• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جنگ میں خود کشی کرنے والا صحابی تھا؟روایت کی تشریح درکار ہے

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔

محترم علماء کرام
اس حدیث کی تشریح فرمائیں کہ جو شخص اس جنگ میں لڑ رہا تھا وہ تو صحابی رسول ہوا۔ پھر اس کا ایسا انجام کیوں ہوا۔اس کی منافقت کا بھی کہیں ذکر نہیں۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا انجام پہلے سے کیسے پتا چل گیا۔
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔

محترم علماء کرام
اس حدیث کی تشریح فرمائیں کہ جو شخص اس جنگ میں لڑ رہا تھا وہ تو صحابی رسول ہوا۔ پھر اس کا ایسا انجام کیوں ہوا۔اس کی منافقت کا بھی کہیں ذکر نہیں۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا انجام پہلے سے کیسے پتابیا چل گیا۔
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
آپ کے سوال یا استفسار میں تین نکتے ہیں:
1۔ وہ صحابی رسول تھا۔
2۔ اس کا منافق ہونا بھی معلوم نہیں۔

ان دونوں باتوں کا ذکر حدیث میں کہیں نہیں۔ البتہ اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ صحابی تھے تو صحابی سے بھی کبیرہ یا صغیرہ گناہ تو ہوسکتا ہے، جہنم میں جانے سے مراد یہ ہوگا کہ وہ اپنی اس غلطی کی سزا بھگت کر جنت میں جائیں گے۔
اور اگر وہ مسلمان ہی نہیں تھا، تو نہ صحابی ہوا، کیونکہ صحابیت کےلیے ایمان شرط ہے، تو کافر کا جہنم میں جانا باعث اشکال نہیں، اور ایسے لوگ تھے جو جنگوں میں اسلام کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی بہادی شجاعت کے اظہار، یا مال غنیمت کے لیے یا پھر اپنے قبیلے و قوم کی حمایت کے لیے شرکت کرتے تھے، بعض احادیث میں اس کا صراحت سے ذکر بھی موجود ہے، ایسے ہی کسی موقعے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا بھی تھا کہ ’ہم مشرک سے مدد و استعانت نہیں لیتے‘۔
3۔ حضور کو اس کا انجام کیسے معلوم ہوا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے امور بذریعہ وحی معلوم ہوجاتے تھے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحابہ کرام معصوم تو نہ تھے ،لیکن ان کی شان یہ ہے کہ انہیں جنت و مغفرت کا وعدہ مل چکا ہے ؛

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزشیں معاف کر دی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہو چکے ہیں ، قران مجید میں ہے:
{وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ}[آل عمران:۱۵۲] [’’اور البتہ تحقیق اس نے معاف کیا تم کو۔‘‘]
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:{وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ لا رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o }[التوبۃ:۱۰۰]
[وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی پیروی کی اللہ ان سب سے راضی ہوا۔ اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘]

ایک اور مقام پر ہے:
{لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ م بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْھُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ ط اِنَّہ‘ بِھِمْ رَئُ فٌ رَّحِیْمٌ o وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاط} [التوبۃ:۱۱۷۔۱۱۸]
[’’اللہ تعالیٰ نے بنی مہاجرین اور انصار پر مہربانی کی جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت اس کاساتھ دیا تھا اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کے دل کجی کی طرف مائل ہو چکے تھے ، پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا کیونکہ اللہ مسلمانوں پر بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے ، اور ان تین آدمیوں پر بھی ( مہربانی کی ) جن کا معاملہ ملتوی رکھا گیا تھا ، حتی کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی تنگ ہو گئیں اور انہیں یہ یقین تھا کہ اللہ کے سوا ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ، پھر اللہ نے ان پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کر یں اللہ تعالیٰ یقینا توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔‘‘]

ایک اور مقام پر ہے:
{لٰکِنِ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ‘ جٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ ط وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْخَیْرٰتُ ز وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ جَنّٰتٍ}[التوبۃ:۸۸۔۸۹]
[’’لیکن رسول اور ان لوگوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کیا ، ساری بھلائیاں انہی لوگوں کے لیے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیارکر رکھے ہیںجن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘] صحیح بخاری میں ہے: ((اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ)) 1[’’جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں معاف کر دیا۔‘‘]
1 بخاری؍کتاب المغازی؍باب فضل من شھدبدراً
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 705
محدث فتویٰ​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟
یہ شخص صحابی نہیں بلکہ منافق تھا ،
مشہور محدث اور مورخ علامہ ابو محمد عبداللہ بن مسلم ابن قتیبہ (المتوفی 276ھ) لکھتے ہیں کہ :
كان «قزمان» هذا منافقا، وهو القائل: والله إن قاتلت إلا حدبا على قومي [«إلا عن أحساب قومي»] .
وجرح فاشتدّت به جراحته فقتل نفسه. وفيه قال النبيّ- صلّى الله عليه وسلم-:«إن الله يؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر» .(المعارف )

اس غزوہ میں خودکشی کرنے والے شخص کا نام ’’ قزمان ‘‘ تھا ،اور یہ آدمی منافق تھا ، جہاد میں اس کی شمولیت کی وجہ وہ خود یہ بتاتا تھا کہ میں تو محض اپنی قوم کیلئے لڑائی میں شامل ہوں ‘‘
دوران جنگ جب یہ شدید زخمی ہوا تو خود کشی کرلی ،اس کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ :
اللہ تعالی فاجر آدمی سے بھی دین کی خدمت کروالیتا ہے ‘‘

اسی طرح مشہور محدث، لغوی اور علم الانساب کے ماہرسيد مرتضی حسین زبیدی ( 1145ھ۔ 1205ھ )نے احیاء العلوم کی شرح’’ اتحاف السادۃ المتقین ‘‘ میں لکھتے ہیں ‘‘
https://archive.org/stream/ithafsadam-dki/ithafsadam-dki-008#page/n331/mode/2up
صحیح مسلم کے شارح اور مشہور محدث علامہ ابو زکریا یحیی بن شرف النوویؒ (المتوفی ۶۷۶ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وهذا الرجل الذي كان لا يدع شاذة ولا فاذة اسمه قزمان قاله الخطيب البغدادي قال وكان من المنافقين
یہ شخص جس کا نام ’’ قُزمان‘‘ تھا، جسے مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر آ جاتا تو اس کا پیچھا کر کے اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا ‘‘
امام خطیب بغدادی ؒ لکھتے ہیں کہ یہ شخص منافق تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ
امور حکومت کا بیان
باب: مَنَ قَاتَلَ لِلرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ اسْتَحَقَّ النَّارَ
باب: جو شخص لڑے نمائش کے لیے وہ جہنمی ہے۔
حدثنا يحيي بن حبيب الحارثي ، حدثنا خالد بن الحارث ، حدثنا ابن جريج ، حدثني يونس بن يوسف ، عن سليمان بن يسار ، قال: تفرق الناس عن ابي هريرة ، فقال له ناتل: اهل الشام ايها الشيخ، حدثنا حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن اول الناس يقضى يوم القيامة عليه رجل استشهد، فاتي به فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟، قال: قاتلت فيك حتى استشهدت، قال: كذبت، ولكنك قاتلت لان يقال جريء، فقد قيل ثم امر به فسحب على وجهه حتى القي في النار، ورجل تعلم العلم وعلمه وقرا القرآن، فاتي به فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟، قال: تعلمت العلم وعلمته وقرات فيك القرآن، قال: كذبت، ولكنك تعلمت العلم ليقال عالم وقرات القرآن ليقال هو قارئ، فقد قيل ثم امر به فسحب على وجهه حتى القي في النار، ورجل وسع الله عليه واعطاه من اصناف المال كله، فاتي به فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟، قال: ما تركت من سبيل تحب ان ينفق فيها إلا انفقت فيها لك، قال: كذبت، ولكنك فعلت ليقال هو جواد، فقد قيل ثم امر به فسحب على وجهه ثم القي في النار "،

‏‏‏‏ سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، لوگ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے جدا ہوئے تو ناتل نے کہا جو شام والوں میں سے تھا (ناتل بن قیس خرامی۔ یہ فلسطین کا رہنے والا تھا اور یہ تابعی ہے اس کا باپ صحابی تھا) اے شیخ! مجھ سے ایک حدیث بیان کر جو تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”پہلے قیامت میں جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک شخص ہو گا۔ جو شہید ہوا۔ جب اس کو اللہ کے پاس لائیں گے تو اللہ اپنی نعمت اس کو بتلا دے گا وہ پہچانے گا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے اس کے لیے کیا عمل کیا ہے؟ وہ بولے گا: میں لڑا تیری راہ میں یہاں تک کہ شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرما دے گا: تو نے جھوٹ کہا تو اس لڑا تھا اس لیے کہ لوگ بہادر کہیں اور تجھے بہادر کہا گیا، پھر حکم ہو گا اس کو اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے۔ اور ایک شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لائیں گے وہ اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ شخص پہچان لے گا تب کہا جائے گا تو نے اس کے لیے عمل کیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لیے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ قاری کہیں تجھ کو عالم اور قاری دنیا میں کہا گیا پھر حکم ہو گا، اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے۔ اور ایک شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا تھا اور سب طرح کے مال دیئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ پہچان لے گا اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے اس کے لیے کیا عمل کیے وہ کہے گا: میں نے کوئی راہ مال خرچنے کی جس میں خرچ کرنا پسند کرتا تھا نہیں چھوڑی تیرے واسطے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے خرچا کہ لوگ سخی کہیں تو تجھے لوگوں نے سخی کہہ دیا دنیا میں، پھر حکم ہو گا، منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔“
 
Top