بسم اللہ الرحمن الرحیم
جنگ آزادی اور علمائے اہل حدیث
اَلَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ بِاَموَالِھِم وَاَنفُسِھِم اَعظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّٰہِ وَاُولٓئِکَ ھُمُ الفَائِزُونَ
(ترجمہ )سورة التوبہ میں ہے "جو لوگ ایمان لائے او رہجرت کی اور جہاد کیا راہ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ ان لئے ان کے رب کے پاس بہت بڑے درجے ہیں ااور یہ کامیاب ہیں ۔" نبی ﷺ نے فرمایا ۔صبح یا شام ایک دفعہ راہ خدامیں نکلنا دنیا سے بہتر ہے ۔(بخاری)
دنیا میں جب کوئی قوم غلام ہوجاتی ہے تو بد قسمتی سے اس قوم کے ذہن وفکر کی پرواز رہ جاتی ہے اور اس کی ہر چیز پر غلامی کی مہر ثبت ہو جاتی ہے اس لئے غلام قوم کے افراد اپنے آقاﺅن کی روش پر چلنا ان کے طرز معاشرت کو اپنانا اور ان کی ہر بات کی تائید کرنا اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔
ہندوستان پر انگریز حکومت
ہندوستان جہاں کے باشندے آرام وسکون کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن انگریز ایسی سازشی وشاطر قوم نے ان کے لئے چین وسکون کا سانس لینا دوبھر کردیا اور ان کی زندگی اجیرن کرنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کیں انگریز اپنے مکروفریب کے ذریعہ ہندوستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔اورنگ زیب کی وفات کے بعد ملک کے عوام خود آپس میں لڑنے لگے انگریزوں نے اس اختلاف وانتشار کا پورا فائدہ اٹھایا اور نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر پہلے بنگال پر قبضہ کیا اور چند ہی دنوں بعد مدراس اور کلکتہ پر بھی قبضہ کر لیا اور حکومت کرناشروع کر دیا پھر دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر 1865ءمیں قبضہ کر لیا ۔اس لئے ہندوستانیوں کو اس سیاہ دن کو دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
ہندوستان کی تاریخ میں اہلحدیث کا وجود بہت ہی قدیم ہے یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ہو دور میں باطل کے ہر ریلے کے سامنے بند باندھا۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صورت ہادی
زمیں ہند کی جس نے ساری ہلادی
جنگ آزادی میں علمائے اہلحدیث
ہندوستان کا وہ انقلابی دور جو جنگ آزادی سے متصف ہے تنگ نظری اور تعصّبات کی عینک اتار کر وسیع ظرفی کے ساتھ تمام حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو صرف اور صرف ایک جماعت نظر آئے گی جس نے خلوص اور نیک جذبے کے ساتھ استعماری قوتوں اور انگریزی ظلم واستبداد کے خلاف آزادی کا علم لہرایا او رپوری سرگرمی سے جنگ میں شریک رہی اور بلاشک وشبہ وہ جماعت 'جماعت اہلحدیث ہی کی نظر آئے گی۔تاریخ کے سنہرے اوراق علمائے اہلحدیث کی بے مثال قربانیوں سے بھرپور ہیں اور ہندوستان کی زمین ان کے خون سے اب تک لالہ زار بنی ہوئی ہے انہوںنے انگریز کی مخالفت میں اپنی جانیں قربان کیں 'پھانسیوں پر وہ لٹکائے گئے 'کالا پانی بھیجے گئے 'جیل کی سزائیں کاٹیں 'ان کی جائدادیں ضبط ہوئیں او پہروں تک بھوکا پیاسا رکھ کر ان کو مسلسل پیٹا گیا۔
کچھ ایسے نقش بھی راہ وفا میں چھوڑ آئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
ہندوستان میں جنگ آزادی کی تحریک اور اس کے بانی ہونے کا شرف حجة الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو حاصل ہے جنہوں نے ایک طرف ناقابل فراموش دینی خدمات انجام دیں تو دوسری طرف سیاسی میدان میں انگریزوں اور مرہٹوں کے تغلب وتسلط سے ملک کو نکالنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں انہیں کے درس وتدریس کا یہ اثر تھا کہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرنگی مظالم کے نیچے دبے ہوئے ہندوستانیوں کو جہاد کے لئے آمادہ کیا۔
حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات کے بعد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی آپ کے جانشین مقرر ہوئے ۔اس وقت عمر صرف سترہ سال تھی یہ اعزاز آپ کو صاحبزادگی کی بنا پر نہیں بلکہ اہلیت ولیاقت کی وجہ سے ملا اس کا ثبوت آپ کی عظیم الشان خدمات ہیں ۔ہندوستان میں جب طوائف الملوکی کے نتیجہ میں چاٹگام سے لے کر دہلی تک انگریز کا طوطی بولنے لگا تھا غدار وطن میر صادق وغیرہ کی انگریزوں کے ساتھ خفیہ سازش کے نتیجہ میں شہید ٹیپو سلطان کو شرف شہادت حاصل ہو یہ مرد مجاہد 4مئی 1791ءکو جاں بحق ہو گیا 1803ءمیں جب دہلی پر انگریز کا قبضہ ہو گیا اور نازک حالت میں مسلمان مختلف الخیال ہو گئے کوئی انگریز سے جہاد حریت کو جائز کہتا اور کوئی ناجائز 'لیکن شاہ عبد العزیز کی عقابی نگاہوں نے فرنگی شاطرانہ چال کو بھانپ لیا اور یہ فتویٰ صادر کیا کہ تمام محبان وطن کا فرض ہے کہ غیر ملکی طاقت سے اعلان جنگ کر کے اس کو ملک بدر کئے بغیر زندہ رہنا اپنے لئے حرام جانیں اور ان ہی کی منظم قیادت اور معتقدین میں سے وہ علمائے اہلحدیث پیدا ہوئے جنہوں نے انگریز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہندوستان آزادی سے شرف یا ب ہوا ان کے خون سے اب تک ہندوستان کے درودیوار لالہ رنگ ہیں 'دراصل آزادی ہند علماے اہلحدیث ہی کی مرہون منت ہے۔
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیرو ں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
سب سے پہلے تحریک کو لبیک کہنے والے حضرت مولانا عبد الحئی 'شاہ عبد العزیز کے بھانجے اور حضرت مولانا شاہ اسماعیل 'حضرت شاہ عبد العزیز کے بھتیجے اور حضرت شاہ اسحاق 'شاہ عبدالعزیز کے نواسے تھے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہی مولانا شاہ عبد الحئی صاحب کو شیخ الاسلام اور شاہ اسماعیل کو حجتہ الاسلام کا لقب عطا فرمایا تھا۔
تحریک شہیدین جسے ہم تحریک اہلحدیث سے بھی موسوم کر سکتے ہیں اس کے بارے میں بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی تحریک تھی جسے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد شہید ؒ نے برپا کیا تھا ۔یہ تحریک خاص کر انگریز کی حکومت کا خاتمہ کرنے اور ہندوستان میں خلافت علی منہاج النبوة برپا کرنے کیلئے پیدا ہوئی تھی ۔اس تحریک نے سب سے پہلے ففروا الی اللہ کا نعرہ لگایا یہ نعرہ کیا تھا ایک بانگ درا تھا جس نے سنا مدہوش ہو گیا جس پر نظر پڑی وہ اسلام کا خادم بن گیا 'جہاد کی دعوت دی گئی تو علماءنے مسند درس چھوڑ دی اماموں نے مسجد کے مصلے کو معذوروں کے حوالے کر دیا مالداروں نے اپنی کوٹھیاں چھوڑ دیں غلاموں نے آقاؤں کو سلام کہہ دیا ۔
لیکن افسوس کہ شہیدین کی تحریک کامیابی کی اتنی منزلیں نہ طے کر پائی جتنی توقع تھی کہ نام نہاد مسلم افغان سرداروں کی غداری کی وجہ سے ۔۔۔میں سانحہ بالا کوٹ پیش آگیا اور اس راہ حق کے دونوں مجاہد جام شہادت نوش فرماگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تاریخ گواہ ہے کہ حاثہ بالا کوٹ کے بعد جب ملک پر اداسی چھا گئی جماعت تتر بتر ہو گئی اچھوں کے قدم لڑکھڑا اٹھے اور قریب تھا کہ جہاد کا سارا کام درہم برہم ہو جاتالیکن عظیم آباد 'پٹنہ محلہ صادق پور کے ایک فرد نے یہ گرتا ہواعلم جہاد کو تاحیات اپنے سینے سے لگائے رکھا اور خزاں رسیدہ چمن کی اپنے خون جگر سے اس انداز آبیاری کی کہ اسلامی ہند کی پوری تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے بھائی مولانا عنایت علی صادق پوری نے اس فریضہ کو سنبھالا 'اس کے بعد لشکری قیادت مولانا ولایت علی کے فرزند رشید مولانا عبد اللہ عظیم آبادی کے ہاتھوں میں آئی انہوں نے امیر المجاہدین کی حیثیت سے چالیس سال تک خدمات انجام دیں ۔