آپ نے میری تحریر کی شاید ابتدائی سطر پڑھ کر عجلت میں رد شریف لکھ دیا ،
اگر پوری عبارت پڑھ لیتے تو شاید بات سمجھ میں آجاتی ،میں نے عرض کی تھی کہ :
شیخ الاسلام امام ابوالعباس احمد ابنِ تیمیہؒ (المتوفی 724ھ) فرماتے ہیں :
" دخول الجن في بدن الإنسان ثابت باتفاق أهل السنة والجماعة ، قال الله تعالى : ( الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس ) البقرة /275 وفي الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم ) أ.هـ
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275
اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ
(مجموع الفتاوی 24/276)
اب اہل سنت کے مذہب کے ناقل امت کے مشہور امام ہیں ،جن کی ثقاہت اور علمی لحاظ سے ان کا مستند و معتبر مسلمہ ہے
وہ بھی اپنی رائے و گمان نہیں پیش کر رہے بلکہ قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ کا حوالہ دے کر اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں ،یعنی اپنے استدلال کو ساتھ ہی پیش کر رہے ہیں ؛
تعجب ہے آپ قرآن و حدیث سے ثابت حقیقت کو "توہم " قرار دیتے ہیں ؟
ہاں ان کے استدلال و موقف کا رد اور جواب آپ اس طرح دے سکتے ہیں کہ انہی جیسے کسی مستند و معتبر امام کی تحریر سے اس کے برعکس اہل سنت کا مذہب نقل کردیں ،
ہم نے دوسرا حوالہ
مشہور سعودی مفتی شیخ محمد بن صالح المنجد فرماتے ہیں :
الطريقة المثلى الشرعية في علاج المصروع هو بالرقية الشرعية ، تُقرأ على المصروع ، ويؤمر الجني بالخروج من بدن من صرعه
آسیب زدہ کے علاج کیلئے سب سے بہترین طریقہ وہ ہے جو شرعی ہے ،یعنی احادیث میں منقول دم مریض پر پڑھا جائے ،اور جن کو نکلنے کا حکم دیا جائے ؛
وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضرب على صدر مصروع ، وأمر الجني بالخروج من بدن من صرعه ، وهذا غاية ما ثبت في السنَّة بخصوص ضرب المصروع ، دون استعمال العصا أو السوط أو غيرهما .
اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسے مریض کے سینے پر ہاتھ سے مارا ، اور جن کو اس کے بدن سےنکلنے کا حکم دیا ، سنت مطہرۃ سے تو اتنا ہی ثابت ہوتا ہے ، عصا اور چھڑی استعمال کئے بغیر۔
فعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟) قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : (مَا جَاءَ بِكَ؟) قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي ، قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .
ترجمہ : سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف میں عامل مقرر کیا تو مجھے نمازمیں (پریشان کن ) خیالات آنےلگے حتی کہ مجھے یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ میں نماز میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تومیں سفر کرکے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔رسول اللہ ﷺ نے تعجب سے ) فرمایا: ’’ابن العاص ہو؟‘‘ میں نے کہا :جی ہاں، اے اللہ کےرسول !آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم آکیوں گئے ؟ ‘‘ میں نے کہا : اللہ کے رسول !مجھے نمازمیں ایسی صورت حال آتی ہےکہ مجھے یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔آپ نے فرمایا :’’یہ شیطان کی طرف سے (شرارات ) ہے ۔میرےقریب آؤ ۔‘‘ میں نبی ﷺ کے قریب ہوگیا اور پنجوں کے بل بیٹھ گیا ۔ نبی ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں تھنکارا اور آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کے دشمن !نکل جا ۔‘‘ آپ نے تین بار اس طرح کیا۔ پھر فرمایا:’’اپنے کام پرچلے جاؤ ۔‘‘
حضرت عثمان نے فرمایا:قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کے بعدمجھے کبھی شیطان نےپریشان نہیں کیا ۔
