• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جو اللہ کی اطاعت کرےگا وہ کامیاب ہے

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم الله الرحمن الرحيم​

موضوع: جو اللہ کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہے۔

ترجمہ: شفقت الرحمٰن​
جناب ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے " جو اللہ کی اطاعت کریگا وہ کامیاب ہے" کے موضوع پر خطبہ دیا، جس میں انہوں نے کہا:کوئی بھی اطاعت گزارشخص ناکام نہیں ہوسکتا، اور کوئی بھی نافرمان کامیاب نہیں ہوسکتا، اور متنبہ کیا کہ بہت سی قومیں ترقی و تنزلی سے دوچار ہوئیں، اور کتنے ہی لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن روز آخرت کیلئے وہ کچھ بھی جمع نہ کر سکے۔ اے عقلمندوں عبرت حاصل کرو۔
پہلا خطبہ:
اللہ کی حمد و ثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے بعد:
اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو ، کیونکہ تقوی ہی کے ذریعے انسان اللہ کی سزا سے بچ کر اللہ کی جنتوں کو پا سکتا ہے۔ اُنکی طرح مت بن جانا جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو بھلا دیا، جس سے انکی آخرت بھی تباہ ہو گئی، اور دنیا بھی جاتی رہی۔
اللہ کے بندوں!
یہ بات ذہن نشین کرلو کہ : کوئی بھی اللہ کا اطاعت گزارشخص ناکام نہیں ہوسکتا، اور کوئی بھی نافرمان کامیاب نہیں ہوسکتا، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ سے ڈرے، اور اس کی نافرمانی سے بچتا رہے تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [النور: 52]، اور ایک مقام پر فرمایا: وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے [الجن: 23]
اے لوگو!
یقننا تمہارا رب –جسکے تمام نام پاک ہیں- رحیم ، قدیر، حکیم، اور علیم ہے جس نے تمہارے کان، آنکھ، دل اور تمام اعضاء پیدا کئے ہیں تاکہ تم اسکی عبادت شکر ادا کرنے کیلئے کرو، جیسے کہ فرمان ِ باری تعالی ہے: وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حال میں) نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اسی نے تمہارے کان، آنکھیںاور دل بنائے تاکہ تم اس کا شکریہ ادا کرو [النحل: 78]
یہ بھی اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ اس نے تمام لوگوں کیلئے کائنات کی نشانیاں مقرر کی اور بے نظیر مخلوقات پیدا فرمائیں تاکہ لوگ اپنے حقیقی پروردگار کو پہچان سکیں، اور اسکے احکامات پر عمل اور ممنوعات سے دور رہ کر اسکا قرب حاصل کر سکیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (5) إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ وہی تو ہے جس نے سورج کو ضیاءاور چاند کو نور بنایا اور چاند کے لئے منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم برسوں اور تاریخوں کا حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب چیزیں کسی حقیقی غایت کے لئے ہی پیدا کی ہیں۔ وہ اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں(5) یقینا رات اور دن کے ادل بدل (آنے جانے) میں اور ان چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیداکی ہیں ان لوگوں کے لئے بے شمار نشانیاں ہیں جو (غلط روی سے) بچنا چاہتے ہیں [يونس: 5، 6]، نیز فرمایا: وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ (37) وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ اور ان کے لئے ایک نشانی رات (بھی) ہے جس کے اوپر سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پراندھیرا چھا جاتا ہے۔(37) اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے۔ یہی زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔ [يس: 37، 38]، ایک اور جگہ پرفرمانِ باری تعالی ہے: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو بار بار ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا۔ اب جو چاہے اس سے سبق حاصل کرے اور جو چاہے شکرگزار بنے [الفرقان: 62]
