- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
روزنامہ جنگ ۲۲ جنوری، ۲۰۱۵ءکے ادراتی صفحات پر ملک کے معروف اور نامور اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا ایک کالم "اسلام اورریاست: ایک جوابی بیانہ" کے نام سے شائع ہوا۔ اس کالم کے جواب میں اصحاب علم وفضل کی بہت سی تحریریں روزنامہ جنگ اور دیگر اخبارات کے صفحات پر شائع ہوئیں۔ ہماری اس تحریر میں یہ کوشش ہو گی کہ ہم جناب غامدی صاحب کے مجموعی فکر کے تناظر میں ان کے کالم کا ایک تجزیہ پیش کریں ۔ جوباتیں درست ہیں، ان سے اتفاق بیان کریں۔ اور جو غلط ہیں، ان کے بارے صحیح موقف پیش کریں:
۱۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں۔
“اس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب وروز کرتی ہیں۔”
ہمیں اور نہ ہی اہل مدرسہ کو انتہا پسند تنظیموں کے افکار واعمال سے اتفاق ہے جبکہ غامدی صاحب کا یہ بیان مدارس دینیہ، اسلامی تحریکوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر ایک الزام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خود غامدی صاحب جو مدرسہ کے نظام ونصاب سے نہیں گزرے،وہ یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں وہ سب کچھ پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے جو تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ کے افکار ونظریات ہیں۔ غامدی صاحب کا یہ دعوی اسی طرح کا دعوی ہے جو مدرسے کا ایک فارغ التحصیل پاکستانی یونیورسٹیوں کے بار ے یہ کہہ کر کرے کہ یہاں تو الحاد پڑھایاجاتا ہے۔ اگر مدارس دینیہ اور اسلامی تحریکوں میں یہ سب کچھ پڑھایا جاتا ہوتا تو یہ عملی انتہاپسندی آپ کو ایوب، بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار میں بھی نظر آتی۔ پاکستان میں انتہا پسند عناصر ان تحریکوں کی کوکھ سے برآمد ہوئے جنہیں امریکہ نے پاکستانی آمروں کے تعاون سے روس کے خلاف کھڑا کیا۔ پس عملی انتہا پسندی کے مسئلے کا حل دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی یا اسلامی تحریکوں کے افکار پر پابندی سے کسی صورت حاصل نہ ہو گا کیونکہ یہ اس کی اصل وجہ ہے ہی نہیں۔ اگر ہم ملک پاکستان کو انتہاپسند عناصر کے چنگل سے نکالنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں وہ وجوہات ختم کرنی ہوں گے جو امر واقعی میں انتہا پسندوں کے کارخانے قائم کیے چلی جا رہی ہیں۔ اور انتہاپسند عناصر کے کارخانے لگنے کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ ۱۹۸۰ ء سے جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی اور فورسز کی اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے موجودگی اور ہمارا بحثیت قوم انہیں خوش آمدید کہنا اور ان کےہاتھوں کبھی جہاد اور کبھی امن کے نام پر استعمال ہوناہے۔
۲۔ محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اس کے بالمقابل اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔”
ہمیں غامدی صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ جب معاشرے میں اسلام کے نام پر فساد پیدا کر دیا جائے تو اس کا جواب "سیکولرازم کی تبلیغ" نہیں ہے بلکہ فساد برپا کرنے والی مذہبی فکر کا جوابی بیانیہ تیار کرناہے۔ پس کسی معاشرے کے لیے یہ صحت مند رویہ نہیں ہے کہ انتہاپسندوں کے فکر یا ان کی کاروائیوں کے ردعمل میں دین اسلام ہی سے اس لیے بیزار ہو جائے کہ وہ اس قسم کی فکر یا کاروائیوں کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں بلکہ صحیح رویہ ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہ اسلامی فکراور دینی عمل نہیں ہے۔ یہ ایک معتدل اور عمدہ بات ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ لیکن دیگر اصحاب علم وفضل کا کہنا یہ ہے کہ اس پر تو بحث ہو سکتی ہے ناں کہ جناب غامدی صاحب نے جو "جوابی بیانہ" تیار کیا ہے، اسے بھی"سیکولرازم کی تبلیغ" میں ہی رکھا جائے یا وہ امر واقعی میں اس سے ہٹ کر ایک "جوابی بیانیہ" ہے۔
۳۔ محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“لہذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ بات ریاست کی تعریف ہی کے خلاف ہے۔ ریاست کے ارکان(pillars) میں علاقہ (territory)، آبادی (population)، حکومت (government)کے علاوہ اقتدار اعلی (sovereignty)بھی شامل ہے جبکہ حکومت کے ارکان میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہے اور اب بعض ماہرین سیاسات میڈیا کو بھی اس کا ایک رکن قرار دیتے ہیں۔ پس علم سیاسیات (political science)میں ریاست کا کوئی ایسا تصور موجود نہیں ہے کہ جس میں اقتدار اعلی (sovereignty) کو اس سے علیحدہ کیا جا سکے۔ مانا کہ ریاست اور حکومت میں فرق ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا لیکن اقتدار اعلی (sovereignty) کو طے کیے بغیر کوئی ریاست، ریاست کہلانے کی مستحق بھی نہیں ہے۔ اور مسلمانوں کی ایک ریاست میں یہ مقتدر اعلی (sovereign) اور مختار اعلی (supreme authority) کتاب وسنت کے علاوہ کسے بنایا جا سکتا ہے؟
۴۔ محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کر لیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہو سکتا ہے اور ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے۔صحیح مسلم کی روایت ہے: «إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا» کہ جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کر دو ۔ ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرے خلیفہ کو قتل کرنے کا حکم اس صورت میں ہے جبکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا خلیفہ ایک ہی ہو جیسا کہ شروع اسلام میں مسلمانوں کی ایک ہی اجتماعیت تھی۔ اب جبکہ مسلمانوں چھوٹی چھوٹی پچاس سے زائد ریاستوں میں تقسیم ہو چکے تو اس حدیث کے مقصد پر عمل کی طرف امت کو راغب کیا جائے گا اور وہ مقصد ہے مسلمانوں کی عالمی اجتماعیت کا قیام ۔ پس موجودہ اسلامی ریاستوں کو ایک "اسلامی ریاست ہائے متحدہ" کے قیام کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے، یہ ایک دینی حکم ہے۔ اگر یہ دینی حکم نہ ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی اجتماعیت کو تقسیم کر نے پر قتل کا حکم جاری کیوں فرماتے؟ اسی طرح اگر "ریاست ہائے متحدہ امریکہ" کا وجود میں آنا ان ریاستوں کے لیے سیاسی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سےمفید ہو سکتا ہے تو "اسلامی ریاست ہائے متحدہ" کے مسلم امت کے لیےان کے اجتماعی پہلووں سے مفید ہونے میں کیا بحث ہو سکتی ہے؟ اور کیا ہمارا دین جو ایک فرد کے ذاتی اور جزوی فائدے کا بھی لحاظ کرتے ہوئے احکام جاری کرتا ہے، اس دین میں اس چیز کا حکم ہی نہ ہو گا کہ جس میں پوری امت کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات موجود ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ تعبیر بہت ہی قابل تعجب ہے۔
۵۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“پہلی صدی ہجری کے بعد ہی، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہاء ان کے درمیان موجود تھے، ان کی دو سلطنتیں، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہو چکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا ۔”
اس بارے ہمارا کہنا یہ ہےکہ ایک ہے امر واقعی اور ایک امر شرعی۔ امر شرعی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ انہیں اپنے بعد ایک ہی خلیفہ مقرر کرنے اور صرف اسی کی بیعت کرنے کا حکم جاری کیا جیسا کہ اوپر روایت گزر چکی۔ امر واقعی یہ ہے کہ مسلمان امت تفرقے میں پڑ کر تقسیم ہو گئی۔ عراق میں بنو عباس، مصر میں فاطمی اور اندلس میں اموی حکومت قائم ہوئی۔ فقہاء نے اس تقسیم کے قائم ہو جانے کے بعد امت کے لیے اپنے علاقوں کے مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کو ترجیح دی لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی ہی تھا کہ وہ امت کے بٹ جانے کو شرعی بھی سمجھتے تھے۔فقہاء کیسے اس تقسیم پر راضی ہو سکتے تھے جبکہ وہ جانتے تھے کہ یہ مسلمانوں میں باہمی جنگ وجدال اور قتل وغارت گری کی بنیاد ہے۔ اور بنوعباس اور بنو امیہ، عباسی اور فاطمی دشمنی اور قتل وغارت گری کی داستانیں کس پر واضح نہیں ہیں؟ اور مسلمانوں کی اسی باہمی قتل وغارت گری کے نتیجے میں ہی تو بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی ہے اور دیگر حکومتیں بھی اسی طرح سےقائم ہوئی ہیں۔ کیا کہنا کوئی مناسب بات ہو گی کہ اسلام باہمی قتل وغارت گری کے ذریعے مسلم امت کی تقسیم کو جائز قرار دیتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر غامدی صا حب کو تاریخ کے صفحات سے یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ بنوعباس اور بنو امیہ اور اس کےبعد بھی مسلمانوں کی یہ تقسیم کسی باہمی صلح وصفائی کا نتیجہ تھی۔ اندلسی فقیہ اور مجتہد امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب "مراتب الاجماع" میں لکھتے ہیں:وَاتَّفَقُوا أنه لَا يجوز أَن يكون على الْمُسلمين فِي وَقت وَاحِد فِي جَمِيع الدُّنْيَا امامان لَا متفقان وَلَا مفترقان وَلَا فِي مكانين وَلَا فِي مَكَان وَاحِد ۔ ترجمہ: اہل علم کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ یہ بالکل بھی جائز نہیں کہ مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں پوری دنیا میں دو خلیفہ ہوں، چاہے وہ آپس میں متفق ہوں، چاہے اختلاف کرنے والے ہوں، چاہے دو مختلف علاقوں میں ہوں، چاہے ہی ایک ہی علاقہ میں ہوں۔ اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب "السنن الکبری" میں باقاعدہ "باب لا يصلح إمامان في عصر واحد" ترجمہ: ایک ہی وقت میں دو مسلمان خلفاء کا ہونا جائز نہیں ہے، کے نام سے باب باندھ کر اس کے ذیل میں احادیث نقل کرتے ہیں۔
۶۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔”
خلیفہ سے مراد وہ مسلمان حکمران ہے جو اللہ کے بندوں کے مابین اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے کرے۔ اللہ عزوجل سورۃ ص [آیت۲۶] میں فرماتے ہیں: يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ۔ ترجمہ: اے داود علیہ السلام! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے تا کہ آپ لوگوں کے مابین حق کےساتھ فیصلے فرمائیں۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب "مسند احمد" میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں: "فَقَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ " ثُمَّ سَكَتَ ۔ ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ عزوجل چاہیں گے۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، نبوت کو اٹھا لیں گے۔ پھر نبوت کے منہاج پر خلافت قائم ہو گی، پس یہ خلافت علی منہاج النبوۃ جب تک اللہ چاہیں گے، قائم رہے گی۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، اس خلافت علی منہاج النبوۃ کو اٹھا لیں گے۔ پھر کاٹ کھانے والی ملوکیت آئے گی اور یہ ملوکیت جب تک اللہ عزوجل چاہیں گے، باقی رہے گی۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، اس کاٹ کھانے والی ملوکیت کو بھی اٹھا لیں گے۔پھر جبری ملوکیت قائم ہو گی اور اللہ عزوجل جب تک چاہیں گے، یہ جبری ملوکیت قائم رہے گی۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، اس جبری ملوکیت کو اٹھا لیں گے۔ اس کے بعد ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
البتہ اس میں اختلاف ممکن ہے کہ کاٹ کھانے والی اور جبری ملوکیت کے ادوار کون سے ہیں؟ اور ان ادوار کے بعد قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور کون سا ہے؟ لیکن اس میں کوئی شک وشبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ ایک ایسا عادلانہ سیاسی نظام ہے کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو دے کر گئے اور ظلم وجور کے نظام کے بعد ایک بار پھر اس کے آنے کی خوشخبری دے کر گئے ۔
۷۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“یہ بات سب نے کہی اور ہم بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہو جائے تو اس سے خروج ایک بدترین جرم ہے۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے اور اہل سنت والجماعت کی عقیدے کی کتب میں یہی لکھا ہوا ہے اور یہی ائمہ وفقہائے دین کی رائے ہے کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف خروج جائز نہیں ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "العقیدۃ الطحاویۃ" میں فرماتے ہیں: ولا نرى الخروج على أئمتنا وولاة أمورنا وإن جاروا، ولا ندعوا عليهم، ولا ننزع يداً من طاعتهم، ونرى طاعتهم من طاعة الله عز وجل فريضة، ما لم يأمروا بمعصية، وندعوا لهم بالصلاح والمعافاة. ترجمہ: اور ہم اپنے حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے، چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں۔ اور نہ ہم ان کے خلاف بدعا کرنے کے قائل ہیں۔ اور نہ ہی ہم ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں، اور ہم ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کی طرح فرض سمجھتے ہیں جب تک کہ وہ کسی معصیت کا حکم نہ دیں۔ اور ہم ان کے لیے اصلاح اور معافی کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
۸۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے، جس طرح کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انہیں ایک قوم ہونا چاہیے، بلکہ یہ کہا گیا کہ انما المومنین اخوۃ [مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں]۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ وہ دسیوں اقوام، ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس لئے یہ تقاضا تو ان سے کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، ان کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں ان کے کام آئیں، وہ مظلوم ہوں تو ان کی مدد کریں، معاشی اور معاشرتی روابط کے لیے ان کو ترجیح دیں اور ان پر اپنےدروازے کسی حال میں بند نہ کریں، مگر یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہو کر لازما ایک ہی قوم اور ایک ریاست بن جائیں۔”
یہاں غامدی صاحب کی کچھ بات درست ہے کہ مسلمانوں کو قرآن وحدیث میں کہیں بھی ایک قوم نہیں کہا گیا اور مسلمان ایمان کے رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ "قومیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بنتی"، یہ بات درست ہے۔ قرآن مجید میں ہر نبی نے اپنے مخاطبین کو"یا قوم" کے خطاب سے اپنی قوم قرار دیا حالانکہ مخاطبین نبی کے دین پر نہیں تھے۔ اسی طرح قرآن مجید نے مشرکین مکہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قرار دیا ہے۔ پس یہ بات درست ہے کہ قومیں جغرافیائی حدود کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ اسلام میں قومیت کی بجائے "امت" اور "ملت" کا تصور ہے۔ اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک قوم نہیں بلکہ ایک "امت" اور "ملت" قرار دیتا ہے جیسا کہ پوری دنیا کے کافر ایک "امت" یا "ملت" ہیں، چاہے ان کی قومیں مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ [۱۴۳] میں ارشاد ہے: وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ترجمہ:اور ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر شہادت قائم کرو۔ ایک اور جگہ سورۃ آل عمران [۱۱۰]میں مسمانوں کو "خیر امت" کہا گیا ہے وعلی ہذا القیاس۔ اسی طرح قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ اپنی کتاب "الآثار" میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ سے نقل کرتے ہیں: «الْكُفْرُ كُلُّهُمْ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ » ترجمہ: عالم کفر سب کا سب ایک ہی ملت ہے۔ پس ایمان کے رشتے کی بنیاد پرمسلمانوں میں "اخوت"بھی قائم ہوئی اور "امت وملت" بھی۔ "اسلامی اخوت" کی اصطلاح میں مسلمانوں کی باہمی معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کا تصور ہے جبکہ "امت مسلمہ" یا" ملت اسلامیہ" کی اصطلاح میں "سیاست شرعیہ" کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ غامدی صاحب نے اپنے حافظے سے سورۃ الحجرات [۱۳] کی جو یہ آیت نقل کی ہے: "إنما المؤمنين إخوة" تو اس کا صحیح رسم "إنما المؤمنون إخوة" ہے۔
۹۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، ان کے عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی کہا جا سکتا ہے لیکن اس کے حاملین چونکہ قرآن وحدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔”
یہ مسئلہ بہت اہم ہے کہ جس پر غامدی صاحب نے کلام کیاہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی مشق نے امت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور مولانا ابولکلام آزاد رحمہ اللہ کے بقول چودہ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے جتنے ایک صدی میں فتووں سے کافر بنا دیے ہیں۔ لیکن تکفیر کے اس فتنے کا حل یہ نہیں ہے کہ یہ بیانیہ تیار کیا جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا، چاہے وہ قرآن مجید سے اپنے مذہبی پیشوا کی نبوت ثابت کر لے،یا چاہے الوہیت،چاہے وہ کتاب الہی سے ہمہ اوست ثابت کر دکھائے، چاہے ضروریات دین اور ارکان اسلام کا ہی انکار کر دے۔ اس فتنے کا صحیح حل یہی ہے کہ عام مفتیوں اور علماء کو قانوناً اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ تکفیر کے بارے کوئی فتوی جاری نہ کر سکیں۔ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح کا کوئی ایسا حکومتی ادارہ ہو کہ جس میں ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کی نمائندگی ہو، اور جب تک کسی متعین شخص یا گروہ یا جماعت کی تکفیر پر ان نمائندہ علماء کا اتفاق نہ ہو، اور یہ اہل علم ملک کی اعلی عدالت مثلا ً سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ میں مخالف فریق پر اس کی غلطی واضح نہ کر دیں اور اس بارے اعلی عدالت کا کوئی فیصلہ جاری نہ ہو جائے، اس وقت تک کسی کلمہ گو کی تکفیر قانوناً جرم قرار دی جائے۔ البتہ کسی کے کفرکو کفر اور شرک کو شرک قرار دینا ،تو اس کی اجازت ہر صاحب علم کے لیے ہونی چاہیے جیسا کہ غامدی صاحب بھی اس بات سے متفق ہیں۔
۱۰۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“علماء کا حق ہے کہ ان کی غلطی ان پر واضح کریں، انہیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، ان کے عقائد ونظریات میں کوئی چیز شرک ہے تو اسے شرک اور کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اس پر متنبہ کریں، مگر ان کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا انہیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اس لئے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن وحدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔”
یہاں اصل میں دو چیزیں خلط ملط ہو رہی ہیں۔ ایک ہے اہل علم کا کسی کے بارے فتوی جاری کرنا کہ وہ دین اسلام سے خارج ہو گیا ہے اور ایک ہے کسی شخص کا اللہ کے ہاں کافر قرار پانا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اہل علم کی ایک جماعت کسی شخص کودنیا میں کافر قرار دے گی تو ضروری نہیں ہے کہ وہ عند اللہ بھی کافر ہو کیونکہ یہ اہل علم کا اجتہاد ہے اور اجتہاد میں خطا کا پہلو بھی ہو سکتا ہے اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی اجتہاد میں خطا کا پہلو کم ہو جاتا ہے ۔پس اہل علم اگر کسی پر فتوی لگائیں گے تو وہ دنیا کے اعتبار سے ہو گا۔ اور دنیا میں یہ فتوی "سد الذرائع" کے اصول کے تحت لگایا جائے گا تا کہ دین کی حفاظت ہو۔ اور فتوی کا لفظ بھی "فتوۃ" سے ہے کہ جس کے معنی "نوجوانی" کے ہیں۔ پس جب کسی معاشرے میں عقیدے اور عمل کے رستے ایسا بے گاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس سے معاشرہ روحانی اور دینی طور اضمحلال کا شکار ہو جائے تو اس وقت "فتوی" کے ذریعے اسے دوبارہ قوت مہیا کی جاتی ہے۔لیکن یہ بات درست ہے کہ فتوی کا ہمارے معاشروں میں ایسا غلط استعمال بہت زیادہ ہے کہ جسے روکنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن کسی شیء کےغلط استعمال کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نفس امر میں وہ شیء غلط ہے۔