پھر ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الکریم صاحب جانشین ہوئے ۔پھر ان کےابعد مولانا عبد اللہ صاحب عظیم آبادی کے پوتے مولانا نعمت اللہ امیر المجاہدین رہے پھر رحمت اللہ صاحب امیر نامزد ہوئے ان کے علاوہ اس دور کے دوسرے مجاہدین میں مولانا یحیٰ علی عظیم آبادی 'مولانا احمد اللہ صاحب صادق پوری 'مولانا عبد الرحیم صاحب صادق پوری 'مولانا جعفر صاحب تھانیسری وغیرہ کا نام آتا ہے جنہیں تحریک آزادی کے سرگرم رکن ہونے کے جرم میں حبس دوام 'عبور دریائے شور وغیر ہ کی سزائیں کاٹنا پڑیں
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
1857ءکی تحریک آزادی میں بھی اہلحدیث عالم مولانا عنایت علی صادق پوری شریک تھے انہوں نے تاریخ علاقہ سرحدمیں محاذ قائم کر کے جنگ شروع کی تھی مولانا جعفر صاحب تھانیسری ۔۔کے ہنگامے میں چند ساتھیوں کو لے کر انگریزوں کے خلاف لڑنے کی غرض سے دہلی گئے تھے نیز 1857ءکے بعد سے 1947ءتک ملک کی کوئی بھی سیاسی تحریک ایسی نہیں جس میں علمائے اہل حدیث نے اور ان کےافراد نے حصہ نہ لیا ہو ۔استخلاص وطن اور قیام پاکستان کے لءمولانا عبدالقادر قصوری 'مولانا محمد علی قصوری ' مولانا محی الدین قصوری ' مولانا سید محمد داؤد غزنوی 'مولانا محمد علی لکھوی 'مولانا عبیداللہ احرار 'مولانا ابو الوفاءثناءاللہ امرتسری 'مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی 'مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی 'مولانا ابو القاسم سیف بنارسی 'مولانا ابو القاسم محمد علی مؤی 'مولانا محمد نعمان مؤی 'مولانا محمد احمد مدرس مؤی 'مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری 'مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی 'مولانا محمد ادریس خان بدایونی 'مولانا فضل الہٰی وزیر آبادی 'مولانا عبد الرحیم عرف مولانا محمد بشیر 'صوفی ولی محمد فتوحی والا 'دہلی میں پنجابی اہلحدیث 'کلکتہ میں کپڑے اور لوہے کے تاجر 'مدراس میں کاکا محمد عمر 'بنگال میں مولانا عبداللہ الکای 'مولانا عبد اللہ الباقی 'مولانا احمد اللہ خاں' غازی شہاب الدین وغیرہ کی ایک طویل فہرست ایسے علمائے اہل حدیث کی ہے جن کا جنگ آزادی میں حصہ لینا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔مولانا سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسماعیل شہید کی مجاہدانہ کوششوں نے مسلمانوں کو جہاد پر مائل کیا اور جنگ آزادی کا علم لہرایا ۔ہمالہ کی چوٹیوں اور خلیج بنگال کی ترائی سے لوگ جوق درجوق اس علم کے نیچے جمع ہونے لگے ۔اس مجاہدانہ کارنامہ کی عام تاریخ معلوم ہے کہ ان مجاہدوں نے سرحد پار کر کے سکھوں کامقابلہ کیا اور شہید ہو گئے حالانکہ یہ واقعہ اس کی پوری تاریخ کا ایک باب ہے
مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری لکھتے ہیں جب کہ سید احمد شہید حج سے وطن واپس آگئے ۔تو سفر جہاد کی تیاری میں مشغول ہو گئے مولانا محمد اسماعیل شہید ؒ اور مولوی عبد الحئی وغرہ جہاد کے مضامین بیان کرنے اور ترغیب دلانے کے لئے اطراف ہندوستان میں روانہ ہوئے اس وقت سید احمد صاحب کے مکان پر تلوار و بندوق کی صفائی اور گھوڑ دوڑ ہوا کرتی تھی اور وہ درویش سپاہی بن گیا تھا تسبیح کے عوض ہاتھ میں تلوار اور فراخ جنہ کی جگہ چست لباس نے لے لی ۔ان دنوں میں جو کوئی تحفہ تحائف آپ کے پاس لے کر آتا تو اکثر ہتھیار یا گھوڑے ہوتے 'انہیں دنوں میں شیخ فرزند علی صاحب غازی پور زمانیہ سے دو نہایت عمدہ گوڑے اور بہت سے وردی کے کپڑے اور چالیس جلد قرآن تحفہ میں لے کر آئے اور سب سے عجیب تحفہ جو شیخ صاحب لے کر آئے وہ امجد نامی ان کا ایک نوجوان بیٹا تھا جس کو انہوں نے مثل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے راہ خدا میں نذر کر کے سید صاحب کے حوالہ کر دیا اور عرض کیا کہ اس کو اپنے ساتھ لے جائیے اور تیغ کفار سے اس کی قربانی کرائیے ۔