• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنوں کو انسان کے جسم سے نکالنے کے لئے شرعی رقیہ کے دوران مارنا پیٹنا

Abdul Mussavir

مبتدی
شمولیت
ستمبر 22، 2017
پیغامات
30
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
25
السلام عليكم
کیا جنوں کو نکالنے کے لئے شرعی رقیہ کے دوران مارنا پیٹنا اور گلا گھونٹنا جائز ہے؟
كيا غیرمحرم مرد اس دوران عورت کو چھو سکتا ہے ؟
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام عليكم
کیا جنوں کو نکالنے کے لئے شرعی رقیہ کے دوران مارنا پیٹنا اور گلا گھونٹنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ؛
محترم بھائی !
جن بھوت نکالنے کیلئے مریض کو مارنا
(1) پہلی بات تو یہ جان لیں کہ کبھی کبھی جن ،بھوت انسان کو ستانے کیلئے اس کے بدن میں داخل ہوجاتے ہیں :
شیخ الاسلام امام ابوالعباس احمد ابنِ تیمیہؒ (المتوفی 724ھ) فرماتے ہیں :
" دخول الجن في بدن الإنسان ثابت باتفاق أهل السنة والجماعة ، قال الله تعالى : ( الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس ) البقرة /275 وفي الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم ) أ.هـ
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275
اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ
(مجموع الفتاوی 24/276)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مشہور سعودی مفتی شیخ محمد بن صالح المنجد فرماتے ہیں :
الطريقة المثلى الشرعية في علاج المصروع هو بالرقية الشرعية ، تُقرأ على المصروع ، ويؤمر الجني بالخروج من بدن من صرعه
آسیب زدہ کے علاج کیلئے سب سے بہترین طریقہ وہ ہے جو شرعی ہے ،یعنی احادیث میں منقول دم مریض پر پڑھا جائے ،اور جن کو نکلنے کا حکم دیا جائے ؛
وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضرب على صدر مصروع ، وأمر الجني بالخروج من بدن من صرعه ، وهذا غاية ما ثبت في السنَّة بخصوص ضرب المصروع ، دون استعمال العصا أو السوط أو غيرهما .
اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسے مریض کے سینے پر ہاتھ سے مارا ، اور جن کو اس کے بدن سےنکلنے کا حکم دیا ، سنت مطہرۃ سے تو اتنا ہی ثابت ہوتا ہے ، عصا اور چھڑی استعمال کئے بغیر۔
فعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟) قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : (مَا جَاءَ بِكَ؟) قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي ، قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .
ترجمہ : سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف میں عامل مقرر کیا تو مجھے نمازمیں (پریشان کن ) خیالات آنےلگے حتی کہ مجھے یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ میں نماز میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تومیں سفر کرکے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔رسول اللہ ﷺ نے تعجب سے ) فرمایا: ’’ابن العاص ہو؟‘‘ میں نے کہا :جی ہاں، اے اللہ کےرسول !آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم آکیوں گئے ؟ ‘‘ میں نے کہا : اللہ کے رسول !مجھے نمازمیں ایسی صورت حال آتی ہےکہ مجھے یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔آپ نے فرمایا :’’یہ شیطان کی طرف سے (شرارات ) ہے ۔میرےقریب آؤ ۔‘‘ میں نبی ﷺ کے قریب ہوگیا اور پنجوں کے بل بیٹھ گیا ۔ نبی ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں تھنکارا اور آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کے دشمن !نکل جا ۔‘‘ آپ نے تین بار اس طرح کیا۔ پھر فرمایا:’’اپنے کام پرچلے جاؤ ۔‘‘
حضرت عثمان نے فرمایا:قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کے بعدمجھے کبھی شیطان نےپریشان نہیں کیا ۔
(اس حدیث کو امام ابن ماجہؒ نے روایت کیا ،اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے )

وأما ضرب المصروع بعصا أو سوط أو غيرهما : فقد ورد عن بعض أئمة السلف :
اور جن زدہ کو (علاج کے دوران ) لاٹھی ،لکڑی وغیرہ سے مارنا بعض ائمہ سلف سے منقول ہے ۔
2.
وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
فإنه يُصرع الرجل فيتكلم بلسان لا يعرف معناه ويضرب على بدنه ضرباً عظيما لو ضُرب به جملٌ لأثَّر به أثراً عظيماً ، والمصروع مع هذا لا يحس بالضرب ولا بالكلام الذي يقوله

