عبقری ریڈر
رکن
- شمولیت
- ستمبر 08، 2013
- پیغامات
- 180
- ری ایکشن اسکور
- 163
- پوائنٹ
- 41
ہمارے ایک دوست وکالت کا کام کرتے تھے' وکالت ایسا پیشہ ہے کہ جس میں عموماً دنیا جہان کے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مگر یقین کیجئے کہ انہوں نے وکالت کاکام بھی جاری رکھا اور اپنی زندگی کا رخ بھی بدل لیا۔ ان کی بیوی لیڈی ڈاکٹر تھی۔ جب وکیل صاحب کی اہل اللہ سے نسبت ہوئی تو اللہ نے دل کی حالت بدل دی۔ کہنے لگے میں نے آج کے بعد جھوٹ نہیں بولنا۔ میرا اللہ مجھے سچ بولنے پر ہی روزی دے گا۔
لوگوں نے کہا: آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے؟ سچ بولنے سے وکالت نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا چلے گی یا نہیں چلے گی مگر سچ ضرور چلے گا۔ اب تو میں نے دل میں فیصلہ کرلیا ہے۔ چنانچہ وکیل صاحب ایک دن دفتر آئے اور کہنے لگے' میں نے آج صرف دو مقدمے لینے ہیں جو سچے ہوں گے۔ لوگوں سے کہہ دیا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں تو مجھے ابھی بتادیں وگرنہ سماعت کے دوران اگر مجھے پتہ چل گیا تو میں آپ کی مخالفت کروں گا۔ اگر سچ ہوگا توڈٹ کرآپ کی حمایت کروں گا۔
لوگوں نے کہا اللہ کی پناہ! چنانچہ سب کے سب دوسرے وکلاء کے پاس چلے گئے۔ وکیل صاحب کا دفتر خالی... سارا دن کوئی کام نہیں آرہا۔ اسی حالت میں کئی مہینے گزر گئے۔ لوگوں میں چرچا ہونے لگ گیا' کسی نے مجنون کہا' کسی نے پاگل کہا' کسی نے بیوقوف کہا' کسی نے کہا مولویوں نے اس کی مت ماردی ہے' اچھا خاصا وکیل تھا انہوں نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن وہ یہی کہتا کہ مجھے جھوٹ بول کر روزی نہیں لینی۔ اللہ کی ذات مجھے سچ بولنے پر ہی روزی دے گی۔ ایک سال گزر گیا مگر کوئی کام نہ آیا چونکہ بیوی لیڈی ڈاکٹر تھی اس کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلتا رہا۔ بیوی بہت سمجھدار تھی' ایک دن وکیل صاحب سے کہنی لگی: جب آپ جھوٹ بولنا چھوڑ چکے ہیں تو آپ وکالت کو خیرباد کہیں اور تجارت کا پیشہ اختیار کرلیں۔ آپ سچ ہی بولیں' اللہ اسی میں برکت دے گا۔
وکیل صاحب نے کہا نہیں بولنا بھی سچ ہے اور کرنی بھی وکالت ہے۔ بیوی نے کہا اچھی بات ہے۔ میری دعائیں اور میرا تعاون آپ کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب فرمائے۔ وکیل صاحب ایک سال تک گھر سے دفتر آتے اور سارا دن پنکھے کے نیچے بیٹھ کر اخبار پڑھتے اور گھر واپس چلے جاتے۔ ایک دفعہ ججوں کے سامنے تذکرہ ہوگیا کہ فلاں وکیل جھوٹے مقدمے نہیں لیتا' غربت برداشت کررہا ہے اور کہتا ہے کہ مرجاؤں گا مگر سچ کو نہیں چھوڑوں گا۔ سب جج صاحبان اس بات سے بڑے متاثر ہوئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عزت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا شروع ہوگئی' وہ کہنے لگے کہ ایک سال امتحان کاتھا۔ دوسرا شروع ہوا تو مسجدوں والے' تصوف و سلوک والے' مدرسوں والے لوگوں نے سوچا کہ فلاں وکیل سچے مقدمے لیتا ہے ہمارے مقدمے سچے ہیں' پیسہ ہمارے پلے نہیں تھوڑا بہت دے دیں گے ان کا بھی گزارا ہوجائے گا چنانچہ وہ آنا شروع ہوگئے۔ جو بھی آتا وہ سچا مقدمہ لے کرآتا۔ وکیل صاحب مقدمہ لے کر عدالت میں جاتے اور ان کے حق میں فیصلہ ہوجاتا۔