شیخ فرزند علی کی یہ نذر اللہ نے قبول کی ان کا صاحبزادہ شیخ امجد سکھوں سے لڑتے ہوئے بالا کوٹ کے معرکہ میں شہید ہو گیا ۔یہ واقعہ میں نے صرف جہاد اور اس کے خلوص کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ علمائے اہلحدیث صرف سکھوں سے نبرد آزمائی کر رہے تھے ان کو ہندوستان کی آزادی اور انگریزوں سے مقابلہ کی کوئی ضرورت نہ تھی جیسا کہ سید صاحب اور مولانا اسماعیل شہید کی تحریک جہاد کے متعلق بعض علماءکی تحریروں نے یہ غلط فہمی پیدا کر دی ہے کہ وہ صرف سکھوں کے خلاف تھے سید صاحب انگریز سے نہ لڑنا چاہتے تھے اور انگریزی اقتدار اور تسلط سے ان کو کوئی تشویش نہ تھی انگریز کے قبضہ سے اسی ملک کو آزاد کرا لینا سید صاحب کے مکتوبات ے واضح الفاظ میں ثابت کیا ہے کہ مذکورہبالا خیالبالکل غلط ہے مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کو انگریزوں نے محض اس وجہ سے کہ وہ سید صاحب کی معتقدین میں سے تھے ان کو بڑی تکلیفیں دیں گھر بار لٹا دیا اور اٹھارہ سال کالا پانی کی اذیت ناک سزا دی ان کی قربانیوں کے سامنے ہر شخص کا سر احترام سے خم ہو جاتا ہے ۔
شیخ الکل میاں نذیر حسین محدیث دہلوی جو علمائے اہلحدیث کے سرخیل اور سرتاج تھے صرف اہلحدیث ہونے کی بنیاد پر انگریزی مقدمات کے لپیٹ میں آئے ان کے مکان اور مسجدوں کی تلاشی لی گئی راولپنڈی کے جیل خانے میں ایک سال تک نظر بند رکھے گئے 'درحقیقت انگریز کو کسی تنظیم یا جماعت سے خطرہ تھا تو وہ صرف اہلحدیث ہی کی جماعت اور اس کے علماءو مشائخ تھے اور اسی وجہ سے راولپنڈی کی جیل میں میاں صاحب پر جبر کیا جاتا تھا کہ وہ ان ارکان اہلحدیث کے نام ظاہر کر دیں جو اس باغیانہ تحریک میں شامل تھے ۔مگر استقلال کا پہاڑ بنے رہے ۔
تحریک آزادی ہند کی یہ جنگ وفا شعاروں اور بے وفاﺅں کے مابین تمیز او رامتیاز کے لئے ایک کسوٹی تھی ۔ظاہر وباطن ہر لحاظ سے جو علماءربانی تھے وہ اپنے بے ڈاغ کردار 'بے مثل عزم واستقلال ' اور عدیم النظیر جرات وہمت کے ذریعہ اپنے انقلاب انگیز کارناموں کے ایسے نقوش تاریخ میں چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک یادگار وناقب فراموش رہیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے سنگ میل اور مشعل راہ بلکہ منارہ نور ثابت ہوں گے آج رزم و بزم میں انہیں کی داستان عظمت کی گونج سنائی دیتی ہے ۔
صحافت کے میدان میں مولانا ابوالکلام آزاد نے "الہلال "اور "البلاغ "کے ذریعہ پورے ملک میں ہندوستانیوں کے دلوں کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی سوچ بخشی اور اسی آزادی ہی کی خاطر مولانا کو بار بار جیل کا منہ دیکھنا پڑا غرضیکہ انہوں نے اس ملک کو آزاد کرانے میں اپنی زندگی وقف کر دی ۔
غرض یہ کہ ان اہل حدیث علماءکی ادیبانہ دل آویزیوں 'خطیبانہ سحر طرازیوں 'علمی وجاہتوں اور مجاہدانہ جلالتوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑا اور ان میں آزادی کا حوصلہ بیدار کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے انگریزوں کی سامراجیت کا خاتمہ کر دیا اور انگریزوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ علماءاہلحدیث ہی قوم کے وہ ستون ہیں جن کے اشارے پر ہر فرد دل وجان قربان کر دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے اس نے سارا اپنا سامراجی اقتدار قائم کرتے وقت سب سے زیادہ ظلم وستم علمائے حق پر توڑ
یہ تھے ہمارے سلف صورت مہ و خورشید
جو تجھ سے ہو سکے ان کا جواب پیدا کر
