علامہ ابن کثیر اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
’’ ۔۔ثم رغب تعالى في النفقة في سبيله، وبذل المهج في مرضاته ومرضاة رسوله، فقال: {وجاهدوا بأموالكم وأنفسكم في سبيل الله ذلكم خير لكم إن كنتم تعلمون} أي: هذا خير لكم في الدنيا والآخرة، ولأنكم تغرمون في النفقة قليلا فيغنيكم الله أموال عدوكم في الدنيا، مع ما يدخر لكم من الكرامة في الآخرة، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم: "وتكفل الله للمجاهد (1) في سبيله إن (2) توفاه أن يدخله الجنة، أو يرده إلى منزله نائلا ما نال من أجر أو غنيمة" ( رواه البخاري في صحيحه برقم (7463) ومسلم في صحيحه برقم (1876) من حديث أبي هريرة رضي الله عنه
ولهذا قال تعالى: {كتب عليكم القتال وهو كره لكم وعسى أن تكرهوا شيئا وهو خير لكم وعسى أن تحبوا شيئا وهو شر لكم والله يعلم وأنتم لا تعلمون} [البقرة: 216] .
ومن هذا القبيل ما رواه الإمام أحمد:
حدثنا محمد بن أبي عدي، عن حميد، عن أنس؛ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل: "أسلم". قال: أجدني كارها. قال: "أسلم وإن كنت كارها" المسند (3/109)
جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول ﷺ کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ ہوگا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں ۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے خود الہ العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کردیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کترا کھا رہے ہو ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لئے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بیحد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے۔ حضور نے ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہوجا اس نے کہا جی تو چاہتا نہیں آپ نے فرمایا گو نہ چاہے (مسند احمد)