۱۱۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں، لیکن ان کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔”
شرک اور کفر کی حد تک تو بات درست ہے کہ اس کی سزا آخرت میں ہی ملے گی جیسا کہ سورۃ البقرۃ [۲۵۶] میں ارشاد باری تعالی ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ۔ ترجمہ: دین میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔ پس کسی شخص کو مسلمان بننے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن "ارتداد" ایک علیحدہ اصطلاح ہے۔ "ارتداد "سے مراد کسی مسلمان کا دین اسلام سے پھر جانا ہے۔ دین اسلام، ارتداد کو اسلامی ریاست سے ایک بغاوت قرار دیتا ہے لہذا اس کی سزا قتل تجویز کرتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "مسند الشافعی"، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "مسند احمد" اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کے بارے یہ ارشاد نقل کیا ہے: «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ» ترجمہ: جو اپنا دین تبدیل کر لے تو اسے قتل کر دو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے بھی اس مضمون کی روایت اپنی کتاب "الموطا" میں نقل کی ہے۔ البتہ فقہاء نے یہ نقل کیا ہے کہ جو مسلمان دین اسلام سے پھر جائے گا، پہلے اسے قید کیا جائے گا اور کے اعتراضات اور شکوک وشبہات کو رفع کر کے اس پر حجت قائم کی جائے گی، اس کے بعد اس پر یہ سزا نافذ کی جائے گی۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اسے ریاست نے امان اسی کلمے کی بنیاد پر دی تھی کہ جس کلمے کی اطاعت کو اس نے اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ اسی طرح چونکہ وہ ذمی بھی نہیں ہے کہ اسے جزیہ کی وجہ سے امان حاصل ہوئی ہے لہذا اس کا یہ عمل جب تک اسلامی ریاست کی حدود میں ہو تو اطاعت کے قلادے کو اتار پھینکنے کی وجہ سے سراسر بغاوت پر مبنی عمل ہے ۔
۱۲۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اس میں شبہ نہیں کہ جہاد اسلام کا حکم ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ ان کے پاس طاقت ہو تو وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ کریں۔ قرآن میں اس کی ہدایت اصلا فتنہ کے استحصال کے لئے کی گئی ہے۔ اس کے معنی کسی شخص کو ظلم وجبر کے ساتھ اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے ہیں۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں (persecution) کہا جاتا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ حکم ان کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحثیت جماعت دیا گیا ہے۔”
غامدی صاحب نے یہاں جہاد کا مقصد درست بیان کیا ہے کہ وہ ظلم وعدوان کا خاتمہ ہے۔ پس جہاد کا حکم لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لیے نہیں بلکہ ظلم وزیادتی کے خاتمے کے لیے ہے۔ لیکن ظلم سے مراد صرف وہی ظلم نہیں ہے کہ جو کسی شخص کو اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کے لیے کیا جائے بلکہ ظلم میں ہر قسم کا ظلم شامل ہے۔خلفائے راشدین کے دور میں جس قدر اقدامی جہاد ہوا ہے مثلا ً روم وفارس سے جو جہاد ہوا تو وہاں کون سے مسلمان موجود تھے کہ جن پر ہونے والے ظلم کے جواب میں یہ جہاد جاری کیا گیا۔ اس جہاد کا مقصد اس ظلم کا خاتمہ تھا جو اہل روم اور اہل فارس اپنی اقوام پر کر رہے تھے۔ امام ابن جریرطبری نے اپنی کتاب "تاریخ الرسل والملوک" میں مسلمانوں کے سفیر عامر بن ربعی رضی اللہ عنہ کا ایرانی سپہ سالار رستم کے دربار میں جو مکالمہ نقل کیا ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے:اللَّهُ ابْتَعَثَنَا، وَاللَّهُ جَاءَ بِنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ، وَمِنْ ضِيقِ الدُّنْيَا إِلَى سِعَتِهَا، وَمِنْ جَوْرِ الأَدْيَانِ إِلَى عَدْلِ الإِسْلامِ، فَأَرْسَلَنَا بِدِينِهِ إِلَى خَلْقِهِ لِنَدْعُوَهُمْ إِلَيْهِ، فَمَنْ قَبِلَ مِنَّا ذَلِكَ قَبِلْنَا ذَلِكَ مِنْهُ وَرَجَعْنَا عَنْهُ، وَتَرَكْنَاهُ وَأَرْضَهُ يَلِيهَا دُونَنَا، وَمَنْ أَبَى قَاتَلْنَاهُ أَبَدًا، حَتَّى نُفْضِيَ إِلَى مَوْعُودِ اللَّهِ. ترجمہ: "اللہ نے ہمیں بھیجا ہے، اور اللہ ہمیں تمہارے پاس اس لیے لائے ہیں کہ ہم اللہ کے حکم سے اس کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کریں، اور انہیں دنیا کی تنگی سے اس کی کشادگی کی طرف لےجائیں، اور انہیں مذاہب عالم کے ظلم وجور سےنکال کر اسلام کے عدل میں داخل کر دیں۔پس اللہ عزوجل نے اپنا دین دے کر ہمیں اپنی مخلوق کی طرف بھیجا تا کہ ہم انہیں اللہ کی طرف دعوت دیں۔ پس جس نے یہ دعوت قبول کر لی تو ہم بھی اس کے اسلام کو قبول کریں گے اور یہاں سے واپس لوٹ جائیں گے۔ نہ صرف انہیں چھوڑ دیں گے بلکہ ان کی زمین بھی انہی کے پاس رہنے دیں گے۔ اور جس نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ہم اس سے ہمیشہ کے لیے جنگ کریں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کے وعدے کو پا لیں"۔ پس اسلام میں جہاد کا مقصود صرف مسلمان پر ظلم کاخاتمہ نہیں بلکہ انسانوں پر سے ظلم کا خاتمہ ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ انسانوں پر سے ظلم کا یہ خاتمہ وہی مسلمان کر سکتے ہیں جو خود ظالم نہ ہوں۔
۱۳۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اسلام جس جہاد کاحکم دیتا ہے،وہ خدا کی راہ میں جنگ ہے، اس لئے اخلاقی حدود سے بےپروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اسلام عین میدان جنگ میں بھی ہمیں اخلاقیات کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کا سختی سے حکم جاری کرتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب "الموطا"، امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب "مسند الشافعی"، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب "مسند احمد" اور امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں ایسی احادیث لائے ہیں کہ جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عین حالت جنگ میں بھی غیر مسلم بچوں اورعورتوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا۔
۱۴۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“یہ بالکل قطعی ہے کہ جہاد صرف مقاتلین (combatants) سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کا قانون یہی ہے کہ اگر کوئی زبان سے حملہ کرے گا تو اس کا جواب زبان سے دیا جائے گا، لڑنے والوں کی مالی مدد کرے گا تو اس کو مدد سے روکا جائے گا، لیکن جب تک وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنے کے لیے نہیں نکلتا، اس کی جان نہیں لی جا سکتی۔ یہاں تک کہ عین میدان جنگ میں بھی وہ اگر ہتھیار پھینک دے تو اسے قیدی بنایا جائے گا، اس کے بعد اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔”
یہ بات درست ہے کہ جہاد صرف مقاتلین سے ہی ہو گا لیکن مقاتلین کی جو تعریف غامدی صاحب نے بیان کی ہے، وہ قابل نظر ہے۔ مقاتلین صرف ہتھیار اٹھانے والے نہیں ہوتے بلکہ مقاتلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو جنگ میں شریک ہوں، چاہے ہتھیار اٹھا کر ، چاہے ہتھیار چلا کر۔ آج کل کی صورت حال میں کسی بھی ملک کی سیکورٹی فورسز ، آرمی، نیوی اور فضائیہ میں ہتھیار چلانے والے یا دوبدو لڑنے والے توکم ہی ہوتے ہیں، باقی ایک بڑی تعداد تو ان کے معاونین کی ہوتی ہے۔
۱۵۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“دور حاضر کے مغربی مفکرین سے صدیوں پہلے قرآن نے اعلان کیا تھا کہ امرھم شوری بینھم [مسلمانوں کا نظم اجتماعی ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہو گا] اس کے صاف معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی حکومت ان کے مشورے سے قائم ہو گی۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے گا۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے۔”
مسلمانوں کی حکومت آپ مشورے سے وجود میں لے آئیں، کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن مشورہ دینےمیں سب کے حقوق برابر ہوں گے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ مسئلہ کی نوعیت کو دیکھیں گے۔ اگر تو مسئلہ قومی ہے تو قوم سے مشورہ لیا جائے اور اگر علمی ہے تو اہل علم سے مشورہ کیا جائے اور فنی ہے تو اہل فن سے مشورہ لیا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر ، احد اور خندق کی جنگوں میں عام مشورہ لیا کیونکہ مسئلہ قومی تھا کہ قوم نے ہی لڑنا تھا لہذا اسی سے مشورہ کیا گیا۔
۱۶۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“جدید ریاست میں پارلیمان کا ادارہ اسی مقصد سے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے نظام میں آخری فیصلہ اسی کا ہے اور اس کا ہونا چاہیے…علماء ہوں یا ریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالا تر نہیں ہو سکتا۔”
