• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جوتے کا سفر جاری ہے

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
جوتے کا سفر جاری ہے

علی اوڈھو
جوتا اتارنے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی جوتا پہننے کی ہو سکتی ہے۔ پہلا جوتا کس نے بنایااور اس جوتے کو پہن کر سب سے پہلے خراماں خراماں کون چلا ۔اس کے قدموں کے نشان تاریخ میں ملنا مشکل ہیں ۔لیکن جتنی کہاوتیں، مثالیں اور محاورے جوتے کی شان میں کہے گئے ہیں ۔ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ جوتے کا بنی نوع انسان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔اور ہر دور میں جوتے کاایک سماجی، معاشرتی، معاشی ، اخلاقی اور سیاسی کرداربھی رہاہے۔ جوتے کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔یہ ایک ایسا پہناوا ہے جسے گوریاں بھی خوشی سے پہنتی ہیں۔جوتے کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بولتا ہے۔جب آ پ دولہا بنے بیٹھے ہوں اور” دودھ پلائی“ کے بہانے ”جوتا چھپائی “کا کھیل شروع ہو جائے۔جوتوں کی اہمیت اس وقت کچھ اور بڑھ جاتی ہے جب آپ نماز پڑھنے جاتے ہیں اورواپس آتے ہیں تو اپنے جوتے غائب پاتے ہیں۔جوتاچوروں کا شمارتوپہلے بھی مشکل تھا۔اب جوتا خور بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں ۔جوتا چھپائی کی رسمیں بھی صدیوں سے چلی آرہی تھیں لیکنجوتیوں سمیت آنکھوں پر بیٹھنے کا چلن اب جا کر عام ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے ، پوری قوم کوجوتیوں سے لگا دیا گیا ہے۔سادہ لوح عوام جس کی جوتیاں سر پر رکھتے ہیں ۔وہی انہیں جوتیاں مار کر اپنی راہ لیتا ہے۔جوتے کی مردانگی اور جوتی کی نسوانیت بھی اب جاکر کھلنے لگی ہے۔ اللہ بخشے شاعرِ باکمال جمال احسانی کو،اکثر کہا کرتے تھے۔پیارے صاحب ،ہم تو تخلیہ ملتے ہی عرض گزار دیتے ہیں۔جوتی شرما کر ہلنے لگے تو سمجھو بات بن گئی۔اور اگرجوتی پڑ گئی تو کس نے دیکھا؟۔
لیکن اب جو جوتی پڑی ہے۔خلوت میں نہیں ، جلوت میں پڑی ہے۔ جوتی کو کیا غرض ۔وہ تو ویسے ہی پاؤں کی جوتی ہے۔جو لوگ اسے جوتی کے برابر بھی نہیں سمجھتیاورکسی کو جوتی پر رکھ کر روٹی بھی نہیں دیتے۔کبھی انہیں بھی یہ جوتیاں سرپررکھنی ہی نہیں ۔سر پر کھانی بھی پڑجاتی ہیں۔اور اچھے دنوں میں ان کی جوتیاں سیدھی کرنے والے، جوتے چلتے اور جوتے برستے دیکھ کراپنی جوتیاں بغل میں دبا کرایسے غائب ہو جاتے ہیں ۔جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ پہلے رشتوں کے لیے بھی لڑکے والے جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے۔ اور جب تک جوتا گھِس نہ جائے ، لڑکی والوں کی طرف سے ہاں نہیں ہوتی تھی۔اب تورشتہ بعد میں ہوتا ہے۔جوتے پہلے پسند کیے جاتے ہیں۔ مرزاغالب کو بھی ایک دکان میں جوتے پسند آگئے تھے۔لیکن قیمت پرتکرار ہوگئی۔دکاندار سے کہنے لگے۔میاں صیحیح صیحیح قیمت لگاتے ہو یا اتاروں جوتا؟غالب کے جوتا اتارنے کا مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے کہ ان کا پیشہ ء آباسپہ گری تھا۔ہو سکتا ہے ۔آج جوتے جن کے گلے کا ہار بنے ہیں۔ ان کے آبا ء و اجداد میں کوئی جوتیاں گانٹھا کرتا ہو۔