شکریا
جنگ آزادی اور علمائے اہل حدیث
اَلَّذِینَ آمَنُوا وَھَاجَرُوا وَجَاھَدُوا فِی سَبِیلِ اللّٰہِ بِاَموَالِھِم وَاَنفُسِھِم اَعظَمُ دَرَجَةً عِندَ اللّٰہِ وَاُولٓئِکَ ھُمُ الفَائِزُونَ
(ترجمہ )سورة التوبہ میں ہے "جو لوگ ایمان لائے او رہجرت کی اور جہاد کیا راہ خدا میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ ان لئے ان کے رب کے پاس بہت بڑے درجے ہیں ااور یہ کامیاب ہیں ۔" نبی ﷺ نے فرمایا ۔صبح یا شام ایک دفعہ راہ خدامیں نکلنا دنیا سے بہتر ہے ۔(بخاری)
دنیا میں جب کوئی قوم غلام ہوجاتی ہے تو بد قسمتی سے اس قوم کے ذہن وفکر کی پرواز رہ جاتی ہے اور اس کی ہر چیز پر غلامی کی مہر ثبت ہو جاتی ہے اس لئے غلام قوم کے افراد اپنے آقاﺅن کی روش پر چلنا ان کے طرز معاشرت کو اپنانا اور ان کی ہر بات کی تائید کرنا اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔
ہندوستان پر انگریز حکومت
ہندوستان جہاں کے باشندے آرام وسکون کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن انگریز ایسی سازشی وشاطر قوم نے ان کے لئے چین وسکون کا سانس لینا دوبھر کردیا اور ان کی زندگی اجیرن کرنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کیں انگریز اپنے مکروفریب کے ذریعہ ہندوستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔اورنگ زیب کی وفات کے بعد ملک کے عوام خود آپس میں لڑنے لگے انگریزوں نے اس اختلاف وانتشار کا پورا فائدہ اٹھایا اور نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر پہلے بنگال پر قبضہ کیا اور چند ہی دنوں بعد مدراس اور کلکتہ پر بھی قبضہ کر لیا اور حکومت کرناشروع کر دیا پھر دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر 1865ءمیں قبضہ کر لیا ۔اس لئے ہندوستانیوں کو اس سیاہ دن کو دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا ۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
ہندوستان کی تاریخ میں اہلحدیث کا وجود بہت ہی قدیم ہے یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے ہو دور میں باطل کے ہر ریلے کے سامنے بند باندھا۔
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صورت ہادی
زمیں ہند کی جس نے ساری ہلادی
جنگ آزادی میں علمائے اہلحدیث
ہندوستان کا وہ انقلابی دور جو جنگ آزادی سے متصف ہے تنگ نظری اور تعصّبات کی عینک اتار کر وسیع ظرفی کے ساتھ تمام حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو صرف اور صرف ایک جماعت نظر آئے گی جس نے خلوص اور نیک جذبے کے ساتھ استعماری قوتوں اور انگریزی ظلم واستبداد کے خلاف آزادی کا علم لہرایا او رپوری سرگرمی سے جنگ میں شریک رہی اور بلاشک وشبہ وہ جماعت 'جماعت اہلحدیث ہی کی نظر آئے گی۔تاریخ کے سنہرے اوراق علمائے اہلحدیث کی بے مثال قربانیوں سے بھرپور ہیں اور ہندوستان کی زمین ان کے خون سے اب تک لالہ زار بنی ہوئی ہے انہوںنے انگریز کی مخالفت میں اپنی جانیں قربان کیں 'پھانسیوں پر وہ لٹکائے گئے 'کالا پانی بھیجے گئے 'جیل کی سزائیں کاٹیں 'ان کی جائدادیں ضبط ہوئیں او پہروں تک بھوکا پیاسا رکھ کر ان کو مسلسل پیٹا گیا۔
کچھ ایسے نقش بھی راہ وفا میں چھوڑ آئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
ہندوستان میں جنگ آزادی کی تحریک اور اس کے بانی ہونے کا شرف حجة الاسلام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کو حاصل ہے جنہوں نے ایک طرف ناقابل فراموش دینی خدمات انجام دیں تو دوسری طرف سیاسی میدان میں انگریزوں اور مرہٹوں کے تغلب وتسلط سے ملک کو نکالنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں انہیں کے درس وتدریس کا یہ اثر تھا کہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرنگی مظالم کے نیچے دبے ہوئے ہندوستانیوں کو جہاد کے لئے آمادہ کیا۔
حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات کے بعد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی آپ کے جانشین مقرر ہوئے ۔اس وقت عمر صرف سترہ سال تھی یہ اعزاز آپ کو صاحبزادگی کی بنا پر نہیں بلکہ اہلیت ولیاقت کی وجہ سے ملا اس کا ثبوت آپ کی عظیم الشان خدمات ہیں ۔ہندوستان میں جب طوائف الملوکی کے نتیجہ میں چاٹگام سے لے کر دہلی تک انگریز کا طوطی بولنے لگا تھا غدار وطن میر صادق وغیرہ کی انگریزوں کے ساتھ خفیہ سازش کے نتیجہ میں شہید ٹیپو سلطان کو شرف شہادت حاصل ہو یہ مرد مجاہد 4مئی 1791ءکو جاں بحق ہو گیا 1803ءمیں جب دہلی پر انگریز کا قبضہ ہو گیا اور نازک حالت میں مسلمان مختلف الخیال ہو گئے کوئی انگریز سے جہاد حریت کو جائز کہتا اور کوئی ناجائز 'لیکن شاہ عبد العزیز کی عقابی نگاہوں نے فرنگی شاطرانہ چال کو بھانپ لیا اور یہ فتویٰ صادر کیا کہ تمام محبان وطن کا فرض ہے کہ غیر ملکی طاقت سے اعلان جنگ کر کے اس کو ملک بدر کئے بغیر زندہ رہنا اپنے لئے حرام جانیں اور ان ہی کی منظم قیادت اور معتقدین میں سے وہ علمائے اہلحدیث پیدا ہوئے جنہوں نے انگریز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ہندوستان آزادی سے شرف یا ب ہوا ان کے خون سے اب تک ہندوستان کے درودیوار لالہ رنگ ہیں 'دراصل آزادی ہند علماے اہلحدیث ہی کی مرہون منت ہے۔
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیرو ں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
سب سے پہلے تحریک کو لبیک کہنے والے حضرت مولانا عبد الحئی 'شاہ عبد العزیز کے بھانجے اور حضرت مولانا شاہ اسماعیل 'حضرت شاہ عبد العزیز کے بھتیجے اور حضرت شاہ اسحاق 'شاہ عبدالعزیز کے نواسے تھے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ہی مولانا شاہ عبد الحئی صاحب کو شیخ الاسلام اور شاہ اسماعیل کو حجتہ الاسلام کا لقب عطا فرمایا تھا۔
تحریک شہیدین جسے ہم تحریک اہلحدیث سے بھی موسوم کر سکتے ہیں اس کے بارے میں بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہندوستان میں سب سے پہلی اسلامی تحریک تھی جسے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد شہید ؒ نے برپا کیا تھا ۔یہ تحریک خاص کر انگریز کی حکومت کا خاتمہ کرنے اور ہندوستان میں خلافت علی منہاج النبوة برپا کرنے کیلئے پیدا ہوئی تھی ۔اس تحریک نے سب سے پہلے ففروا الی اللہ کا نعرہ لگایا یہ نعرہ کیا تھا ایک بانگ درا تھا جس نے سنا مدہوش ہو گیا جس پر نظر پڑی وہ اسلام کا خادم بن گیا 'جہاد کی دعوت دی گئی تو علماءنے مسند درس چھوڑ دی اماموں نے مسجد کے مصلے کو معذوروں کے حوالے کر دیا مالداروں نے اپنی کوٹھیاں چھوڑ دیں غلاموں نے آقاؤں کو سلام کہہ دیا ۔
لیکن افسوس کہ شہیدین کی تحریک کامیابی کی اتنی منزلیں نہ طے کر پائی جتنی توقع تھی کہ نام نہاد مسلم افغان سرداروں کی غداری کی وجہ سے ۔۔۔میں سانحہ بالا کوٹ پیش آگیا اور اس راہ حق کے دونوں مجاہد جام شہادت نوش فرماگئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تاریخ گواہ ہے کہ حاثہ بالا کوٹ کے بعد جب ملک پر اداسی چھا گئی جماعت تتر بتر ہو گئی اچھوں کے قدم لڑکھڑا اٹھے اور قریب تھا کہ جہاد کا سارا کام درہم برہم ہو جاتالیکن عظیم آباد 'پٹنہ محلہ صادق پور کے ایک فرد نے یہ گرتا ہواعلم جہاد کو تاحیات اپنے سینے سے لگائے رکھا اور خزاں رسیدہ چمن کی اپنے خون جگر سے اس انداز آبیاری کی کہ اسلامی ہند کی پوری تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے بھائی مولانا عنایت علی صادق پوری نے اس فریضہ کو سنبھالا 'اس کے بعد لشکری قیادت مولانا ولایت علی کے فرزند رشید مولانا عبد اللہ عظیم آبادی کے ہاتھوں میں آئی انہوں نے امیر المجاہدین کی حیثیت سے چالیس سال تک خدمات انجام دیں ۔پھر ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد الکریم صاحب جانشین ہوئے ۔پھر ان کےابعد مولانا عبد اللہ صاحب عظیم آبادی کے پوتے مولانا نعمت اللہ امیر المجاہدین رہے پھر رحمت اللہ صاحب امیر نامزد ہوئے ان کے علاوہ اس دور کے دوسرے مجاہدین میں مولانا یحیٰ علی عظیم آبادی 'مولانا احمد اللہ صاحب صادق پوری 'مولانا عبد الرحیم صاحب صادق پوری 'مولانا جعفر صاحب تھانیسری وغیرہ کا نام آتا ہے جنہیں تحریک آزادی کے سرگرم رکن ہونے کے جرم میں حبس دوام 'عبور دریائے شور وغیر ہ کی سزائیں کاٹنا پڑیں
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
1857ءکی تحریک آزادی میں بھی اہلحدیث عالم مولانا عنایت علی صادق پوری شریک تھے انہوں نے تاریخ علاقہ سرحدمیں محاذ قائم کر کے جنگ شروع کی تھی مولانا جعفر صاحب تھانیسری ۔۔کے ہنگامے میں چند ساتھیوں کو لے کر انگریزوں کے خلاف لڑنے کی غرض سے دہلی گئے تھے نیز 1857ءکے بعد سے 1947ءتک ملک کی کوئی بھی سیاسی تحریک ایسی نہیں جس میں علمائے اہل حدیث نے اور ان کےافراد نے حصہ نہ لیا ہو ۔استخلاص وطن اور قیام پاکستان کے لءمولانا عبدالقادر قصوری 'مولانا محمد علی قصوری ' مولانا محی الدین قصوری ' مولانا سید محمد داؤد غزنوی 'مولانا محمد علی لکھوی 'مولانا عبیداللہ احرار 'مولانا ابو الوفاءثناءاللہ امرتسری 'مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی 'مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی 'مولانا ابو القاسم سیف بنارسی 'مولانا ابو القاسم محمد علی مؤی 'مولانا محمد نعمان مؤی 'مولانا محمد احمد مدرس مؤی 'مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری 'مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی 'مولانا محمد ادریس خان بدایونی 'مولانا فضل الہٰی وزیر آبادی 'مولانا عبد الرحیم عرف مولانا محمد بشیر 'صوفی ولی محمد فتوحی والا 'دہلی میں پنجابی اہلحدیث 'کلکتہ میں کپڑے اور لوہے کے تاجر 'مدراس میں کاکا محمد عمر 'بنگال میں مولانا عبداللہ الکای 'مولانا عبد اللہ الباقی 'مولانا احمد اللہ خاں' غازی شہاب الدین وغیرہ کی ایک طویل فہرست ایسے علمائے اہل حدیث کی ہے جن کا جنگ آزادی میں حصہ لینا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔مولانا سید احمد شہیدؒ اور مولانا اسماعیل شہید کی مجاہدانہ کوششوں نے مسلمانوں کو جہاد پر مائل کیا اور جنگ آزادی کا علم لہرایا ۔ہمالہ کی چوٹیوں اور خلیج بنگال کی ترائی سے لوگ جوق درجوق اس علم کے نیچے جمع ہونے لگے ۔اس مجاہدانہ کارنامہ کی عام تاریخ معلوم ہے کہ ان مجاہدوں نے سرحد پار کر کے سکھوں کامقابلہ کیا اور شہید ہو گئے حالانکہ یہ واقعہ اس کی پوری تاریخ کا ایک باب ہے
مولانا محمد جعفر صاحب تھانیسری لکھتے ہیں جب کہ سید احمد شہید حج سے وطن واپس آگئے ۔تو سفر جہاد کی تیاری میں مشغول ہو گئے مولانا محمد اسماعیل شہید ؒ اور مولوی عبد الحئی وغرہ جہاد کے مضامین بیان کرنے اور ترغیب دلانے کے لئے اطراف ہندوستان میں روانہ ہوئے اس وقت سید احمد صاحب کے مکان پر تلوار و بندوق کی صفائی اور گھوڑ دوڑ ہوا کرتی تھی اور وہ درویش سپاہی بن گیا تھا تسبیح کے عوض ہاتھ میں تلوار اور فراخ جنہ کی جگہ چست لباس نے لے لی ۔ان دنوں میں جو کوئی تحفہ تحائف آپ کے پاس لے کر آتا تو اکثر ہتھیار یا گھوڑے ہوتے 'انہیں دنوں میں شیخ فرزند علی صاحب غازی پور زمانیہ سے دو نہایت عمدہ گوڑے اور بہت سے وردی کے کپڑے اور چالیس جلد قرآن تحفہ میں لے کر آئے اور سب سے عجیب تحفہ جو شیخ صاحب لے کر آئے وہ امجد نامی ان کا ایک نوجوان بیٹا تھا جس کو انہوں نے مثل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے راہ خدا میں نذر کر کے سید صاحب کے حوالہ کر دیا اور عرض کیا کہ اس کو اپنے ساتھ لے جائیے اور تیغ کفار سے اس کی قربانی کرائیے ۔