- شمولیت
- اگست 28، 2013
- پیغامات
- 162
- ری ایکشن اسکور
- 119
- پوائنٹ
- 75
حدیث جاریہ (این اللہ) کی صحیح تشریح
قَالَ وَکَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَی غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ لَکِنِّي صَکَکْتُهَا صَکَّةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَيَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا قَالَ ائْتِنِي بِهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ
راوی معاویہ کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے علاقوں میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا میری ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا ہے آخر میں بھی بنی آدم سے ہوں مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح کہ دوسرے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا مجھ پر یہ بڑا گراں گزرا اور میں نے عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ میں اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اس لونڈی نے کہا آسمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا میں کون ہوں اس لونڈی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1194 )
این اللہ کی صحیح تشریح
شارح صحیح مسلم امام نوویؒ (المتوفٰی 676ھ) فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَفِيهَا مَذْهَبَانِ تَقَدَّمَ ذِكْرُهُمَا مَرَّاتٍ فِي كِتَابِ الْإِيمَانِ أَحَدُهُمَا الْإِيمَانُ بِهِ مِنْ غَيْرِ خَوْضٍ فِي مَعْنَاهُ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَتَنْزِيهِهِ عَنْ سِمَاتِ الْمَخْلُوقَاتِ وَالثَّانِي تَأْوِيلُهُ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَمَنْ قَالَ بِهَذَا قَالَ كَانَ الْمُرَادُ امْتِحَانَهَا هَلْ هِيَ مُوَحِّدَةٌ تُقِرُّ بِأَنَّ الْخَالِقَ الْمُدَبِّرَ الْفَعَّالَ هُوَ اللَّهُ وَحْدَهُ وَهُوَ الَّذِي إِذَا دَعَاهُ الدَّاعِي اسْتَقْبَلَ السَّمَاءَ كَمَا إِذَا صَلَّى الْمُصَلِّي اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ مُنْحَصِرٌ فِي السَّمَاءِ كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ مُنْحَصِرًا فِي جِهَةِ الْكَعْبَةِ بَلْ ذَلِكَ لِأَنَّ السَّمَاءَ قِبْلَةُ الدَّاعِينَ كَمَا أَنَّ الْكَعْبَةَ قِبْلَةُ الْمُصَلِّينَ أَوْ هِيَ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ الْعَابِدِينَ لِلْأَوْثَانِ الَّتِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمَّا قَالَتْ فِي السَّمَاءِ عَلِمَ أَنَّهَا مُوَحِّدَةٌ وَلَيْسَتْ عَابِدَةً لِلْأَوْثَانِ قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَاطِبَةً فَقِيهُهُمْ وَمُحَدِّثُهُمْ وَمُتَكَلِّمُهُمْ وَنُظَّارُهُمْ وَمُقَلِّدُهُمْ أَنَّ الظَّوَاهِرَ الْوَارِدَةَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى فِي السَّمَاءِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء أن يخسف بكم الأرض وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ عَلَى ظَاهِرِهَا بَلْ مُتَأَوَّلَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ فَمَنْ قَالَ بِإِثْبَاتِ جِهَةِ فَوْقُ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ وَلَا تَكْيِيفٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ تَأَوَّلَ فِي السَّمَاءِ
أَيْ عَلَى السَّمَاءِ وَمَنْ قَالَ مِنْ دَهْمَاءِ النُّظَّارِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ وَأَصْحَابِ التَّنْزِيهِ بِنَفْيِ الْحَدِّ وَاسْتِحَالَةِ الْجِهَةِ فِي حَقِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج5 ص 24-25 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