ریاست میں پارلیمان کے ادارے کو "شوری" بنا لیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ریاست کے نظام میں آخری سند پارلیمان ہے۔ اسلامی ریاست کے نظام میں آخری سند (supreme authority) کتاب وسنت ہیں جو تمام شہریوں کے دنیوی ودینی جملہ حقوق کی ادائیگی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ پارلیمان کو بھی یہ ثابت کرنا ہو گا کہ نظام کی جو تعبیر اور صورت وہ پیش کر رہی ہے، وہ ظلم وزیادتی پر مبنی نہیں ہے۔ اور اگر پارلیمان کی کسی تعبیر سے شہریوں کے دنیوی یا دینی حقوق متاثر ہوں گے، تو انہیں اعلی عدلیہ کی طرف رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اب اعلی عدلیہ اس بارے فیصلہ کرے گی کہ پارلیمان کا وضع کیا گیا نظام کہیں کتاب وسنت کے منافی تو نہیں ہے؟ اگر اعلی عدلیہ یہ فیصلہ کر دے کہ پارلیمان کا وضع کردہ نظام کتاب وسنت کے منافی نہیں ہے تو اس کا فیصلہ ہردو فریقین پر لاگو ہو گا۔
۱۷۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے اس سے ہٹ کر جو حکومت قائم کی جائے گی، وہ ایک ناجائز حکومت ہو گی، خواہ اس کے سربراہ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں یا اسے امیر المومنین کے لقب سے نواز دیا جائے۔”
فریق مخالف کا مشورہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کو اپنی رائے میں عاجز ہونا چاہیے۔ اگر وہ بھی فتوی کی زبان اور ترش اسلوب میں بات کرنا شروع کر دیں گے تو پھر انہیں اپنے ناقدین سے اسی قسم کے اسلوب بیان کا شکوہ رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو گا ۔ سوسائٹی میں علمی مکالمہ ہونا چاہیے لیکن اس قسم کے الفاظ علمی مکالمہ کی بجائے ردعمل کی نفسیات کو جنم دیتے ہیں۔
۱۸۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“مسلمانوں کی حکومت اگر کسی جگہ قائم ہو تو اس سے بالعموم نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تعبیر مغالطہ انگیز ہے، اس لئے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے حالانکہ قرآن وحدیث میں یہ حق کسی حکومت کے لئے بھی ثابت نہیں ہے…اسلامی شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں، ایک جو فرد کو بحیثیت فرد دیئے گئے ہیں، اور دوسرے جو مسلمانوں کے معاشرے کو دیئے گئے ہیں، پہلی قسم کے احکام خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ اس میں کسی حکومت کے سامنے نہیں بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہذا دنیا کی کوئی حکومت اسے مثال کے طو پر، روزہ رکھنے یا حج عمرہ کے لئے جانے یا ختنہ کرانے یا مونچھیں پست رکھنے اور وہ اگر عورت ہے تو سینہ ڈھانپنے، زیب وزینت کی نمائش نہ کرنے یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتی۔ اس طرح کے معاملات میں تعلیم وتربیت اور تلقین ونصحیت سے آگے اس کے کوئی اختیارات نہیں ہیں الا یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان، ومال آبرو کے خلاف زیادتی کا اندیشہ نہ ہو۔ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے…رہے دوسری قسم کے احکام تو وہ درحقیقت دیئے ہی حکومت کو گئے ہیں۔ اس لئے کہ اجتماعی معاملات میں وہی معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے۔ علماء ارباب حل وعقد سے ان پر عمل کا مطالبہ کریں تو یقینا حق بجانب ہوں گے اور اپنے منصب کے لحاظ ان کو کرنا بھی چاہیے۔ مگر یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے، نفاذ شریعت کی تعبیر اس کے لئے بھی موزوں قرار نہیں دی جا سکتی۔”
غامدی صاحب نے دینی احکام کی جو دو قسمیں بیان کی ہیں، تو ان کی یہ تقسیم درست ہے۔پہلی قسم کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ ان احکامات میں بندہ صرف اپنے پرودگار کو جواب دہ ہے الا یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان ومال یا آبرو کے خلاف زیادتی ہو۔ یہ بات بھی درست ہے لیکن اس میں ایک ضروری اضافے کے بغیر بات نامکمل ہے اور وہ اضافہ یہ ہے کہ اگر اس کے کسی فرد کے عمل سے معاشرے میں فتنہ اور فساد کی راہ کھلے گی تو اسے قانوناً روکا جائے گا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ایک عورت کو سینہ ڈھانپنے یا اسکارف پہننے لیے مجبور نہیں کر سکتی ہے تو کیا حکومت اس کےبے لباس (nude)ہوکر مقامی مقامات پر گھومنے پھرنے کی صورت میں بھی صرف وعظ ونصیحت پر اکتفا کرے گی؟ اور اس صورت میں کسی کی کیا حق تلفی ہوتی ہے یا جان ومال کو نقصان پہنچتا ہے؟ پس صحیح موقف یہ ہے کہ حکومت ہر ایسے کام سے روکے گی اور اسے روکنا بھی چاہیے کہ جو معاشرے میں کسی بھی قسم کےدینی، اخلاقی یا روحانی بگاڑ کا سبب بنے۔
۱۹۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“مسلمان اپنے حکمرانوں کی رعایا نہیں، بلکہ برابر کے شہری ہوں گے اور قانون اور ریاست کی سطح پر ان کے بڑے اور چھوٹے اور شریف اور وضیع کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا ان کے جان ومال اور آبرو کو حرمت حاصل ہو گی، یہاں تک کہ حکومت ان کی رضامندی کے بغیر زکوۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی ان پر عائد نہیں کر سکے گی۔”
بہت ہی معتدل اور عمدہ بات ہے کہ اسلامی ریاست میں عام مسلمان اور حکمران برابر کے شہری ہوں گے اور حکومت شہریوں کی مرضی کے بغیر ان پر کسی بھی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کر سکے گی۔
۲۰۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف انہی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے ان کے لئے مقرر کر دیئے جائیں گے۔ ان کا منبر حکمرانوں کے لئے خاص ہو گا۔ وہ خود ان نمازوں کا خطبہ دیں گے اور ان کی امامت کریں گے یا ان کی طرف سے ان کا کوئی نمائندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کی حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر ان نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔”
حکمران ضرور نماز پڑھائیں لیکن بات یہ ہے کہ وہ علمی، اخلاقی اور روحانی طور پر اپنے آپ کو اس کا اہل بھی تو ثابت کریں ناں۔ اگر موجودہ صورت حال میں اس تجویز پر عمل کر لیا جائے تو دین چھوڑ معاشرہ بھی ایک تماشہ بن جائے گا۔ اب اگر جناب زرداری صاحب دارالعلوم کراچی میں عید کی نماز پڑھائیں اور مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب ان کے مقتدی ہوں، جناب نواز شریف صاحب بادشاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں اور مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب ان کے سامع ہوں اور جناب عمران خان صاحب فیصل مسجد کےامام ہوں اور مولانا فضل الرحمن ان کے مقتدی تو کیا سین پارٹ ہو گا؟ اور پھر جہاں جناب الطاف بھائی کا خطبہ ہو گا اور جناب رحمان ملک کی تلاوت تو مقتدیوں کے پاس کیا نماز قضاء کرنے کے علاوہ بھی کوئی چارہ ہو گا؟ جناب عرض ہے کہ کیوں ایسی بےکار کی تجویزیں پیش کی جائیں کہ جن سے نماز جیسا اہم رکن دین ایک تماشہ بن کر رہ جائے۔ باقی اصلاح ہر طبقے کی ہونی چاہیے، اس سے کس کو انکار ہے؟ لیکن جس طرح سیاست دانوں کی اصلاح کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں ڈاڑھی والے بھرتی کر لیے جائیں، اسی طرح مولویوں کی اصلاح کا یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ منبر ومحراب پر سیاست دانوں کو بٹھا دیا جائے۔ "لکل فن رجال"، ہر فن کے اپنے لوگ ہوتے ہیں جو اسے بہتر جانتے ہیں اور بہتر طور چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لہذا رجال کی اصلاح کی خواہش کا اظہار ان کی تربیت کا کوئی نظام قائم تجویز کر کے ہونی چاہیے نہ کہ اکھاڑ پچھاڑ کے رستے۔
۲۱۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے ہوں گے۔ چنانچہ معاشرے میں سے صالح ترین افراد ان اداروں کے لئے کارکنوں کی حیثیت سے منتخب کئے جائیں گے وہ لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں گے اور ان سب چیزوں سے روکیں گے جنہیں انسان ہمیشہ سے برائی سمجھتا رہا ہے۔ تاہم قانون کی طاقت اسی وقت استعمال کریں گے، جب کوئی شخص کسی کی حق تلفی کرے گا یا اس کی جان ومال یا آبرو کے خلاف کسی اقدام کے درپے ہو گا۔”
غامدی صاحب کی یہ تجویز اچھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کریں۔ اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ صالح ترین افراد کا انتخاب کیا جائے۔ لیکن قانون کی طاقت استعمال کرنے کی صورتوں میں یہاں بھی ہم وہی اضافہ کریں گے جو پیچھے کر چکے ہیں کہ اُس صورت میں بھی یہ ادارے قانون کی طاقت استعمال کریں گے کہ جس سے معاشرے میں کسی بھی قسم کے فتنہ یا فساد کے پھیل جانے کا اندیشہ ہو۔
۲۲۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“ قتل اورفساد فی الارض کے سوا موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دی جائے گی۔ نیز ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہو جائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو اس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیں گی جو اللہ تعالی نے اسلام کی دعوت کو پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قبول کر لینے کے بعد ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اپنی کتاب میں مقرر کر دی ہیں۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ قتل اور فساد فی الارض میں موت کی سزا دی جائے لیکن اس کے علاوہ بھی بعض جرائم ایسے ہیں کہ جن کی سزا شریعت اسلامیہ میں موت مقرر کی گئی ہے جیسا کہ شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں اور ان کا یہ جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا بھی رجم ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب کی طرف سے زنا، چوری، قتل اور قذف کے جرائم میں بیان کردہ قرآنی سزاوں کے نفاذ کی بات بھی قابل تعریف ہے ۔ بس ان جرائم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جرم کا اضافہ فرمایا اور وہ شراب نوشی ہے۔ شراب نوشی کی صورت میں بھی چالیس یا اسی کوڑوں کی سزا جاری کی جائے گی جیسا کہ دونوں طرح کی روایات موجود ہیں ۔ اور مجرم کے جرم پر اصرار اور اس جرم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فساد کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے جج ان دونوں میں سے کوئی بھی سزا نافذ کر سکتا ہے۔
