• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جو لڑکا -لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہے اسکی کیا حیثیت ہے...؟؟

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام علیکم،،

جو لڑکا -لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہے اسکی کیا حیثیت ہے...؟؟

شادی کے بعد اگر دونوں کے ماں باپ شادی سے راضی ہو جائے تو کیا حکم ہوگا؟؟


ولسلام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جو لڑکا -لڑکی گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہے اسکی کیا حیثیت ہے...؟؟
لڑکا اپنا ولی خود ہوتا ہے جبکہ لڑکی کا ولی اس کا والد یا دادا یا ان کی غیر موجودگی میں اس کے علاوہ کوئی سرپرست ہوتا ہے۔ کسی لڑکی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر شریعت کی نظر میں ایک باطل نکاح ہے۔ اس موضوع پر ایک کتاب مرتب کر رہا تھا یعنی کورٹ میرج کی شرعی حیثیت کہ جس کا ابھی تک ایک باب مکمل کر پایا ہوں اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے آج کل تعطل کا شکار ہے۔ اپنی اس کتاب کی ایک کوٹیشن نقل کر رہا ہوں۔
عقد نکاح کا اصطلاحی مفہوم
دین اسلام کا اگر ہم مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ خاندان کا ادارہ چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کو حاکم اور سربراہ بنایا ہے۔ مرد اپنی زندگی میں خود انحصار(independent) ہے جبکہ عورت اپنی ساری زندگی مرد پر منحصر(dependent) ہو کر زندگی گزارتی ہے۔ شادی سے پہلے عورت کا نان نفقہ، روٹی کپڑا، تعلیم،رہائش،تربیت، نگرانی اور حفاظت کی ذمہ داری اس کے والد پر عائد ہوتی ہے جبکہ شادی کے بعد عورت کے حوالے سے یہی ساری ذمہ داریاں والد سے شوہر کی طرف منتقل ہوجاتی ہیں۔ انہی ذمہ داریوں کا انتقال 'عقد نکاح' کی اصل اور بنیاد ہے۔
فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ' ایجاب و قبول' عقد نکاح کے بنیادی ارکان ہیں یعنی اگر ایجاب و قبول(offer and acceptance) میں سے کوئی ایک رکن مفقود ہو تو نکاح نہیں ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایجاب سے کیا مراد ہے ؟ اور قبولیت کس شے کی ہے؟ ایجاب باب افعال 'أوجب یوجب یجابا'سے مصدر ہے جس کا معنی واجب کرنا ہے۔' عقد نکاح' میں ایجاب کی صورت میں کیا شے واجب کی جاتی ہے؟ اور کون اسے واجب کرتاہے؟درحقیقت عقد نکاح میں عورت کی سرپرستی اور ذمہ داری واجب کی جاتی ہے۔ عورت کا ولی یعنی باپ،اس کے ہونے والے خاوند سے یہ کہتا ہے کہ آج تک یہ لڑکی میری ذمہ داری اور سرپرستی میں تھی ، میں اس کے نان نفقہ،تعلیم، تربیت، رہائش کا ذمہ دار اور عزت کا محافظ تھا ، اب یہ ساری ذمہ داریاں اپنے کندھوں سے اتار کر تم پرواجب کرتا ہوں ، کیا تم میری اس لڑکی کی ان جمیع ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہو ؟تو لڑکاجب اس ولی کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ میں قبول کرتا ہوں تو اس عقد(contract) کو' ایجاب و قبول' کہتے ہیں۔