ترجمہ:
”اسے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ کہاں ہے؟ کہنے لگی آسمان میں
یہ صفات والی احادیث میں سے ہے اور اس میں دو مذہب ہیں
ایک یہ کہ اعتقاد رکھنا اسکے معنی میں غور کئے بغیر کہ اللہ تعالٰی جیسا کوئی بھی نہیں اور وہ مخلوق کی صفات سے پاک ہے
اور دوسرا یہ کہ اسکی کوئی تاویل پیش کی جائے جو اللہ کی شان کے لائق ہو
پس جو یہ کہتے ہیں انکے نزدیک یہ اس عورت کے امتحان کیلئے تھا کہ یہ موحد ہے اقرار کرتی ہے کہ خالق مدبر فعال صرف اللہ اکیلا ہے، اور وہ یہ کہ جب دعا کرنے والا دعا کرتا ہے تو آسمان کی طرف چہرہ کرتا ہے جیسا کہ نماز پڑھتا ہے تو کعبہ کی طرف منہ کرتا ہے، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالٰی اسی میں منحصر ہے(جیسا آج کا جاہل فرقہ سلفیہ کہتا ہے) بلکہ جیسے آسمان مانگنے والوں کا قبلۃ ہے کعبہ نمازیوں کا قبلۃ ہے
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بڑوں یعنی فقہاء محدثین متکلمین انہی جیسے اور انکے مقلدین میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس طرح کی ظاہر نصوص جن میں اللہ تعالٰی کا آسمان میں ہونے کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء اور اسی طرح کی نصوص اپنے ظاہر پر نہیں ہیں بلکہ ان میں تاویل ہوتی ہے سب کے نزدیک
پس محدثین فقہاء اور متکلمین میں سے جنہوں نے اوپر کی جہت کو مانا ہے متعین کرنے اور کیفیت کے بغیر، انہوں نے آسمان پر آسمان کے ساتھ تاویل کی ہے
اور جس نے متعین کرنے کی نفی کی اور جہت کا محال ہونا بتایا ہے اس نے سبحان وتعالى کے بارے میں“۔
قَالَ وَکَانَتْ لِي جَارِيَةٌ تَرْعَی غَنَمًا لِي قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَوْمٍ فَإِذَا الذِّيبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِهَا وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ لَکِنِّي صَکَکْتُهَا صَکَّةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَيَّ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُعْتِقُهَا قَالَ ائْتِنِي بِهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ
راوی معاویہ کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے علاقوں میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن میں وہاں گیا تو دیکھا کہ ایک بھیڑیا میری ایک بکری کو اٹھا کرلے گیا ہے آخر میں بھی بنی آدم سے ہوں مجھے بھی غصہ آتا ہے جس طرح کہ دوسرے لوگوں کو غصہ آجاتا ہے میں نے اسے ایک تھپڑ مار دیا پھر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا مجھ پر یہ بڑا گراں گزرا اور میں نے عرض کیا کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ میں اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے آیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے اس لونڈی نے کہا آسمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا میں کون ہوں اس لونڈی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لونڈی کے مالک سے فرمایا اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ لونڈی مومنہ ہے۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1194 )
این اللہ کی صحیح تشریح
شارح صحیح مسلم امام نوویؒ (المتوفٰی 676ھ) فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ أحَادِيثِ الصِّفَاتِ وَفِيهَا مَذْهَبَانِ تَقَدَّمَ ذِكْرُهُمَا مَرَّاتٍ فِي كِتَابِ الْإِيمَانِ أَحَدُهُمَا الْإِيمَانُ بِهِ مِنْ غَيْرِ خَوْضٍ فِي مَعْنَاهُ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَتَنْزِيهِهِ عَنْ سِمَاتِ الْمَخْلُوقَاتِ وَالثَّانِي تَأْوِيلُهُ بِمَا يَلِيقُ بِهِ فَمَنْ قَالَ بِهَذَا قَالَ كَانَ الْمُرَادُ امْتِحَانَهَا هَلْ هِيَ مُوَحِّدَةٌ تُقِرُّ بِأَنَّ الْخَالِقَ الْمُدَبِّرَ الْفَعَّالَ هُوَ اللَّهُ وَحْدَهُ وَهُوَ الَّذِي إِذَا دَعَاهُ الدَّاعِي اسْتَقْبَلَ السَّمَاءَ كَمَا إِذَا صَلَّى الْمُصَلِّي اسْتَقْبَلَ الْكَعْبَةَ وَلَيْسَ ذَلِكَ لِأَنَّهُ مُنْحَصِرٌ فِي السَّمَاءِ كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ مُنْحَصِرًا فِي جِهَةِ الْكَعْبَةِ بَلْ ذَلِكَ لِأَنَّ السَّمَاءَ قِبْلَةُ الدَّاعِينَ كَمَا أَنَّ الْكَعْبَةَ قِبْلَةُ الْمُصَلِّينَ أَوْ هِيَ مِنْ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ الْعَابِدِينَ لِلْأَوْثَانِ الَّتِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمَّا قَالَتْ فِي السَّمَاءِ عَلِمَ أَنَّهَا مُوَحِّدَةٌ وَلَيْسَتْ عَابِدَةً لِلْأَوْثَانِ قَالَ الْقَاضِي عِيَاضٌ لَا خِلَافَ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ قَاطِبَةً فَقِيهُهُمْ وَمُحَدِّثُهُمْ وَمُتَكَلِّمُهُمْ وَنُظَّارُهُمْ وَمُقَلِّدُهُمْ أَنَّ الظَّوَاهِرَ الْوَارِدَةَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى فِي السَّمَاءِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء أن يخسف بكم الأرض وَنَحْوِهِ لَيْسَتْ عَلَى ظَاهِرِهَا بَلْ مُتَأَوَّلَةٌ عِنْدَ جَمِيعِهِمْ فَمَنْ قَالَ بِإِثْبَاتِ جِهَةِ فَوْقُ مِنْ غَيْرِ تَحْدِيدٍ وَلَا تَكْيِيفٍ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ تَأَوَّلَ فِي السَّمَاءِ
أَيْ عَلَى السَّمَاءِ وَمَنْ قَالَ مِنْ دَهْمَاءِ النُّظَّارِ وَالْمُتَكَلِّمِينَ وَأَصْحَابِ التَّنْزِيهِ بِنَفْيِ الْحَدِّ وَاسْتِحَالَةِ الْجِهَةِ فِي حَقِّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى
(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج5 ص 24-25 الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
ترجمہ:
”اسے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ کہاں ہے؟ کہنے لگی آسمان میں
یہ صفات والی احادیث میں سے ہے اور اس میں دو مذہب ہیں
ایک یہ کہ اعتقاد رکھنا اسکے معنی میں غور کئے بغیر کہ اللہ تعالٰی جیسا کوئی بھی نہیں اور وہ مخلوق کی صفات سے پاک ہے
اور دوسرا یہ کہ اسکی کوئی تاویل پیش کی جائے جو اللہ کی شان کے لائق ہو
پس جو یہ کہتے ہیں انکے نزدیک یہ اس عورت کے امتحان کیلئے تھا کہ یہ موحد ہے اقرار کرتی ہے کہ خالق مدبر فعال صرف اللہ اکیلا ہے، اور وہ یہ کہ جب دعا کرنے والا دعا کرتا ہے تو آسمان کی طرف چہرہ کرتا ہے جیسا کہ نماز پڑھتا ہے تو کعبہ کی طرف منہ کرتا ہے، اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اللہ تعالٰی اسی میں منحصر ہے(جیسا آج کا جاہل فرقہ سلفیہ کہتا ہے) بلکہ جیسے آسمان مانگنے والوں کا قبلۃ ہے کعبہ نمازیوں کا قبلۃ ہے
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بڑوں یعنی فقہاء محدثین متکلمین انہی جیسے اور انکے مقلدین میں کوئی اختلاف نہیں کہ اس طرح کی ظاہر نصوص جن میں اللہ تعالٰی کا آسمان میں ہونے کا ذکر ہے جیسا کہ فرمایا أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السماء اور اسی طرح کی نصوص اپنے ظاہر پر نہیں ہیں بلکہ ان میں تاویل ہوتی ہے سب کے نزدیک
پس محدثین فقہاء اور متکلمین میں سے جنہوں نے اوپر کی جہت کو مانا ہے متعین کرنے اور کیفیت کے بغیر، انہوں نے آسمان پر آسمان کے ساتھ تاویل کی ہے
اور جس نے متعین کرنے کی نفی کی اور جہت کا محال ہونا بتایا ہے اس نے سبحان وتعالى کے بارے میں“۔