• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار و مطیع ہو اس کیلئے پرندے ، اور مچھلیاں بھی دعاء کرتی ہیں ؛

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
تحقیق حدیث کے متعلق سوال و جواب کے زمرے میں ایک بھائی درج ذیل حدیث کے متعلق سوال کیا ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
کہیں پر یہ روایت پڑہی، کیا یہ روایت صحیح ہے؟

"ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر کی تابعدار و مطیع ہو اس کیلئے پرندے ہوا میں استغفار کرتے ہیں اور مچھلیاں دریا میں استغفار کرتی ہیں اور فرشتے آسمانوں میں استغفار کرتے ہیں اور درندے جنگلوں میں استغفار کرتے ہیں۔(معارف القرآن)"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب

علامہ الذہبی نے ’’ الکبائر ‘‘ میں بغیر کسی حوالہ کے اس روایت کو ’’ روایت کیا جاتا ہے ‘‘ کے عنوان سے بیان کیا ہے ،
اور اس روایت کا مخرج اور اس کی اسنادی حالت بیان نہیں کئے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ۔۔دائرۃ الافتاء کا فتوی ہے کہ ان الفاظ سے یہ حدیث کہیں ثابت نہیں :
وننبه هنا إلى أن خروج المرأة من بيتها بغير إذن زوجها هو من النشوز المحرم باتفاق الفقهاء، ولكن لم يرد حديث خاص يلعن من تفعل ذلك، وما يتناقله الناس من حديث: (يستغفر للمرأة المطيعة لزوجها الطير في الهواء، والحيتان في الماء، والملائكة في السماء، والشمس والقمر ما دامت في رضا زوجها، وأيما امرأة عصت زوجها فعليها لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، وأيما امرأة كلحت في وجه زوجها فهي في سخط الله إلى أن تضاحكه وتسترضيه، وأيما امرأة خرجت من دارها بغير إذن زوجها لعنتها الملائكة حتى ترجع):
فهذا ليس بحديث، ولا يجوز نسبته إلى النبي صلى الله عليه وسلم.


(( http://www.aliftaa.jo/Question.aspx?QuestionId=915 ))

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوہر کی اطاعت پر کئی صحیح احادیث مروی ہیں ،
مثلاً:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا صلت المرأة خمسها، وصامت شهرها، وحصنت فرجها، وأطاعت بعلها، دخلت من أي أبواب الجنة شاءت" [2:1]
__________
1
حديث صحيح. داهر بن نوح الأهوازي: ذكره المؤلف في الثقات 8/238، وقال: ربما أخطأ، وقال الدارقطني في "العلل": شيخ لأهل الأهواز، ليس بقوي الحديث. وهدبة بن المنهال: ذكره المؤلف في الثقات 7/588، وابن أبي حاتم 9/114.وباقي السند من رجال الشيخين.
وله شاهد من حديث عبد الرحمن بن عوف عند أحمد 1/191، وأودره الهيثمي في المجمع 4/306، وزارد نسبته إلى الطبراني في "الأوسط"، وقال فيه ابن لهيعة، زحديثه حسن وبقية رجاله رجال الصحيح ‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’ جو عورت پانچ نمازیں پابندی سے ادا کرے ۔اور رمضان کے روزے رکھے ،اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے ،اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو گی ۔
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر :4163 )
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
باب : حق الزوج على المرأة
باب: بیوی پر شوہر کے حقوق کا بیان۔

عن عبد الله بن ابي اوفى قال:‏‏‏‏ لما قدم معاذ من الشام سجد للنبي صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ ما هذا يا معاذ؟ قال:‏‏‏‏ اتيت الشام فوافقتهم يسجدون لاساقفتهم وبطارقتهم فوددت في نفسي ان نفعل ذلك بك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"فلا تفعلوا فإني لو كنت آمرا احدا ان يسجد لغير الله لامرت المراة ان تسجد لزوجها والذي نفس محمد بيده لا تؤدي المراة حق ربها حتى تؤدي حق زوجها ولو سالها نفسها وهي على قتب لم تمنعه".

سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر: 1853 ۔۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح )
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ (سجدہ تحیہ) کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے معاذ! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے، اور اگر شوہر عورت سے ۔۔ خواہش کرے، اور وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے“

(تحفة الأشراف : ۵۱۸۰، ومصباح الزجاجة : ۶۵۷)، وقد أخرجہ : مسند احمد (/۳۸۱۴) (حسن صحیح)
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
ایک قول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منسوب کیا جاتا ہے "بہترین عورت وہ ہے جو کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور اسے کوئی غیر مرد نہ دیکھے"
اسکی حقیقت واضح کیجئے.
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
باب : حق الزوج على المرأة
باب: بیوی پر شوہر کے حقوق کا بیان۔

عن عبد الله بن ابي اوفى قال:‏‏‏‏ لما قدم معاذ من الشام سجد للنبي صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ ما هذا يا معاذ؟ قال:‏‏‏‏ اتيت الشام فوافقتهم يسجدون لاساقفتهم وبطارقتهم فوددت في نفسي ان نفعل ذلك بك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏"فلا تفعلوا فإني لو كنت آمرا احدا ان يسجد لغير الله لامرت المراة ان تسجد لزوجها والذي نفس محمد بيده لا تؤدي المراة حق ربها حتى تؤدي حق زوجها ولو سالها نفسها وهي على قتب لم تمنعه".

سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر: 1853 ۔۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح )
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ (سجدہ تحیہ) کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے معاذ! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے، اور اگر شوہر عورت سے ۔۔ خواہش کرے، اور وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے“

(تحفة الأشراف : ۵۱۸۰، ومصباح الزجاجة : ۶۵۷)، وقد أخرجہ : مسند احمد (/۳۸۱۴) (حسن صحیح)
السلام علیکم و رحمت الله-

ابن ماجہ کی مذکورہ بالا روایت پر ابن ابی حاتم کی جرح موجود ہے-انکے نزدیک اس روایت کا ایک راوی القاسم الشیبانی "مضطرب الحدیث" ہے (کتاب العلل)- اس روایت میں ہے کہ "لما قدم معاذ من الشام- جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے"-

شام دور نبوی میں فتح نہ ہوا تھا اور معاذ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صل الله علیہ و آله وسلم نے یمن بھیجا تھا- نا کہ ان کو شام بھیجا-

مسند احمد حدیث نمبر ١٩٤٠٣ میں القاسم الشیبانی سے مروی ہے-عَنِ القَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَدِمَ مُعَاذٌ الْيَمَنَ، أَوْ قَالَ: الشَّامَ - کہا جب معاذ رضی اللہ عنہ یمن سے واپس آئے یا کہا شام سے واپس آے -

روایت کے متن میں اضطراب ہے کبھی راوی شام کہتا ہے کبھی یمن کہتا ہے۔

الترمذي اور ابو داؤد میں اس طرح کے طرق کی کچھ روایات موجود ہیں - آخری الفاظ اسی قسم کے ہیں کہ فلا تَفْعَلُوا، لو كنتُ آمراً أحداً أن يَسجُدَ لأحدٍ لأمرتُ النِّساءَ أن يسجُدْنَ لأزواجِهِنَّ،-

لیکن یہ روایات معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے نہیں- بلکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور قيسِ بنِ سعد وغیرہ عنہ سے مروی ہیں-

کیا اس طرق کی یہ روایات صحیح ہیں - جن میں یہ نبی کریم کے
الفاظ ہیں- "اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے"؟؟