مفسرین اس بارے میں کہتے ہیں کہ: "اللہ تعالی نے دن اور رات کو آگے پیچھے آنیوالے بنایا ہےتاکہ تمام انسان اللہ کی بندگی کا وقت مقرر کر سکیں، چنانچہ اگر کسی کی رات کی عبادت چھوٹ گئی تو دن میں کمی پوری کر لے ، اور اگر دن کی عبادت چھوٹ گئی تو رات کو کمی پوری کر لے"
لیل و نہار اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں، جب سے اللہ نے دن اور رات کو پیدا کیا ہے اس وقت سے آ، جا رہے ہیں، اور ان میں مخلوق کیلئے اتنے فوائد ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا، اور انہی میں نصیحت آموز اتنی باتیں ہیں جنکی گنتی نہیں کی جاسکتی۔
دن اور رات کے گزرنے سے ہی ایک ماہ مکمل ہوتا ہے اور مہینوں کے گزرنے سے سال اور کئی سالوں پر ہی افراد ، نسلوں اور قوموں کی عمریں بنتی ہیں، اور آخر کار اللہ کے پاس سب نے اکٹھے ہو کر اپنے اعمال کا بدلہ لینا ہے، اگر عمل اچھے ہوئے تو یقینا بدلہ بھی اچھا ہی ہوگا اور اگر اعمال برے ہوئے تو بدلہ بھی برُا ہی ہوگا ، اس لئے کہ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا، اسی لئے تو فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا اللہ تو کسی پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اگر کسی نے کوئی نیکی کی ہو تو اللہ اسے دگنا چوگنا کردے گا اور اپنے ہاں سے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا [النساء: 40]
یہ دن اور رات سابقہ قوموں کے ساتھ بھی تھے بد اعمال کی وجہ سےجس کے خلاف انہوں نے گواہی دی وہ برے مقام پر اور جن کے نیک اعمال کی وجہ سے انکے حق میں گواہی دی وہ اچھے مقام پر ہیں۔
کیا ہے کوئی نصیحت لینے والا؟
کیا ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا؟
اے غافل اپنے آپ پر رحم کیوں نہیں کرتا؟
اللہ سے توبہ کیوں نہیں کرتا؟
اللہ کی صفتِ حلم سے دھوکا کھانے والے !برائیوں سے کیوں نہیں بچتا؟
کیا اُس اللہ سے حیا نہیں آتی جس نے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے تجھ کو نوازا ؟
اور توں اس کے مقابلے میں گناہ کرتاپھرتا ہے!!
سنگ دل !کیا قرآنی آیات اور نصیحتوں سے تیرا قلب موم نہیں ہوتا ؟
کیا موت سے پہلے اپنا حساب نہیں کریگا؟
کیا جانتا نہیں کہ گناہوں کی لذت ایسے ختم ہوجائے گی جیسے کہ تھی ہی نہیں؟ جبکہ نیکیاں ہی باقی رہیں گی۔
کیا نظر نہیں آتا کہ کتنے لوگ آ، جا رہے ہیں ،اور کل تم نے بھی جانا ہے؟
کیا یہ سمجھتے ہو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے؟
اےمومن! کیا موت سے پہلے نیکیاں جمع نہیں کرنا چاہتا؟
یقینا سال کا آنا اور چلے جانا عقلمندوں کے لئے باعث عبرت ہے،اور اہل ایمان ، خشیتِ الہی اور برُے حساب کتاب سے ڈرنے والوں کیلئے نشانی ہے۔
تاریخ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے انکے خلاف یا انکے حق میں گواہی دے رہی ہیں، انبیاء کرام –علیہم السلام- انکے پیرو کار حضرات نے نیک کام کئے
اللہ کے دین کی مدد کیلئے،
رب العالمین کی عبادت کیلئے،
مخلوق کی راہنمائی کیلئے،
دعوت الی اللہ کیلئے،
لوگوں پر ترس کھاتے ہوئے،
اللہ کی راہ میں تکالیف برداشت کرتے ہوئے، نتیجہ (کیاہوا؟ )دونوں جہانوں میں کامیاب ہوگئے اور ہر قسم کے شر سے بچ گئے۔
اسی بات کا تذکرہ اللہ نے یوں کیا: لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (88) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کیا۔ ساری بھلائیاں انہی لوگوں کے لیے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں(88) اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں بہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔[التوبة: 88، 89]
جبکہ انبیاء کرام اورانکےپیروکار حضرات کے دشمنوں نے کفر و معاصی، اللہ اور رسول کی عداوت سے اپنی زندگیوں کو بھر ا اور ناکام و خسارے میں چلے گئے ، دنیا میں تھوڑا سا مزا لیا، جبکہ آخرت میں انہیں کچھ نا پا سکے، اسی لئے رب العزت نے فرمایا: ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ (42) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ (43) ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ پھر ان کے بعد ہم نے کئی اور قومیں پیداکیں(42)کوئی بھی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس وقت کے بعد ٹھہرسکی(43)پھر اس کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے جب بھی کسی قوم کے پاس اس کا رسول آتا تو وہ اسے جھٹلا دیتے تو ہم ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کرتے رہے تاآنکہ انھیں افسانے بنا دیا۔ سو ان لوگوں پر پھٹکار ہو جو ایمان نہیں لاتے۔[المؤمنون: 42- 44]