. "مجموع الفتاوى" (24/277) .
یہ حقیقت ہے کہ آسیب زدہ اپنی زبان سے نا قابل فہم باتیں کرتا ہے ،اور اس کے جسم کو ایسی سخت ضربات سے پیٹا جاتا ہے کہ اگر ایسی مار اونٹ کو پڑے تو وہ بھی شدید متاثر ہو ،لیکن ایسی مار کاجن زدہ کو احساس بھی نہیں ہوتا ۔


فتبين بما سبق أن ضرب المصروع جائز من حيث الأصل ، لكن له شروط ، منها :
سابقہ تفصیل سے واضح ہے کہ :
جن کے قابو میں آئے شخص کو مار کر جن بھگانا جائز و درست ہے ،لیکن اس کیلئے کچھ شرطیں ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فتویٰ کا لنک
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
كيا غیرمحرم مرد اس دوران عورت کو چھو سکتا ہے ؟
کوئی غیر محرم مرد کسی غیر محرم عورت کو نہ بے پردہ دیکھ سکتا ہے اور نہ اسے چھو سکتا ہے ؛
اس مسئلہ کے شرعی حکم کو جاننے کیلئے ذیل ایک فتوی پیش ہے ،امید ہے اس سے آپ کے سوال کا شرعی جواب مل جائے گا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الفتوى رقم: ١١٠٨
الصنف: فتاوى طبِّية
في حكم مسِّ الراقي للمرأة الأجنبية أثناء الرقية

السؤال:
هل يجوز للراقي مَسُّ رأسِ المرأة وذَقْنِها مع وجود حائلٍ؟ وهل هذا الجوازُ على إطلاقه أم أنه للضرورة، كضرورة تداوي المرأة عند الطبيب عند انعدام الطبيبة؟ وجزاكم الله خيرًا.
الجواب:
الحمدُ لله ربِّ العالمين، والصلاة والسلام على مَنْ أرسله اللهُ رحمةً للعالمين، وعلى آله وصحبه وإخوانه إلى يوم الدِّين، أمَّا بعد:
فينبغي أَنْ تكون الرقيةُ خاليةً مِنَ المَنْهِيَّات والمحرَّمات، والنظرُ إلى العَوْراتِ مُحرَّمٌ شرعًا، والمسُّ أَعْظَمُ منه في جَلْبِ المفسدة، ولا يُتذرَّعُ بالقياس على طِبِّ الأبدانِ في جوازِ المسِّ والنظر بدعوى قُوَّةِ تأثيرِ المسِّ والنظر في نجاعة العلاج؛ لأنَّ الطبَّ الروحانيَّ ـ وإِنْ كان له شَبَهٌ بالطبِّ الجسمانيِّ مِنْ جهةِ أنَّ مَدارَهما على التجربة الفعلية المبنيَّة على ظنٍّ غالبٍ ـ إلَّا أنَّ الطبَّ الجسمانيَّ مِنْ أَهَمِّ خصائصه اعتمادُه على ما خَلَقَهُ اللهُ مِنَ الميزان الطبيعيِّ للأشياء، وإعمالِ مَسْلَكِ الدوران الذي تَوَصَّلَ ـ بواسطته ـ الأطِبَّاءُ إلى ما عَلِموه مِنْ فوائدِ الأدوية والأغذيةِ حيث دارَتْ معها آثارُها وجودًا وعدمًا(١).
فالحاصل: أنَّ طِبَّ الأبدانِ مُؤَسَّسٌ على مجموعِ ما يُدْرَكُ بالحواسِّ؛ فهو مِنْ قبيلِ عالَمِ الشهادة، وهو عالَمُ الأكوانِ الظاهرة، بخلافِ أمرِ الرقيةِ فهي مُعالَجةُ الأمراضِ والآلام بالدعاء والالتجاءِ إلى الله تعالى، وتَترتَّبُ عليها آثارٌ عجيبةٌ تَتقاعدُ العقولُ عن الوصول إلى كُنْهِها؛ فهي إِذَنْ مِنَ الطبِّ الروحانيِّ الذي هو مِنْ قبيلِ عالَمِ الغيب، ولا يخفى أنَّ قياسَ عالَمِ الغيب على عالَمِ الشهادة ظاهرُ الفساد لاختلالِ رُكْنِه وشَرْطِه؛ ذلك لأنَّ العلَّةَ الغائبةَ مستورةٌ ومقصورةٌ على مَحَلِّها في عالَمِ الغيب، ومِنْ شرطِ العلَّة: أَنْ تكون وصفًا ظاهرًا ومتعدِّيًّا، ولمَّا انتفى الظهورُ والتعدِّي في الوصف اختلَّ ـ حالتئذٍ ـ البناءُ القياسيُّ.
والعلمُ عند الله تعالى، وآخِرُ دعوانا أنِ الحمدُ لله ربِّ العالمين، وصلَّى الله على محمَّدٍ وعلى آله وصحبه وإخوانه إلى يوم الدِّين، وسلَّم تسليمًا.
الجزائر في: ٢٠ رجب ١٤٣٢ﻫ
الموافق ﻟ: ٢٢ جوان ٢٠١١م
(١) «مذكِّرة الشنقيطي» (٢٦٢).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.ajurry.com/vb/showthread.php?t=19535
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس فتویٰ کا لنک
جنّات انسان کے اندر سرایت کرتے ہیں؟؟- حیرت ہے کہ توہمات سے متعلق ایک چیز کو آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ کا عقیدہ قرار دیا جا رہا ہے-