یہاں ایجاب کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ایجاب سے مراد لڑکی کی ذمہ داری او ر سرپرستی کا ایجاب ہے تو یہ لڑکی کی طرف سے ہو ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ مسلمان معاشروں کے ١٤ صدیوں کے عرف کے مطابق شادی سے پہلے لڑکی خود انحصار نہیں ہوتی بلکہ اپنے والدین پر انحصار کرتی ہے۔پس جب لڑکی شادی سے پہلے اپنی ذمہ دار اور سرپرست خود نہیں ہے بلکہ اس کا والد اس کا ذمہ دار اور سرپرست ہے تو یہ ذمہ داری بھی لازماً والدہی سے لڑکی کے ہونے والے شوہر کی طرف منتقل ہو گی۔ پس ایجاب یعنی لڑکی کی ذمہ داری اور سرپرستی کو واجب لڑکی کا ولی کرتا ہے اوراس ذمہ داری اور سرپرستی کو قبول لڑکا کرتا ہے اور اس' ایجاب وقبول' کو عقد نکاح کا بنیادی رکن قرار دیا گیا ہے۔

کورٹ میرج کا معنی ومفہوم
کورٹ میرج سے مراد عدالتی نکاح ہے۔ پاکستان میں کورٹ میرج کا عمومی طریق کار یہ ہے کہ جب کسی لڑکے اور لڑکی میں باہمی میل جول، بات چیت اور ملاقاتوں کے نتیجے میں معاشقہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے اور اب لڑکا اور لڑکی خفیہ شادی کرنا چاہتے ہیں جبکہ لڑکا اور لڑکی یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے والدین، خاندان اور رشتہ داروں کو اس شادی کا علم نہ ہو اور وہ ان کی رضا اور علم کے بغیر ہی محبت کی اس شادی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائیں تو اب وہ دونوں اپنے نکاح کو قانونی تحفظ دینے کے لیے دیوانی عدالت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے لڑکی اپنا بیان رجسٹر کرواتی ہے کہ اس نے یہ نکاح بغیر کسی جبر واکراہ کے اپنی آزاد مرضی سے کیا ہے۔
عموماً عدالتی نکاح کے انعقاد کے لیے لڑکا کسی وکیل سے رابطہ کرتا ہے اور وکیل اپنی فیس کے عوض عدالتی نکاح کا کام مکمل کرواتا ہے اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر بیان دینے کی بھی نوبت نہیں آتی بلکہ وکیل اپنے طور پر کاغذات مکمل کروا لیتا ہے۔ 'ایجاب وقبول' یا تو وکیل کے دفتر میں ہی مکمل ہوتاہے یا پھر لڑکا لڑکی پہلے سے ہی محلے کے کسی مولوی کے خطبہ نکاح اور دو دوستوں کی محفل میں 'ایجاب وقبول' کے بعد وکیل سے رابطہ کرتے ہیں۔
جہاں تک دو گواہوں کا معاملہ ہے تو وہ نکاح فارم میں تو موجود ہوتے ہیں اور ان کے باقاعدہ سائن بھی لیے جاتے ہیں لیکن عقد نکاح کے موقع پر یہ گواہان وکیل کے دفتر وغیرہ میں عموماً موجود نہیں ہوتے اور یہ عدالتی نکاح عموماً ان قانونی گواہان کی غیر موجودگی میں ہی ہوتا ہے۔ اکثر اوقات یہ گواہان کرائے کے ہوتے ہیں۔
بعض اوقات خطبہ نکاح نہیں ہوتا جبکہ بعض اوقات کسی مولوی صاحب کو خطبہ نکاح کے لیے فیس کے عوض بلایا جاتا ہے اور وہ نکاح کا عربی خطبہ پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔اسی طرح نکاح فارم میں لڑکے اور لڑکی کی باہمی رضامندی سے حق مہر کا تعین ہوتا ہے۔ انعقاد نکاح کے لیے لڑکے اور لڑکی میں کفو اور غیر کفو وغیرہ جیسی کسی شرط کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ یہاں انعقاد نکاح کے لیے ایک ہی شے لازم ہوتی ہے اور وہ فریقین کی باہمی رضامندی ہے۔
کورٹ میرج درحقیقت عاشق و معشوق کی اپنے اولیاء اور خاندان کی رضامندی اور علم کے بغیراس نکاح کا نام ہے کہ جس نکاح میں لڑکی اپنی رضامندی کا اظہار مجسٹریٹ کے سامنے کرتی ہے تاکہ لڑکی کے خاندان والے دونوں کو بعد ازاں تنگ نہ کریں۔ پس مجسٹریٹ کے سامنے لڑکی کے بیان کی وجہ سے یہ شادی کورٹ میرج کہلاتی ہے ۔ اس شادی کی باقاعدہ عام نکاح کی طرح رجسٹریشن ہوتی ہے اور اس میں حق مہر اور قانونی گواہان کا تعین ہوتا ہے ۔ بس کورٹ میرج کی خصوصیات یہ ہیں:
1۔اس میں لڑکے اور لڑکی کے اولیاء شامل نہیں ہوتے ہیں۔
2۔اس میں قانونی گواہان عموماً موجود نہیں ہوتے ہیں بلکہ نکاح کے بعد نکاح فارم پر فیس کے عوض ان کے سائن لے لیے جاتے ہیں۔