اس پر آپ کا تبصرہ چاہیے ؟؟
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمت الله-
ابن ماجہ کی مذکورہ بالا روایت پر ابن ابی حاتم کی جرح موجود ہے-انکے نزدیک اس روایت کا ایک راوی القاسم الشیبانی "مضطرب الحدیث" ہے (کتاب العلل)- اس روایت میں ہے کہ "لما قدم معاذ من الشام- جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے"-
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ " القاسم الشیبانی " صحیح مسلم کا راوی ہے، یعنی ایسے رتبہ کا حامل ہے کہ صحیح مسلم کی شرط پر پورا اترتا ہے ،اور صحیح مسلم جیسے عظیم ذخیرہ حدیث کے اعلیٰ درجہ ثقہ رواۃ میں اس کا شمار ہے ،(دیکھئے صحیح مسلم ،
باب صلاة الأوابين )
دوسری بات یہ کہ نبی کریم ﷺکا یہ فرمان دوسرے صحابہ کرام سے صحیح اسانید سے مروی ہے ،جیسا کہ خود آپ نے بتایا ،تو دوسرے صحابہ سے مروی روایات کو اس کا شاہد سمجھ لیں تو اصل حدیث تو محفوظ ثابت ہوتی ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــ
الترمذي اور ابو داؤد میں اس طرح کے طرق کی کچھ روایات موجود ہیں - آخری الفاظ اسی قسم کے ہیں کہ فلا تَفْعَلُوا، لو كنتُ آمراً أحداً أن يَسجُدَ لأحدٍ لأمرتُ النِّساءَ أن يسجُدْنَ لأزواجِهِنَّ،-
اس حدیث کے یہ الفاظ جو آپ نے نقل فرمائے ان الفاظ سے یہ حدیث سنن ابی داود (2140) میں مروی ہے،
حدثنا عمرو بن عون، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا إسحاق بن يوسف، ‏‏‏‏‏‏عن شريك، ‏‏‏‏‏‏عن حصين، ‏‏‏‏‏‏عن الشعبي، ‏‏‏‏‏‏عن قيس بن سعد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ رسول الله احق ان يسجد له، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ إني اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، ‏‏‏‏‏‏فانت يا رسول الله احق ان نسجد لك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "ارايت لو مررت بقبري اكنت تسجد له؟"قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "فلا تفعلوا،‏‏‏‏لو كنت آمرا احدا ان يسجد لاحد لامرت النساء ان يسجدن لازواجهن، ‏‏‏‏‏‏لما جعل الله لهم عليهن من الحق".
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟“ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے“۔

سنن أبو داود 2140، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۹۰)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة ۱۵۹ (۱۵۰۴)
علامہ البانیؒ فرماتے ہیں قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة القبر" یعنی یہ حدیث صحیح ہے ،لیکن اس میں (قبر پر سجدہ کرنے والا جملہ صحیح نہیں ہے)
امام دارمیؒ نے اسے قبر والے جملہ کے بغیر ہی روایت فرمایا ہے :
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانَ لَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْجُدُ لَكَ؟ قَالَ: «لَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ، لِمَا جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْهِنَّ مِنْ حَقِّهِمْ»
[تعليق المحقق] إسناده حسن

یعنی قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا تو وہاں دیکھا کہ وہاں کے لوگ
اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں (جب واپس مدینہ آیا تو میں نے کہا: اے اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کو سجدہ نہ کیا کریں ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے“۔
سنن الدارمی کے محقق علامہ حسین سلیم اسد نے اس حدیث کو حسن کہا ہے "

اورامام ابوعبدالرحمن النسائی ؒ نے السنن الکبریٰ (حدیث نمبر 9102 )میں صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ :
عن حفص ابن أخي أنس بن مالك، عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح لبشر أن يسجد لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کسی انسان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے ، اور اگر کسی بشر کیلئے دوسرے بشر کو سجدہ کرنا روا ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند جس ان پر عظیم حق ہے اس کو سجدہ کریں "
امام نورالدین ہیثمیؒ "مجمع الزوائد " میں اور علامہ ناصرالدین الالبانیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح کے روای ہیں ،یعنی اعلی درجہ کے ثقہ رواۃ ہیں ،اور مشہور محدث امام عبدالعظیم المنذریؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد نے عمدہ اسناد سے روایت کیا ہے ،اس کے راوی ثقہ اور مشہور و معروف ہیں "
وكذا البزار كما فى " المجمع " (9/4) وقال: " ورجاله رجال الصحيح غير حفص بن أخى أنس , وهو ثقة ".
وقال المنذرى: " رواه أحمد بإسناد جيد , رواته ثقات مشهورون , والبزار بنحوه ".
قلت: وهو كما قالا

