پڑھتے بلکہ مسلمانوں سے فرماتے : ( صلُّوا على صاحبكم) تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔(صحيح البخاري:2298)
نبی ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: نفسُ المؤمنِ معلَّقةٌ بِدَينِه حتَّى يُقضَى عنهُ(صحيح الترمذي:1078)
ترجمہ: مؤمن کی روح اپنے قرض کی وجہ سے اس وقت تک معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو جائے ۔
اس لئے وفات کے بعد ممکن ہوتو دفن سے پہلے ہی ورنہ تدفین کے فورا بعد میت کے ترکہ میں سے اس کے قرض کی ادائیگی کرے ۔ اگر میت نے ترکہ نہیں چھوڑا ہے تو کوئی دوسرا بھی میت کا قرض ادا کرسکتا ہے ۔ اس سے میت کا قرض ادا ہوجائے گا ۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم(2346) میں جابر بن عبداللہ سے مروی روایت ہے ایک شخص کے ذمہ دو دینار تھااس کا انتقال ہوگیا ، اس نے ترکہ بھی نہیں چھوڑا ،یہ بات آپ کو معلوم ہوئی تو آپ نے کہا اپنے بھائی کا جنازہ پڑھ لوپھر ابوقتادہ نے اس کی ذمہ داری لی تو آپ نے جنازہ پڑھا یا، آپ نے فرمایا: (هما عليكَ، وفي مالِكَ، والميِّتُ منهُما برئ)وہ دونوں تمہارے ذمہ اور تمہارے مال میں ہیں اور میت ان سے بری ہے؟۔ اگلے دن آپ نے اس صحابی سے پوچھا دو دینار کا کیا ہواکہا کہ ادا کردیاتو آپ نے فرمایا: (الآنَ حينَ برَّدتَ علَيهِ جلدَهُ)اب اسے سکون ملا۔

٭ موحد مسلمان کی جنازے میں شرکت اور سفارش کرنا :
نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما من رجلٍ مسلمٍ يموتُ فيقوم على جنازتِه أربعون رجلًا ، لا يشركون بالله شيئًا إلا شفَّعهم اللهُ فيه(صحيح مسلم:948)
ترجمہ:جو بھی مسلمان فوت ہو جا تا ہے اور اس کے جنا زے پر (ایسے )چالیس آدمی (نماز ادا کرنے کے لیے) کھڑے ہو جا تے ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہر اتے تو اللہ تعا لیٰ اس کے بارے میں ان کی سفارش کو قبول فر لیتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :ما من ميِّتٍ تُصلِّي عليه أمَّةٌ من المسلمين يبلغون مائةً . كلُّهم يشفعون له . إلَّا شُفِّعوا فيه(صحيح مسلم:947)
ترجمہ:کو ئی بھی (مسلمان ) مرنے والا جس کی نماز جناز ہ مسلمانو کی ایک جماعت جن کی تعداد سو تک پہنچی ہو ادا کرے وہ سب اس کی سفارش کریں تو اس کے بارے میں ان کی سفارش قبول کر لی جا تی ہے ۔
ان دونوں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس میت کے جنازہ میں کثیر تعداد شامل ہو اور وہ سب موحد ہوں یعنی شرک کرنے والے مسلمان نہ ہوں اور وہ موحد مسلمان میت کے لئے سفارش کریں تو اللہ ان موحدین کی سفارش قبول کرتا ہے ۔

٭ میت کے لئے دعاواستغفار:
میت کے لئے ہمہ وقت دعا کرنا مشروع ہے ، نبی ﷺ نے وفات ہونے پر گھروالوں کو، میت کی خبر پانے پر ،نماز جنازہ میں ،دفن کرنے کے بعد ، قبرستان کی زیارت کرتے وقت صرف دعا کی تعلیم دی ہے ۔ میت کے حق میں دعا مفید اور اجر کے باعث ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ(الحشر: ١٠)
ترجمہ: ور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا صلَّيتُم على الميِّتِ فأخلِصوا لَه الدُّعاءَ(صحيح أبي داود:3199)
ترجمہ: جب تم میت کی نماز( جنازہ) پڑھو تو اس کے لیے خلوص سے دعا کرو۔
تدفین کے فورا بعد نبی ﷺ کا فرمان ہے:استغفِروا لأخيكُم ، وسَلوا لَهُ التَّثبيتَ ، فإنَّهُ الآنَ يُسأَلُ(صحيح أبي داود:3221)
ترجمہ:تم لوگ اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعا کرو اور اس کے لئے ثبات قدمی مانگو کیونکہ اس وقت اس سے سوال کیا جارہا ہے۔
نبی ﷺ کا عمومی فرمان ہے : دعوةُ المسلمِ لأخيه ، بظهرِ الغيبِ ، مُستجابةٌ . عند رأسِه ملَكٌ مُوكَّلٌ . كلما دعا لأخيه بخيرٍ ، قال الملَكُ الموكلُ به : آمين . ولكَ بمِثل " .(صحيح مسلم:2733)
ترجمہ: مسلمان کی اس کے بھائی کے لئے اس کے پیٹھ پیچھے کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جو جب جب یہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعا کرتا ہے تو کہتا ہے آمین اور تیرے لئے بھی اسی کے مثل ہو ۔
ان کے علاوہ بے شمار دلائل ہیں جن سے پتہ چلتا ہے میت کو دعاواستغفار کا فائدہ ہوتا ہے ، سلف وخلف نے اس پر بلاتردد کثرت سے عمل کیا ہے اس لئے ہمیں کثرت کے ساتھ میت کے حق میں دعائے استغفار کرنا چاہئے ۔

٭میت کی جانب سے صدقہ وخیرات :
میت کی جانب سے مالی صدقہ کرنا اجر کا باعث ہے ۔ میت کے مال سے ہو یا اپنے مال سے ، صدقہ اولاد کرے یا کوئی اور میت کو صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے اس بات پر متعدد علماء نے اجماع اور اتفاق نقل کیا ہے۔ احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔ سعد بن عبادہ سے روایت ہے وہ پوچھتے ہیں:
يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أمي ماتت ، أفأتصدقُ عنها ؟ قال : نعم . قلتُ : فأيُّ الصدقةِ أفضلُ ؟ قال : سقْيُ الماءِ(صحيح النسائي؛3666)
ترجمہ: یا رسول اللہ! میری والدہ وفات پاگئیں، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو وہ انہيں فائدہ دے گا؟ فرمایا: ہاں، میں نے پوچھا کہ کون سا صدقہ افضل ہے تو آپ نے فرمایاپانی پلانا۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے:
أنَّ رجلًا قال : يا رسولَ اللهِ ! إنَّ أُمَّهُ تُوفيت ، أفينفعُها إن تصدقتُ عنها ؟ قال : نعم ، قال : فإنَّ لي مخرفًا ، فأُشهدُك أني قد تصدقتُ به عنها(صحيح النسائي:3657)
ترجمہ: ایک آدمی نے کہا:اے اللہ کے رسول!میری والدہ فوت ہو گئی ہے - اگر میں اس کی جانب سے صدقہ کردوں تو کیا اسے فائدہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا:ہاں-اس آدمی نے کہا :میرے پاس ایک باغ ہے -میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کی طرف سے صدقہ کر دیا ہے۔
میت کی طرف سے مالی طور پر کوئی بھی صدقہ کیا جاسکتا ہے مثلا مسکینوں کو کھانا کھلانا، قرآن خرید کر ہدیہ کرنا، دینی کاموں میں صدقہ دینا، مساجد ومدارس کی تعمیر کرنا، مسافرخانہ، نہر، کنواں ، سڑک وغیرہ بنانا ۔
میت کی جانب سے سب سے افضل صدقہ پانی پلانا ہے اس بابت اوپر حدیث گزری ہے ۔

٭ میت کے نام سے حج وعمرہ:
مشروع ایصال ثواب میں میت کی جانب سے حج وعمرہ کرنا بھی شامل ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
أنَّ امرأةً من جُهينةَ، جاءت إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقالت : إن أمي نذرت أن تحجَّ، فلم تحج حتى ماتت، أفأحجُّ عنها ؟ قال : نعم، حجي عنها، أرأيتِ لو كان على أمكِ دينٌ أكنتِ قاضيتِة ؟ . اقضوا اللهَ، فاللهُ أحقُّ بالوفاءِ .(صحيح البخاري:1852)
ترجمہ: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانی تھی۔ مگر اسے حج کیے بغیر موت آگئی ہے۔ آیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟آپ نے فرمایا::ہاں اس کی طرف سے حج کرو۔ مجھے بتاؤ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا حق بھی ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔
میت کی طرف سے حج کی طرح عمرہ بھی کرسکتے ہیں اور میت کے اوپر حج فرض تھا، وہ بغیر حج کئےوفات پاگیا اور اس نے مال بھی چھوڑا تب تو اس کے وارث پر واجب ہے کہ اس کی جانب سے حج کرے خواہ وصیت کی ہو یا نہ کی ہولیکن اگر مال نہیں چھوڑا تو واجب نہیں ہے تاہم وارث کے لئے اپنے مال سے حج بدل کرنے کا استحباب باقی رہتا ہے۔اسی طرح غیرمستطیع (مرجائے)میت کی جانب سے بھی حج وعمر کرنا جائزہے۔حج وعمرہ بدل کرنے والے کے لئے شرط ہے کہ پہلے وہ اپنا حج وعمرہ کر چکا ہو۔ ایک ساتھ اپنی اور میت کی نیت نہیں کرسکتا ۔ مرد عورت کی طرف سے اور عورت مرد کی طرف سے حج وعمرہ بدل کرسکتے ہیں۔

٭ نذر،کفارات اورچھوٹے روزے کی قضا:
میت کے ذمہ رمضان کے چھوٹے روزے ، کفارات کے روزے اور نذر کے روزے باقی ہوں تو اس کے وارثین کے ذمہ ہے کہ وہ ان کی قضا کرے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے روزوں کے متعلق تفاصیل ہیں جنہیں میں نے الگ مضمون میں ذکر کیا اس کا مطالعہ کرنے کے لئے میرے بلاگ کی زیارت کریں ۔

٭ وصیت کئے گئے نیکی کے کاموں کا نفاذ:
وصیت دوچیزوں سے متعلق ہوتی ہے ، ایک مال سے متعلق اور دوسری اعمال سے متعلق ۔
مال سے متعلق ایک وصیت تو یہ ہے کہ آدمی کے اوپر لوگوں کے حقوق ہوں اس کی وصیت کرے مثلاقرض ، امانت وغیرہ ۔مال سے متعلق دوسری وصیت عام ہے وہ کسی غیر وارث کو دینے کے لئےتہائی مال یا اس سے کم کی وصیت کرنا ہےمثلا بیٹے کی موجودگی میں بھائی کوکچھ مال کی وصیت کرنا۔
اعمال سے متعلق ایک وصیت مال کے ساتھ معلق ہے یعنی وصیت کرنے والا اپنی وفات کے بعد اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی وصیت کرجائے مثلا مسجد بنانے، یتیم خانہ تعمیر کرنے ، جہاد میں پیسہ لگانے ، غیر متعین مسکین وفقراء میں متعین مال تقسیم کرنے کی وصیت کرنا۔ اعمال سے متعلق ایک دوسری وصیت بغیر مال کے ہے ، وہ اس طرح کہ وصیت کرنے والا اپنی اولاد،اعزاء واقرباء کو نمازکی وصیت، تقوی کی وصیت، شرک سے بچنے کی وصیت اور دیگر اعمال صالحہ کی وصیت کرے اور یہ عظیم وصیت ہے۔
لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ
ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان:13)
ترجمہ: اور جب کہ لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بےشک شرک بھاری ظلم ہے۔
میت کے وارثین کو چاہئے کہ میت نے جن چیزوں کی وصیت کی ہے اگر ان میں کوئی شرعی مخالفت نہیں ہے تو اسے نافذ کرے ۔
حضرت ثرید بن سوید ثقفی ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:
أتيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ ، فقلتُ : إنَّ أمي أوصتْ أن تُعتقَ عنها رقبةٌ ، وإنَّ عندي جاريةً نوبيَّةً ، أفيُجزئُ عني أن أعْتِقَها عنها ؟ قال : ائْتِني بها . فأتيتُه بها ، فقال لها النبيُّ : من ربك . قالت : اللهُ ! قال : من أنا . قالت : أنت رسولُ اللهِ ! قال : فأعتِقْها فإنها مؤمنةٌ(صحيح النسائي3655)
ترجمہ: میں رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میںحاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ نے (وفات کے وقت) وصیت کی تھی کہ میری طرف سے ایک غلام آزاد کیا جائے۔ میرے پاس ایک حبشی لونڈی ہے۔ اگر میں اسے آزاد کرادوں تو کیا میری ذمہ داری ادا ہوجائے گی؟ آپ نے فرمایا: اسے میرے پاس لے کر آ۔‘‘ میں لے کر آیا نبیﷺ نے اسے فرمایا: تیرا رب کون ہے؟ اس نے کہا: اللہ۔ آپ نے فرمایا:میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: اسے آزاد کردے۔ یہ مومن ہے۔
ایصال ثواب کے ان مشروع طریقوں کے علاوہ میت کی طرف سے اور کوئی عمل انجام نہیں دینا چاہئے ۔ سب سے بہتر ہے کثرت سےاس کے حق میں دعا کرے اور جس قدر صدقہ کرسکتا ہے صدقہ کرے ۔ میت کی جانب سے قربانی اور عقیقہ کا بھی ثبوت نہیں ہے اس لئے ان دو کاموں اور پہلے بیان کردہ ایصال ثواب کے ناجائز طریقے سے بچے ۔ دین میں نئی ایجاد بدعت کہلاتی ہے اور ہر بدعت گمراہی کا نام ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے ۔
 

islamkingdom_urdu

مبتدی
شمولیت
ستمبر 06، 2018
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
7
https://www.al-feqh.com/ur/نماز-جنازہ-کے-مسائلنماز جنازہ کے مسائل

نماز جنازہ

نماز جنازہ کے ارکان

1۔ قدرت کے ہوتے ہوئے قیام۔
2۔ چار تکبیریں۔
3۔ فاتحہ کی قراءت
4۔ نبی ﷺ پر درود بھیجنا
5۔ میّت کے لیے دعا۔
6۔ ترتیب قائم رکھنا۔
7۔ سلام پھیرنا

نماز جنازہ کی سنتیں۔

1۔ قراءت سے پہلے استغفار کرنا۔
2۔ اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعا مانگنا۔
3۔ آہستہ قراءت کرنا۔
4۔ زیادہ صفیں بنانا، تین یا اس سے زیادہ۔

نماز جنازہ کا طریقہ

اگر میّت مرد ہو تو امام میّت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور اگر میّت عورت ہو تو میّت کے درمیان میں کھڑا ہو اور مقتدی امام کے پیچھے باقی نمازوں کی طرح کھڑے ہوں، پھر چار تکبیریں کہیں انکی تفصیل آنیوالی ہے۔ :
1۔ پہلے تکبیر تحریمہ کہے اور اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے۔ اور دعا استفتاح نہ پڑھے پھر فاتحہ کی قراءت کرے۔
2۔ دوسری تکبیر کہے اور نبی ﷺ پر درود بھیجے جیسے آخری تشھد میں پڑھا جاتا ہے۔
3۔ تیسری تکبیر کہے اور اپنے لیے میّت کیلئے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرے اور دعا یہ ہے "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ"[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

اور اگر میّت عورت ہو تو ضمیر مؤنث کو دعا میں لائے اور اگر میّت بچہ ہو یا سقط (پورا ہونے سے پہلے گر گیا) تو یہ دعا پڑھے" اللهم اجعله ذخرًا لوالديه، وفَرَطًا [الفرط: پہلا اور آگے] ، وأجرًا، وشفيعًا مجابًا "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
4۔ چوتھی تکبیر کے بعد تھوڑا خاموش رہے پھراپنے دائیں جانب ایک سلام پھیر دے یا دو سلام۔
میّت کو اُٹھانا، اسکے ساتھ چلنا اور اس کو دفن کرنا۔

جب نماز جنازہ ختم ہو جائے تو سنت یہ ہے کہ جلدی سے میّت کو اسکی قبر کی طرف اٹھایا جائے۔اور پیچھے چلنے والوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ بھی جنازہ اٹھانے میں شریک ہوں۔
اور میّت کو قبر میں اتارنے والے کے لیے مسنون ہے کہ یہ پڑھے " بسم الله، وعلى ملة رسول الله "[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]

اور اسکو لحد میں دائیں پہلو پر لٹائے اور اسکا چہرہ قبلہ رخ کر دے پھر کفن کی گرہ کھول دے۔پھر مٹی کے ساتھ قبر کے سوراخ بند کردے۔
اور دفن میں حاضر ہونے والے کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں تین دفعہ مٹی لے اور قبر پر ڈال دے پھر قبر کو مٹی کے ساتھ ڈھانپ دیا جائے اور قبر کو زمین سے ایک بالشت کی مقداربلند کیا جائے اور اس پر کنکریاں اور پتھر رکھ دیے جائیں اور پانی چھڑک دیا جائے اور قبر کے کسی ایک طرف پتھر رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یا دونوں طرف تاکہ قبر کا پتہ چل سکے۔

 

islamkingdom_urdu

مبتدی
شمولیت
ستمبر 06، 2018
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
7
نماز جنازہ کے مسائل

نماز جنازہ

نماز جنازہ کے ارکان

1۔ قدرت کے ہوتے ہوئے قیام۔
2۔ چار تکبیریں۔
3۔ فاتحہ کی قراءت
4۔ نبی ﷺ پر درود بھیجنا
5۔ میّت کے لیے دعا۔
6۔ ترتیب قائم رکھنا۔
7۔ سلام پھیرنا

نماز جنازہ کی سنتیں۔

1۔ قراءت سے پہلے استغفار کرنا۔
2۔ اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعا مانگنا۔
3۔ آہستہ قراءت کرنا۔
4۔ زیادہ صفیں بنانا، تین یا اس سے زیادہ۔

نماز جنازہ کا طریقہ

اگر میّت مرد ہو تو امام میّت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور اگر میّت عورت ہو تو میّت کے درمیان میں کھڑا ہو اور مقتدی امام کے پیچھے باقی نمازوں کی طرح کھڑے ہوں، پھر چار تکبیریں کہیں انکی تفصیل آنیوالی ہے۔ :
1۔ پہلے تکبیر تحریمہ کہے اور اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے۔ اور دعا استفتاح نہ پڑھے پھر فاتحہ کی قراءت کرے۔
2۔ دوسری تکبیر کہے اور نبی ﷺ پر درود بھیجے جیسے آخری تشھد میں پڑھا جاتا ہے۔
3۔ تیسری تکبیر کہے اور اپنے لیے میّت کیلئے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعا کرے اور دعا یہ ہے "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ"[اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے]

اور اگر میّت عورت ہو تو ضمیر مؤنث کو دعا میں لائے اور اگر میّت بچہ ہو یا سقط (پورا ہونے سے پہلے گر گیا) تو یہ دعا پڑھے" اللهم اجعله ذخرًا لوالديه، وفَرَطًا [الفرط: پہلا اور آگے] ، وأجرًا، وشفيعًا مجابًا "[اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے]
4۔ چوتھی تکبیر کے بعد تھوڑا خاموش رہے پھراپنے دائیں جانب ایک سلام پھیر دے یا دو سلام۔
میّت کو اُٹھانا، اسکے ساتھ چلنا اور اس کو دفن کرنا۔

جب نماز جنازہ ختم ہو جائے تو سنت یہ ہے کہ جلدی سے میّت کو اسکی قبر کی طرف اٹھایا جائے۔اور پیچھے چلنے والوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ بھی جنازہ اٹھانے میں شریک ہوں۔
اور میّت کو قبر میں اتارنے والے کے لیے مسنون ہے کہ یہ پڑھے " بسم الله، وعلى ملة رسول الله "[اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے]

اور اسکو لحد میں دائیں پہلو پر لٹائے اور اسکا چہرہ قبلہ رخ کر دے پھر کفن کی گرہ کھول دے۔پھر مٹی کے ساتھ قبر کے سوراخ بند کردے۔
اور دفن میں حاضر ہونے والے کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں تین دفعہ مٹی لے اور قبر پر ڈال دے پھر قبر کو مٹی کے ساتھ ڈھانپ دیا جائے اور قبر کو زمین سے ایک بالشت کی مقداربلند کیا جائے اور اس پر کنکریاں اور پتھر رکھ دیے جائیں اور پانی چھڑک دیا جائے اور قبر کے کسی ایک طرف پتھر رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یا دونوں طرف تاکہ قبر کا پتہ چل سکے۔

 
شمولیت
نومبر 16، 2018
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
ماشاءاللہ بارک اللہ فیکم بہت عمدہ اور بہترین تحریر عنایت فرمائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نمازِ جنازہ کے بعض مسائل
تحریر : ابو ثاقب محمد صفدر حضروی
➊ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت ہے، دیکھئیے : [صحيح البخاري ج1 ص 178 ح 1335]
➋ سورہ فاتحہ کے بعد ایک سورت پڑھنا سنت ہے، دیکھئیے : [سنن النسائي ج1 ص 281 ح 1989 و سنده صحيح عليٰ شرط البخاري]
➌ قراءت صرف پہلی تکبیر کے بعد ہونی چاہئیے، دیکھئیے : [مصنف عبدالرزاق ج3 ص 488، 489 ح 6428 و منتقيٰ ابن الجارود ص 189 ح 540 وسنده صحيح]
➍ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا چاہئیے، دیکھئیے : [ مصنف عبدالرزاق ص 488، 489 ومنتٰقي ابن الجارود 540 وسنده صحيح]
➎ پھر میت کے لئے خالص دعا کرنی چاہئے، دیکھئیے : [ مصنف عبدالرزاق 489، 488/3 ح 6428 و منتٰقي ابن الجارو ص 189 ح 540 وسنده صحيح]
➏ جنازہ جہراً پڑھنا سنت ہے دیکھئیے : [سنن النسائي ج1 ص 281 ج 1989 وسنده صحيح، و مستدرك الحاكم ج1 ص 358 ح 1323 وقال : صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي ]
➐ جنازہ سراً پڑھنا بھی سنت ہے، دیکھئیے : [سنن النسائي ج 1 ص 281 ح 1991 وهو حديث صحيح]
➑ جہراً تعلیم کے لئے پڑھا جاتا ہے، دیکھئیے : [ صحيح البخاري 1335 و مستدرك الحاكم 358/1 و صححه عليٰ شرط مسلم ووافقه الذهبي]
➒ آخر میں دائیں طرف سلام پھیرنا چاہئیے، دیکھئیے : [سنن النسائي ج1 ص 281 ح 1991 و مصنف عبدالرزاق 488، 489/3 ح 6428 و سنده صحيح]
➓ اتنی آواز میں دعا پڑھنا جائز ہے کہ مقتدی سن کر یاد کر لیں، دیکھئے : [صحيح مسلم ج1 ص 311 ح 963/85 وترقيم دارالسلام : 2232۔ 2234] [ وسنن ابي داود ج2 ص 101ح 3202 وهو حديث صحيح] (ابوداود والی روایت میں میت کا نام لینا بھی مذکور ہے۔ )
⓫ تابعین کا اس پر اجماع ہے کہ میت پر کوئی موقت دعا نہیں ہے۔ جو دعا چاہیں مانگ سکتے ہیں، دیکھئے : [مصنف ابن ابي شيبه ج3 ص 295، 294 ح 11367۔ 11374]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے بارے میں فرمایا : ثم ليتخير من الدعاء أعجبه إليه فيدعو پھر جو دعا پسند ہو، اختیار کر کے وہ دعا کرے۔ دیکھئے : [صحيح بخاري ج1 ص 115 ح 835]
⓬ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قنوت نازلہ والی دعا فرماتے تو صحابہ کرام آپ کے پیچھے آمین کہتے تھے۔ دیکھئے : [ سنن ابي داود ج 1ص 211 ح 1443 وسنده حسن و صححه ابن خزيمه 618 والحاكم عليٰ شرط البخاري 225/1 ووافقه الذهبي ]
تنبیہ ➊ صحابی جس کام کو سنت کہے اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوتی ہے، دیکھئے : [ مقدمه ابن الصلاح ص 123 نوع : 8 و نصب الرايه ج1 ص 314 و مستدرك الحاكم ج1 ص 358، 360]
تنبیہ ➋ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ نہ پڑھنا، جل ثناءك والی دعائےاستفتاح اور رحمت و ترحمت والا درود، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
 
Top