۱۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں۔
“اس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اسی فکر کا نتیجہ ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب وروز کرتی ہیں۔”
ہمیں اور نہ ہی اہل مدرسہ کو انتہا پسند تنظیموں کے افکار واعمال سے اتفاق ہے جبکہ غامدی صاحب کا یہ بیان مدارس دینیہ، اسلامی تحریکوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں پر ایک الزام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خود غامدی صاحب جو مدرسہ کے نظام ونصاب سے نہیں گزرے،وہ یہ کیسے طے کر سکتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں وہ سب کچھ پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے جو تحریک طالبان پاکستان یا القاعدہ کے افکار ونظریات ہیں۔ غامدی صاحب کا یہ دعوی اسی طرح کا دعوی ہے جو مدرسے کا ایک فارغ التحصیل پاکستانی یونیورسٹیوں کے بار ے یہ کہہ کر کرے کہ یہاں تو الحاد پڑھایاجاتا ہے۔ اگر مدارس دینیہ اور اسلامی تحریکوں میں یہ سب کچھ پڑھایا جاتا ہوتا تو یہ عملی انتہاپسندی آپ کو ایوب، بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار میں بھی نظر آتی۔ پاکستان میں انتہا پسند عناصر ان تحریکوں کی کوکھ سے برآمد ہوئے جنہیں امریکہ نے پاکستانی آمروں کے تعاون سے روس کے خلاف کھڑا کیا۔ پس عملی انتہا پسندی کے مسئلے کا حل دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی یا اسلامی تحریکوں کے افکار پر پابندی سے کسی صورت حاصل نہ ہو گا کیونکہ یہ اس کی اصل وجہ ہے ہی نہیں۔ اگر ہم ملک پاکستان کو انتہاپسند عناصر کے چنگل سے نکالنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں وہ وجوہات ختم کرنی ہوں گے جو امر واقعی میں انتہا پسندوں کے کارخانے قائم کیے چلی جا رہی ہیں۔ اور انتہاپسند عناصر کے کارخانے لگنے کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ ۱۹۸۰ ء سے جنوبی ایشیا میں امریکی پالیسی اور فورسز کی اپنے مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے موجودگی اور ہمارا بحثیت قوم انہیں خوش آمدید کہنا اور ان کےہاتھوں کبھی جہاد اور کبھی امن کے نام پر استعمال ہوناہے۔
۲۔ محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اس کے بالمقابل اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔”
ہمیں غامدی صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ جب معاشرے میں اسلام کے نام پر فساد پیدا کر دیا جائے تو اس کا جواب "سیکولرازم کی تبلیغ" نہیں ہے بلکہ فساد برپا کرنے والی مذہبی فکر کا جوابی بیانیہ تیار کرناہے۔ پس کسی معاشرے کے لیے یہ صحت مند رویہ نہیں ہے کہ انتہاپسندوں کے فکر یا ان کی کاروائیوں کے ردعمل میں دین اسلام ہی سے اس لیے بیزار ہو جائے کہ وہ اس قسم کی فکر یا کاروائیوں کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں بلکہ صحیح رویہ ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ یہ اسلامی فکراور دینی عمل نہیں ہے۔ یہ ایک معتدل اور عمدہ بات ہے۔ جزاکم اللہ خیرا۔ لیکن دیگر اصحاب علم وفضل کا کہنا یہ ہے کہ اس پر تو بحث ہو سکتی ہے ناں کہ جناب غامدی صاحب نے جو "جوابی بیانہ" تیار کیا ہے، اسے بھی"سیکولرازم کی تبلیغ" میں ہی رکھا جائے یا وہ امر واقعی میں اس سے ہٹ کر ایک "جوابی بیانیہ" ہے۔
۳۔ محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“لہذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے۔ یہ بات ریاست کی تعریف ہی کے خلاف ہے۔ ریاست کے ارکان(pillars) میں علاقہ (territory)، آبادی (population)، حکومت (government)کے علاوہ اقتدار اعلی (sovereignty)بھی شامل ہے جبکہ حکومت کے ارکان میں پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ شامل ہے اور اب بعض ماہرین سیاسات میڈیا کو بھی اس کا ایک رکن قرار دیتے ہیں۔ پس علم سیاسیات (political science)میں ریاست کا کوئی ایسا تصور موجود نہیں ہے کہ جس میں اقتدار اعلی (sovereignty) کو اس سے علیحدہ کیا جا سکے۔ مانا کہ ریاست اور حکومت میں فرق ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا لیکن اقتدار اعلی (sovereignty) کو طے کیے بغیر کوئی ریاست، ریاست کہلانے کی مستحق بھی نہیں ہے۔ اور مسلمانوں کی ایک ریاست میں یہ مقتدر اعلی (sovereign) اور مختار اعلی (supreme authority) کتاب وسنت کے علاوہ کسے بنایا جا سکتا ہے؟
۴۔ محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کر لیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہو سکتا ہے اور ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے۔صحیح مسلم کی روایت ہے: «إِذَا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ فَاقْتُلُوا الْآخَرَ مِنْهُمَا» کہ جب دو خلیفوں کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کر دو ۔ ہم یہ وضاحت کرتے چلیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرے خلیفہ کو قتل کرنے کا حکم اس صورت میں ہے جبکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا خلیفہ ایک ہی ہو جیسا کہ شروع اسلام میں مسلمانوں کی ایک ہی اجتماعیت تھی۔ اب جبکہ مسلمانوں چھوٹی چھوٹی پچاس سے زائد ریاستوں میں تقسیم ہو چکے تو اس حدیث کے مقصد پر عمل کی طرف امت کو راغب کیا جائے گا اور وہ مقصد ہے مسلمانوں کی عالمی اجتماعیت کا قیام ۔ پس موجودہ اسلامی ریاستوں کو ایک "اسلامی ریاست ہائے متحدہ" کے قیام کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے، یہ ایک دینی حکم ہے۔ اگر یہ دینی حکم نہ ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی اجتماعیت کو تقسیم کر نے پر قتل کا حکم جاری کیوں فرماتے؟ اسی طرح اگر "ریاست ہائے متحدہ امریکہ" کا وجود میں آنا ان ریاستوں کے لیے سیاسی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سےمفید ہو سکتا ہے تو "اسلامی ریاست ہائے متحدہ" کے مسلم امت کے لیےان کے اجتماعی پہلووں سے مفید ہونے میں کیا بحث ہو سکتی ہے؟ اور کیا ہمارا دین جو ایک فرد کے ذاتی اور جزوی فائدے کا بھی لحاظ کرتے ہوئے احکام جاری کرتا ہے، اس دین میں اس چیز کا حکم ہی نہ ہو گا کہ جس میں پوری امت کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مفادات موجود ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ تعبیر بہت ہی قابل تعجب ہے۔
۵۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“پہلی صدی ہجری کے بعد ہی، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہاء ان کے درمیان موجود تھے، ان کی دو سلطنتیں، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام پر قائم ہو چکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر ان میں سے کسی نے اسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا ۔”
اس بارے ہمارا کہنا یہ ہےکہ ایک ہے امر واقعی اور ایک امر شرعی۔ امر شرعی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ انہیں اپنے بعد ایک ہی خلیفہ مقرر کرنے اور صرف اسی کی بیعت کرنے کا حکم جاری کیا جیسا کہ اوپر روایت گزر چکی۔ امر واقعی یہ ہے کہ مسلمان امت تفرقے میں پڑ کر تقسیم ہو گئی۔ عراق میں بنو عباس، مصر میں فاطمی اور اندلس میں اموی حکومت قائم ہوئی۔ فقہاء نے اس تقسیم کے قائم ہو جانے کے بعد امت کے لیے اپنے علاقوں کے مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کو ترجیح دی لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی ہی تھا کہ وہ امت کے بٹ جانے کو شرعی بھی سمجھتے تھے۔فقہاء کیسے اس تقسیم پر راضی ہو سکتے تھے جبکہ وہ جانتے تھے کہ یہ مسلمانوں میں باہمی جنگ وجدال اور قتل وغارت گری کی بنیاد ہے۔ اور بنوعباس اور بنو امیہ، عباسی اور فاطمی دشمنی اور قتل وغارت گری کی داستانیں کس پر واضح نہیں ہیں؟ اور مسلمانوں کی اسی باہمی قتل وغارت گری کے نتیجے میں ہی تو بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی ہے اور دیگر حکومتیں بھی اسی طرح سےقائم ہوئی ہیں۔ کیا کہنا کوئی مناسب بات ہو گی کہ اسلام باہمی قتل وغارت گری کے ذریعے مسلم امت کی تقسیم کو جائز قرار دیتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر غامدی صا حب کو تاریخ کے صفحات سے یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ بنوعباس اور بنو امیہ اور اس کےبعد بھی مسلمانوں کی یہ تقسیم کسی باہمی صلح وصفائی کا نتیجہ تھی۔ اندلسی فقیہ اور مجتہد امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب "مراتب الاجماع" میں لکھتے ہیں:وَاتَّفَقُوا أنه لَا يجوز أَن يكون على الْمُسلمين فِي وَقت وَاحِد فِي جَمِيع الدُّنْيَا امامان لَا متفقان وَلَا مفترقان وَلَا فِي مكانين وَلَا فِي مَكَان وَاحِد ۔ ترجمہ: اہل علم کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ یہ بالکل بھی جائز نہیں کہ مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں پوری دنیا میں دو خلیفہ ہوں، چاہے وہ آپس میں متفق ہوں، چاہے اختلاف کرنے والے ہوں، چاہے دو مختلف علاقوں میں ہوں، چاہے ہی ایک ہی علاقہ میں ہوں۔ اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی کتاب "السنن الکبری" میں باقاعدہ "باب لا يصلح إمامان في عصر واحد" ترجمہ: ایک ہی وقت میں دو مسلمان خلفاء کا ہونا جائز نہیں ہے، کے نام سے باب باندھ کر اس کے ذیل میں احادیث نقل کرتے ہیں۔
۶۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔”