قرآنی نصوص کے مطابق تو قیامت کے دن شیطان (جو جنّات کی صنف سے ہے) اس بات کا اقرار کرے گا کہ :

وَقَالَ الشَّيۡطٰنُ لَـمَّا قُضِىَ الۡاَمۡرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمۡ وَعۡدَ الۡحَـقِّ وَوَعَدْتُّكُمۡ فَاَخۡلَفۡتُكُمۡ‌ؕ وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُكُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِىۡ‌ ۚ فَلَا تَلُوۡمُوۡنِىۡ وَلُوۡمُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ‌ ؕ مَاۤ اَنَا بِمُصۡرِخِكُمۡ وَمَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُصۡرِخِىَّ‌ ؕ اِنِّىۡ كَفَرۡتُ بِمَاۤ اَشۡرَكۡتُمُوۡنِ مِنۡ قَبۡلُ‌ ؕ اِنَّ الظّٰلِمِيۡنَ لَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿۲۲)
جب (حساب کتاب کا) کام فیصلہ ہوچکے گا تو شیطان کہے گا جو وعدہ الله نے تم سے کیا تھا وہ سچا تھا- اور جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ جھوٹا تھا۔ اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔ ہاں میں نے تم کو (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے) میرا کہا مان لیا۔ تو آج کے دن مجھے ملامت نہ کرو۔ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رسی کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرسکتے ہو۔ میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے۔ بے شک جو ظالم ہیں ان کے لیے درد دینے والا عذاب ہے-

یعنی ابلیس اور اس کی آل اولاد زور زبردستی سے (اس کے اندر داخل ہو کر) کسی انسان کو بدی کی طرف راغب نہیں کر سکتی – شیطان کو تو دل میں صرف وسوسے ڈالنے کا اختیار دیا گیا ہے- بدقسمتی سے انہی توہمات کو بنیاد بنا کر آج ہمارے معاشرے میں جرائم پیشہ افراد اپنے گناہ جنّات پر ڈال دیتے ہیں کہ - فلاں جن (شیطان کی صورت) میں میرے اندر حلول کر گیا اور میں نے یہ قتل یا زنا اس (جن) کے کہنے پر کیا ہے- میں قصور وار نہیں ہوں-

الله سب کو ہدایت دے (امین)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جنّات انسان کے اندر سرایت کرتے ہیں؟؟- حیرت ہے کہ توہمات سے متعلق ایک چیز کو آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ کا عقیدہ قرار دیا جا رہا ہے-
آپ نے میری تحریر کی شاید ابتدائی سطر پڑھ کر عجلت میں رد شریف لکھ دیا ،
اگر پوری عبارت پڑھ لیتے تو شاید بات سمجھ میں آجاتی ،میں نے عرض کی تھی کہ :

شیخ الاسلام امام ابوالعباس احمد ابنِ تیمیہؒ (المتوفی 724ھ) فرماتے ہیں :
" دخول الجن في بدن الإنسان ثابت باتفاق أهل السنة والجماعة ، قال الله تعالى : ( الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس ) البقرة /275 وفي الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم ) أ.هـ
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275
اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ
(مجموع الفتاوی 24/276)
اب اہل سنت کے مذہب کے ناقل امت کے مشہور امام ہیں ،جن کی ثقاہت اور علمی لحاظ سے ان کا مستند و معتبر مسلمہ ہے
وہ بھی اپنی رائے و گمان نہیں پیش کر رہے بلکہ قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ کا حوالہ دے کر اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں ،یعنی اپنے استدلال کو ساتھ ہی پیش کر رہے ہیں ؛