مزید فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ (40) لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ بلاشبہ جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے اکڑ بیٹھے، ان کے لیے نہ تو آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت ہی میں داخل ہوسکیں گے تاآنکہ اونٹ سوئی کے ناکےمیں داخل ہوجائے۔ اور ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیاکرتے ہیں(40)ان کے لئے بچھونا بھی جہنم کا ہوگا اور اوپر سے اوڑھنا بھی جہنم کا اور ہم ظالموں کو ایسے ہی سزا دیاکرتے ہیں [الأعراف: 40، 41].

بڑے واقعات میں سے ایک واقعہ نبی -صلی اللہ علیہ وسلم –کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا واقعہ ہے جسکو ہم ہر سال یاد کرتے ہیں،اس ہجرت کو اللہ نے اپنے پیارے نبی کی مددقرار دیا، چنانچہ فرمایا: إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا اگر تم اس (نبی ) کی مدد نہ کرو گے تو (اس سے پہلے) اللہ نے اس کی مدد کی جب کافروں نے اسے (مکہ سے) نکال دیا تھا۔ جبکہ وہ دونوں غار میں تھے اور وہ دو میں سے دوسرا تھا اور اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: ''غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے'' [التوبة: 40]
اس ہجرت کو اللہ نے قیامت کی دیواروں تک نصرتِ اسلام کا پہلا باب بنا دیا، اور دوسری جانب مسلمانوں کو اب ہجرت کی فضیلت کا علم ہی نہیں ہے، حالانکہ اللہ نے ایک اور ہجرت کا دروازہ کھول دیا ہے جس میں بہت بڑا اجر و ثواب ہے، اور وہ یہ کہ
انسان دلی طور پر شرک کی تمام اقسام کو چھوڑ کر توحید کی طرف آجائے،
نافرمانیوں کو ترک کر کےاطاعت کی طرف آجائے،
اللہ کی عبادت سے روکنے والی اشیاء سے عبادت میں مزید محنت کرے،
بدعات سے سنتِ رسول –صلی اللہ علیہ وسلم- کی طرف آجائے،
اور نفسانی خواہشات سے اللہ اور رسول کے پسندیدہ اعمال کی طرف آجائے۔
اسکی دلیل صحیح مسلم میں موجود فرمان نبوی ہے:[ہرج –یعنی فتنوں میں-میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرنے کی طرح ہے۔]
مزید فرمایا:[مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو چھوڑ دے۔]
قرآنی آیات ہی دلوں کی رہنمائی کر سکتی ہیں، نور ِ بصیرت مہیا کرتی ہیں، انسان کی اصلاح کرتی ہیں، اسکی زندگی کو منظم بناتی ہیں، ایمان کو تقویت دیتی ہیں ، اور اسے سیدھے رستے پر قائم رکھتی ہیں۔
کائنات کی نشانیوں سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے قرآنی آیات پر عمل کرنا انسان کو درجہِ کمال تک پہنچا کر اسکو ہر قسم کی برائی سے پاک کردیتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ یہ قرآن تو وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے [الإسراء: 9] لیکن قرآن اسی کی راہنمائی کرتا ہے جواسکو سلف صالحین ، صحابہ اور تابعین کے مطابق سمجھے، اسی لئے اللہ نے قرآن مجید کو تمام کے تمام لوگوں پر حجت بنایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَآيَاتِهِ يُؤْمِنُونَ یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم آپ کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ پھر اللہ اور اس کی آیات کے بعد آخر وہ کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ [الجاثية: 6]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، سید المرسلین کی سیرت کو ہمارے لئے نافع بنائے۔ میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:
حمدوثناء اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام کے بعد!