خلیفہ سے مراد وہ مسلمان حکمران ہے جو اللہ کے بندوں کے مابین اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے کرے۔ اللہ عزوجل سورۃ ص [آیت۲۶] میں فرماتے ہیں: يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ۔ ترجمہ: اے داود علیہ السلام! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے تا کہ آپ لوگوں کے مابین حق کےساتھ فیصلے فرمائیں۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب "مسند احمد" میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں: "فَقَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ " ثُمَّ سَكَتَ ۔ ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان نبوت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ عزوجل چاہیں گے۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، نبوت کو اٹھا لیں گے۔ پھر نبوت کے منہاج پر خلافت قائم ہو گی، پس یہ خلافت علی منہاج النبوۃ جب تک اللہ چاہیں گے، قائم رہے گی۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، اس خلافت علی منہاج النبوۃ کو اٹھا لیں گے۔ پھر کاٹ کھانے والی ملوکیت آئے گی اور یہ ملوکیت جب تک اللہ عزوجل چاہیں گے، باقی رہے گی۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، اس کاٹ کھانے والی ملوکیت کو بھی اٹھا لیں گے۔پھر جبری ملوکیت قائم ہو گی اور اللہ عزوجل جب تک چاہیں گے، یہ جبری ملوکیت قائم رہے گی۔ پھر اللہ تعالی جب چاہیں گے، اس جبری ملوکیت کو اٹھا لیں گے۔ اس کے بعد ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
البتہ اس میں اختلاف ممکن ہے کہ کاٹ کھانے والی اور جبری ملوکیت کے ادوار کون سے ہیں؟ اور ان ادوار کے بعد قائم ہونے والی خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور کون سا ہے؟ لیکن اس میں کوئی شک وشبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ ایک ایسا عادلانہ سیاسی نظام ہے کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کو دے کر گئے اور ظلم وجور کے نظام کے بعد ایک بار پھر اس کے آنے کی خوشخبری دے کر گئے ۔
۷۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“یہ بات سب نے کہی اور ہم بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہو جائے تو اس سے خروج ایک بدترین جرم ہے۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے اور اہل سنت والجماعت کی عقیدے کی کتب میں یہی لکھا ہوا ہے اور یہی ائمہ وفقہائے دین کی رائے ہے کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف خروج جائز نہیں ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب "العقیدۃ الطحاویۃ" میں فرماتے ہیں: ولا نرى الخروج على أئمتنا وولاة أمورنا وإن جاروا، ولا ندعوا عليهم، ولا ننزع يداً من طاعتهم، ونرى طاعتهم من طاعة الله عز وجل فريضة، ما لم يأمروا بمعصية، وندعوا لهم بالصلاح والمعافاة. ترجمہ: اور ہم اپنے حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے، چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں۔ اور نہ ہم ان کے خلاف بدعا کرنے کے قائل ہیں۔ اور نہ ہی ہم ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں، اور ہم ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کی طرح فرض سمجھتے ہیں جب تک کہ وہ کسی معصیت کا حکم نہ دیں۔ اور ہم ان کے لیے اصلاح اور معافی کی دعا کرتے رہتے ہیں۔
۸۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے، جس طرح کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا انہیں ایک قوم ہونا چاہیے، بلکہ یہ کہا گیا کہ انما المومنین اخوۃ [مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں]۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ وہ دسیوں اقوام، ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس لئے یہ تقاضا تو ان سے کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، ان کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں ان کے کام آئیں، وہ مظلوم ہوں تو ان کی مدد کریں، معاشی اور معاشرتی روابط کے لیے ان کو ترجیح دیں اور ان پر اپنےدروازے کسی حال میں بند نہ کریں، مگر یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہو کر لازما ایک ہی قوم اور ایک ریاست بن جائیں۔”
یہاں غامدی صاحب کی کچھ بات درست ہے کہ مسلمانوں کو قرآن وحدیث میں کہیں بھی ایک قوم نہیں کہا گیا اور مسلمان ایمان کے رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ "قومیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بنتی"، یہ بات درست ہے۔ قرآن مجید میں ہر نبی نے اپنے مخاطبین کو"یا قوم" کے خطاب سے اپنی قوم قرار دیا حالانکہ مخاطبین نبی کے دین پر نہیں تھے۔ اسی طرح قرآن مجید نے مشرکین مکہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قرار دیا ہے۔ پس یہ بات درست ہے کہ قومیں جغرافیائی حدود کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ اسلام میں قومیت کی بجائے "امت" اور "ملت" کا تصور ہے۔ اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک قوم نہیں بلکہ ایک "امت" اور "ملت" قرار دیتا ہے جیسا کہ پوری دنیا کے کافر ایک "امت" یا "ملت" ہیں، چاہے ان کی قومیں مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ [۱۴۳] میں ارشاد ہے: وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ترجمہ:اور ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر شہادت قائم کرو۔ ایک اور جگہ سورۃ آل عمران [۱۱۰]میں مسمانوں کو "خیر امت" کہا گیا ہے وعلی ہذا القیاس۔ اسی طرح قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ اپنی کتاب "الآثار" میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ سے نقل کرتے ہیں: «الْكُفْرُ كُلُّهُمْ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ » ترجمہ: عالم کفر سب کا سب ایک ہی ملت ہے۔ پس ایمان کے رشتے کی بنیاد پرمسلمانوں میں "اخوت"بھی قائم ہوئی اور "امت وملت" بھی۔ "اسلامی اخوت" کی اصطلاح میں مسلمانوں کی باہمی معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کا تصور ہے جبکہ "امت مسلمہ" یا" ملت اسلامیہ" کی اصطلاح میں "سیاست شرعیہ" کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ غامدی صاحب نے اپنے حافظے سے سورۃ الحجرات [۱۳] کی جو یہ آیت نقل کی ہے: "إنما المؤمنين إخوة" تو اس کا صحیح رسم "إنما المؤمنون إخوة" ہے۔
۹۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، ان کے عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی کہا جا سکتا ہے لیکن اس کے حاملین چونکہ قرآن وحدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔”
یہ مسئلہ بہت اہم ہے کہ جس پر غامدی صاحب نے کلام کیاہے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی مشق نے امت کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور مولانا ابولکلام آزاد رحمہ اللہ کے بقول چودہ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے جتنے ایک صدی میں فتووں سے کافر بنا دیے ہیں۔ لیکن تکفیر کے اس فتنے کا حل یہ نہیں ہے کہ یہ بیانیہ تیار کیا جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا، چاہے وہ قرآن مجید سے اپنے مذہبی پیشوا کی نبوت ثابت کر لے،یا چاہے الوہیت،چاہے وہ کتاب الہی سے ہمہ اوست ثابت کر دکھائے، چاہے ضروریات دین اور ارکان اسلام کا ہی انکار کر دے۔ اس فتنے کا صحیح حل یہی ہے کہ عام مفتیوں اور علماء کو قانوناً اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ تکفیر کے بارے کوئی فتوی جاری نہ کر سکیں۔ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح کا کوئی ایسا حکومتی ادارہ ہو کہ جس میں ملک بھر سے مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کی نمائندگی ہو، اور جب تک کسی متعین شخص یا گروہ یا جماعت کی تکفیر پر ان نمائندہ علماء کا اتفاق نہ ہو، اور یہ اہل علم ملک کی اعلی عدالت مثلا ً سپریم کورٹ کے شریعہ بنچ میں مخالف فریق پر اس کی غلطی واضح نہ کر دیں اور اس بارے اعلی عدالت کا کوئی فیصلہ جاری نہ ہو جائے، اس وقت تک کسی کلمہ گو کی تکفیر قانوناً جرم قرار دی جائے۔ البتہ کسی کے کفرکو کفر اور شرک کو شرک قرار دینا ،تو اس کی اجازت ہر صاحب علم کے لیے ہونی چاہیے جیسا کہ غامدی صاحب بھی اس بات سے متفق ہیں۔
۱۰۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“علماء کا حق ہے کہ ان کی غلطی ان پر واضح کریں، انہیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، ان کے عقائد ونظریات میں کوئی چیز شرک ہے تو اسے شرک اور کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اس پر متنبہ کریں، مگر ان کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا انہیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اس لئے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن وحدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔”
یہاں اصل میں دو چیزیں خلط ملط ہو رہی ہیں۔ ایک ہے اہل علم کا کسی کے بارے فتوی جاری کرنا کہ وہ دین اسلام سے خارج ہو گیا ہے اور ایک ہے کسی شخص کا اللہ کے ہاں کافر قرار پانا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اہل علم کی ایک جماعت کسی شخص کودنیا میں کافر قرار دے گی تو ضروری نہیں ہے کہ وہ عند اللہ بھی کافر ہو کیونکہ یہ اہل علم کا اجتہاد ہے اور اجتہاد میں خطا کا پہلو بھی ہو سکتا ہے اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی اجتہاد میں خطا کا پہلو کم ہو جاتا ہے ۔پس اہل علم اگر کسی پر فتوی لگائیں گے تو وہ دنیا کے اعتبار سے ہو گا۔ اور دنیا میں یہ فتوی "سد الذرائع" کے اصول کے تحت لگایا جائے گا تا کہ دین کی حفاظت ہو۔ اور فتوی کا لفظ بھی "فتوۃ" سے ہے کہ جس کے معنی "نوجوانی" کے ہیں۔ پس جب کسی معاشرے میں عقیدے اور عمل کے رستے ایسا بے گاڑ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس سے معاشرہ روحانی اور دینی طور اضمحلال کا شکار ہو جائے تو اس وقت "فتوی" کے ذریعے اسے دوبارہ قوت مہیا کی جاتی ہے۔لیکن یہ بات درست ہے کہ فتوی کا ہمارے معاشروں میں ایسا غلط استعمال بہت زیادہ ہے کہ جسے روکنے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ لیکن کسی شیء کےغلط استعمال کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نفس امر میں وہ شیء غلط ہے۔