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے (ارواہ الغلیل جلد 7 ص55 )
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,590
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
ایک قول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منسوب کیا جاتا ہے "بہترین عورت وہ ہے جو کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور اسے کوئی غیر مرد نہ دیکھے"
اسکی حقیقت واضح کیجئے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا یہ قول امام ابو نعیم اصفہانی (المتوفی 430ھ) نے اپنی کتاب "حلية الأولياء وطبقات الأصفياء " میں نقل فرمایا ہے ؛
علامہ البانی ؒ سلسلہ احادیث ضعیفہ حدیث نمبر 5743 / م میں لکھتے ہیں :
( ما خَيْرٌ للنساءِ ؟ فقالتْ فاطمةُ : أنْ لا يَرَيْنَ الرجالَ ولا يَرَوْنَهُنّ ) .
ضعيف .السلسلة الضعيفة للألباني
أخرجه أبو نعيم في " الحلية " ( 2 / 40 - 41 ) من طريق يعقوب ابن إبراهيم بن عباد بن العوام : ثنا عمرو بن عون : أنا هُشيم : ثنا يونس عن الحسن عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :" ما خير للنساء ؟ " . فلم ندر ما نقول ، فسار علي إلى فاطمة ، فأخبرها بذلك ، فقالت : فهلا قلت له : خير لهن أنْ لا يريْن . . . إلخ ؟ ! فقال له :" من علّمك هذا ؟ " قال : فاطمة . قال :" إنها بَضْعَةٌ منِّي " .

سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے سوال کیا کہ عوتوں میں سب سے بہترین کون ہے یا پوچھا کہ عورتوں سب سے سب اچھی صفت کیا ہے ؟ تو ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا جواب دیں (لہذا خامشی ) یہ صورت حال دیکھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس (اس سوال کے جواب لینے ) چلے گئے ،اور ان سے پوچھا تو سیدہ فاطمة الزہراؓ نے جواب دیا کہ آپ نے یہ کیوں نہیں بتایا کہ عورت کی سب سے اعلیٰ خوبی اور صفت یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ ہی کوئی غیر مرد اس کو دیکھے۔یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا ،تو آپ نے فرمایا :آپ کو یہ بات کس نے بتائی ؟ انہوں نے کہا مجھے فاطمہ (رضی اللہ عنہا ) نے یہ بات بتائی ،آپ نے فرمایا :وہ بھی میرا ہی حصہ ہے ؛
علامہ البانیؒ فرماتے ہیں کہ :
قلت : وهذا إسناد ضعيف ؛ رجاله ثقات غير يعقوب هذا ؛ فإني لم أجد له ترجمة .
ومن فوقه ؛ كلهم ثقات كما ذكرت ، وهم من رجال الشيخين ؛ لكن الحسن
- وهو البصري - مدلس .
اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے کیونکہ اس میںيعقوب ابن إبراهيم راوی کے حالات وترجمہ دستیاب نہیں ہوسکا ،اور سیدنا حسن بصریؒ بھی سند میں واقع ہیں جو مدلس ہیں ،
ثم رواه أبو نعيم عقبه وفي ( ص 175 ) من طريق أبي حصين محمد بن
الحسن الوادعي قال : ثنا يحيى الحماني قال : ثنا قيس - يعني : ابن الربيع - عن
عبد الله بن عمران عن علي بن زيد عن سعيد بن المسبب عن علي بن أبي طالب
رضي الله تعالى عنه : أنه قال لفاطمة - رضي الله تعالى عنها - : ما خير للنساء ؟
قالت : أن لا يَرَينَ الرجالَ ولا يرونهنَّ . . . فذكره للنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقال :
" إنما فاطمة مني " .
قلت : وهذا إسناد فيه علل :
الأولى : علي بن زيد - وهو ابن جدعان - ضعيف ، تابعي مدني .
الثانية : عبد الله بن عمران ؛ أظنه الذي في " ثقات ابن حبان " ( 7 / 19 ) :
" عبد الله بن عمران بن محمد بن طلحة بن عبيد الله " يروي عن جماعة من
التابعين ، روى عنه أهل العراق ، وولي القضاء ببغداد بعد أبيه ، مات ! سنة تسع
وثمانين ومئة " .
ولعل قوله : " وولي القضاء . . " إلخ مقحم من بعض النساخ ؛ فإنه لم يذكره
في " التهذيب " .
الثالثة : قيس بن الربيع ؛ وهو ضعيف ، عراقي كوفي .
الرابعة : يحيى الحماني - وهو ابن عبد الحميد - ؛ كان حافظاً ؛ ولكنه كان
يسرق الحديث ، وكذبه أحمد .
وأما أبو حصين محمد بن الحسن ؛ فكذا وقع في " الحلية " ! والصواب :
" الحسين " ؛ كما في " تاريخ بغداد " ( 2 / 229 ) و " أنساب السمعاني " ،
وذكرا عن الدارقطني أنه قال :
" كان ثقة " .
قلت : وهذا الحديث من الأحاديث الضعيفة الكثيرة التي حشرها الشيخ
التويجري في كتابه " الصارم المشهور " ( ص 31 / الطبعة الأولى ، ص 34 /
الطبعة الثانية ) دون أن يبين عللها ، أو على الأقل أن يصرح بضعف سندها ؛ نصحاً