اللہ سے ڈرو اور اسی کی اطاعت کرو
اللہ کے بندو!
آخرت کی زندگی کیلئے نیک عمل کر لو، حقیقی زندگی تو وہی ہے، فرمان باری تعالی ہے: وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا (22) وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَأَنَّى لَهُ الذِّكْرَى (23) يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي (24) فَيَوْمَئِذٍ لَا يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ (25) وَلَا يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ (26) يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي اور آپ کا پروردگار آئے گا اس حال میں کہ فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے[22]اور جہنم اس دن سامنے لائی جائے گی، اس دن انسان نصیحت تو قبول کرے گا مگر اس وقت اسے نصیحت سے کیا حاصل ہوگا؟ [23]کہے گا: کاش!میں نے اپنی اس زندگی کے لیے کچھ آگے بھیجا ہوتا[24]پھر اس دن اللہ اسے ایسا عذاب دے گا جیسا کوئی بھی نہیں دے سکتا[25]اور جیسے وہ جکڑے گا کوئی بھی نہیں جکڑ سکتا[26]اے اطمینان پانے والی روح[27]اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی[28] تو میرے (نیک) بندوں میں شامل ہوجا[29] اور میری جنت میں داخل ہوجا[30] [الفجر: 22- 30]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حجۃ الوداع کی وصیت یاد رکھو جب آپ نے فرمایا تھا: [لوگو!اللہ سے ڈر جاو] اور مسند احمد کے الفاظ ہیں کہ [اللہ کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے مال کی زکاِِۃ ادا کرو] مسند بقی بن مخلد میں ہے کہ [بیت اللہ کا حج کرو، حکمران کی اطاعت کرو، تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاو گے۔]احمد، ترمذی۔
ابن عباس رضی اللہ عنہمانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں [پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو!جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، فراخی کو تنگی سے پہلے،صحت کو بیماری سے پہلے،فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے]
اللہ کے بندو!
اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے جسکی تعمیل میں اللہ نے پہل بھی کی فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56] اور دوسری جانب فرمانِ رسالت ہے:[جس نے مجھ پر ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے]
چنانچہ سب سید الاولین و الاخرین امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد،

دعا:
اے اللہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم – آپکی ازواج مطہرات پر ، اولاد پر ڈھیروں درود و سلام بھیج، اے اللہ تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،
اے اللہ تمام خلفائے راشدین سے راضی ہو جا،
ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ سے راضی ہو جا ،
تمام کے تمام تابعین کرام سے بھی، اور ان لوگوں سے بھی جو انکی راہ پر چلیں،
اے اللہ ہم پر اپنا کرم ، احسان، اور رحمت کرتے ہوئے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش،
اے رب العالمین تیرے اور تیرے دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، شرک اور مشرکوں کو ذلیل کردے ، اے اللہ توں ان سب پر قادر ہے۔
اے اللہ رب العالمین اپنے دین ،قرآن ، سنت نبوی کو غالب فرما۔
اے اللہ رب العالمین ہمارے معاملات آسان فرما، اے اللہ ہمارے معاملات آسان فرما،
ہمارے سینوں کو کھول دے،
ہمیں اپنے نفس کے شر سے بچا،
برے اعمال سے بچا، اور ہمیں ہر چیز کے شر سے بچا، توں ہر چیز پر قادر ہے۔
اے اللہ ہمیں اپنے ملکوں میں امن نصیب فرما، اے اللہ ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما، ہمارے ملک کو امن والا بنا، اور سارے مسلمانوں کے ممالک کو بھی امن کا گہوارہ بنا دے۔
اے اللہ خادم الحرمین الشریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، اے اللہ اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، اے اللہ رب العالمین ہر اچھے کام میں اسکی مدد فرماجو اپنی قوم ، ملک اور مسلمانوں کے لئے کرے۔
اے اللہ ہمارے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما، چاہے چھپ کر کئے یا اعلانیہ، وہ بھی جنکو توں ہم سے زیادہ جانتاہے ۔
اے اللہ بارش نازل فرما، اے اللہ بارش نازل فرما، اے اللہ بارش نازل فرما، اے اللہ ہم تیری قدرت کا واسطہ دے کر ہر چیز کا تجھ ہی سے سوال کرتے ہیں۔ تیری وسیع رحمت کے واسطے سے سوال کرتے ہیں، تیرے وسیع علم کے واسطے سے سوال کرتے ہیں، اے اللہ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ توں ہم پر رحم فرما، اللہ بارش نازل فرما اور ہمیں مایوس نا فرما۔
اے اللہ جتنے مسلمان فوت ہوچکے ہیں سب کو معاف فرما، اے اللہ جتنے مسلمان فوت ہوچکے ہیں سب کو معاف فرما، یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ تیری نعمتوں کے زوال ،تیری اچانک پکڑ، عافیت کی تبدیلی،اور تیری ناراضگی سے تیر ی پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ ہم برُے فیصلوں ،دشمنوں کے خوش ہونے، بدب بختی، اور سخت تنگی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ ہم تجھ سے جنت اور اس سے قریب کرنے والے ہر قول وفعل کا سوال کرتے ہیں، اور جہنم و اس کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
اے اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو شیطان ،شیطانی اولاد اور لشکروں سے بچا، اے اللہ مسلمانوں اور انکی نسلوں کو شیطان مردود سے بچا۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو[٩0] اور اگر تم نے اللہ سے کوئی عہد کیا ہو تو اسے پورا کرو۔ اور اپنی قسموں کو پکا کرنے کے بعد مت توڑو۔ جبکہ تم اپنے (قول و قرار) پر اللہ کو ضامن بناچکے ہوجو تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ [النحل: 90، 91]
تم اللہ کو یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی چیز ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔


لنک
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی ھمیں اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا اطاعت کرنے والا بنا دے. آمین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دعا:
اے اللہ تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،
اے اللہ تمام خلفائے راشدین سے راضی ہو جا،
ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ سے راضی ہو جا ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ارسلان بھائی اس دعا کی سمجھ نہیں آئی۔ میرا مطلب ہے کہ اللہ تعالی تو ان اصحاب رضی اللہ عنہم سے راضی ہوچکا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سورۃ التوبہ میں فرمایا:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِ‌ينَ وَالْأَنصَارِ‌ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں (١) اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے (٢) یہ بڑی کامیابی ہے۔
١٠٠۔١ اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے ایک مہاجرین کا جنہوں نے دین کی خاطر، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مکہ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آگئے دوسرا انصار جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور حفاظت فرمائی اور مدینہ آنے والے مہاجرین کی خوب پذیرائی اور تواضع کی۔ اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ تیسری قسم وہ ہے جو ان مہاجرین و انصار کے خلوص اور احسان کے ساتھ پیروکار ہیں۔ اس گروہ سے مراد بعض کے نزدیک اصطلاحی تابعین ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا لیکن صحابہ کرام کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بعض نے اسے عام رکھا یعنی قیامت تک جتنے بھی انصار و مہاجرین سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمان ہیں، وہ اس میں شامل ہیں۔ ان میں اصطلاحی تابعین بھی آجاتے ہیں۔
١٠٠۔٢ اللہ تعالٰی ان سے راضی ہوگیا کا مطلب ہے۔ کہ اللہ تعالٰی نے ان کی نیکیاں قبول فرما لیں، ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما دیا اور وہ ان پر ناراض نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے جنت کی نعمتوں کی بشارت کیوں دی جاتی، جو اس آیت میں دی گئی ہے۔
"راضی ہوجا" اور" رضی ہوچکا "میں کافی فرق ہے۔
شائد کمپوزنگ کی غلطی ہے یا میری سمجھ کی۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ارسلان بھائی اس دعا کی سمجھ نہیں آئی۔ میرا مطلب ہے کہ اللہ تعالی تو ان اصحاب رضی اللہ عنہم سے راضی ہوچکا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سورۃ التوبہ میں فرمایا:

"راضی ہوجا" اور" رضی ہوچکا "میں کافی فرق ہے۔
شائد کمپوزنگ کی غلطی ہے یا میری سمجھ کی۔
جزاک اللہ خیرا۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
جزاک اللہ خیرا انکل
آپ نے صحیح کہا ہے، "راضی ہو چکا" اور "راضی ہو" میں فرق ہے
دراصل یہ خضر حیات بھائی ایک جاننے والے شفقت الرحمن صاحب ترجمہ کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ترجمے میں غلطی کی ہو، خضر حیات بھائی ہی اس بارے میں بتا سکیں گے۔ ان شاءاللہ
خضر حیات
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
جزاک اللہ خیرا انکل
آپ نے صحیح کہا ہے، "راضی ہو چکا" اور "راضی ہو" میں فرق ہے
دراصل یہ خضر حیات بھائی ایک جاننے والے شفقت الرحمن صاحب ترجمہ کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ترجمے میں غلطی کی ہو، خضر حیات بھائی ہی اس بارے میں بتا سکیں گے۔ ان شاءاللہ
خضر حیات
نہیں ترجمہ میں غلطی والا کوئی معاملہ نہیں ۔ ’’ راضی ہو ‘‘ یہ ترجمہ ہے ’’ وارض اللہم ‘‘ کا اور اس کا ترجمہ یہی بنتا ہے ۔ لہذا مترجم تو اس اعتراض سے بری ہیں ۔
ہاں محترم نعیم یونس صاحب نے جو اعتراض کیا ہے وہ اس عبارت ’’ وارض اللہم ‘‘ بولنے والے پر کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن وہ بھی درست محسوس نہیں ہوتا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ارسلان بھائی اس دعا کی سمجھ نہیں آئی۔ میرا مطلب ہے کہ اللہ تعالی تو ان اصحاب رضی اللہ عنہم سے راضی ہوچکا
کیونکہ صحابہ کرام کے لیے ’’ رضا ‘‘ کی دعا کرنا سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے اللہ ان کے درجات مزید بلند فرما ۔ اسی طرح یہ خطبات جمعہ وغیرہ میں تاکید سے اس وجہ سے کہا جاتا ہے تاکہ دشمنان صحابہ کے مبغضانہ نظریات کی تردید ہوتی رہے ۔
مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اور آج تک ہم بھی جب ’’ شہداء احد ‘‘ کی قبروں کے پاس جاتےہیں تو ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے ان کو بخش دیا ہوا ہے ۔
واللہ اعلم ۔
 
Top