شیخ فرزند علی کی یہ نذر اللہ نے قبول کی ان کا صاحبزادہ شیخ امجد سکھوں سے لڑتے ہوئے بالا کوٹ کے معرکہ میں شہید ہو گیا ۔یہ واقعہ میں نے صرف جہاد اور اس کے خلوص کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ علمائے اہلحدیث صرف سکھوں سے نبرد آزمائی کر رہے تھے ان کو ہندوستان کی آزادی اور انگریزوں سے مقابلہ کی کوئی ضرورت نہ تھی جیسا کہ سید صاحب اور مولانا اسماعیل شہید کی تحریک جہاد کے متعلق بعض علماءکی تحریروں نے یہ غلط فہمی پیدا کر دی ہے کہ وہ صرف سکھوں کے خلاف تھے سید صاحب انگریز سے نہ لڑنا چاہتے تھے اور انگریزی اقتدار اور تسلط سے ان کو کوئی تشویش نہ تھی انگریز کے قبضہ سے اسی ملک کو آزاد کرا لینا سید صاحب کے مکتوبات ے واضح الفاظ میں ثابت کیا ہے کہ مذکورہبالا خیالبالکل غلط ہے مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری کو انگریزوں نے محض اس وجہ سے کہ وہ سید صاحب کی معتقدین میں سے تھے ان کو بڑی تکلیفیں دیں گھر بار لٹا دیا اور اٹھارہ سال کالا پانی کی اذیت ناک سزا دی ان کی قربانیوں کے سامنے ہر شخص کا سر احترام سے خم ہو جاتا ہے ۔
شیخ الکل میاں نذیر حسین محدیث دہلوی جو علمائے اہلحدیث کے سرخیل اور سرتاج تھے صرف اہلحدیث ہونے کی بنیاد پر انگریزی مقدمات کے لپیٹ میں آئے ان کے مکان اور مسجدوں کی تلاشی لی گئی راولپنڈی کے جیل خانے میں ایک سال تک نظر بند رکھے گئے 'درحقیقت انگریز کو کسی تنظیم یا جماعت سے خطرہ تھا تو وہ صرف اہلحدیث ہی کی جماعت اور اس کے علماءو مشائخ تھے اور اسی وجہ سے راولپنڈی کی جیل میں میاں صاحب پر جبر کیا جاتا تھا کہ وہ ان ارکان اہلحدیث کے نام ظاہر کر دیں جو اس باغیانہ تحریک میں شامل تھے ۔مگر استقلال کا پہاڑ بنے رہے ۔
تحریک آزادی ہند کی یہ جنگ وفا شعاروں اور بے وفاﺅں کے مابین تمیز او رامتیاز کے لئے ایک کسوٹی تھی ۔ظاہر وباطن ہر لحاظ سے جو علماءربانی تھے وہ اپنے بے ڈاغ کردار 'بے مثل عزم واستقلال ' اور عدیم النظیر جرات وہمت کے ذریعہ اپنے انقلاب انگیز کارناموں کے ایسے نقوش تاریخ میں چھوڑ گئے جو رہتی دنیا تک یادگار وناقب فراموش رہیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے سنگ میل اور مشعل راہ بلکہ منارہ نور ثابت ہوں گے آج رزم و بزم میں انہیں کی داستان عظمت کی گونج سنائی دیتی ہے ۔
صحافت کے میدان میں مولانا ابوالکلام آزاد نے "الہلال "اور "البلاغ "کے ذریعہ پورے ملک میں ہندوستانیوں کے دلوں کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کی سوچ بخشی اور اسی آزادی ہی کی خاطر مولانا کو بار بار جیل کا منہ دیکھنا پڑا غرضیکہ انہوں نے اس ملک کو آزاد کرانے میں اپنی زندگی وقف کر دی ۔
غرض یہ کہ ان اہل حدیث علماءکی ادیبانہ دل آویزیوں 'خطیبانہ سحر طرازیوں 'علمی وجاہتوں اور مجاہدانہ جلالتوں نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جھنجھوڑا اور ان میں آزادی کا حوصلہ بیدار کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے انگریزوں کی سامراجیت کا خاتمہ کر دیا اور انگریزوں کو اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ علماءاہلحدیث ہی قوم کے وہ ستون ہیں جن کے اشارے پر ہر فرد دل وجان قربان کر دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے اس نے سارا اپنا سامراجی اقتدار قائم کرتے وقت سب سے زیادہ ظلم وستم علمائے حق پر توڑ
یہ تھے ہمارے سلف صورت مہ و خورشید
جو تجھ سے ہو سکے ان کا جواب پیدا کر
شکریا