(اس حدیث کو امام ابن ماجہؒ نے روایت کیا ،اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی مفتی صاحب نے جن اور شیطان کا بدن انسانی میں داخل ہونے کاصرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر صحیح حدیث سے دلیل بھی پیش کی ہے ،حیرت ہے کہ آپ حدیث نبوی میں بیان کردہ حقیقت کو "توہم " سمجھتے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم -
میں نے بھی قران کی آیت سے دلیل پیش کی ہے- پھر آپ ہی بتا دیجئے کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟؟
وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُكُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِىۡ ۚ ۚ
رہا آپ کا یہ کہنا کہ :
( ابنِ تیمیہؒ) آپ اہل سنت کے مذہب کے ناقل امت کے مشہور امام ہیں ،جن کی ثقاہت اور علمی لحاظ سے ان کا مستند و معتبر مسلمہ ہے
وہ بھی اپنی رائے و گمان نہیں پیش کر رہے بلکہ قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ کا حوالہ دے کر اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں ،یعنی اپنے استدلال کو ساتھ ہی پیش کر رہے ہیں-
تو اگرچہ وہ اپنے دور کے مشھور و معروف عالم ضرور ہیں- لیکن ان کے بعض اجتہادات ایسی واضح غلطیوں سے مامور ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ کیا یہ واقعی شیخ الاسلام کے فرمودات یا نظریات ہیں- مثلاً فنا فی النار (جہنم ایک دن فنا ہو گی) کا عقیدہ، الله رب العزت کی ذات کی تجسیم سے متعلق نظریات، واقعہ حرّہ کے دنوں میں مسجد نبوی سے اذان کی آواز آنا، حیات النبی اور نبی پر درود پیش ہونے کا عقیدہ، صاحب قبر کا قبر پر آنے والوں رشتہ داروں کو پہچاننا -
امام صاحب
تصوف کو بھی ایک مستقل مذہب تسلیم کرتے تھے- اور صرف اس کے غیر شرعی جزویات کا ہی انکار کرتے تھے- ان کی مشھور زمانہ کتاب
"الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان" میں ان کے اس قسم کا فرمودات جا بجا موجود نظر آئیں گے جس میں انہوں نے بحیثیت مجموعی "تصوف و صوفیاء تعریف و توصیف کو ہی اپنا شعار بناے رکھا- جب کہ یہ پورا کے پورا مذہب ہی بدعت ہے- اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی -اور اکثر اہل حدیث بھی اس کو مانتے ہیں کہ
"تصوف "بدعتی " مذہب ہے- اور اب یہ جنّات کا انسانوں میں حلول کرجانا وغیرہ - یہ سب نظریات یا فرمودات (جن کو وہ آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ کا عقیدہ قرار دیتے رہے ہیں) ہرگز قرآن و احادیث کا نصوص سے میل نہیں کھاتے- لیکن حیرت ہے آجکل کے اہل حدیثوں پر- کہ وہ بھی احناف کی ڈگر پر چلتے ہوے شیخ الاسلام کے اندھے مقلد بنے ہوے ہیں- اہل حدیث کا منہج کہ صرف قرآن سنّت کی اتباع لازم ہے کسی کی تقلید جائز نہیں (چاہے بڑے سے بڑا امام کیوں نہ ہو)- اب معاشرے میں مفقود نظر آ رہا ہے-
امام صاحب نے جن قرانی آیات اور حدیث کو جنّات کے انسانوں میں حلول کے لئے پیش کیا ہے - اس کا سرے یہ مطلب ہی نہیں بنتا -
اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّؕ
وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے
یہاں لفظ
"مس" سے مراد "شیطانی
وسوسے" ہیں- نا کہ اس کا مطلب شیطان کا انسان میں سرایت کرنا ہے -ورنہ تو لازم ہے کہ ہر سود کھانے والے پر شرعی رقیہ کیا جائے یا اس کی مار پیٹ کی جائے - تاکہ اس کا جن باہر آے اور اس کو سبق حاصل ہو- یاد رہے کہ امام ابن تیمیہ کے شاگرد ، امام ابن قیم زاد المعاد میں میں لکھتے ہیں کہ امام صاحب باقاعدہ بعد روح نکلتے تھے اور اس میں تشدد بھی کرتے تھے- (جب کہ اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ جنّات واقعی انسان میں سرایت کرتے ہیں) تو جنّات نکالنے کا یہ ایک انتہائی غیر شرعی طریقہ ہے- نبی کریم سے منسوب کسی بھی روایت (جو اگرچہ ضعیف ہیں) میں یہ ثابت نہیں کہ آپ صل الله علیہ و آله وسلم نے کسی آسیب زدہ پر مار پیٹ کی ہو-