تعجب ہے آپ قرآن و حدیث سے ثابت حقیقت کو "توہم " قرار دیتے ہیں ؟
ہاں ان کے استدلال و موقف کا رد اور جواب آپ اس طرح دے سکتے ہیں کہ انہی جیسے کسی مستند و معتبر امام کی تحریر سے اس کے برعکس اہل سنت کا مذہب نقل کردیں ،
ہم نے دوسرا حوالہ
مشہور سعودی مفتی شیخ محمد بن صالح المنجد فرماتے ہیں :

الطريقة المثلى الشرعية في علاج المصروع هو بالرقية الشرعية ، تُقرأ على المصروع ، ويؤمر الجني بالخروج من بدن من صرعه
آسیب زدہ کے علاج کیلئے سب سے بہترین طریقہ وہ ہے جو شرعی ہے ،یعنی احادیث میں منقول دم مریض پر پڑھا جائے ،اور جن کو نکلنے کا حکم دیا جائے ؛
وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضرب على صدر مصروع ، وأمر الجني بالخروج من بدن من صرعه ، وهذا غاية ما ثبت في السنَّة بخصوص ضرب المصروع ، دون استعمال العصا أو السوط أو غيرهما .
اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسے مریض کے سینے پر ہاتھ سے مارا ، اور جن کو اس کے بدن سےنکلنے کا حکم دیا ، سنت مطہرۃ سے تو اتنا ہی ثابت ہوتا ہے ، عصا اور چھڑی استعمال کئے بغیر۔
فعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟) قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : (مَا جَاءَ بِكَ؟) قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي ، قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .
ترجمہ : سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف میں عامل مقرر کیا تو مجھے نمازمیں (پریشان کن ) خیالات آنےلگے حتی کہ مجھے یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ میں نماز میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تومیں سفر کرکے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔رسول اللہ ﷺ نے تعجب سے ) فرمایا: ’’ابن العاص ہو؟‘‘ میں نے کہا :جی ہاں، اے اللہ کےرسول !آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم آکیوں گئے ؟ ‘‘ میں نے کہا : اللہ کے رسول !مجھے نمازمیں ایسی صورت حال آتی ہےکہ مجھے یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔آپ نے فرمایا :’’یہ شیطان کی طرف سے (شرارات ) ہے ۔میرےقریب آؤ ۔‘‘ میں نبی ﷺ کے قریب ہوگیا اور پنجوں کے بل بیٹھ گیا ۔ نبی ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں تھنکارا اور آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کے دشمن !نکل جا ۔‘‘ آپ نے تین بار اس طرح کیا۔ پھر فرمایا:’’اپنے کام پرچلے جاؤ ۔‘‘
حضرت عثمان نے فرمایا:قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کے بعدمجھے کبھی شیطان نےپریشان نہیں کیا ۔
(اس حدیث کو امام ابن ماجہؒ نے روایت کیا ،اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی مفتی صاحب نے جن اور شیطان کا بدن انسانی میں داخل ہونے کاصرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر صحیح حدیث سے دلیل بھی پیش کی ہے ،حیرت ہے کہ آپ حدیث نبوی میں بیان کردہ حقیقت کو "توہم " سمجھتے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سورۃ البقرۃ (آیت 275 ) کی تفسیر میں امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبیؒ (المتوفی 671ھ) لکھتے ہیں :
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۔۔۔۔۔
في هذه الآية دليل على فساد إنكار من أنكر الصرع من جهة الجن، وزعم أنه من فعل الطبائع، وأن الشيطان لا يسلك في الإنسان ولا يكون منه مس، وقد مضى الرد عليهم فيما تقدم من هذا الكتاب ۔۔۔"

ترجمہ :
انسان کو پڑنے والا دورہ جن کے منکر کے عقیدہ کے باطل و فاسد ہونے پریہ آیت دلیل ہے ،جو یہ کہتا ہے کہ اس مبتلا انسان کی یہ حالت جن اور شیطان طرف سے نہیں بلکہ ایک طبعی اور داخلی علت کے سبب ہے، اور شیطان انسان کے نہ تو اندر چلتا ہے اور نہ چھو کر اسے مخبوط الحواس کرتا ہے ،ایسے لوگوں کے رد میں اس کتاب کے شروع میں لکھا جاچکا ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ نے میری تحریر کی شاید ابتدائی سطر پڑھ کر عجلت میں رد شریف لکھ دیا ،
اگر پوری عبارت پڑھ لیتے تو شاید بات سمجھ میں آجاتی ،میں نے عرض کی تھی کہ :

شیخ الاسلام امام ابوالعباس احمد ابنِ تیمیہؒ (المتوفی 724ھ) فرماتے ہیں :
" دخول الجن في بدن الإنسان ثابت باتفاق أهل السنة والجماعة ، قال الله تعالى : ( الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس ) البقرة /275 وفي الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم : ( إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم ) أ.هـ
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : کہ جنوں کا انسان کے بدن میں داخل ہونا بالاتفاق آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ سے ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے" البقرہ 275
اور صحیح (بخاری) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ (کہ شیطان ابن آدم کے اندر اس طرح دوڑتا ہے کہ جس طرح خون)1ھ
(مجموع الفتاوی 24/276)
اب اہل سنت کے مذہب کے ناقل امت کے مشہور امام ہیں ،جن کی ثقاہت اور علمی لحاظ سے ان کا مستند و معتبر مسلمہ ہے
وہ بھی اپنی رائے و گمان نہیں پیش کر رہے بلکہ قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ کا حوالہ دے کر اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں ،یعنی اپنے استدلال کو ساتھ ہی پیش کر رہے ہیں ؛

تعجب ہے آپ قرآن و حدیث سے ثابت حقیقت کو "توہم " قرار دیتے ہیں ؟
ہاں ان کے استدلال و موقف کا رد اور جواب آپ اس طرح دے سکتے ہیں کہ انہی جیسے کسی مستند و معتبر امام کی تحریر سے اس کے برعکس اہل سنت کا مذہب نقل کردیں ،
ہم نے دوسرا حوالہ
مشہور سعودی مفتی شیخ محمد بن صالح المنجد فرماتے ہیں :
الطريقة المثلى الشرعية في علاج المصروع هو بالرقية الشرعية ، تُقرأ على المصروع ، ويؤمر الجني بالخروج من بدن من صرعه
آسیب زدہ کے علاج کیلئے سب سے بہترین طریقہ وہ ہے جو شرعی ہے ،یعنی احادیث میں منقول دم مریض پر پڑھا جائے ،اور جن کو نکلنے کا حکم دیا جائے ؛
وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضرب على صدر مصروع ، وأمر الجني بالخروج من بدن من صرعه ، وهذا غاية ما ثبت في السنَّة بخصوص ضرب المصروع ، دون استعمال العصا أو السوط أو غيرهما .
اور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایسے مریض کے سینے پر ہاتھ سے مارا ، اور جن کو اس کے بدن سےنکلنے کا حکم دیا ، سنت مطہرۃ سے تو اتنا ہی ثابت ہوتا ہے ، عصا اور چھڑی استعمال کئے بغیر۔
فعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَمَّا اسْتَعْمَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الطَّائِفِ جَعَلَ يَعْرِضُ لِي شَيْءٌ فِي صَلَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ رَحَلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : (ابْنُ أَبِي الْعَاصِ؟) قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : (مَا جَاءَ بِكَ؟) قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَضَ لِي شَيْءٌ فِي صَلَوَاتِي حَتَّى مَا أَدْرِي مَا أُصَلِّي ، قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه" .
ترجمہ : سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: جب مجھے رسول اللہ ﷺ نے طائف میں عامل مقرر کیا تو مجھے نمازمیں (پریشان کن ) خیالات آنےلگے حتی کہ مجھے یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ میں نماز میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تومیں سفر کرکے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔رسول اللہ ﷺ نے تعجب سے ) فرمایا: ’’ابن العاص ہو؟‘‘ میں نے کہا :جی ہاں، اے اللہ کےرسول !آپ ﷺنے فرمایا: ’’تم آکیوں گئے ؟ ‘‘ میں نے کہا : اللہ کے رسول !مجھے نمازمیں ایسی صورت حال آتی ہےکہ مجھے یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں ۔آپ نے فرمایا :’’یہ شیطان کی طرف سے (شرارات ) ہے ۔میرےقریب آؤ ۔‘‘ میں نبی ﷺ کے قریب ہوگیا اور پنجوں کے بل بیٹھ گیا ۔ نبی ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میرے منہ میں تھنکارا اور آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کے دشمن !نکل جا ۔‘‘ آپ نے تین بار اس طرح کیا۔ پھر فرمایا:’’اپنے کام پرچلے جاؤ ۔‘‘
حضرت عثمان نے فرمایا:قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کے بعدمجھے کبھی شیطان نےپریشان نہیں کیا ۔
(اس حدیث کو امام ابن ماجہؒ نے روایت کیا ،اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی مفتی صاحب نے جن اور شیطان کا بدن انسانی میں داخل ہونے کاصرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اس پر صحیح حدیث سے دلیل بھی پیش کی ہے ،حیرت ہے کہ آپ حدیث نبوی میں بیان کردہ حقیقت کو "توہم " سمجھتے ہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم -

میں نے بھی قران کی آیت سے دلیل پیش کی ہے- پھر آپ ہی بتا دیجئے کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟؟

وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ اِلَّاۤ اَنۡ دَعَوۡتُكُمۡ فَاسۡتَجَبۡتُمۡ لِىۡ ۚ ۚ

رہا آپ کا یہ کہنا کہ : ( ابنِ تیمیہؒ) آپ اہل سنت کے مذہب کے ناقل امت کے مشہور امام ہیں ،جن کی ثقاہت اور علمی لحاظ سے ان کا مستند و معتبر مسلمہ ہے
وہ بھی اپنی رائے و گمان نہیں پیش کر رہے بلکہ قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ کا حوالہ دے کر اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں ،یعنی اپنے استدلال کو ساتھ ہی پیش کر رہے ہیں-


تو اگرچہ وہ اپنے دور کے مشھور و معروف عالم ضرور ہیں- لیکن ان کے بعض اجتہادات ایسی واضح غلطیوں سے مامور ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ کیا یہ واقعی شیخ الاسلام کے فرمودات یا نظریات ہیں- مثلاً فنا فی النار (جہنم ایک دن فنا ہو گی) کا عقیدہ، الله رب العزت کی ذات کی تجسیم سے متعلق نظریات، واقعہ حرّہ کے دنوں میں مسجد نبوی سے اذان کی آواز آنا، حیات النبی اور نبی پر درود پیش ہونے کا عقیدہ، صاحب قبر کا قبر پر آنے والوں رشتہ داروں کو پہچاننا -

امام صاحب تصوف کو بھی ایک مستقل مذہب تسلیم کرتے تھے- اور صرف اس کے غیر شرعی جزویات کا ہی انکار کرتے تھے- ان کی مشھور زمانہ کتاب "الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان" میں ان کے اس قسم کا فرمودات جا بجا موجود نظر آئیں گے جس میں انہوں نے بحیثیت مجموعی "تصوف و صوفیاء تعریف و توصیف کو ہی اپنا شعار بناے رکھا- جب کہ یہ پورا کے پورا مذہب ہی بدعت ہے- اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی اصل نہیں ملتی -اور اکثر اہل حدیث بھی اس کو مانتے ہیں کہ "تصوف "بدعتی " مذہب ہے- اور اب یہ جنّات کا انسانوں میں حلول کرجانا وغیرہ - یہ سب نظریات یا فرمودات (جن کو وہ آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ کا عقیدہ قرار دیتے رہے ہیں) ہرگز قرآن و احادیث کا نصوص سے میل نہیں کھاتے- لیکن حیرت ہے آجکل کے اہل حدیثوں پر- کہ وہ بھی احناف کی ڈگر پر چلتے ہوے شیخ الاسلام کے اندھے مقلد بنے ہوے ہیں- اہل حدیث کا منہج کہ صرف قرآن سنّت کی اتباع لازم ہے کسی کی تقلید جائز نہیں (چاہے بڑے سے بڑا امام کیوں نہ ہو)- اب معاشرے میں مفقود نظر آ رہا ہے-

امام صاحب نے جن قرانی آیات اور حدیث کو جنّات کے انسانوں میں حلول کے لئے پیش کیا ہے - اس کا سرے یہ مطلب ہی نہیں بنتا -

اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّؕ

وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے

یہاں لفظ "مس" سے مراد "شیطانی وسوسے" ہیں- نا کہ اس کا مطلب شیطان کا انسان میں سرایت کرنا ہے -ورنہ تو لازم ہے کہ ہر سود کھانے والے پر شرعی رقیہ کیا جائے یا اس کی مار پیٹ کی جائے - تاکہ اس کا جن باہر آے اور اس کو سبق حاصل ہو- یاد رہے کہ امام ابن تیمیہ کے شاگرد ، امام ابن قیم زاد المعاد میں میں لکھتے ہیں کہ امام صاحب باقاعدہ بعد روح نکلتے تھے اور اس میں تشدد بھی کرتے تھے- (جب کہ اگر بالفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ جنّات واقعی انسان میں سرایت کرتے ہیں) تو جنّات نکالنے کا یہ ایک انتہائی غیر شرعی طریقہ ہے- نبی کریم سے منسوب کسی بھی روایت (جو اگرچہ ضعیف ہیں) میں یہ ثابت نہیں کہ آپ صل الله علیہ و آله وسلم نے کسی آسیب زدہ پر مار پیٹ کی ہو-