3۔لڑکی عموماً مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان نہیں دیتی بلکہ جب اس کو اپنے خاندان کی طرف سے نقصان پہنچنے کا کوئی شدید خطرہ لاحق ہوتاہے تو پھر عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈکرواتی ہے۔
4-اس نکاح کی رجسٹریشن ہوتی ہے اور اس میں حق مہر کا تعین فریقین کی رضامندی سے ہوتا ہے۔
5۔لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے 'ایجاب و قبول' کرتے ہیں لیکن 'ایجاب وقبول' کا جو حقیقی معنی ہم نے اوپر بیان کیاہے اس معنی میں اس نکاح میں 'ایجاب وقبول' موجود نہیں ہوتا ہے یعنی لڑکی کے ولی کی طرف سے لڑکی کی ذمہ داری لڑکے کو سونپنا'ایجاب' ہے اور لڑکے کا اس ذمہ داری کو قبول کرنا 'قبول' ہے۔

کورٹ میرج قرآن کی روشنی میں
جمہور اہل علم کے نزدیک قرآن مجید میں کئی ایک آیات ایسی ہیں جو صراحتاً یا اشارتاً اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آزاد ،عاقل اور بالغ لڑکی کا نکاح کرنے کا حق اس کے ولی کے پاس ہے اور ولی ہی لڑکی کا نکاح کرے گا۔ نکاح کا یہی طریقہ کار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلوب ومقصود ہے۔
پہلی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
'' وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.''(البقرة : ٢٣٢)

''اور جب تم اپنی عورتوں کو طلا ق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں اس بات سے مت روکو کہ وہ اپنے سابقہ خاوندوں سے معروف طریقے سے نکاح کریں جبکہ وہ آپس میں رضامند ہوں۔ پس جو کوئی بھی تم میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے یہ نصیحت کی جاتی ہے۔ یہ طرزعمل تمہارے لیے بہت پاکیزہ بھی ہے اور پاک بھی۔ اور اللہ تعالیٰ وہ کچھ بھی جانتے ہیں جو تم نہیں جانتے۔''
آیت مبارکہ کا شان نزول
کئی ایک جلیل القدر محدثین اور مفسرین نے اس آیت مبارکہ کے شان نزول کا تذکرہ فرمایا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ متوفی ٢٥٦ھ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
'' عن الحسن ( فلا تعضلوھن ) قال حدثنی معقل بن یسار أنھا نزلت فیہ قال زوجت أختا لی من رجل فطلقتھا حتی ذا انقضت عدتھا جاء یخطبھا فقلت لہ زوجتک وفرشتک وأکرمتک فطلقھا ثم جئت تخطبھا لا واللہ لا تعود لیک أبدا وکان رجلا لا بأس بہ وکانت المرأة ترید أن ترجع لیہ فأنزل اللہ ھذہ الآیة ( فلا تعضلوھن ) فقلت الآن أفعل یا رسول اللہ قال فزوجھا یاہ.'' (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح لا بولی)

'' حضرت حسن سے روایت ہے کہ قرآن کی آیت( فلاتعضلوھن )کے بارے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ یہ آیت انہی کے بارے نازل ہوئی تھی۔حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے کہاکہ ان کی ایک بہن تھی جس کی شادی انہوں نے ایک شخص سے کی اور اس شخص نے ان کی بہن کو]ایک [ طلاق دے دی یہاں تک کہ عدت گزر گئی اور وہ شخص دوبارہ ان کے پاس ان کی بہن کے لیے پیغام نکاح لے کر آیاتو میں نے اس سے کہا: میں نے تیری عزت کی اور تیرا اکرام کیا اور تیرے نکاح میں اپنی بہن دی اور تو نے اسے طلا ق دے دی اور اب اس کے لیے دوبارہ پیغام نکاح لے کر آیا ہے۔ اللہ کی قسم! اب میری بہن تیری طرف ہر گز لوٹ کر نہ جائے گی۔ اور وہ]یعنی میری بہن کا شوہر[ ایک ایسا شخص تھا جس میں کوئی حرج والی بات نہیں تھی اور میری بہن بھی اس کی طرف واپس لوٹ کر جانا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ( فلاتعضلوھن ) نازل فرما دی۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اب میں ایسا ہی کروں گا]جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے[پس انہوں نے اپنی بہن کا نکاح اس کے سابقہ خاوند کے ساتھ دوبارہ کر دیا۔''