شاید امام صاحب نے جنّات نکالنے کا طریقہ امام احمد بن حنبل سے لیا ہو-
الطبقات الحنابلہ میں امام احمد بن حنبل سے بھی اسی طرح کے واقعیات مروی ہیں کہ انہوں نے ایک آسیب زدہ لڑکی کوء جوتے مار کر اس کے اندر کا جن بھگایا تھا وغیرہ -ابن تیمیہ اگرچہ آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ کا عقیدہ قرار دیتے ہے- لیکن ان کے اکثر علمی مفردات و اجتہادات صرف حنبلی مذہب تک ہی محدود رہے ہیں-
امام ابنِ تیمیہؒ کا اس روایت کہ (
إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم) سے استدلال بھی صحیح نہیں- روایت میں عموم کے الفاظ ہیں کہ ہر ابن آدم میں شیطان خون کی طرح حرکت کرتا ہے- امام صاحب کا استدلال اگر صحیح مان لیا جائے تو اسطرح ہے تو پھر تو ہر شخص میں جنّات کا ہونا لازم آتا ہے- ہر ایک کے ساتھ شرعی رقیہ اور مار پیٹ کرنا ضروری ہے تاکہ اس کا اندر کا شیطان یا جن باہر آجاے-
باقی رہا مفتی شیخ محمد بن صالح المنجد کا اس روایت استدلال جو سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی سے مروی ہے جس میں جنّات کا انسانوں میں سرایت کرنا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے -تو یہ صحیح نہیں- روایت
ضعیف ہے -
قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه"
اس کا ایک راوی
محمّد عبدللہ النصاری دماغی تغیر یا بیماری کا شکار تھا -امام ابو داؤد اس کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے تھے-لہذا یہ روایت عقیدے میں دلیل نہیں بن سکتی - یہ البانی کی ناقص تحقیق میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اس روایت کو الصحیحہ میں درج کر دیا- اس طرق کی ایک اور روایت صحیح مسلم میں بھی سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی سے مروی ہے لیکن وہاں "وسوسے " کا ذکر ہے- جنّات کا حلول کا ذکر نہیں ہے-
حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: “أُمَّ قَوْمَكَ” قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا قَالَ: ادْنُهْ” (صحیح مسلم)
باقی رہا امام ابن تیمیہ کا یہ کہنا :
یہ حقیقت ہے کہ آسیب زدہ اپنی زبان سے نا قابل فہم باتیں کرتا ہے ،اور اس کے جسم کو ایسی سخت ضربات سے پیٹا جاتا ہے کہ اگر ایسی مار اونٹ کو پڑے تو وہ بھی شدید متاثر ہو ،لیکن ایسی مار کاجن زدہ کو احساس بھی نہیں ہوتا ۔
"مجموع الفتاوى" (24/277)
تو امام صاحب کی یہ بات دلیل طلب ہے ؟؟- جنّات سفلی جسم رکھتے ہیں- ان پر تو کچھ اثر نہیں ہوتا لیکن اس بیچارے کو جس پر مار پیٹ ہوئی ہے وہ لازمی زخمی ہو گا اسی کو درد ہو گا-
اصل میں زمانہ جاہلیت میں عربوں میں جب اکثر اوقات کسی کو مرگی کا دورہ پڑتا تھا تو اس کو آسیب زدہ تصور کیا جاتا تھا (توہم پرستی کے زیر اثر)- لیکن الله رب العزت نے اپنے نبی کے ذریے اس کی واضح تردید فرمائی اور فرمایا کہ شیطان تو قیامت کے دن اس بات کا اقرار کرے گا کہ:
وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ
اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔
یعنی انسانوں پر زور زبردستی میرے اختیار میں نہیں- میرا کام صرف وسوسے پیدا کرنا تھا - جس پر اعتماد کرکے اکثریت گمراہ ہوئی- اور اب بھی ہو رہی ہے کہ مرگی زدہ انسان کو آسیب زدہ قرار دیا جاتا ہے ان غلط اجتہادات و روایات کی بنا پر جو معاشرے میں عام ہو چکی ہیں.
الله سب کو ہدایت دے (امین)-