۱۱۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“شرک، کفر اور ارتداد یقینا سنگین جرائم ہیں، لیکن ان کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔”
شرک اور کفر کی حد تک تو بات درست ہے کہ اس کی سزا آخرت میں ہی ملے گی جیسا کہ سورۃ البقرۃ [۲۵۶] میں ارشاد باری تعالی ہے: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ۔ ترجمہ: دین میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔ پس کسی شخص کو مسلمان بننے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن "ارتداد" ایک علیحدہ اصطلاح ہے۔ "ارتداد "سے مراد کسی مسلمان کا دین اسلام سے پھر جانا ہے۔ دین اسلام، ارتداد کو اسلامی ریاست سے ایک بغاوت قرار دیتا ہے لہذا اس کی سزا قتل تجویز کرتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "مسند الشافعی"، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "مسند احمد" اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کے بارے یہ ارشاد نقل کیا ہے: «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ» ترجمہ: جو اپنا دین تبدیل کر لے تو اسے قتل کر دو۔ امام مالک رحمہ اللہ نے بھی اس مضمون کی روایت اپنی کتاب "الموطا" میں نقل کی ہے۔ البتہ فقہاء نے یہ نقل کیا ہے کہ جو مسلمان دین اسلام سے پھر جائے گا، پہلے اسے قید کیا جائے گا اور کے اعتراضات اور شکوک وشبہات کو رفع کر کے اس پر حجت قائم کی جائے گی، اس کے بعد اس پر یہ سزا نافذ کی جائے گی۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اسے ریاست نے امان اسی کلمے کی بنیاد پر دی تھی کہ جس کلمے کی اطاعت کو اس نے اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ اسی طرح چونکہ وہ ذمی بھی نہیں ہے کہ اسے جزیہ کی وجہ سے امان حاصل ہوئی ہے لہذا اس کا یہ عمل جب تک اسلامی ریاست کی حدود میں ہو تو اطاعت کے قلادے کو اتار پھینکنے کی وجہ سے سراسر بغاوت پر مبنی عمل ہے ۔
۱۲۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اس میں شبہ نہیں کہ جہاد اسلام کا حکم ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ ان کے پاس طاقت ہو تو وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ کریں۔ قرآن میں اس کی ہدایت اصلا فتنہ کے استحصال کے لئے کی گئی ہے۔ اس کے معنی کسی شخص کو ظلم وجبر کے ساتھ اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے ہیں۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں (persecution) کہا جاتا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ حکم ان کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحثیت جماعت دیا گیا ہے۔”
غامدی صاحب نے یہاں جہاد کا مقصد درست بیان کیا ہے کہ وہ ظلم وعدوان کا خاتمہ ہے۔ پس جہاد کا حکم لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لیے نہیں بلکہ ظلم وزیادتی کے خاتمے کے لیے ہے۔ لیکن ظلم سے مراد صرف وہی ظلم نہیں ہے کہ جو کسی شخص کو اس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کے لیے کیا جائے بلکہ ظلم میں ہر قسم کا ظلم شامل ہے۔خلفائے راشدین کے دور میں جس قدر اقدامی جہاد ہوا ہے مثلا ً روم وفارس سے جو جہاد ہوا تو وہاں کون سے مسلمان موجود تھے کہ جن پر ہونے والے ظلم کے جواب میں یہ جہاد جاری کیا گیا۔ اس جہاد کا مقصد اس ظلم کا خاتمہ تھا جو اہل روم اور اہل فارس اپنی اقوام پر کر رہے تھے۔ امام ابن جریرطبری نے اپنی کتاب "تاریخ الرسل والملوک" میں مسلمانوں کے سفیر عامر بن ربعی رضی اللہ عنہ کا ایرانی سپہ سالار رستم کے دربار میں جو مکالمہ نقل کیا ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے:اللَّهُ ابْتَعَثَنَا، وَاللَّهُ جَاءَ بِنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ، وَمِنْ ضِيقِ الدُّنْيَا إِلَى سِعَتِهَا، وَمِنْ جَوْرِ الأَدْيَانِ إِلَى عَدْلِ الإِسْلامِ، فَأَرْسَلَنَا بِدِينِهِ إِلَى خَلْقِهِ لِنَدْعُوَهُمْ إِلَيْهِ، فَمَنْ قَبِلَ مِنَّا ذَلِكَ قَبِلْنَا ذَلِكَ مِنْهُ وَرَجَعْنَا عَنْهُ، وَتَرَكْنَاهُ وَأَرْضَهُ يَلِيهَا دُونَنَا، وَمَنْ أَبَى قَاتَلْنَاهُ أَبَدًا، حَتَّى نُفْضِيَ إِلَى مَوْعُودِ اللَّهِ. ترجمہ: "اللہ نے ہمیں بھیجا ہے، اور اللہ ہمیں تمہارے پاس اس لیے لائے ہیں کہ ہم اللہ کے حکم سے اس کے بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں داخل کریں، اور انہیں دنیا کی تنگی سے اس کی کشادگی کی طرف لےجائیں، اور انہیں مذاہب عالم کے ظلم وجور سےنکال کر اسلام کے عدل میں داخل کر دیں۔پس اللہ عزوجل نے اپنا دین دے کر ہمیں اپنی مخلوق کی طرف بھیجا تا کہ ہم انہیں اللہ کی طرف دعوت دیں۔ پس جس نے یہ دعوت قبول کر لی تو ہم بھی اس کے اسلام کو قبول کریں گے اور یہاں سے واپس لوٹ جائیں گے۔ نہ صرف انہیں چھوڑ دیں گے بلکہ ان کی زمین بھی انہی کے پاس رہنے دیں گے۔ اور جس نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ہم اس سے ہمیشہ کے لیے جنگ کریں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کے وعدے کو پا لیں"۔ پس اسلام میں جہاد کا مقصود صرف مسلمان پر ظلم کاخاتمہ نہیں بلکہ انسانوں پر سے ظلم کا خاتمہ ہے۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ انسانوں پر سے ظلم کا یہ خاتمہ وہی مسلمان کر سکتے ہیں جو خود ظالم نہ ہوں۔
۱۳۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اسلام جس جہاد کاحکم دیتا ہے،وہ خدا کی راہ میں جنگ ہے، اس لئے اخلاقی حدود سے بےپروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ اسلام عین میدان جنگ میں بھی ہمیں اخلاقیات کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کا سختی سے حکم جاری کرتا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اپنی کتاب "الموطا"، امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب "مسند الشافعی"، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنی کتاب "مسند احمد" اور امام بخاری رحمہ اللہ اپنی کتاب "صحیح بخاری" میں ایسی احادیث لائے ہیں کہ جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عین حالت جنگ میں بھی غیر مسلم بچوں اورعورتوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا۔
۱۴۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“یہ بالکل قطعی ہے کہ جہاد صرف مقاتلین (combatants) سے کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کا قانون یہی ہے کہ اگر کوئی زبان سے حملہ کرے گا تو اس کا جواب زبان سے دیا جائے گا، لڑنے والوں کی مالی مدد کرے گا تو اس کو مدد سے روکا جائے گا، لیکن جب تک وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنے کے لیے نہیں نکلتا، اس کی جان نہیں لی جا سکتی۔ یہاں تک کہ عین میدان جنگ میں بھی وہ اگر ہتھیار پھینک دے تو اسے قیدی بنایا جائے گا، اس کے بعد اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔”
یہ بات درست ہے کہ جہاد صرف مقاتلین سے ہی ہو گا لیکن مقاتلین کی جو تعریف غامدی صاحب نے بیان کی ہے، وہ قابل نظر ہے۔ مقاتلین صرف ہتھیار اٹھانے والے نہیں ہوتے بلکہ مقاتلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو جنگ میں شریک ہوں، چاہے ہتھیار اٹھا کر ، چاہے ہتھیار چلا کر۔ آج کل کی صورت حال میں کسی بھی ملک کی سیکورٹی فورسز ، آرمی، نیوی اور فضائیہ میں ہتھیار چلانے والے یا دوبدو لڑنے والے توکم ہی ہوتے ہیں، باقی ایک بڑی تعداد تو ان کے معاونین کی ہوتی ہے۔
۱۵۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“دور حاضر کے مغربی مفکرین سے صدیوں پہلے قرآن نے اعلان کیا تھا کہ امرھم شوری بینھم [مسلمانوں کا نظم اجتماعی ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہو گا] اس کے صاف معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی حکومت ان کے مشورے سے قائم ہو گی۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے گا۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے۔”
مسلمانوں کی حکومت آپ مشورے سے وجود میں لے آئیں، کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن مشورہ دینےمیں سب کے حقوق برابر ہوں گے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ مسئلہ کی نوعیت کو دیکھیں گے۔ اگر تو مسئلہ قومی ہے تو قوم سے مشورہ لیا جائے اور اگر علمی ہے تو اہل علم سے مشورہ کیا جائے اور فنی ہے تو اہل فن سے مشورہ لیا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر ، احد اور خندق کی جنگوں میں عام مشورہ لیا کیونکہ مسئلہ قومی تھا کہ قوم نے ہی لڑنا تھا لہذا اسی سے مشورہ کیا گیا۔
۱۶۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“جدید ریاست میں پارلیمان کا ادارہ اسی مقصد سے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے نظام میں آخری فیصلہ اسی کا ہے اور اس کا ہونا چاہیے…علماء ہوں یا ریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالا تر نہیں ہو سکتا۔”