آیت مبارکہ کا معنی و مفہوم
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورت کے اولیاء کو اس بات سے منع کیا ہے کہ اگرعورت طلاق رجعی کی عدت گزر جانے کے بعد اپنے سابقہ خاوند سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اولیاء کو اس نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے عورت کے اولیاء کو نکاح میں رکاوٹ بننے سے منع کیا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے نکاح میں ولی کا بھی اختیار ہے۔ ابو اسحاق ثعلبی متوفی٤٢٧ھ لکھتے ہیں:
'' وفی ھذہ الآیة دلیل قول من قال: لا نکاح لا بولی لأنہ تعالیٰ خاطب الأولیاء فی التزویج ولوکان للمرأة نکاح ننفسھا لم یکن ھناک عضل ولا لنھی اللہ الأولیاء عن العضل معنی یدل علیہ ما روی أبو بردة عن أبی موسی قال: قال رسول اللہ ۖ لا نکاح لا بولی.'' (الکشف والبیان : البقرة : ٢٣٢)

''اس آیت مبارکہ میں اس شخص کے لیے دلیل ہے جو یہ کہتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں لڑکی کی شادی میں اولیاء کو مخاطب کیا ہے۔ اگر عورت کے لیے اپنا نکاح کرنا خود سے جائز ہوتا توولی کی طرف سے اس کو روکنے کا کیا معنی ہو گا؟اور نہ ہی اللہ تعالیٰ اولیاء کو ]عورت کے نکاح میں[ رکاوٹ ڈالنے سے منع کرتے۔ اس آیت کا معنی و مفہوم وہی ہے جس پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو حضرت ابو بردہ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے کہ ولی کے بغیر کس قسم کا نکاح نہیں ہوتا ہے۔''
امام بغوی شافعی رحمہ اللہ ٥١٦ھ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
'' وفی الآیة دلیل علی أن المرأة لا تلی عقد النکاح ذ لوکانت تملک ذلک لم یکن ھناک عضل ولا لنھی الولی عن العضل معنی.'' (تفسیر بغوی : البقرة : ٢٣٢)
'' یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بھی عورت اپنا عقد نکاح خود نہیں کرے گی کیونکہ اگر عورت کے پاس اپنا نکاح کرنے کا اختیار ہوتا تو یہاں ولی کو روکنے کا کوئی معنی نہیں بنتا ہے۔''
ابن عادل الحنبلی رحمہ اللہ متوفی ٨٦٠ھ لکھتے ہیں :
'' تمسک بھذہ الآیة من یشترط الولی فی النکاح بناء علی أن الخطاب فی ھذہ الآیة للأولیاء قال : لأن المرأة لو کانت تزوج نفسھا أو تؤکل من یزوجھا ما کان الولی قادراعلی عضلھا من النکاح ولو لم یکن قادرا علی العضل لما نھاہ اللہ عن العضل.'' (اللباب فی علوم الکتاب : البقرة : ٢٣٢)
''اس آیت مبارکہ سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو نکاح میں ولی کو شرط قرار دیتے ہیں اور ان کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء سے خطاب کیا ہے کیونکہ اگر عورت اپنا نکاح خود کر سکتی یااپنے نکاح کے لیے وکیل خود مقرر کر سکتی ہوتی تو ولی کو یہ اختیار نہ ہوتا کہ وہ عورت کو نکاح سے منع کرے۔ اور اگر وہ عورت کو نکاح سے منع کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو منع بھی نہ کرتے۔''
معروف سعودی عالم دین شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ متوفی ١٣٧٦ھ فرماتے ہیں:
'' وفی ھذہ الآیة دلیل علی أنہ لا بد من الولی فی النکاح لأنہ نھی الأولیاء عن العضل ولا ینھاھم لا عن أمرھو تحت تدبیرھم ولھم فیہ حق.'' (تفسیر سعدی : البقرة : ٢٣٢)
'' اور اس آیت مبارکہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کا نکاح میں ہونا لازم ہے کیونکہ اولیاء کو رکاوٹ بننے سے منع کیا گیا ہے اور انہیں کسی ایسے کام سے ہی منع کیا جا سکتا ہے جو ان کے اختیار میں ہو اور انہیں اس کا حق حاصل ہو۔''
شان نزول کی روایت کی روشنی میں اس آیت مبارکہ کا معنی و مفہوم سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس آیت کا معنی و مفہوم بالکل واضح اور صریح ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی آزاد عورت کے نکاح میں جہاں اس عورت کی مرضی کی بہت اہمیت ہے وہاں اس کے اولیاء کی رضامندی کی بھی اہمیت ہے ۔ پس عورت اور اولیاء دونوں کی رضامندی کی صورت میں ہی کسی عورت کا نکاح شریعت اسلامیہ کے مطابق قرار پائے گا۔جس طرح ولی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی لڑکی وغیرہ کے نکاح میں اس کی رضامندی کو ملحوظ نہ رکھے اسی طرح کسی لڑکی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر خود سے نکاح کر لے۔ 'فلاتعضلوھن'کے الفاظ اس بات کی صریح دلیل ہیںکہ کسی آزاد عورت کے نکاح میں اس عورت کی رضامندی کے ساتھ ساتھ ولی کی رضامندی بھی ایک لازمی امر ہے۔
جب عورت مطلقہ بالغہ ہو اور اپنے سابقہ خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہو، تو اس آیت مبارکہ میںاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اولیاء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ لڑکی کی رضامندی کے ساتھ اپنی رضامندی ملاتے ہوئے اس کا نکاح کر دیں۔ اس آیت مبارکہ کے شان نزول میں بیان کی گئی مذکورہ بالاروایت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نکاح بالآخر ولی یعنی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ ہی نے کیا تھا۔دیار مغرب میں مالکیہ کے مفتی اعظم علامہ ابن عاشور مالکی متوفی ١٣٩٣ھ لکھتے ہیں:
'' وفی الآیة شارة لی اعتبار الولایة للمرأة فی النکاح، بناء علی غالب الأحوال یومئذ، لأن المرأة جانب ضعیف مطموع فیہ معصوم عن الامتھان فلا یلیق ترکھا تتولی مثل ھذا الأمر بنفسھا لأنہ ینافی نفاستھا وضعفھا فقد یستخف.'' (التحریر والتنویر : البقرة : ٢٣٢)
''اس آیت مبارکہ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ نکاح میں عورت کے ولی کا اعتبار ہو گا جیسا کہجاہلی معاشرے میں عموماً ایسا ہی ہوتا تھا]کہ شریف عورتیں ولی کے ذریعے ہی نکاح کرتی تھیں[۔]عورت کے نکاح میں ولی کے معتبر ہونے[ کی وجہ یہ بھی ہے کہ عورت فطرتاً کمزور ہوتی ہے،اس میں مردوں کو لالچ بھی ہوتی ہے اوروہ پیشہ ور بھی نہیں ہوتی(یعنی عموماًمردوں سے اس کی dealingوغیرہ نہیں ہوتی)۔ پس اس وجہ سے یہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ عورت کا معاملہ نکاح کے مسئلہ میں اس کی اپنی ذات پر ہی چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ اس کی نزاکت اور کمزوری کے خلاف بات ہے۔''
آگے چل کر علامہ ابن عاشور مالکی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ سے استدلال کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' ووجہ لشارة : أن اللہ أشار لی حقین: حق الولی، بالنھی عن العضل، ذ لو لم یکن الأمر بیدہ لما نھی عن منعہ ولا یقال : نھی عن استعمال ما لیس بحق لہ لأنہ لو کان کذلک لکان النھی عن البغی والعدوان کافیا ولجیء بصیغة ''مایکون لکم'' ونحوھا وحق المرأة فی الرضا ولأجلہ أسند اللہ النکاح لی ضمیر النساء ولم یقل : أن تنکحوھن أزواجھن وھذا مذھب مالک وا لشافعی وجمھور فقھاء السلام.'' (التحریر والتنویر : البقرة : ٢٣٢)
''اس آیت سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں دو حقوق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک تو ولی کا حق ہے اور اس کا اظہار'فلاتعضلوھن' میں ہے]یعنی ولی کے پاس لڑکی کا نکاح کرنے کا حق ہے[۔ کیونکہ اگر ولی کے پاس یہ حق نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے منع بھی نہ کرتے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ولی کو ایسے کام سے منع کیا ہے جس کے کرنے کااس کے پاس حق ہی نہیں تھا کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو یہ بتلانا ہوتا کہ ولی کے پاس ]لڑکی کو نکاح سے روکنے کا[ اختیارہی نہیں ہے تو صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوتا کہ عورتوںپر ظلم و زیادتی نہ کرو یا پھر 'فلا تعضلوھن' کی بجائے'مایکون لکم أن تعضلوھن' کا اسلوب ہوتا۔اس آیت میں دوسرا حق عورت کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت نکاح کے لیے راضی ہو۔ اسی وجہ سے نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے اور یہ نہیں کہا گیا کہ تم (یعنی ولی) ان عورتوں کا نکاح ان کے شوہروں سے کر دو۔یہی امام مالک، امام شافعی اور جمہور فقہاء کا مذہب ہے۔ ''

کہاں اور کون کا اہم فرق
یہاں یہ نکتہ بھی واضح ہو جائے کہ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ لڑکی کا نکاح کہاں کیا جائے؟۔ اس میں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لڑکی کی رضامندی لازمی امر ہے ۔ اگر تو لڑکی بالغہ باکرہ ہے تو اس کی خاموشی یا سکوت بھی اس کی رضامندی کے لیے کافی ہے اور اگر وہ مطلقہ یا شوہر دیدہ ہے تو لڑکی کی صراحتاً اجازت لازم ہو گی۔
پس لڑکی کا نکاح کہاں ہونا چاہیے تو اس کا جواب تو یہ ہے کہ وہاں ہونا چاہیے جہاں لڑکی اور اس کا ولی دونوں رضامند ہوں اور اگر دونوں میں اس جگہ نکاح کرنے کے بارے اختلاف ہو جائے تو پھر کسی کی رائے کو ترجیح حاصل ہو گی اس بارے ہم آئندہ ایک مستقل باب میں گفتگو کریں گے۔
جبکہ دوسرا مسئلہ انعقاد نکاح کا ہے یعنی لڑکی کا نکاح کون کرے گا؟ کیا لڑکی خود اپنا نکاح کرے گی یا اس کا ولی اس کا نکاح کرے گا۔ پس جہاںتک دوسرے مسئلے کا تعلق ہے تو اس میں لڑکی کا کچھ بھی اختیار نہیں ہے اور اسی بات کو امام ابن العربی مالکی رحمہ اللہ متوفی ٥٤٣ھ یوں بیان کرتے ہیں:
'' وھذا دلیل قاطع علی أن المرأة لا حق لھا فی مباشرة النکاح ونما ھوحق الولی خلافا لأبی حنیفة ولولا ذلک لما نھاہ اللہ عن منعھا.'' (أحکام القرآن لابن العربی : البقرة : ٢٣٢)
''یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل قطعی ہے کہ عورت کو اپنے نکاح کے انعقاد میں کوئی حق حاصل نہیں ہے اور یہ صرف اس کے ولی ہی کا حق ہے اور یہ فتوی امام ابو حنیفہ کی رائے کے خلاف ہے۔ اگر ولی کو لڑکی کے نکاح کے انعقاد کا حق حاصل نہ ہوتا تو اسے اس سے منع بھی نہ کیا جاتا۔''
قاضی ابن عطیہ مالکی رحمہ اللہ متوفی ٥٤٢ھ لکھتے ہیں:
'' وھذ ہ الآیة تقتضی ثبوت حق الولی فی نکاح ولیتہ وأن النکاح یفتقر لی ولی.'' (المحرر الوجیز : البقرة : ٢٣٢)
'' اور یہ آیت مبارکہ اس بات کی دلیل ہے کہ لڑکی کے نکاح کرنے میں اس کے ولی کا حق ثابت ہے اور لڑکی کا نکاح ولی کا محتاج ہے۔''
امام ابن کثیر رحمہ اللہ متوفی٧٤٧ھ لکھتے ہیں:
'' وفیھادلالة علی أن المرأة لا تملک أن تزوج نفسھا وأنہ لا بد فی تزویجھا من ولی کما قالہ الترمذی وابن جریر عند ھذہ الآیة کما جاء فی الحدیث لاتزوج المرأة المرأة ولاتزوج المرأة نفسھا فن الزانیة ھی التی تزوج نفسھا وفی الأثر الآخر لانکاح لا بولی مرشد وشاھدی عدل.'' (تفسیر ابن کثیر : البقرة : ٢٣٢)
''اس آیت مبارکہ میں یہ رہنمائی موجود ہے کہ عورت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنا نکاح خود سے کرے اور اس کے نکاح میں ولی کی رضامندی لازمی امر ہے جیسا کہ امام ترمذی اور امام ابن جریر طبری نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں کہا ہے۔ اور حدیث میں بھی منقول ہے کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت اپنا نکاح خود کرے۔ کیونکہ وہ عورت زانیہ ہے جو اپنا نکاح خود کر لیتی ہے۔ ایک اور اثر میں یہ بات مروی ہے کہ دو عادل گواہوں اور ولی مرشد کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ہے۔''

آیت کی تفسیر پر چند ممکنہ اعتراضات کا جائزہ
1۔ آیت مبارکہ کی مذکوہ بالا تفسیر پر ایک اعتراض تویہ وارد ہو سکتا ہے کہ مان لیا کہ اولیاء کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ عورت کو نکاح کرنے سے روک سکیں ، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی اولیاء کو یہ اختیار استعمال کرنے سے منع کر دیا تو اب عورت پھر اپنے نکاح میں آزا د اور خود مختار ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں، 'عقد نکاح' کہاں ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں لڑکی کی رضامندی کو مد نظر رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ لڑکی کا نکاح کون کرے گا؟ اس سوال کے جواب میں لڑکی کے اختیار کو یہاں نہیں بیان کیا جارہا ہے۔پس نکاح کرنے کا اختیار تو ولی ہی کے پاس ہے البتہ کہاں نکاح ہونا چاہیے؟ اس مسئلے میں مطلقہ اور شوہر دیدہ لڑکی کے اختیار کو ولی کے اختیار پر ترجیح دی گئی ہے اور ولی کو لڑکی کے مقابلے میں اپنی پسند چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ لڑکی کا نکاح کہاں ہوں؟ اس میں اگرچہ ولی کی رضا پر لڑکی کی رضا کو ترجیح دی گئی ہے لیکن یہ ترجیح مطلقہ اور شوہردیدہ عورت کو دی گئی ہے۔ کیا کنواری اور بالغہ لڑکی کی پسند کو بھی ولی کی پسند پر ترجیح ہو گی؟ تو یہ بات اس آیت سے ثابت نہیں ہوتی۔
تیسری اور اہم بات جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں کہ یہاں اولیاء کے اختیار کی نفی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ ان سے یہ اختیار سلب کر لیا گیا ہے بلکہ اسلوب یہ ہے کہ وہ یہ اختیار اس قسم کے حالات میں استعمال نہ کریں یعنی جب عورت مطلقہ ہو اور اپنے سابقہ خاوند سے نکاح کرنا چاہتی ہو تو اولیاء اس صورت میں اپنے اس اختیار کو استعمال نہ کریں۔
