وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شروع از بتاریخ : 16 December 2012 02:27 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
1۔ اگر ایک شخص اللہ کی جھوٹی قسم کھاتا ہے اور پھر اپنے اس عمل پہ نادم ہو کر توبہ و استغفار بھی کرتا ہے اور اپنی جھوٹی قسم کا کفارہ بھی دینا چاہتا ہے تو اس کے لئے وہ قرآن حکیم کے حکم کے مطابق ۱۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا چاہتا ہے مگر وہ ایک ایسی کمیونٹی میں رہ رہا ہے جہاں اسے عام طور پہ مسکین لوگ نہیں ملتے یا وہ خود سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے سرکاری جگہ پہ مسکین لوگوں کو بلا کے ان کے کھانے کا بندوبست نہیں کر سکتا تو اس کے لئے کیا وہ کسی ویلفئیر ٹرسٹ (سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ) وغیرہ کو نقد رقم دے سکتا ہے کہ وہ اس کی طرف سے مسکینوں کو کھانا کھلا دے؟ کیا اس طرح اس کا کفارہ ہو جائے گا یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا ہو گا؟
2۔ کیا اگر وہ شخص روزانہ ایک، دو یا تین مسکینوں کوکسی بھی ہوٹل پر کھانا کھلا دے اور اس طرح وہ شریعت کی مقرر کردہ تعداد یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو یہ شریعت اسلامیہ میں جائز ہے یا نہیں؟
شریعت اسلامیہ میں ان مسائل کے حل کے لئے کیا رہنمائی ملتی ہے، مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ ان مسائل کی وضاحت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی سابقہ معاملے پر جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے، کیونکہ اس میں انسان جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے،اور کسی کا ناحق مال ہتھیا رہا ہوتا ہے،ایسی جھوٹی قسم کھانے پر کوئی کفارہ نہیں ہے، بلکہ توبہ کرنا،کثرت سے استغفار کرنا ،اور اگر کسی کا حق مارا ہے تو اسے واپس کرنا لازم اور ضروری ہے، شاید اللہ اس کے اس گناہ کہ معاف فرما دے۔ ایسی جھوٹی کے بارے ارشاد باری تعالی ہے:
﴿إِنَّ الَّذينَ يَشتَرونَ بِعَهدِ اللَّهِ وَأَيمـٰنِهِم ثَمَنًا قَليلًا أُولـٰئِكَ لا خَلـٰقَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنظُرُ إِلَيهِم يَومَ القِيـٰمَةِ وَلا يُزَكّيهِم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ٧٧﴾.... سورة آل عمران
بے شک وہ جو اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدتے ہیں،ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، قیامت والے دن اللہ نہ تو ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا،اور نہ ہی ان کو پاکیزہ کرے گا، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
نبی کریمﷺ نے کباءر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«الكبائر الإشراك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس واليمين الغموس » رواه البخاري .
کبیرہ گناہ یہ ہیں:اللہ کے ساتھ شرک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا
ہاں البتہ اگر کسی مستقبل کے امر پر قسم کھائی کہ میں یہ کام نہیں کرونگا،پھر کسی ضرورت کے تحت وہ کام کر لے تو اس صورت میں قسم توڑنے والے پر کفارہ لازم آتا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
قسم کے کفارہ میں فقط ۱۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہی نہیں ہے ،بلکہ اس میں تین چیزیں اور بھی شامل ہیں،آپ ان میں سے جو میسر ہو وہ ادا کر سکتے ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:
﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَتُهُ إِطعامُ عَشَرَةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحريرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذٰلِكَ كَفّـٰرَةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚوَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم ۚ..... ٨٩﴾.... سورة المائدة
’’اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قَسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو ) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو)، اور اپنی قَسموں کی حفاظت کیا کرو‘‘
اور اگر آپ ۱۰ مسکینوں کو کھانا ہی کھلانا چاہتے ہیں اور ایسی جگہ قیام پذیر ہیں جہاں کوئی مسکین نہیں تو پھر کسی قابل اعتماد شخص یا پھر کسی قابل اعتماد خیراتی تنظیم (جیسے آپ نے ایک ٹرسٹ کا نام لیا ہے) کو بطور وکیل بنا کر کفارہ اور صدقہ کی رقم دوسرے ملک بھیجنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ رقم مستحقین تک پہنچ سکے ۔
فقیر اورمسکین وہ شخص ہے جس کے پاس ضروریات کی کمی ہو اور اس کے پاس یہ چيزیں نہ پائيں جائيں۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی