بھائی وضاحت درکارہے۔
بھائی وضاحت درکارہے۔
کس قسم کی وضاحت ؟بھائی وضاحت درکارہے۔
میں تو اس کا کچھ اور مطلب سمجھا تھا ۔یعنی@محمد شاہد بھائی!
اس قبیل کے شعروں کی وضاحت تو خود شاعر نہیں کرسکتا، اس قسم کے شعروں کے مداح کیا خاک وضاحت کریں گے۔ ہاں اگر آپ مجھ سے ”وضاحت“ مانگیں تو میں ”بخوشی“ یہ فیضہ انجام دے سکتا ہوں۔ ابتسامہ
واعظوں کی نصیحتوں سے تنگ آئے دین بے زار شاعر صاحب اس شعر میں شعائر اسلامی کا مذاق اُڑاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ جو تم بار بار جنت اور حوروں کا تذکرہ کرتے رہتے ہو کہ تم جیسوں کو جنت میں حوریں ملیں گی ۔ ۔ ۔ تو میاں واعظ ”حوروں“ سے ملنے کے آداب اسی دنیا میں (دنیوی حوروں سے) سیکھتے جاؤ۔تاکہ جنت میں حوروں سے ملاقات کے وقت ”رسوائی“ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اصل میں اس ”نصیحت“ کے ذریعہ شاعر صاحب وعظ کے لئے ایک ”جال“ بچھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جو لوگ ”دنیوی حوروں“ سے میل ملاقات کے آداب کا جتنا زیادہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، ان کے جنت میں داخلے کا امکان اتنا ہی کم ہوتا ہے ۔ مسکراہٹ
”دنیا میں حوروں سے ملنے کے ڈھنگ“ ایک ذومعنی بات ہے۔ ایک مطلب کھینچ تان کر وہ بھی نکلتا ہے، جو آپ نے نکالا ہے۔ لیکن سیدھا سادہ اور سامنے کا مطلب یہی ہے کہ ۔ ۔ ۔ جنت میں حوروں سے ملنے سے قبل اسی دنیا میں حوروں سے ملنے کے آداب سیکھ لے واعظ۔ اگر میرا بیان کردہ مطلب نہیں ہے تو پھر مصرع ثانی میں ۔ ۔ ۔ جنت میں رونے اور رسوائی کا کیا مطلب ہوا بھلا ؟ کیا کوئی جنت میں جا کر بھی رسوا ہوگا اور وہ وہاں روئے گا، اگر اس دنیا میں اُس نے (آپ کی تشریح کے مطابق) اس دنیا میں وعظ و نصیحت یعنی علم دین نہ سیکھا ۔ ایسا کرنے والا آخرت میں تو رسوا ہوسکتا ہے، لیکن جنت میں نہیں۔ لہٰذا دونوں مصرعوں کا وہی مطلب ہے جو اس احقر نے بیان کیا ہے، نہ کہ وہ جو آپ نے بیان کیا ہے۔ (خود کو شاباشی دیتے ہوئے) ۔ ابتسامہمیں تو اس کا کچھ اور مطلب سمجھا تھا ۔یعنی
کہ سکھ دنیا میں وعط و نصیت یعنی علم دین تاکہ جنت میں رسوائی نہ ہو
اس بارے میں آپ کی یا رائے ہے
بھائی میں وضاحت چاہتا تھا ریفرنس نہیں۔بہرحال یوسف ثانی صاحب نے بہت ہی عمدہ وضاحت کردی ہےجس کے بعد مزید اب کسی بات کی گنجائش نہیں رہتی۔کس قسم کی وضاحت ؟
اگر آپ ریفرنس مانگ رہے ہیں ۔تو میر ے پاس ریفرنس نہیں ہے