2۔ اسی طرح اس آیت مبارکہ کے الفاظ 'أن ینکحن أزواجھن'سے یہ مغالطہ نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ عورتیں خود بھی نکاح کر سکتی ہیں کیونکہ شان نزول کی روایت میں'فزوجھا یاہ' کے الفاظ اس معنی و مفہوم کی نفی کررہے ہیں۔ اگر تو اس آیت سے مراد یہ ہوتی تو شان نزول کی روایت میں یہ الفاظ نہ ہوتے کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اپنی بہن کی شادی اس کے سابقہ شوہر سے کر دی۔ روایت میں یہ بات بالکل واضح طور موجود ہے کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو اپنی بہن کے سابقہ شوہر پر بہت غصہ تھا کیونکہ اس نے ان کی بہن کو طلا ق دے دی تھی اور اب وہ اپنی بہن کا نکاح دوبارہ اس کے ساتھ کرنے پر رضامند نہیں تھے ۔ اب اس بارے اللہ کا حکم نازل ہوتا ہے کہ وہ اپنی بہن کو اپنے سابقہ شوہر سے نکاح سے نہ روکیں۔ اگرتو اس آیت کا یہی ظاہری مفہوم لیں تو پھر حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو مجرد صرف یہی حکم تھا کہ وہ اپنی بہن کے نکاح میں رکاوٹ نہ بنیں نہ کہ یہ کہ وہ اپنی بہن کا نکاح اس کے سابقہ شوہر سے کریں۔ اب حضرت معقل بن یسار اپنے بہنوئی پر غصہ کے باجود اپنی بہن کا نکاح خود سے کرتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت کا معنی و مفہوم صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی بہن کو نکاح کرنے سے نہ روکیں بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ بحثیت ولی اس نکاح کو منعقد کریں اور اس کے انعقاد میں رکاوٹ نہ بنیں ۔
جہاں تک'أن ینکحن'میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف کرنے کی بات ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ عورت کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر جائز نہیں ہے جیسا کہ احادیث میں منقول ہے۔ پس اسی لیے نکاح کی نسبتعورت کی طرف کی گئی ہے کہ یہ نکاح ولی کی اجازت کے ساتھ ساتھ اس عورت کی رضامندی اور اجازت سے ہی ہوگا۔ امام بیضاوی شافعی رحمہ اللہ متوفی ٦٩٢ھ لکھتے ہیں:
'' فلا تعضلوھن أن ینکحن أزواجھن المخاطب بہ الأولیاء لما روی أنھا نزلت فی معقل بن یسار حین عضل أختہ جمیلاء أن ترجع لی زوجھا الأول بالاستئناف فیکون دلیلا علی أن المرأة لا تزوج نفسھا ذ لو تمکنت منہ لم یکن لعضل الولی معنی ولایعارض بسناد النکاح لیھن لأنہ بسبب توقفہ علی ذنھن.'' (تفسیر بیضاوی : البقرة : ٢٣٢)
'' انہیں ان کے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو، اس آیت مبارکہ میں اولیاء کو خطاب ہے جیسا کہ حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ والی روایت میں اس کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے اپنی بہن جمیلاء کو اپنے سابقہ شوہر سے از سر نو نکاح کرنے سے روکا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ پس یہ آیت ا س بات کی دلیل ہے کہ عورت اپنا نکاح خود نہ کرے گی کیونکہ اگر وہ خود اس کا اختیار رکھتی تو ولی کو روکنے (یعنی فلا تعضلوھن)کا کوئی معنی نہیں بنتا۔ اور جو معنی و مفہوم ہم نے بیان کیا ہے اس پر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف کی ہے کیونکہ عورتوں کی طرف نکاح کی نسبت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ نکاح ان عورتوں کی اجازت سے منعقد ہوتا ہے۔''
اس آیت مبارکہ میں یہ امر قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اولیاء کے لیے اپنی لڑکیوں وغیرہ کو نکاح سے روکنا جائز نہیں ہے بلکہ اسلوب یہ رکھا ہے کہ انہیں روکنا نہیں چاہیے۔اگر تو پہلا اسلوب اختیار کیا جاتا تو اس سے یہ ثابت ہو جاتا کہ ولی کے پاس لڑکی کے نکاح میں کوئی اختیار نہیں ہے جبکہ یہاں دوسرا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ولی کو عورت کے نکاح میں اختیار حاصل ہے۔
)) (جاری ہے

پہلا نکتہ
 
Top