دوسرامقدمہ آیا ان کے حق میں فیصلہ ہوا' تیسرا مقدمہ آیا ان کے حق میں فیصلہ ہوا۔ چند دن گزرے تو جج صاحبان آپس میں ملے اور کہنے لگے کہ یہ وکیل جو بھی مقدمے لاتا ہے وہ سچے ہوتے ہیں اس لیے اب اس سے زیادہ سوال ہی نہ کیا کرو۔ چنانچہ وکیل صاحب مقدمہ لے کر جاتے تو چند منٹ کے اندر اندر ان کے حق میں فیصلہ ہوجاتا۔ بڑے بڑے امیروں نے سوچا کہ ہمارے مقدمے سچے ہی ہیں تو پھر کیوں نہ ہم مقدمہ اسی کودیں جب وہ آنا شروع ہوئے تو پیسے زیادہ ملنے لگے۔
جب وکیل صاحب جھوٹ بولتے تھے تو ایک مہینے کا تقریباً ایک لاکھ روپیہ کماتے تھے جب سچ بولنا شروع کیا تو ایک ماہ میں دو سے اڑھائی لاکھ کمانے لگے۔
سچ بولنے پر اللہ نے دوگنا رزق دے دیا۔ا بھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ چند وکیلوں کا جج بننے کا امتحان ہوا تو ہمارے اس دوست وکیل کو کامیابی ہوئی اور وہ جج بن گیا۔ ایک وقت تھا کہ وہی آدمی ایک وکیل کی جگہ کھڑے ہوکر جھوٹ بولتا تھا' جب سچ بولنا شروع کیا تو اللہ نے اس کو عدالت کی کرسی پر بٹھا دیا۔ پہلے وہ کھڑا ہوکر سر سر کہہ رہا ہوتا تھا اب اللہ نے عدالت کی کرسی پر بٹھا دیا اب وہاں بیٹھ کر حکم نامے جاری کرتا ہے۔ میرے دوستو! یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو سچ بولے گا اللہ اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دے گا۔ربط
لوگوں نے کہا: آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے؟ سچ بولنے سے وکالت نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا چلے گی یا نہیں چلے گی مگر سچ ضرور چلے گا۔ اب تو میں نے دل میں فیصلہ کرلیا ہے۔ چنانچہ وکیل صاحب ایک دن دفتر آئے اور کہنے لگے' میں نے آج صرف دو مقدمے لینے ہیں جو سچے ہوں گے۔ لوگوں سے کہہ دیا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں تو مجھے ابھی بتادیں وگرنہ سماعت کے دوران اگر مجھے پتہ چل گیا تو میں آپ کی مخالفت کروں گا۔ اگر سچ ہوگا توڈٹ کرآپ کی حمایت کروں گا۔
لوگوں نے کہا اللہ کی پناہ! چنانچہ سب کے سب دوسرے وکلاء کے پاس چلے گئے۔ وکیل صاحب کا دفتر خالی... سارا دن کوئی کام نہیں آرہا۔ اسی حالت میں کئی مہینے گزر گئے۔ لوگوں میں چرچا ہونے لگ گیا' کسی نے مجنون کہا' کسی نے پاگل کہا' کسی نے بیوقوف کہا' کسی نے کہا مولویوں نے اس کی مت ماردی ہے' اچھا خاصا وکیل تھا انہوں نے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن وہ یہی کہتا کہ مجھے جھوٹ بول کر روزی نہیں لینی۔ اللہ کی ذات مجھے سچ بولنے پر ہی روزی دے گی۔ ایک سال گزر گیا مگر کوئی کام نہ آیا چونکہ بیوی لیڈی ڈاکٹر تھی اس کی تنخواہ سے گھر کا خرچہ چلتا رہا۔ بیوی بہت سمجھدار تھی' ایک دن وکیل صاحب سے کہنی لگی: جب آپ جھوٹ بولنا چھوڑ چکے ہیں تو آپ وکالت کو خیرباد کہیں اور تجارت کا پیشہ اختیار کرلیں۔ آپ سچ ہی بولیں' اللہ اسی میں برکت دے گا۔
وکیل صاحب نے کہا نہیں بولنا بھی سچ ہے اور کرنی بھی وکالت ہے۔ بیوی نے کہا اچھی بات ہے۔ میری دعائیں اور میرا تعاون آپ کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب فرمائے۔ وکیل صاحب ایک سال تک گھر سے دفتر آتے اور سارا دن پنکھے کے نیچے بیٹھ کر اخبار پڑھتے اور گھر واپس چلے جاتے۔ ایک دفعہ ججوں کے سامنے تذکرہ ہوگیا کہ فلاں وکیل جھوٹے مقدمے نہیں لیتا' غربت برداشت کررہا ہے اور کہتا ہے کہ مرجاؤں گا مگر سچ کو نہیں چھوڑوں گا۔ سب جج صاحبان اس بات سے بڑے متاثر ہوئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عزت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونا شروع ہوگئی' وہ کہنے لگے کہ ایک سال امتحان کاتھا۔ دوسرا شروع ہوا تو مسجدوں والے' تصوف و سلوک والے' مدرسوں والے لوگوں نے سوچا کہ فلاں وکیل سچے مقدمے لیتا ہے ہمارے مقدمے سچے ہیں' پیسہ ہمارے پلے نہیں تھوڑا بہت دے دیں گے ان کا بھی گزارا ہوجائے گا چنانچہ وہ آنا شروع ہوگئے۔ جو بھی آتا وہ سچا مقدمہ لے کرآتا۔ وکیل صاحب مقدمہ لے کر عدالت میں جاتے اور ان کے حق میں فیصلہ ہوجاتا۔
دوسرامقدمہ آیا ان کے حق میں فیصلہ ہوا' تیسرا مقدمہ آیا ان کے حق میں فیصلہ ہوا۔ چند دن گزرے تو جج صاحبان آپس میں ملے اور کہنے لگے کہ یہ وکیل جو بھی مقدمے لاتا ہے وہ سچے ہوتے ہیں اس لیے اب اس سے زیادہ سوال ہی نہ کیا کرو۔ چنانچہ وکیل صاحب مقدمہ لے کر جاتے تو چند منٹ کے اندر اندر ان کے حق میں فیصلہ ہوجاتا۔ بڑے بڑے امیروں نے سوچا کہ ہمارے مقدمے سچے ہی ہیں تو پھر کیوں نہ ہم مقدمہ اسی کودیں جب وہ آنا شروع ہوئے تو پیسے زیادہ ملنے لگے۔
جب وکیل صاحب جھوٹ بولتے تھے تو ایک مہینے کا تقریباً ایک لاکھ روپیہ کماتے تھے جب سچ بولنا شروع کیا تو ایک ماہ میں دو سے اڑھائی لاکھ کمانے لگے۔
سچ بولنے پر اللہ نے دوگنا رزق دے دیا۔ا بھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ چند وکیلوں کا جج بننے کا امتحان ہوا تو ہمارے اس دوست وکیل کو کامیابی ہوئی اور وہ جج بن گیا۔ ایک وقت تھا کہ وہی آدمی ایک وکیل کی جگہ کھڑے ہوکر جھوٹ بولتا تھا' جب سچ بولنا شروع کیا تو اللہ نے اس کو عدالت کی کرسی پر بٹھا دیا۔ پہلے وہ کھڑا ہوکر سر سر کہہ رہا ہوتا تھا اب اللہ نے عدالت کی کرسی پر بٹھا دیا اب وہاں بیٹھ کر حکم نامے جاری کرتا ہے۔ میرے دوستو! یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو سچ بولے گا اللہ اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دے گا۔ربط