وتحذيرات من أن يقول المسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لم يقل !
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ " القاسم الشیبانی " صحیح مسلم کا راوی ہے، یعنی ایسے رتبہ کا حامل ہے کہ صحیح مسلم کی شرط پر پورا اترتا ہے ،اور صحیح مسلم جیسے عظیم ذخیرہ حدیث کے اعلیٰ درجہ ثقہ رواۃ میں اس کا شمار ہے ،(دیکھئے صحیح مسلم ،
باب صلاة الأوابين )
دوسری بات یہ کہ نبی کریم ﷺکا یہ فرمان دوسرے صحابہ کرام سے صحیح اسانید سے مروی ہے ،جیسا کہ خود آپ نے بتایا ،تو دوسرے صحابہ سے مروی روایات کو اس کا شاہد سمجھ لیں تو اصل حدیث تو محفوظ ثابت ہوتی ہے ،
ـــــــــــــــــــــــــــ




اس حدیث کے یہ الفاظ جو آپ نے نقل فرمائے ان الفاظ سے یہ حدیث سنن ابی داود (2140) میں مروی ہے،
حدثنا عمرو بن عون، ‏‏‏‏‏‏اخبرنا إسحاق بن يوسف، ‏‏‏‏‏‏عن شريك، ‏‏‏‏‏‏عن حصين، ‏‏‏‏‏‏عن الشعبي، ‏‏‏‏‏‏عن قيس بن سعد، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ رسول الله احق ان يسجد له، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقلت:‏‏‏‏ إني اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم، ‏‏‏‏‏‏فانت يا رسول الله احق ان نسجد لك، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "ارايت لو مررت بقبري اكنت تسجد له؟"قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ لا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ "فلا تفعلوا،‏‏‏‏لو كنت آمرا احدا ان يسجد لاحد لامرت النساء ان يسجدن لازواجهن، ‏‏‏‏‏‏لما جعل الله لهم عليهن من الحق".
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟“ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کرنا، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے“۔

سنن أبو داود 2140، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۹۰)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة ۱۵۹ (۱۵۰۴)
علامہ البانیؒ فرماتے ہیں قال الشيخ الألباني: صحيح دون جملة القبر" یعنی یہ حدیث صحیح ہے ،لیکن اس میں (قبر پر سجدہ کرنے والا جملہ صحیح نہیں ہے)
امام دارمیؒ نے اسے قبر والے جملہ کے بغیر ہی روایت فرمایا ہے :
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: أَتَيْتُ الْحِيرَةَ فَرَأَيْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانَ لَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْجُدُ لَكَ؟ قَالَ: «لَوْ أَمَرْتُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ، لِمَا جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْهِنَّ مِنْ حَقِّهِمْ»
[تعليق المحقق] إسناده حسن

یعنی قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا تو وہاں دیکھا کہ وہاں کے لوگ
اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں (جب واپس مدینہ آیا تو میں نے کہا: اے اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کو سجدہ نہ کیا کریں ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے“۔
سنن الدارمی کے محقق علامہ حسین سلیم اسد نے اس حدیث کو حسن کہا ہے "

اورامام ابوعبدالرحمن النسائی ؒ نے السنن الکبریٰ (حدیث نمبر 9102 )میں صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ :
عن حفص ابن أخي أنس بن مالك، عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يصلح لبشر أن يسجد لبشر، ولو صلح لبشر أن يسجد لبشر لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها من عظم حقه عليها»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کسی انسان کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کرے ، اور اگر کسی بشر کیلئے دوسرے بشر کو سجدہ کرنا روا ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند جس ان پر عظیم حق ہے اس کو سجدہ کریں "
امام نورالدین ہیثمیؒ "مجمع الزوائد " میں اور علامہ ناصرالدین الالبانیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح کے روای ہیں ،یعنی اعلی درجہ کے ثقہ رواۃ ہیں ،اور مشہور محدث امام عبدالعظیم المنذریؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد نے عمدہ اسناد سے روایت کیا ہے ،اس کے راوی ثقہ اور مشہور و معروف ہیں "
وكذا البزار كما فى " المجمع " (9/4) وقال: " ورجاله رجال الصحيح غير حفص بن أخى أنس , وهو ثقة ".
وقال المنذرى: " رواه أحمد بإسناد جيد , رواته ثقات مشهورون , والبزار بنحوه ".
قلت: وهو كما قالا

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے (ارواہ الغلیل جلد 7 ص55 )
جزاک الله - تبصرہ اور معلومات کا شکریہ -

اگرچہ دوسرے طرق کی روایات آپ کی تحقیق کے مطابق "صحیح" ہیں لیکن

آپ نے فرمایا کہ :
پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ " القاسم الشیبانی " صحیح مسلم کا راوی ہے، یعنی ایسے رتبہ کا حامل ہے کہ صحیح مسلم کی شرط پر پورا اترتا ہے ،اور صحیح مسلم جیسے عظیم ذخیرہ حدیث کے اعلیٰ درجہ ثقہ رواۃ میں اس کا شمار ہے ،(دیکھئے صحیح مسلم ، باب صلاة الأوابين )

دوسری طرف ابن ابی حاتم کتاب العلل میں اس راوی کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ:

وَرَوَاهُ النَّهَّاسُ بنُ قَهْم ، عَنِ [الْقَاسِمِ] بإسنادٍ آخَرَ، والدَّسْتوائِي حافظٌ مُتْقِنٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَوْف مضطربُ الْحَدِيثِ، وأخافُ أَنْ يكونَ الاضطرابُ مِنَ الْقَاسِمِ.

https://books.google.com.pk/books?id=mARHCwAAQBAJ&pg=RA2-PT437&lpg=RA2-PT437&dq=وَرَوَاهُ+النَّهَّاسُ+بنُ+قَهْم+،+عَنِ+[الْقَاسِمِ]+بإسنادٍ+آخَرَ،+والدَّسْتوائِي+حافظٌ+مُتْقِنٌ،+وَالْقَاسِمُ+بْنُ+عَوْف+مضطربُ+الْحَدِيثِ&source=bl&ots=iFPMWH3PXT&sig=tAuT2avIqp6Gelf0D3lCJrSm3Zg&hl=en&sa=X&ved=2ahUKEwir2K73rKvfAhXlsnEKHaTwDe4Q6AEwAHoECAYQAQ#v=onepage&q=وَرَوَاهُ النَّهَّاسُ بنُ قَهْم ، عَنِ [الْقَاسِمِ] بإسنادٍ آخَرَ، والدَّسْتوائِي حافظٌ مُتْقِنٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَوْف مضطربُ الْحَدِيثِ&f=false

آپ کا تبصرہ چاہیے ؟؟
 
Top