شاید امام صاحب نے جنّات نکالنے کا طریقہ امام احمد بن حنبل سے لیا ہو- الطبقات الحنابلہ میں امام احمد بن حنبل سے بھی اسی طرح کے واقعیات مروی ہیں کہ انہوں نے ایک آسیب زدہ لڑکی کوء جوتے مار کر اس کے اندر کا جن بھگایا تھا وغیرہ -ابن تیمیہ اگرچہ آئمہ اہل وسنۃ والجماعۃ کا عقیدہ قرار دیتے ہے- لیکن ان کے اکثر علمی مفردات و اجتہادات صرف حنبلی مذہب تک ہی محدود رہے ہیں-

امام ابنِ تیمیہؒ کا اس روایت کہ (إن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم) سے استدلال بھی صحیح نہیں- روایت میں عموم کے الفاظ ہیں کہ ہر ابن آدم میں شیطان خون کی طرح حرکت کرتا ہے- امام صاحب کا استدلال اگر صحیح مان لیا جائے تو اسطرح ہے تو پھر تو ہر شخص میں جنّات کا ہونا لازم آتا ہے- ہر ایک کے ساتھ شرعی رقیہ اور مار پیٹ کرنا ضروری ہے تاکہ اس کا اندر کا شیطان یا جن باہر آجاے-

باقی رہا مفتی شیخ محمد بن صالح المنجد کا اس روایت استدلال جو سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی سے مروی ہے جس میں جنّات کا انسانوں میں سرایت کرنا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے -تو یہ صحیح نہیں- روایت ضعیف ہے -

قَالَ : (ذَاكَ الشَّيْطَانُ ، ادْنُهْ) فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَجَلَسْتُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَيَّ قَالَ : فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ وَتَفَلَ فِي فَمِي وَقَالَ : (اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّهِ) فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ قَالَ : (الْحَقْ بِعَمَلِكَ) قَالَ : فَقَالَ عُثْمَانُ : فَلَعَمْرِي مَا أَحْسِبُهُ خَالَطَنِي بَعْدُ . رواه ابن ماجه (3548) ، وصححه الألباني في "صحيح ابن ماجه"

اس کا ایک راوی محمّد عبدللہ النصاری دماغی تغیر یا بیماری کا شکار تھا -امام ابو داؤد اس کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے تھے-لہذا یہ روایت عقیدے میں دلیل نہیں بن سکتی - یہ البانی کی ناقص تحقیق میں سے ایک ہے کہ انہوں نے اس روایت کو الصحیحہ میں درج کر دیا- اس طرق کی ایک اور روایت صحیح مسلم میں بھی سیدنا عثمان بن ابی العاص ثقفی سے مروی ہے لیکن وہاں "وسوسے " کا ذکر ہے- جنّات کا حلول کا ذکر نہیں ہے-

حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاصِ الثَّقَفِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: “أُمَّ قَوْمَكَ” قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي شَيْئًا قَالَ: ادْنُهْ” (صحیح مسلم)


باقی رہا امام ابن تیمیہ کا یہ کہنا :
یہ حقیقت ہے کہ آسیب زدہ اپنی زبان سے نا قابل فہم باتیں کرتا ہے ،اور اس کے جسم کو ایسی سخت ضربات سے پیٹا جاتا ہے کہ اگر ایسی مار اونٹ کو پڑے تو وہ بھی شدید متاثر ہو ،لیکن ایسی مار کاجن زدہ کو احساس بھی نہیں ہوتا ۔ "مجموع الفتاوى" (24/277)

تو امام صاحب کی یہ بات دلیل طلب ہے ؟؟- جنّات سفلی جسم رکھتے ہیں- ان پر تو کچھ اثر نہیں ہوتا لیکن اس بیچارے کو جس پر مار پیٹ ہوئی ہے وہ لازمی زخمی ہو گا اسی کو درد ہو گا-

اصل میں زمانہ جاہلیت میں عربوں میں جب اکثر اوقات کسی کو مرگی کا دورہ پڑتا تھا تو اس کو آسیب زدہ تصور کیا جاتا تھا (توہم پرستی کے زیر اثر)- لیکن الله رب العزت نے اپنے نبی کے ذریے اس کی واضح تردید فرمائی اور فرمایا کہ شیطان تو قیامت کے دن اس بات کا اقرار کرے گا کہ:

وَمَا كَانَ لِىَ عَلَيۡكُمۡ مِّنۡ سُلۡطٰنٍ
اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا۔

یعنی انسانوں پر زور زبردستی میرے اختیار میں نہیں- میرا کام صرف وسوسے پیدا کرنا تھا - جس پر اعتماد کرکے اکثریت گمراہ ہوئی- اور اب بھی ہو رہی ہے کہ مرگی زدہ انسان کو آسیب زدہ قرار دیا جاتا ہے ان غلط اجتہادات و روایات کی بنا پر جو معاشرے میں عام ہو چکی ہیں.

الله سب کو ہدایت دے (امین)-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
سورۃ البقرۃ (آیت 275 ) کی تفسیر میں امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبیؒ (المتوفی 671ھ) لکھتے ہیں :
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۔۔۔۔۔
في هذه الآية دليل على فساد إنكار من أنكر الصرع من جهة الجن، وزعم أنه من فعل الطبائع، وأن الشيطان لا يسلك في الإنسان ولا يكون منه مس، وقد مضى الرد عليهم فيما تقدم من هذا الكتاب ۔۔۔"

ترجمہ :
انسان کو پڑنے والا دورہ جن کے منکر کے عقیدہ کے باطل و فاسد ہونے پریہ آیت دلیل ہے ،جو یہ کہتا ہے کہ اس مبتلا انسان کی یہ حالت جن اور شیطان طرف سے نہیں بلکہ ایک طبعی اور داخلی علت کے سبب ہے، اور شیطان انسان کے نہ تو اندر چلتا ہے اور نہ چھو کر اسے مخبوط الحواس کرتا ہے ،ایسے لوگوں کے رد میں اس کتاب کے شروع میں لکھا جاچکا ہے ۔
امام قرطبی کی دلیل باطل ہے -

آیت : الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۔۔۔۔۔ سے دلیل لینا کہ شیطان یا جنّات انسانوں میں سرایت کرتے ہیں
ایک باطل مفروضہ ہے -


ان قرآنی آیات کا تو واضح مطلب ہے کہ شیطان انسان کو اپنے وسوسوں سے سود کھانے پر ورغلاتا ہے اور اس کو باطل تاویلات سکھاتا ہے یہاں تک کہ اسے رزق کمانے کا کوئی اور جائز ذریہ سجھائی نہیں دیتا سوائے اس کے کہ وہ ایک خبطی کی طرح لوگوں کا پیٹ کاٹ کر ان سے سود وصول کرے-

اگر اس کا مطلب شیطان کا انسان میں سرایت کرنا ہے -تو لازم ہے کہ ہر سود کھانے والے پر شرعی رقیہ کیا جائے یا اس کی مار پیٹ کی جائے - تاکہ اس کے اندر کا جن باہر آے اور اس کو سبق حاصل ہو-

قرآن میں جہاں بھی "الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ" کا ذکر آیا ہے وہاں مراد شیطانی وسوسے ہیں- ناکہ جنّات کا انسانوں میں حلول کرنا ہے-

حضرت ایوب علیہ سلام کا فرمان قران میں ہے کہ:

وَاذۡكُرۡ عَبۡدَنَاۤ اَيُّوۡبَۘ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّىۡ مَسَّنِىَ الشَّيۡطٰنُ بِنُصۡبٍ وَّعَذَابٍؕ‏ ﴿۴۱
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ (بار الہٰی) شیطان نے مجھ کو ایذا اور تکلیف دے رکھی ہے

اب کیا شیطان و جنّات انبیاء میں بھی سرایت کرتے ہیں؟؟

،مومنین کے بارے میں اللہ رب العزت قرآن میں فرماتا ہے -

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ (٢٠١)

اور جو الله سے ڈرتے ہیں انہیں جب شیطانی خیال مس کرتا ہے تو وہ (فو راً ) الله کے ذکر میں مشغول ہو جاتے ہیں-

ظاہر ہے یہاں بھی "مس" سے مراد شیطانی وسوسہ ہے - جنات کا حلول ہرگز نہیں-

لہذا احمد القرطبیؒ کا کہنا کہ :انسان کو پڑنے والا دورہ جن کے منکر کے عقیدہ کے باطل و فاسد ہونے پریہ آیت دلیل ہے- ان کا یہ اجتہاد قرآن کی آیات کے اصل مفہوم سے میل نہیں کھاتا -

الله ہدایت دے (آمین)
 
Top