ریاست میں پارلیمان کے ادارے کو "شوری" بنا لیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ریاست کے نظام میں آخری سند پارلیمان ہے۔ اسلامی ریاست کے نظام میں آخری سند (supreme authority) کتاب وسنت ہیں جو تمام شہریوں کے دنیوی ودینی جملہ حقوق کی ادائیگی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ پارلیمان کو بھی یہ ثابت کرنا ہو گا کہ نظام کی جو تعبیر اور صورت وہ پیش کر رہی ہے، وہ ظلم وزیادتی پر مبنی نہیں ہے۔ اور اگر پارلیمان کی کسی تعبیر سے شہریوں کے دنیوی یا دینی حقوق متاثر ہوں گے، تو انہیں اعلی عدلیہ کی طرف رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اب اعلی عدلیہ اس بارے فیصلہ کرے گی کہ پارلیمان کا وضع کیا گیا نظام کہیں کتاب وسنت کے منافی تو نہیں ہے؟ اگر اعلی عدلیہ یہ فیصلہ کر دے کہ پارلیمان کا وضع کردہ نظام کتاب وسنت کے منافی نہیں ہے تو اس کا فیصلہ ہردو فریقین پر لاگو ہو گا۔
۱۷۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے اس سے ہٹ کر جو حکومت قائم کی جائے گی، وہ ایک ناجائز حکومت ہو گی، خواہ اس کے سربراہ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں یا اسے امیر المومنین کے لقب سے نواز دیا جائے۔”
فریق مخالف کا مشورہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کو اپنی رائے میں عاجز ہونا چاہیے۔ اگر وہ بھی فتوی کی زبان اور ترش اسلوب میں بات کرنا شروع کر دیں گے تو پھر انہیں اپنے ناقدین سے اسی قسم کے اسلوب بیان کا شکوہ رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہو گا ۔ سوسائٹی میں علمی مکالمہ ہونا چاہیے لیکن اس قسم کے الفاظ علمی مکالمہ کی بجائے ردعمل کی نفسیات کو جنم دیتے ہیں۔
۱۸۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“مسلمانوں کی حکومت اگر کسی جگہ قائم ہو تو اس سے بالعموم نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تعبیر مغالطہ انگیز ہے، اس لئے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے حالانکہ قرآن وحدیث میں یہ حق کسی حکومت کے لئے بھی ثابت نہیں ہے…اسلامی شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں، ایک جو فرد کو بحیثیت فرد دیئے گئے ہیں، اور دوسرے جو مسلمانوں کے معاشرے کو دیئے گئے ہیں، پہلی قسم کے احکام خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ اس میں کسی حکومت کے سامنے نہیں بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہذا دنیا کی کوئی حکومت اسے مثال کے طو پر، روزہ رکھنے یا حج عمرہ کے لئے جانے یا ختنہ کرانے یا مونچھیں پست رکھنے اور وہ اگر عورت ہے تو سینہ ڈھانپنے، زیب وزینت کی نمائش نہ کرنے یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتی۔ اس طرح کے معاملات میں تعلیم وتربیت اور تلقین ونصحیت سے آگے اس کے کوئی اختیارات نہیں ہیں الا یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان، ومال آبرو کے خلاف زیادتی کا اندیشہ نہ ہو۔ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے…رہے دوسری قسم کے احکام تو وہ درحقیقت دیئے ہی حکومت کو گئے ہیں۔ اس لئے کہ اجتماعی معاملات میں وہی معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے۔ علماء ارباب حل وعقد سے ان پر عمل کا مطالبہ کریں تو یقینا حق بجانب ہوں گے اور اپنے منصب کے لحاظ ان کو کرنا بھی چاہیے۔ مگر یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے، نفاذ شریعت کی تعبیر اس کے لئے بھی موزوں قرار نہیں دی جا سکتی۔”
غامدی صاحب نے دینی احکام کی جو دو قسمیں بیان کی ہیں، تو ان کی یہ تقسیم درست ہے۔پہلی قسم کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ ان احکامات میں بندہ صرف اپنے پرودگار کو جواب دہ ہے الا یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان ومال یا آبرو کے خلاف زیادتی ہو۔ یہ بات بھی درست ہے لیکن اس میں ایک ضروری اضافے کے بغیر بات نامکمل ہے اور وہ اضافہ یہ ہے کہ اگر اس کے کسی فرد کے عمل سے معاشرے میں فتنہ اور فساد کی راہ کھلے گی تو اسے قانوناً روکا جائے گا۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ایک عورت کو سینہ ڈھانپنے یا اسکارف پہننے لیے مجبور نہیں کر سکتی ہے تو کیا حکومت اس کےبے لباس (nude)ہوکر مقامی مقامات پر گھومنے پھرنے کی صورت میں بھی صرف وعظ ونصیحت پر اکتفا کرے گی؟ اور اس صورت میں کسی کی کیا حق تلفی ہوتی ہے یا جان ومال کو نقصان پہنچتا ہے؟ پس صحیح موقف یہ ہے کہ حکومت ہر ایسے کام سے روکے گی اور اسے روکنا بھی چاہیے کہ جو معاشرے میں کسی بھی قسم کےدینی، اخلاقی یا روحانی بگاڑ کا سبب بنے۔
۱۹۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“مسلمان اپنے حکمرانوں کی رعایا نہیں، بلکہ برابر کے شہری ہوں گے اور قانون اور ریاست کی سطح پر ان کے بڑے اور چھوٹے اور شریف اور وضیع کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا ان کے جان ومال اور آبرو کو حرمت حاصل ہو گی، یہاں تک کہ حکومت ان کی رضامندی کے بغیر زکوۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی ان پر عائد نہیں کر سکے گی۔”
بہت ہی معتدل اور عمدہ بات ہے کہ اسلامی ریاست میں عام مسلمان اور حکمران برابر کے شہری ہوں گے اور حکومت شہریوں کی مرضی کے بغیر ان پر کسی بھی قسم کا ٹیکس عائد نہیں کر سکے گی۔
۲۰۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف انہی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے ان کے لئے مقرر کر دیئے جائیں گے۔ ان کا منبر حکمرانوں کے لئے خاص ہو گا۔ وہ خود ان نمازوں کا خطبہ دیں گے اور ان کی امامت کریں گے یا ان کی طرف سے ان کا کوئی نمائندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کی حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر ان نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔”
حکمران ضرور نماز پڑھائیں لیکن بات یہ ہے کہ وہ علمی، اخلاقی اور روحانی طور پر اپنے آپ کو اس کا اہل بھی تو ثابت کریں ناں۔ اگر موجودہ صورت حال میں اس تجویز پر عمل کر لیا جائے تو دین چھوڑ معاشرہ بھی ایک تماشہ بن جائے گا۔ اب اگر جناب زرداری صاحب دارالعلوم کراچی میں عید کی نماز پڑھائیں اور مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب ان کے مقتدی ہوں، جناب نواز شریف صاحب بادشاہی مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیں اور مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب ان کے سامع ہوں اور جناب عمران خان صاحب فیصل مسجد کےامام ہوں اور مولانا فضل الرحمن ان کے مقتدی تو کیا سین پارٹ ہو گا؟ اور پھر جہاں جناب الطاف بھائی کا خطبہ ہو گا اور جناب رحمان ملک کی تلاوت تو مقتدیوں کے پاس کیا نماز قضاء کرنے کے علاوہ بھی کوئی چارہ ہو گا؟ جناب عرض ہے کہ کیوں ایسی بےکار کی تجویزیں پیش کی جائیں کہ جن سے نماز جیسا اہم رکن دین ایک تماشہ بن کر رہ جائے۔ باقی اصلاح ہر طبقے کی ہونی چاہیے، اس سے کس کو انکار ہے؟ لیکن جس طرح سیاست دانوں کی اصلاح کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں ڈاڑھی والے بھرتی کر لیے جائیں، اسی طرح مولویوں کی اصلاح کا یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ منبر ومحراب پر سیاست دانوں کو بٹھا دیا جائے۔ "لکل فن رجال"، ہر فن کے اپنے لوگ ہوتے ہیں جو اسے بہتر جانتے ہیں اور بہتر طور چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں لہذا رجال کی اصلاح کی خواہش کا اظہار ان کی تربیت کا کوئی نظام قائم تجویز کر کے ہونی چاہیے نہ کہ اکھاڑ پچھاڑ کے رستے۔
۲۱۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے ہوں گے۔ چنانچہ معاشرے میں سے صالح ترین افراد ان اداروں کے لئے کارکنوں کی حیثیت سے منتخب کئے جائیں گے وہ لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں گے اور ان سب چیزوں سے روکیں گے جنہیں انسان ہمیشہ سے برائی سمجھتا رہا ہے۔ تاہم قانون کی طاقت اسی وقت استعمال کریں گے، جب کوئی شخص کسی کی حق تلفی کرے گا یا اس کی جان ومال یا آبرو کے خلاف کسی اقدام کے درپے ہو گا۔”
غامدی صاحب کی یہ تجویز اچھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کریں۔ اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ صالح ترین افراد کا انتخاب کیا جائے۔ لیکن قانون کی طاقت استعمال کرنے کی صورتوں میں یہاں بھی ہم وہی اضافہ کریں گے جو پیچھے کر چکے ہیں کہ اُس صورت میں بھی یہ ادارے قانون کی طاقت استعمال کریں گے کہ جس سے معاشرے میں کسی بھی قسم کے فتنہ یا فساد کے پھیل جانے کا اندیشہ ہو۔
۲۲۔محترم غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“ قتل اورفساد فی الارض کے سوا موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دی جائے گی۔ نیز ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہو جائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو اس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیں گی جو اللہ تعالی نے اسلام کی دعوت کو پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قبول کر لینے کے بعد ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اپنی کتاب میں مقرر کر دی ہیں۔”
غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ قتل اور فساد فی الارض میں موت کی سزا دی جائے لیکن اس کے علاوہ بھی بعض جرائم ایسے ہیں کہ جن کی سزا شریعت اسلامیہ میں موت مقرر کی گئی ہے جیسا کہ شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کا ارتکاب کریں اور ان کا یہ جرم ثابت ہو جائے تو اس کی سزا بھی رجم ہے۔ اسی طرح غامدی صاحب کی طرف سے زنا، چوری، قتل اور قذف کے جرائم میں بیان کردہ قرآنی سزاوں کے نفاذ کی بات بھی قابل تعریف ہے ۔ بس ان جرائم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جرم کا اضافہ فرمایا اور وہ شراب نوشی ہے۔ شراب نوشی کی صورت میں بھی چالیس یا اسی کوڑوں کی سزا جاری کی جائے گی جیسا کہ دونوں طرح کی روایات موجود ہیں ۔ اور مجرم کے جرم پر اصرار اور اس جرم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فساد کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے جج ان دونوں میں سے کوئی بھی سزا نافذ کر سکتا ہے۔
Last edited: