• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاھیے تقلید کے بارے¿¿

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
میں نے پہلے بھی کہاہے کہ آپ حضرات تصویر کا ایک ہی رخ دکھاتے ہیں اور جو رخ پسند نہیں ہوتا،اسے چھپالیتے ہیں، میں کتب فقہ احناف سے ہی تقلید کی کچھ تعریفات پیش کررہاہوں،لیکن یقین رکھئے میں یہ سوال قطعانہیں کروں گاکہ تقلید کی ان تعریفات پر آپ کی نگاہ کیوں نہیں پڑی،مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہ آپ کی تقلید کی تعریف کا ماخذ ومصدر کیاہے۔

۔ التقليد اتّباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل، كأنّ هذا المتّبع جعل قول الغير أو فعله قلادة في عنقه من غير مطالبة دليل۔

(کشف الاصطلاحات الفنون والعلوم صفحہ ۵۰۰)
ترجمہ:۔”تقلید (کے اصلاحی معنی یہ ہیں کہ) کسی آدمی کا دوسرے کے قول یا فعل کی اتباع کرنا محض حسن عقیدت سے کہ جس میں (مجتہد کی ) دلیل پر غور نہ کرے۔ گویا اس اتباع کنندہ نے دوسرے کے قول یا فعل کو اپنے گلے کا ہار بنا لیا بلا دلیل طلب کرنے کے۔“

2۔ وهو عبارۃ عن اتباعه في قولهاو فعله منقدا للحقية تامل في الدليل

(شرح منار مصری ص 252)
”دلیل میں غور و فکر کئے بغیر کسی کو حق سمجھتے ہوئے قول یا فعل میں اس کی پیروی کرنا“۔

3۔ التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل

(النامي شرح حسامي : 19)
”دلیل میں غور و خوص کئے بغیر کسی کی اتباع کرنا یہ گمان رکھتے ہوئے کہ وہ حق پر ہے“۔
تقلید کی تعریف میں اہل لغت نے لفظ اتباع کو ذکر کیا ہے جیسا کہ تعریفات سے ظاہر ہے ، اگر تقلید اور اتباع میں فرق ہوتا تو اہل لغت تقلید کی تعریف اتباع سے نہ کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایک یا دو تعریف کے پیچھے پڑجانا اوراسی پر اصرار کرنا اہل علم کے شیوہ سے بعید ہے، وہ کسی چیز کو اس کے پورے سیاق وسباق اورتناظر میں دیکھتے ہیں بالفاظ دیگر کسی ایک رخ دو رخ سے نہیں بلکہ مجموعی طورپر علماء نے جو تقلید کی تعریف کی ہے،اس کو سامنے رکھئے اور دیکھئے کہ تقلید کی تعریف سے مجموعی طورپر کیاسمجھ میں آرہاہے،ورنہ یہ چیزیں بحث ومناظر اورحدیث کے الفاظ میں ’’جدال ومراء‘‘کیلئےتوٹھیک ہے لیکن اس کا انجام ارشاد رسول اللہ ﷺ کے مطابق ہی بخیر نہیں ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48

کیا شیخ صالح الفوزان نے سچ میں اسطرح کہا
وہ تو صاف کہہ رہے ہیں ہماری نظر میں کوئ بھی مجتہد نہیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304


آپ کی اس بات پر شیعوں کی یاد آرہی ہے جن کے نزدیک انتقال شدہ مجتہد کی تقلید حرام ہوتی ہے، اس لئے ان کے یہاں ایک سرٹیفکیٹ یاعلمی درجہ مجتہد کا بھی ہوتاہے،آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل سنت کا یہ موقف نہیں ہے ان کے یہاں مجتہد کے اجتہاد سےاستفادہ کرنے میں زندہ مردہ کی کوئی شرط نہیں ہے،جس عالم سے اس عامی نے رجوع کیاہے، ظاہرسی بات ہے کہ وہ بذاتہ خود مجتہد نہیں ہے لہذا وہ امام ابوحنیفہ کے اجتہاد کوپیش کرتاہے،اس میں کیافرق پڑگیااگر وہ امام ابوحنیفہ سے براہ راست پوچھتا،یااس عالم کے واسطہ سے پوچھ رہاہے، میرے نزدیک توکوئی فرق نہیں ہے، اگرآپ کے نزدیک فاسئلو اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون میں واسطہ کے ہونے نہ ہونے کو کوئی دخل ہے تو دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔
جیسے کوئی عامی امام ابوحنیفہ سے براہ راست کوئی مسئلہ پوچھتا اوریہ تقلیدنہیں بلکہ بقول آپ کے اتباع ہوتی ،اسی طرح اس عالم کے واسطہ سےبھی پوچھناآپ حضرات کےنزدیک اتباع ہی ہوناچاہئے،تقلید نہیں ،کیونکہ فرق کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اور جو آپ نے’’ اصلاحی تقلید کے تحت مسئلہ بتاتاہے کا لفظ استعمال کیاہے‘‘ وہ بے معنی اورلایعنی ہے۔


یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ عامی نے جس عالم سےرجوع کیاہے، اس کے بارے میں بھی وہ خود یہ نہیں سمجھتاکہ یہ براہ راست قرآن وحدیث سے اجتہاد کرتے ہیں اور نہ ہی عالم کو یہ دعویٰ ہے کہ میں براہ راست قرآن وحدیث سے اجتہاد واستنباط کرکے مسئلہ بتاتاہوں، عالم چاہے حنفی ہو، یاشافعی،مالکی ہویاحنبلی ،ہرایک یہی کہتااورکرتاہے کہ وہ مسائل کے جواب میں اس رائے کو پیش کردیتاہے جو اس مسلک کے ائمہ نے قرآن وحدیث سے اخذ کیاہے اور آپ کا یہ کہناکہ’ فقہ حنفی سے مسئلہ بتاتاہے،قرآن وحدیث سے تعلق نہیں‘، بیمار ذہن کی دلیل ہے،یعنی دماغ میں یہ بات اچھی طرح بٹھادی گئی ہے کہ فقہ حنفی قرآن وحدیث کےعلاوہ ہے، امام ابوحنیفہ بڑے مقام ومرتبہ کے مجتہد ہیں اور مجتہد اسی کو کہتے ہیں جو قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط کرے، لہذا فقہ حنفی کو پیش کرنا بھی قرآن وحدیث سے ہی جواب ہے، فرق یہ ہےکہ بخاری ومسلم کی روایت بیان نہیں کی جاتی، اس کوایک مثال سے سمجھاؤں،ایک آدمی سے مسئلہ دریافت کیاگیاکہ رات کو سوکر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھوناچاہئے یانہیں،ایک اہل حدیث عالم ہے وہ حدیث پیش کردیتاہے لایدری این باتت یدہ اور کوئی حنفی یاشافعی ہے،وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ یاامام شافعی کا وہ قول پیش کردیتاہے جو انہوں نے اس حدیث کی رائے میں اختیار کی ہے یاہدایہ یامنہاج الطالبین کی عبارت پیش کردیتاہے تو کیافرق ہوا۔
اگرآپ کا خیال یہ ہے کہ مجتہدین حضرات کے اجتہادات قرآن وسنت کے خلاف ہوتے تھے تو اپنی بات کی وضاحت کردیں تو آگے کے عرض ومعروض کی راہ ہموار ہو ۔

ابھی تک تقلید پر بات ہی ہورہی ہے، آپ کے نزدیک جو اتباع ہے، وہ ہمارے نزدیک تقلید ہی ہے، یہ اور بات ہے کہ آپ نےنام اتباع کا رکھ لیاہے، لیکن حقیقتاًوہ تقلید ہی ہے،اس سے بڑھ کرکچھ نہین اور آپ جوفقہ حنفی کی اصول کی کتابوں سے عبارت پیش کرتے ہیں کہ مجتہدکی پیروی اور عامی کا مفتی سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے، کبھی شروحات کو بھی دیکھ لیاکریں، ابن امیر الحاج بہت بہتر وضاحت کی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں آپ حضرات ایسے مقام سے بڑی خاموشی سے گزرجاتے ہیں اورزبیر علی زئی بھی ’دین میں تقلید کا مسئلہ‘نامی کتاب میں ابن امیر الحاج کی اتنی ہی عبارت استعمال کی ہے جو مفید مطلب تھا ،جومفید مطلب نہ تھا،اس پر بڑی خاموشی سے گذرگئے۔

یہ کس کتاب میں پڑھ لیا!
بریلوی حضرات پڑھتے نہیں ہیں ،آپ حضرات پڑھتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں ہیں، دلائل شرعیہ چار ہیں، کتاب ،سنت،اجماع ،قیاس،اگر مجتہد نے کتاب وسنت اوراجماع سے مسئلہ بتایاہے تو کوئی اختلاف نہیں ،لیکن جب مجتہد کے پاس یہ نہیں ہوتا تو وہ دیگرنظائر قرآن وحدیث پر قیاس کرتاہے اور یہ قیاس بھی بذات خود شرعی حجت ہے، اب یہ کہنا کہ دلائل شرعیہ کے علاوہ کسی قول کی پیروی تقلید ہے، یہ اسی مضحکہ خیز قول کا جڑواں بھائی ہے جس میں دعویٰ کیاجاتاہے کہ خلاف شریعت بات ماننے کا نام تقلید ہے،تقلید کی الٹی سیدھی تعریفات اوراس سے من مانے نتائج اخذ کرتے وقت ایک مرتبہ یہ تو دیکھ لیں کہ ماقبل کے علماء نے کیاکہاہے اور کیاجس نتیجے تک آپ پہنچے ہیں، کسی اورنے بھی آپ کی موافقت کی ہے یانہیں ؟

میاں نذیر حسین صاحب دہلوی کی عبارت میں اختلاف اورتناقض بذات خود موجود ہے ،غورسے پڑھیں گے تویہ اس اختلاف کی نشاندہی مشکل نہیں ہوگی ۔

قرآن سے تقلید کی ممانعت ثابت کردیجئے، اس تقلید کی ممانعت جو ائمہ اربعہ کے پیروکار یامقلدین کرتے ہیں!غورسے دیکھئے گاقرآن نے اتباع کرنے اور اتباع نہ کرنے کا ہی حکم دیاہے، شیطان کی پیروی کیلئے بھی اتباع کا ہی لفظ مستعمل ہے۔

یہ بھی بے خبری اورجہالت کی بات ہے، جس آدمی نے مجتہدین کے طبقات کے بارے میں پڑھ رکھاہے،وہ ایسی لایعنی بات کیسے قبول کرلے گا، آپ نے دوسروں کو بھی اپنا ہم مسلک سمجھ رکھاہے کہ کچھ بھی لکھ دو ،مان لیں گے۔

اس کا جواب ہوچکا۔

بلادلیل پر ماقبل میں تفصیلی وضاحت کردی گئی ہے۔

آپ ذرا وہ کتابیں کھولئے جہاں صحابہ کرام اورتابعین عظام کے فتاویٰ ہیں اور بتائیے کہ کتنے سائلین کے جواب میں صحابہ وتابعین نے قرآن وحدیث سے جواب دیاہے اور کتنے سائلین قرآن وحدیث سے جواب چاہئے کا مطالبہ کرتے تھے، سوال کرتے تھے، جواب ملتاتھا،لوٹ جاتے تھے،عامیوں کیلئے یہی طریقہ ہے اور ہرفن میں اسی کو اختیار کیاجاتاہے، آج تک کس عامی نے ڈاکٹر اوروکیل سے دلیل کا مطالبہ کیاہے؟اگرایک جاہل نہیں کم علم ہی کے سامنے آپ نے دوحدیثیں پیش کردیں اور لکھ دیاکہ سندہ صحیح،اس سے اس کو کیافائدہ ہوگا، اس کو کیامعلوم کہ سند کسے کہتے ہیں، یہ کس طرح صحیح اور ضعیف ہوتی ہے، سند کو صحیح اور ضعیف قر اردینے کا معیار کیاہے، محدثین کرام کی درجہ بندی کیاہے، راویوں پر صحت وضعف کا حکم کیسے لگایاجاتاہے، روایت کے متابعات وشواہد کیاہیں، میں نے پہلے بھی عرض کیاہے کہ دلیل پڑھنے اور دلیل سمجھنے میں جو آسمان زمین کا فرق ہے وہ برقرار رہیں ،ایک فارغ شدہ عالم اور ایک مجتہد کو ایک ہی مقام پر لاکرنہ بٹھادیں۔

اس بارے میں ماقبل میں عرض کرچکاہوں کہ دوبارہ سے کتب فقہ احناف کو دیکھئے کہ عامی کا مفتی کے قول پر عمل اصطلاحی اعتبار سے بھی تقلید ہی ہے اصولیین فقہائے احناف نے اس کی وضاحت کی ہے۔
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ مقلدین (خوصوصاً احناف) کی طرف سے جو یہ بحث و مباحث کیے جاتے ہیں کہ تقلید کے اصلاحی معنی یہ ہیں، لغوی منعی فلاں ہیں، اس کی شرعی حیثیت فلاں بن فلاں سے ثابت ہے، پھر عامی اور مجتہد کا فقہی معملات میں ایک دوسرے سے تعلق اور تقلید سے متعلق اصول و ضوابط یہ اور یہ ہیں وغیرہ -

کیا اس سب کا تعلق آئمہ اربعہ کے بعد آنے والی نسلوں سے ہی ہے؟؟ یعنی یہ عامی اور مجتہد وغیرہ آئمہ اربعہ کے بعد ہی پیدا ہوے اس سے پہلے ان کا کوئی وجود نہ تھا ؟؟- آخر یہ اصول و ضوابط ان پر لاگو کیوں نہیں ہوتے یا ہوے جو ان آئمہ اربعہ سے پہلے گزرے ہیں؟؟- یعنی صحابہ کرام رضوان الله آجمعین وغیرہ - کیوں کہ نہ صرف فقہ کے مسائل ان کے دور میں بھی بنفس نفیس موجود تھے - بلکہ عامی طبقہ بھی اس قرون اولیٰ میں موجود تھا -اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر صحابی رسول مجتہد بھی نہیں تھا - لیکن اس دور میں آپ کو نہ کوئی صدیقی نظر اے گا نہ فاروقی ، نہ مسعودی ، نہ ہی علوی نہ ابو ہریری ، نہ عباسی-؟؟ حتیٰ کہ ان کے بعد والے دور میں تقلید کے انہی اصولوں کو جب خود آئمہ اربعہ پر لاگو کرنے کی بات آتی ہے تب بھی ان مقلدین سے بات نہیں بنتی - کیوں کہ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ کسی نہ کسی زمانے میں تو خود آئمہ اربعہ بھی عامی رہے ہونگے -(پیدائشی مجتہد تو وہ بھی نہیں تھے ) - اور فقہی مسائل کو سمجھنے کے لئے انہوں نے بھی کسی نہ کسی کی اتباع ضرور کی ہو گی- (جس اتباع کو مقلدین زبردستی "تقلید" کا نام دیتے ہیں)؟؟-
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@رحمانی صاحب! میں تیسری بار آپ سے پوچھ رہا ہوں!
یہ اگر کیوں؟
میں دیگر کتب میں بیان شدہ تقلید کی تعریف کو پیش نہیں کرتا، بلکہ اسی کتاب میں فقہائے احناف کی بیان کردہ تعریف، جو دو حوالوں سے مذکور ہے، اور وہ یہاں پیش بھی کی گئی ہیں، اس کے باوجود ''اگر'' والی بات صرف اسی صورت ممکن ہے کہ آپ ان فقہائے احناف کی کی گئی تقلید کی تعرف کو قبول نہیں کرتے!
اگر قبول ہے، تو یہ اگر نہیں ہونا چاہئے!
آ پ اپنا مؤقف بتلادیں کہ آیا آپ کو فقہائے احناف کی بیان کردہ تقلید کی تعریف قبول ہے یا نہیں!
اس کا جواب مطلوب ہے، پھر بات آگے بڑھاتے ہیں۔
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
آپ کی پیش کردہ دوتعریفوں پر جوکچھ میں نے ماقبل میں لکھاہے،اس کو بھی ذرا دھیان سے پڑھئے اورایک مرتبہ پھر سے اسی بات کو دہرادوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک یا دو تعریف کے پیچھے پڑجانا اوراسی پر اصرار کرنا اہل علم کے شیوہ سے بعید ہے، وہ کسی چیز کو اس کے پورے سیاق وسباق اورتناظر میں دیکھتے ہیں بالفاظ دیگر کسی ایک رخ دو رخ سے نہیں بلکہ مجموعی طورپر علماء نے جو تقلید کی تعریف کی ہے،اس کو سامنے رکھئے اور دیکھئے کہ تقلید کی تعریف سے مجموعی طورپر کیاسمجھ میں آرہاہے،ورنہ یہ چیزیں بحث ومناظر اورحدیث کے الفاظ میں ’’جدال ومراء‘‘کیلئےتوٹھیک ہے لیکن اس کا انجام ارشاد رسول اللہ ﷺ کے مطابق ہی بخیر نہیں ہے۔
ہم اس کو بھی مانتے ہیں جو آپ نے پیش کیا،اوراس کے ساتھ ان تعریفات کو بھی پیش نظررکھتے ہیں جو دیگر اصولیین فقہاء نے کی ہیں،آپ کی پیش کردہ تعریف سے آپ نے کیاسمجھاہے،خود کو اس واضح نہیں کیاہے،جب کہ میں نے اس کے تین احتمالات پیش کئے تھے، لیکن ان تینوں احتمالات پر ابھی تک آپ کی جانب سے خاموشی ہے، اس خاموشی کو ہم کیاسمجھیں؟
تم ہی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لیکن ان تینوں احتمالات پر ابھی تک آپ کی جانب سے خاموشی ہے، اس خاموشی کو ہم کیاسمجھیں؟
تم ہی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا​
ہم آپ کے جواب کے انتظار میں خاموش تھے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلے تو کچھ مصروفیات تھیں، پھر رمضان آگیا، اور پھر یہ تھریڈ میں بھول گیا تھا، اب یاد آیا ہے تو تحریر کرتا ہوں:

آپ کوخوب پتہ ہے کہ تقلید کی تعریف میں اختلاف ہے،آپ کی ذکرکردہ تعریف کے علاوہ بھی تقلید کی دوسری تعریف کتب فقہ احناف میں ہی موجود ہے اورآپ اس سے اچھی طرح واقف ہیں، ہم اس کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ وہ دوسری تعریفات آپ کو کیوں نہیں بھاتیں،اسی تعریف پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
بلکل ہم تقلید کی کتب فقہ حنفیہ میں مذکور دیگر تعریفات سے بھی واقف ہیں، ان کے اختلاف سے بھی! اور اسی بناء پر ہم نے آپ کو تقلید کی وہ تعریف پیش کی ہے، جو احناف کے عمل تقلید پر صادق آتی ہے!
’’بلاحجۃ‘‘سے کیامراد ہے؟اس کو آپ کو واضح کرناچاہئے،
واضح ہونا تو ایک اعتباری امر ہے، ہمارے لئے تو تقلید کی تعریف میں ''بلاحجۃ'' بالکل واضح ہے، آپ کو اس پر ابہام ہے، جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے، تو ہم اس کا جواب عرض کردیتے ہیں!
بلاحجۃ کاایک مطلب تویہ ہے کہ مجتہد کے قول پرکوئی شرعی دلیل نہیں ہوتی ۔
آپ نے یہاں تو بلا حجة کا تعلق صرف مُقَلَدْ یعنی کہ جس کی تقلید کی جاتی ہے کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ جبکہ''عملِ تقلید'' ''مُقَلَدْ '' کا نہیں بلکہ ''مُقَلِدْ'' کا فعل ہے۔
اب اس عبارت میں ''بلا حجہ'' کو دیکھتے ہیں:
مُقَلِدْ کا مُقَلَد کے قول پر بلا حجہ عمل کرنا:
مُقَلِدْ کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ آیا مجتہد کے قول پر کوئی دلیل ہے یا نہیں، بلکہ وہ اس پر بلا دلیل وبلا حجہ عمل کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص سمجھتے ہوئے کسی کے قول پر عمل کرتا ہے کہ وہ دلائل شریعہ، یعنی دلائل اربعہ یعنی قرآن حدیث، اجماع اور قیاس کے موافق ہے، اس واسطے اس قول پر عمل کرتا ہے، تو ایسی صورت میں یہ تقلید نہیں! اور نہ وہ مقلد قرار پاتا ہے۔
مفتی سعید احمد پالنپوری مقلد دیوبندی صاحب، ابن عابدین شامی کی
شرح منظومة عقود رسم المفتي في الفقه الحنفي کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ علما نے فرمایا ہے کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہوگیا، کیوں کہ وہ تقلید نہیں ہے، بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذکر نا ہے، مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی کہاگیا ہے کہ امام کے قول کی دلیل جان کر اس کو لینا اجتہاد کا نتیجہ ہے، کیوں کہ دلیل کی معرفت مجتہد ہی کو ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ دلیل کا جاننا یہ جاننے پر موقوف ہے کہ یہ دلیل معارض دلیل سے محفوظ ہے، اور یہ بات تمام دلائل کا جائزہ لینے پر موقوف ہے، اور یہ کام مجتہد ہی کرسکتا ہے۔
اور صرف یہ جاننا کہ فلاں مجتہد نے فلاں حکم فلاں دلیل سے اخذ کیا ہے محض بے فائدہ ہے۔ اس لیے ’’مفتی کے لیے دلیل جاننا ضروری ہے‘‘ کا مطلب یہ لینا ہوگا کہ وہ اس دلیل کا حال بھی جانتاہو، تاکہ اس کے لیے اس مسئلے میں یقین کے ساتھ امام کی تقلید اور دوسروں کو اس پر فتویٰ دینا درست ہو، اور یہ بات مجتہد فی المذہب مفتی ہی کے لیے ممکن ہے اور وہی درحقیقت مفتی ہے، دوسرے لوگ تو ناقلِ فتاویٰ ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ76 آپ فتوی کیسے دیں – مفتی سعید احمد پالنپوری – مکتبہ حجاز، دیوبند


غلام رسول سعیدی مقلد بریلوی صاحب یوں فرماتے ہیں:

تقلید کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے یہ مراد ہے کہ کسی امام کے قول کو کتاب وسنت کے موافق پاکر اور دلائل شرعیہ سے ثابت جان کر اس قول کو اختیار کر لینا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 63 جلد01 شرح صحیح مسلم – غلام رسول سعیدی – فرید بک اسٹال، لاہور
غلام رسول سعیدی صاحب نے یہاں تقلید اور اتباع کے فرق کو بہت خوب بیان کردیا ہے!
دوسری مراد ہے ’’بلاطلب حجۃ ‘‘یعنی شرعی دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مقلد مجتہد سے اس شرعی دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا ،جیسے ڈاکٹر کے مریض کیلئے تجویز کردہ علاج پر دلیل موجود ہوتی ہے لیکن مریض اس سے دلیل کا مطالبہ نہیں کرتا کہ تم نے فلاں دوا کیوں دی ہے، مریض کا مطالبہ نہ کرنا اس بات کی نفی نہیں ہے کہ ڈاکٹر نے مریض کیلئے جو علاج تجویز کیاہے اس کیلئے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
''بلا حجۃ'' محض ''بلاطلب حجۃ'' نہیں، بلکہ ''بلا طلب الحجۃ'' بھی ''بلا حجۃ'' میں شامل ہے، کیونکہ مُقَلِد کا اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے مُقَلَد کے پاس کیادلیل ہے، صرف دلیل کو طلب نہ کرنا ہی نہیں!
اور اگر مُقَلِد برائے تبرک دلیل طلب کر بھی لے، تب بھی اس کے اس نظریہ تقلید اور عمل تقلید پر کوئی فرق نہیں آتا، کہ اس کا دلیل طلب کرنا، برائے تبرک ہو گا نہ کہ برائے تحقیق!
تیسری مراد ہے’’بلامعرفۃ حجۃ‘‘یعنی مجتہد مسائل شرعیہ پر اپنی دلیل بتلابھی دے تو مقلد اس کی معرفت کا فہم نہیں رکھتا،پھر وہی ڈاکٹر کی مثال دوں تو شاید قند مکرر نہ ہو(ابتسامہ)اس لئے وکیل کی مثال دے رہاہوں،ایک جاہل شخص یاعامی کسی حد تک پڑھالکھاکسی وکیل سے کوئی اہم قانونی نکتہ پوچھتاہے،وکیل کے جواب پر وہ اس کی دلیل پوچھتاہے،وکیل اس کے جواب میں قانون کی بنیادیں ،عدالتوں کے نظائر اور دیگر بہت کچھ بیان کرتاہے لیکن اگر اس کا قانون کےفن سے تعلق نہیں ہے تواس کی سمجھ میں کیاخاک آئے گا؟
جی یہ بھی بلکل اسی طرح ہے جیسے ''بلا طلب حجۃ''!
یعنی کہ محض ''بلامعرفۃ حجۃ'' نہیں، بلکہ ''بلا معرفۃ حجۃ'' بھی ''بلا حجۃ'' میں شامل ہے، کیونکہ مُقَلِد کا اس بات سے کوئی سروکار نہیں، کہ اس کے مُقَلَد کی اس دلیل کی کیا فہم و معرفت ہے!
اب دیکھیں! یہ ''بلا حجۃ'' کو ''بلا طلب حجۃ'' اور ''بلا معرفۃ حجۃ'' میں مقید نہیں کیا جاسکتا!
اور کہ اگر ''بلا حجۃ'' کو ''بلا طلب حجۃ'' میں مقید کیا جائے، تو لازم آئے گا کہ جب مُقَلَد نے دلیل از خودبیان کردی، وہ تقلید نہ کہلائے! جبکہ یہ بات معروف ہے کہ ان مسائل میں بھی مقلدین کا دعوی تقلید ہی ہے، جہاں مُقَلَد نے اپنی دلیل بیان کی ہے!
ایک مثال پیش کرتا ہوں:

وَهُوَ أَنَّهُ اجْتَمَعَ مَعَ الْأَوْزَاعِيِّ بِمَكَّةَ فِي دَارِ الْحَنَّاطِينَ كَمَا حَكَى ابْنُ عُيَيْنَةَ فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ مَا بَالُكُمْ لَا تَرْفَعُونَ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْهُ؟ فَقَالَ لِأَجْلِ أَنَّهُ لَمْ يَصِحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِيهِ شَيْءٌ فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ كَيْفَ لَمْ يَصِحَّ، وَقَدْ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، وَعِنْدَ الرُّكُوعِ، وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ» فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ لَا يَرْفَعُ إلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُ لِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ» فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ أُحَدِّثُك عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ وَتَقُولُ حَدَّثَنِي حَمَّادٌ عَنْ إبْرَاهِيمَ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ كَانَ حَمَّادٌ أَفْقَهَ مِنْ الزُّهْرِيِّ وَكَانَ إبْرَاهِيمُ أَفْقَهَ مِنْ سَالِمٍ وَعَلْقَمَةُ لَيْسَ بِدُونِ ابْنِ عُمَرَ، وَإِنْ كَانَتْ لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَةٌ وَلَهُ فَضْلٌ فَالْأَسْوَدُ لَهُ فَضْلٌ كَثِيرٌ وَعَبْدُ اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ فَرَجَّحَ بِفِقْهِ الرُّوَاةِ لَمَّا رَجَّحَ الْأَوْزَاعِيُّ بِعُلُوِّ الْإِسْنَادِ، وَهُوَ الْمَذْهَبُ الْمَنْصُورُ عِنْدَنَا كَذَا فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 564 جلد 01 منحة الخالق، الحاشية علی البحر الرائق شرح كنز الدقائق - ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (المتوفى: 1252هـ) - دار الكتب العلمية
اب دیکھیں، یہاں امام ابو حنیفہ نے رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے پر اپنی دلیل بتلا دی ہے، یہاں دلیل طلب کرنے کا تو اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اب کیا یہاں کوئی کہتا ہے کہ اس مختلف فیہ اجتہادی مسئلہ میں مقلدین حنفیہ امام ابو حنیفہ کی تقلید نہیں کرتے! بلکل مقلدین کا یہی دعوی ہے کہ وہ مختلف فیہ اجتہادی مسئلہ میں وہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں!
یعنی کہ یہاں دلیل ''بلا طلب حجۃ'' بھی دلیل معلوم ہے، لیکن پھر بھی تقلید ہے!
اب کوئی کہے کہ یہ عامی کو تو نہیں معلوم کہ امام صاحب نے اس کی کیا دلیل بیان کی ہے، اسے تو اس کے عالم نے امام صاحب کا مؤقف بتلا دیا! اور اس عامی نے امام ابو حنیفہ کی دلیل عالم سے طلب نہ کی!
تو یہی بات تو ہم بتلا رہے ہیں کہ عامی نے امام ابو حنیفہ کی دلیل طلب نہ کی ، اور امام صاحب کے پر تقلیداً عمل کیا!
اور عالم کو امام صاحب کی دلیل معلوم تھی، اور امام صاحب کے قول پر اس نے بھی تقلیداً عمل کیا! دونوں نے تقلید کی!
عمل تقلید دونوں کا ہے! لہٰذا تقلید ''بلا طلب حجۃ'' میں مقید نہیں!
اور پھر تیسرا معنیٰ بھی اسی کو ثابت کرتا ہے کہ اگر مُقَلِد کو '' بلا طلب حجۃ'' یا '' مع طلب حجۃ'' دلیل معلوم بھی ہو تو ''بلا معرفۃ حجۃ'' ہونے کی بنا پر پھر بھی تقلید کہا گیا ہے!
اس سے پھر ثابت ہوتا ہے کہ تقلید ''بلا طلب حجۃ'' میں مقید نہیں!
اب تیسرے معنیٰ کی طرف آتے ہیں!
کہ تقلید کو ''بلا معرفت حجۃ'' میں مقید مانا جائے، تو یہ لازم آئے گا کہ تمام مقلدین کو اپنے مُقَلَد کی دلیل کہ معرفت نہیں، اور جیسا کہ آپ نے معرفت کا معنی و مفہوم بھی بیان کردیا ہے کہ فہم اور سمجھ ہے!
تو بتلائیے کہ یہ مقلدین اپنے مذہب کے اثبات اور مخالف کے مؤقف کے بطلان پر لا تعداد کتابیں دلائل کی معرفت وفہم وسمجھ کے بغیر ہی لکھ ماری ہیں!
اگر تقلید کو ''بلا معرفۃ حجۃ'' میں مقید مانا جائے، تو کسی مُقَلِد کو یہ جائز نہیں ، خواہ عامی ہو یا عالم کہ وہ کسی بھی مسئلہ میں کہ جس میں وہ تقلید کرتا ہے، گفتگو کرے! کیونکہ جب تقلید ''بلا معرفۃ حجۃ'' یعنی دلیل کی معرفت و فہم و سمجھ نہ ہونا ٹھہرا، تو وہ کس بنیاد پر اس مسئلہ میں گفتگو کرتا ہے!
اور اگر کوئی مدعی ہے کہ اسے دلیل کی معرفت و فہم و سمجھ ہے، تو پھر اس کا تقلید نہ کرنا اور مقلد نہ ہونا لازم آتا ہے!
مگر ایسا ہے نہیں! مقلدین علماء بھی مدعی تقلید ہیں اور تقلیداً ہی ان پر عمل پیرا ہیں!
اس کی ایک مثال پیش دیکھیں
محمود حسن مقلد دیوبندی فرماتے ہیں:

فالحاصل أن مسئلة الخيار من مهمات المسائل، وخالف أبو حنيفة فيه الجمهور، وكثيرا من الناس من المتقدمين، والمتأخرين صنفوا رسائل في ترديد مذهبه في هذه المسئلة، ورجح مولانا الشاه ولي الله المحدث الدهلوي قدس سره في رسائل مذهب الشافعي من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مدظله، يترجح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسئلة، ونحن مقلدون، يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة، والله أعلم.
پس اس کا حاصل(بحث کا خلاصہ ) یہ ہے کہ مسئلہ خیار مہمات المسائل میں سے ہے، اور امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہور کی مخالفت کی ہے، اور متقدمین و متاخریں میں سے بہت سے لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے مسئلہ کی تردید میں رسائل لکھے ہیں، اور مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے رسائل میں امام شافعی کے مذہب کو احادیث و نصوص کی وجہ سے راجح قرار دیا ہے، اور اسی طرح ہمارے شیخ مد ظلہ(محمود حسن دیوبندی) نے بھی کہا کہ ترجیح امام شافعی کے مذہب کو ہے، اور کہا کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح ہے، اور ہم مقلد ہیں، ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 84 جلد 01 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – الطاف ايند سنز

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 49 جلد 01 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – مكتبه رحمانيه
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 35 - 36 جلد 01 التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – قديمي كتب خانه
یہاں غور کریں، محمود الحسن دیوبندی صاحب دلائل جانتے بھی ہیں، سمجھتے بھی ہیں، اس میں سے قرآن و حدیث کے نصوص سے امام صاحب کے مؤقف کا مرجوح ہونا بھی قرار دیتے ہیں، لیکن عمل امام صاحب کے قول پر ہی کرتے ہیں، اور یہ عمل کسی دلیل کی بناء پر نہیں بلکہ تقلیداً ہے!
لہٰذا تقلید ''بلا طلب حجۃ'' یا '' بلا معرفۃ حجۃ'' یعنی یا دلیل کی معرفت و فہم و سمجھ نہ ہونے میں مقید نہیں!
بلکہ جیسا کہ علامہ تفتازانی نے بیان کیاہے کہ ؛
محض قول مُقَلَد پر عمل کا قائل ہونا تقلید ہے:

وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 01 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العمية
اس لئے کہ مقلد کے لئے یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ قرآن و حدیث اور اجماع وقیاس شرعی کا حکم کیا ہے، بلکہ اس کے لئے اس کے مُقَلَدْ کا قول ہی ہے!
آپ کو یہ واضح کرناچاہئے کہ بلاحجۃ سے آپ تینوں میں سے کون سی شق مراد لے رہے ہیں، آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کتب اصول فقہ کی شروحات میں فقہائے احناف نے بلاحجۃ کی شرح کہیں بلامعرفۃ دلیلہ اور کہیں بلاطلب حجۃ سے کی ہے، آپ اس کو ظاہر نہیں کرناچاہتے،ہم اس کوبھی نظرانداز کرتے ہیں،لیکن قارئین بھی نظرانداز کریں گے،اس کی ذمہ داری نہیں لیتا(ابتسامہ)
ہمارے لئے تو یہ واضح تھا، ہم نے دوسرے اور تیسرے معنی جو بیان کیئے ہیں، ان کا خیال رکھتے ہوئے عرض کیا ہے!
ان دونوں کا ذکر کرنا ہم نے ضروری نہیں سمجھا تھا، کہ ہمارے لئے تو یہ واضح تھی، مگر آپ کے اشکال پر اس کی تفصیل بیان کردی ہے!
اب کو دلیل کو معرفت و فہم و سمجھ کی صلاحیت کے حامل ہونگے ان کو ان شاء اللہ سمجھ آجائے گی! (ابتسامہ)

پہلی شق قطعاًمراد نہیں ہوسکتی ،اس کی دلیل کیاہے یہ آپ کے مطالبہ پر بتائوں گا، ویسے اگرآپ غورکریں گے توخود بھی اس نکتے پر پہنچ جائیں گے ۔
جی میرے بھائی! تقليد میں مَقَلَد کے پاس دلیل کے ہونے نہ ہونے کا تعلق نہیں، کیونکہ تقلید مُقَلِد کا عمل ہے نہ کہ مُقَلَد کا! یہ بات اوپر بھی بیان کی جا چکی ہے!
اوردوسری اورتیسری شق میں کوئی اعتراض ہی نہیں بنتاہے۔
دوسری اور تیسری شق کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے، کہ تقلید نہ دوسرے معنی یعنی ''بلا طلب حجۃ'' میں مقید ہے اور نہ تیسرے معنی یعنی ''با معرفۃ حجۃ'' میں مقید ہے! لہٰذا تقلید پر اعتراض قائم رہتا ہے!
اس عبارت میں آپ کو اعتراض کیانظرآیا،میری سمجھ سے توباہر ہے،دلائل سے مسائل کا استنباط مجتہد کا کام ہے، مقلد کا کام نہیں ہے،
میرے بھائی! یہاں آپ کو یہ بتلانے کے لئے تفتازانی کا حوالہ نہیں دیا گیا کہ مسائل کا استنباط مجتہد کا کام ہے! بلکہ یہ بتلانے کے لئے دیا گیا ہے کہ مُقَلِد کا دلائل اربعہ یعنی قرآن، حدیث، اجماع وقیاس سے کوئی تعلق نہیں! بلکہ اس کی دلیل صرف مُقَلَد کا قول ہے!
اور یہ جو مقلدین نعرہ لگاتے ہیں کہ ''ہمارے چار دلائل ہیں، قرآن، سنت، اجماع وقیاس ہیں، اور ''غیر مقلدین'' کے دو'' یہ نعرہ بھی دراصل جھوٹ ہے! کیوں کہ مُقَلِد کی دلیل صرف اس کے مُقَلَد کا قول ہے!
آپ مقلد کی جگہ عامی ،کم پڑھے لکھے، اوسط درجے کی لیاقت والے کردیجئے، توکیاایسے لوگ اجتہاد کریں گے،
کیوں بھائی! میں مقلد کی جگہ عامی کم پڑھے لکھے اوسط درجے کی لیاقت والے کیوں کروں؟
کیا تقلید صرف عامی کرتے ہیں!
کیا تمام مقلدین عامی ہیں؟
اور یہاں بات اجتہاد کرنے کی نہیں، ہو رہی!

ویسے برانہ مانئے گاتو تو گول مول نہیں صاف سیدھے جواب میں اپنی مسلک کی چند زندہ مجتہد شخصیات کا تعارف کرادیجئےاوریہ بھی بتادیجئے کہ آپ ہی کے مسلک کے کن حضرات نے ان کومجتہد تسلیم کیاہے،کیونکہ دعویٰ کے ساتھ دلیل ضروری ہے۔
یہ نیلام گھر والا سوال کے جواب پر واٹر کولر ملے گا؟
میرے بھائی! یہاں گفتگو اجتہاد کرنے یا مجتہد کی نہیں ہو رہی!
اس خلد مبحث سے گریز کیجئے!

وجہ اس کی یہ ہے کہ بعض امور میں آپ حضرات کے یہاں خلط مبحث بہت زیادہ ہے،
خلط مبحث آپ خود فرما رہے ہیں اور الزام ہمیں دے رہے ہیں!
دلیل کا جاننا اور دلیل سے مسائل کااستنباط کرنا دونوں میں اگرچہ زمین وآسمان کا فرق ہے لیکن آپ حضرات دونوں کو ایک شمار کردیتے ہیں،
نہیں میرے بھائی! ہم انہیں ایک نہیں سمجھتے، ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کسی فقیہ کے مستنبط کردہ مسئلہ میں فقیہ کے استنباط کا سمجھنا اور بات ہے، اور از خود کسی مسئلہ کا استنباط کرنا اور بات ہے!
ماضی قریب وبعید میں بہت سے متبحر عالم ہوئے ہیں لیکن وہ مسائل کا استنباط نہیں کرتے ہیں وہ ان مسائل کے دلائل کی پرکھ رکھتے تھے جن دلائل سے مجتہدین نے استنباط کیاہے۔
جی میرے بھائی! ہم یہ جانتے ہیں، مگر معاملہ یہ ہے کہ نئے پیش آنے والے مسائل میں اہل الحدیث علماء بھی از خود اجتہاد کرتے ہیں! اور مقلدین علماء بھی اجتہاد کرتے ہیں!
مگر آپ یہ خلط مبحث کیوں فرما رہے ہیں؟
یہاں اجتہاد پر بات نہیں ہو رہی! یہاں تقلید پر بات ہو رہی ہے!

دوسرا خلط مبحث آپ کےفرقہ میں یہ ہے کہ دلیل کا پڑھنا اور جاننا اور دلیل کا سمجھنا دونوں ایک شمار کرلیاگیاہے،
یہ آپ کی خام خیالی ہے!
ایک عامی کو اگرہم کسی مسئلہ میں دس دلیلیں قرآن وحدیث کی بتادیں لیکن اگر اس کو یہ نہ معلوم ہو کہ احادیث کے قوت وضعف کا معیارکیاہے، کتب حدیث کی اپنی درجہ بندی کیاہے، راویوں کی روایت کب مقبول اورکب مردود ہوتی ہے تواس کو دس حدیثیں سنانے سے کیافائدہ ہوا۔
ایک عامی کو عالم قرآن وحدیث سے ماخوذ مسئلہ بتلاتا ہے! اور عامی کا عالم ومفتی کے قول پر عمل کرنا تقلید نہیں!
یہ بات تقلید کی تعریف میں بیان کی جا چکی!
یہ ویسے ہی ہے جیسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ایک جاہل مجرم عدالت اوروکیل کی تمام جرحیں سنتاہے، قانونی موشگافیاں اس کے کانوں تک پہنچتی ہے، لیکن اس سے پوچھئے توکہ اس نے سمجھاکیاہے۔
امید ہے کہ اس بحث میں اس خلط مبحث سے اپنے کو دور رکھئے گا۔
میرے بھائی! آپ ہمیں خلط مبحث کا الزام دے رہے ہیں، جبکہ یہ خلط مبحث آپ کر رہے ہیں!
اول تو آپ نے اہل الحدیث مسلک کے پر اپنے تئیں کچھ باتیں بلا ثبوت منسوب کردیں! اور اہل الحدیث پر خلط مبحث کا الزام وارد کردیا! جبکہ آپ خود تقلید کے بجائے اجتہاد کی بحث چھیڑ کر خلط مبحث فرما رہے ہیں!
یہ پتہ نہیں ٹائپنگ کی غلطی ہے، یاکچھ اورجب دونوں میں عامی ہیں، اورجب دونوں میں علماء اہل الحدیث ہیں تو فرق کیابچا،یحیی گوندلوی صاحب کی طرح یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ احناف اور اہل حدیث میں کوئی فرق نہیں ہے اور اس تاویل کو درکنار کردیجئے جو صلاح الدین یوسف یامقبول نے کی ہے۔
جی! یہ ٹائپنگ کی غلطی تھی! آخر میں علمائے مقلدین لکھنا تھا!
میں یہاں وہ جملہ دوبارہ لکھ دیتا ہوں:
مزید آپ کا یہ کہنا کہ ہم آپ کو عامی کہتے ہیں، اور آپ کو یہ تسلیم ہے، تو میرے بھائی! یہ آپ غلط سمجھے ہیں
اہل الحدیث میں بھی عامی ہیں، اور مقلدین میں بھی عامی ہیں، لیکن ہر اہل الحدیث عامی نہیں، بلکہ ان میں علماء اہل الحدیث بھی ہیں، اور اسی طرح مقلدین میں بھی علمائے مقلدین ہیں!

اس کی دلیل کیاہے،آپ سے ماقبل کس بزرگ نے یہ بات لکھی ہے۔
علامہ تفتازانی کا حوالہ آپ کو کسی لیئے پیش کیا تھا؟
لیکن آپ نے صحیح کہا کہ آپ کی سمجھ سے باہر تھا:
اس عبارت میں آپ کو اعتراض کیانظرآیا،میری سمجھ سے توباہر ہے،
مزید سعید احمد پالنپوری مقلد دیوبندی اور غلام رسول سعیدی مقلد بریولی کے حوالے کو دیکھیں، جو اوپر پیش کیئے گئے ہیں!
(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
التقليد اتباع الغير علي ظن انه محق بلا نظر في الدليل

(النامي شرح حسامي : 19)
باب فساد التقليد ونفيه والفرق بين التقليدوالاتباع " قد ذم الله تبارك وتعالى التقليد في غير موضع من كتابه فقال: {اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله} [التوبة: ٣١]

١٨٩٩ - وثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث» ولا خلاف بين أئمة الأمصار في فساد التقليد فأغنى ذلك عن الإكثار "
[جامع بيان العلم وفضله ، ج2 ، ص992]
received_412184615889684.jpeg
 
Top