جوتے کو شہرت ِدوام مکیش کے گانے ”میرا جوتا ہے جاپانی “سے ملی ۔پھر اس کے بعد ایلوس کا گانا”Blue Suede Shoes“ آیا۔جس نے پوری ایک نسل کو جوتے کا دیوانہ بنادیا۔رنگ برنگے جوتے مارکیٹ میں آنے لگے۔الہڑ دوشیزائیں جوتی پر کاجل پارتیں اور کھلنڈرے نوجوان دن بھر جوتے اچھالنے کے بعد جب گھروں کولوٹتے تو بزرگ ان کی جوتے سے خبرلیا کرتے تھے ۔لیکن کون جانتا تھا کہ آگے چل کر جوتی کی انی اتنی تیز ہو جائے گی کہ جوتی کے تلے سے ناک کاٹ لی جائے گی۔جوتے کے کردار کو پولیس نے ملزمان کی چھترول کے ذریعے بھی برقرار رکھا ہے۔لیکن بھارت میں 1998ء میں میرٹھ کی جیل میں بدھا سمرتی سنستھان (بی ایس ایس) کے کارکنوں نے جیلر کی چھترول کر کے جوتے کی آن ، بان اورشان میں کچھ اور اضافہ کر دیا ۔بی ایس ایس کے کارکنوں کا یہ ہتھیار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ انہوں نے بعد میں ”راشٹریہ جوتا بریگیڈ“ تشکیل دے کر احتجاج اور مزاحمت کا رنگ اور ڈھنگ ہی بدل دیا۔جوتا بریگیڈ اتنی مقبول ہوئی کہ شیوسینا کے کارکن بھی ایک دن ممبئی میں پرانے جوتے جمع کرتے دکھائی دیے۔لوگ سمجھے ،پرانے جوتوں کی نمائش ہو رہی ہے لیکن شیوسینا کے کارکنوں نے ”جوتا مار ریلی “ نکال کر سب کو حیران کر دیا۔پتلے جلانے اور مردہ باد کے نعرے لگانے کا فیشن پرانا ہوگیا ہے اور اس کی جگہ اب پرانے جوتوں نے لے لی ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کیونکہ جوتا پرانا ہو یا نیا۔ اس کو پہننے یا اتارنے کے لیے پولیس یا ضلعی انتظامیہ سے اجازت نامہ لینے کی قید نہیں۔ بوقت ضرورت اس کے استعمال پر اضافی رقم بھی خرچ نہیں ہوتی۔جوتا مارنا کوئی قابل تعزیر جرم بھی نہیں۔ یہ توایک ایسا قابل اعتماد ساتھی ہے جو چوبیس گھنٹے آپ کے ساتھ رہتا ہے۔اور جب جب بھی یہ آپ کا ساتھ چھوڑ کراچانک کسی کے سرپرٹوٹتا ہے تو دلوں اور ذہنوں پر ایسا نقشکندہ کر جاتا ہے ۔جسے وقت کا مرہم بھی نہیں مٹا سکتا۔جوتے کا استعمال کرنے والے کو آپ دہشت گرد قرار دے کر امریکہ کے حوالے بھی نہیں کرسکتے۔ یہ ایک ایساہتھیار ہے جو گولی سے زیادہ کارآمد اورموثر ثابت ہوا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جیالوں اور متوالوں نے اپنی جوتیاں سیدھی ہوتے ہی اسے اپنانے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ سرکاری دفتروں اور اداروں ، یہاں تک کہ اسمبلیوں میں بھی جوتی پر جوتی چڑھنے کے دن ہیں۔ جو لوگ انہیں جوتی پر بھی نہیں مارتے تھے۔اب یہی سلوک وہ انہیں جوتیاں مار مار کر کر رہے ہیں۔کہیں یہ جوتیاں گرج رہی ہیں اور کہیں اشاروں ، کنائیوں میں برس رہی ہیں۔جو سمجھے اس کا بھی بھلا۔جو نہ سمجھے ، اس کی بھی خیر۔جوتیوں کا صدقہ ہے، نکل رہا ہے۔جب تک جوتیوں میں دال نہیں بٹتی ۔”جوتا دکھائی “پر آنکھیں دکھانے کا فائدہ؟؟۔
اکبر الہٰ آبادی نے کہا تھا:
بوٹ ڈاسن نے بنایا ، میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا​
سنا ہے اب یہ جوتا لندن میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر چلا ہے۔ جوتے کا سفر جاری ہے ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔
 
Top