لغوی اعتبار سے لفظ (شیعہ) متابعت، نصرت، موافقت رائے، اتفاق اور تعاون کے معانی میں منحصر ہے پھر یہ لفظ (شیعہ) اس فرقے کے لیے عموماً استعمال ہونے لگا جو سیدنا علیؓ اور ان کے اہل ابیت سے محبت کا اعلان کرتا ہے،
اسی لغوی معنی کا اعتبار امام شریک بن عبداللہ نخعی کے ایک اثر میں نظر آتا ہے کہ جب ایک شخص نے ان سے پوچھا: سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ میں سے کون افضل ہے؟ انھوں نے جواب دیا: سیدنا ابوبکرؓ!
اس شخص نے کہا: آپ شیعہ ہونے کے باوجود ایسی بات کہتے ہیں؟
انھوں نے فرمایا: ہاں کیوں کہ جو شخص اس بات کا اقرار نہیں کرتا، وہ شیعہ نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! ایک مرتبہ سیدنا علیؓ اس منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:
ألا ان خير هذه الأمة بعد نبيّها ابو بكر وعمر
آگاہ رہو اس امت میں نبی کریمﷺ کے بعد سب سے بہتر ابوبکرؓ ہیں پھر عمرؓ ہیں۔
أفكنا نردّ قوله؟ أفكنا نكذبه؟ والله ما كان كذابا
تو ہم اب کیسے سیدنا علیؓ کی اس بات کی تردید و تکذیب کرسکتے ہیں؟ اللہ کی قسم! وہ جھوٹے انسان نہیں تھے۔
تثبيت دلائل النبوة (۱۔۶۳)
تثبيت دلائل النبوة المكتبة الشاملة
گویا امام شریکؒ نے اس لغوی معنی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہا ہے کہ جو شخص سیدنا علیؓ کا حقیقی پیروکار نہیں ہے وہ (شیعہ) کہلانے کا مستحق نہیں ہے، کیوں کہ کہ لفظ (شیعہ) کا حقیقی معنی اطاعت اور متابعت ہے۔