جہاد دفع اور طلب کا فرق
متعدد ریاستوں میں جہاد دفاعی کی شرعی حیثیت
ترک جہاد قدس والی ریاستوں کا حُکم
اس مضمون میں ہماری گفتگو رُحیلی/ مدخلی شبہات کے رد میں خصوصا بن سلمان کی مزعومہ خلافت کے سیاق میں ہوگی، کیونکہ استھزائے جہاد قدس کے بعد اسے منھج سلف کے نام پر پُوری دُنیا میں ایکسپورٹ یہی ریاست کررہی ہے، پاکستان یا کوئی اور مُلک نہیں۔ اب ذيل میں رُحیلی کی جہالتیں ان کی حقیقت کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔
(پہلا جہل):-“چونکہ آج مسلمانان عالم ایک امارت کُبری کے تحت یا ایک مملکت اسلامی میں جمع ہونے کی بجائے کئی ریاستوں اور امارتوں میں منقسم ہیں، لہذا اگر دُشمن کسی ایک پر حملہ کردے تو دوسرے مُلک سے دفاع کے لیے جانے والے کا جہاد دفاعی نہیں بلکہ طلبی کہلائے گا”۔
حقیقت:- اس میں رُحیلی نے دو طرح سے تلبیس کی ہے، ایک جہاد دفع کو طلب کے ساتھ خلط کردیا جس سے وجوب دفاع کی شرعى سنگینی ختم ہوگئی، اور دوسرا دفع کو مختلف ریاستوں کے تابع کردیا، جو پہلی تلبیس کا لازمہ بھی ہے، کیونکہ جہاد طلب بغیر اذن حاکم نہیں ہوسکتا تو تابع ہوگیا جبکہ دفع اس شرط کا محتاج نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شرعًا جہاد دفع کے وجوب کی کوئی صورت آج موجود نہیں لہذا اہل قدس کی نسل کشی اور مسجد اقصی کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ بن سلمان کا ناچ گانا اسی طرح جاری رہے گا۔
پہلی تلبیس کا جواب یہ ہے کہ جہاد دفع اور طلب کی اصطلاحات ائمہ اُمت کے ہاں صدیوں سے رائج ہیں۔ “دفع” کا مطلب کسی خطہ اسلامی پر حملہ آور دُشمن کے مقابلے میں نفس اور حُرمات وغیرہ کا دفاع ہے، جبکہ طلب سے مُراد خود اراضی کُفار کی طرف بغرض جہاد نکلنا ہے جس میں دعوت اسلام کا توسع اور اعلائے کلمۃ اللہ جیسے مقاصد ہوتے ہیں۔
حدیث بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ میں جہاد طلب کے ضوابط کے بارے میں خصوصیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی نصیحت موجود ہے۔ اس کے برعکس جہاد دفاعی کا مقصد بہرصورت کافر کے مقابلے میں اپنی حرمات کا دفاع ہے جس کے لیے کوئی ایسی شرط، یہاں تک کہ حملے کی زد میں آنے والے کے لیے اپنا دفاع کرتے ہوئے نیت “فی سبیل اللہ” بھی ضروری نہیں۔
یہ دونوں کے مفاہیم میں کلیدی فرق ہے۔ اس لیے لفظ “جہاد دفع” کےاطلاق میں سلف سے لے کر خلف تک کسی نے اس بات کو قابل التفات نہیں جانا کہ دفاع کرنے والا مسلمان اُسی جگہ سے ہے جس پر حملہ ہوا یا کسی دوسرے مُلک سے آیا ہے۔ یہ جہل پہلی دفعہ رُحیلی سے سرزد ہوا ہے اور منھج سلف کا چُورن بیچنے والے یہاں ڈھٹائی سے سلف صالحین کی مُخالفت میں اُس کا دفاع کررہے ہیں۔
حالانکہ امت کی مختلف امارتوں اور مملکتوں میں تقسیم آج کی نہیں۔ سن 138هـ/ 756م میں ہی اندلس اور شمالی افریقہ کے علاقوں میں عبد الرحمن ابن معاویہ جو عبد الرحمن الداخل رحمہ اللہ تعالی کے نام سے معروف ہیں، عباسی سلطنت کے متوازی مستقل اُموی امارت قائم کرچُکے تھے۔
پھر بعد کے ادوار میں بھی اس طرح ولایات کی تقسیم جاری رہی لیکن فقہائے اُمت متفقہ طور پر ان تمام ادوار میں جہاد دفع کی تعریف میں یہی کہتے رہے کہ کسی بھی مملکت اسلامی پر دُشمن کے حملے کا دفاع، بلا تفریقِ ریاست، کُل اُمت پر واجب ہے، جو قریب کے علاقوں سے شروع ہوتے ہوئے عدم کفایت کی صورت میں تمام بلاد اسلامیہ تک پھیلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ مقصود، یعنی دفاع حُرمت مسلم، حاصل ہوجائے۔
اس سلسلے میں سلف کے اقوال کثیر اور صریح ہیں۔ “
جہاد فلسفلسطین منھج سلف کے آئینے میں” کے عنوان سے ہم نے تقریبًا تمام مذاہب سے اس قسم کی تصریحات کو نقل کیا ہے جن کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ یہ امر واضح ہے۔
خلاصہ حُکم یہی ہے کسی ایک مسلم ملک پر کفار کے حملے کا دفاع سب ممالک پر واجب ہے اور اسے بغیر کسی اضافی قید کے جہاد دفاعی کہا جاتا ہے۔ معاصرین کبار مثل ابن باز، ابن عثیمین اور البانی اور دیگر رحمھم اللہ تعالی بھی بعینہ اسی موقف پر ہیں۔
مثلا علامہ البانی جہاد افغانستان کے بارے میں فرماتے ہیں (
قولنا أن الجهاد في أفغانستان فرض عين ؛ نعني بأنه لا يجوز أن نترك المسلمين الأفغانيِّين لوحدهم ، وأنه يجب على كل المسلمين أن يساعدوهم بأبدانهم وأموالهم وألسنتهم كما قال - صلى الله عليه وآله وسلم - : "جاهدوا المشركين بأموالكم ، وأنفسكم ، وألسنتكم")
یعنی (اختصارا) تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ افغانیوں کو اکیلا نہ چھوڑیں اور اپنی جان مال زبان کے ساتھ اُن کی مدد کریں کیونکہ یہ فرض عین ہے اور جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “مشرکین کے ساتھ اپنے جان مال اور زبان کے ذریعے جھ اد کرو”… پھر کہتے ہیں کہ “مقصود یہ ہے کہ اتنے مسلمان(دُنیا بھر) سے نکلیں جس سے کافر غاصب کو بھگانا ممکن ہوجائے”… جو عین جہاد دفاعی کے فریضہ کی صورت ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ (
أن البلاد الإسلامية إذا غُزيت من الكفار فعلى المسلمين أن ينفروا كافة) کہ
“بلاد اسلامیہ جب کفار کے حملے کی زد میں آئیں تو تمام مسلمانوں پر نکلنا واجب ہے”…. اسی طرح مزید عموم کے ساتھ کہتے ہیں کہ (
حکم الجھاد فی افغانستان کالجھاد فی فلسطین وکالجھاد فی کل بلاد الاسلام التی ھوجمت من الکفار)… یعنی
“افغان جہاد کا حکم بھی فلسطین کے جہاد اور ہر اُس اسلامی ملک کے جہاد کی طرح ہے جس پر کفار کی طرف سے یلغار کی جائے”… اور یہی جہاد دفاعی کا تصور شرعی اور حُکم ہے۔
اسی طرح کا قول شیخ مقبل بن ھادی رحمہ اللہ تعالی کا ہے، تو بہرحال ان چند مثالوں سے رُحیلی کی مُلکوں کی بنیاد پر دفع کو طلب بنانے والی تلبیس پوری طرح منکشف ہوجاتی ہے۔
اصطلاحات کی اہمیت
واضح رہے کہ یہ معاملہ صرف اصطلاحات تک محدود نہیں، مبادا کہ کوئی اسے رُحیلی کی ایک نئی تعبیر سمجھ لے اور بس۔ بلکہ ان اصطلاحات کے پیچھے عظیم شرعی تصورات موجود ہیں۔ اس قسم کے اسماء یا اصطلاحات خود اصل نہیں ہوتیں بلکہ ان کے مدلولات میں وہ اجماعی تصورِ شرعی اصل ہوتا ہے جس کے ابلاغ کے لیے علمائے اُمت ان کو اختیار کرتے ہیں۔
لیکن اہل بدعت کا ہمیشہ سے طریقہ کار یہ رہا کہ وہ ان اسماء میں تصرف کے ذریعے حقائق شرعیہ کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ منکرین حدیث مثل فرقہ غامدیہ محدثین کا لفظ “سُنت” استعمال کرکے سُنت ابراہیمی اور پھر اسکے ضمن میںں فطرت اور تواتر عملی وغیرہ کی بدعات داخل کرتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے “
یسمونھا بغیر اسمھا” فرماکر اس فتنے سے اُمت کا آگاہ فرمایا تھا، یعنی نام بدل کر حرام کو حلال کرنا۔ اسے (
تسمية الأشياء بغير اسمها) کہا جاتا ہے۔ تو جہاد دفاعی اور جہاد طلبی دو الگ الگ شرعی احکام ہیں جو قران و سنت میں مستقل طور پر اپنے اپنے ضوابط کے ساتھ ثابت ہیں۔ ان میں گڈ مڈ کرنا دراصل ان احکام میں تغییر کرنا ہے۔
جہاد دفاعی اور مختلف ریاستوں کا مسئلہ
جہاد قدس ایسا واجب ہے کہ جو شرعًا آجکل کی مختلف اسلامی ریاستوں کے تابع فرمان ہے نہ اس بنا پر اسے طلبی کہا جاسکتا ہے۔ ہاں جبرًا روک دیا جائے تو الگ بات ہے۔ یہ ہمارا دو ٹوک موقف ہے۔ اس کی وضاحت ہم دو عظیم شرعی اصلین(بنیادوں) پر کریں گے۔
پہلی اصل یہ ہے کہ قدس کا دفاعی جہاد، دفاع حُرمات کے باب سے ہے جو عقیدے کی اساس ہے۔ فرمان الہی ہے کہ “
حرمتیں (ایک دوسری کا) بدلہ ہیں، پس جو تم زیادتی کرے تُم اس پر اسی کی مثل زیادتی کرو” (
والحرمات قصاص.. الآیۃ)۔
علامہ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں (
جمیع ما أمر الشرع باحترامه، فمن تجرأ عليها فإنه يقتص منه، فمن قاتل في الشهر الحرام، قوتل، ومن هتك البلد الحرام، أخذ منه الحد، ولم يكن له حرمة، ومن قتل مكافئا له قتل به، ومن جرحه أو قطع عضوا، منه، اقتص منه، ومن أخذ مال غيره المحترم، أخذ منه بدله)..
یعنی ہر وہ چیز جس کو شریعت نے حرمت دی اس کا شرعی بدلہ لیا جائے گا خواہ وہ شہر حرام ہو یا بلد حرام یا انسانی جان، عضو یا مال.. الخ۔ اس میں عمومی مساجد ، شعائر اللہ اور مسجد اقصی کی حُرمت بھی بالاولی شامل ہے جیسا کہ نصوص وحی شاہد ہیں۔
مثلا (
المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ)بلکہ سرزمین شام اور ماحول بیت المقدس یہ سب ارض مبارکہ ہے جس کی تفسیر میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دین و دُنیا دونوں کی برکت کو لیے ہوئے ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ ارض مبارک سے مُراد شام ہے۔
لہذا قدس کی حرمت عظیم ہے۔ اسی طرح مومن کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کے گھر اور دہلیز کی بھی حُرمت ہے، نبی مکرم نے فرمایا کہ “
کوئی اگر تیرے گھر میں بغیر اجازت کے جھانکے اور تُو کنکر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تُجھ پر کوئی گناہ نہیں”.. (
لو أن رجلاً اطَّلع عليك بغير إذنٍ فقذَفْتَه بحصاةٍ ففقأت عينه ما كان عليك جناح)..
اسی طرح قران کریم مومنین کی شان بیان کرتے ہوئے کہتا کے (
والذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون).. یہاں اہل جنت کے اوصاف کا بیان ہے کہ “جب اُن پر زیادتی ہوتی ہے تو بدلے میں غالب آکر رہتے ہیں”، شیخ سعدی اسکی تفسیر میں فرماتے ہیں(
لم یکونوا اذلاء عاجزین عن الانتصار).. یعنی “اہل ایمان ایسے ذلیل نہیں بنے رہتے جو نصرت انتقام سے عاجز ہوں”۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ آور سے بہرصورت اپنے جان، مال اور عرض کے دفاع کا حکم دیا، اگر قتل ہوجائے تو شہید ہے اور اگر دفاع کے لیے قتل کردے تو مقتول جہنمی ہے۔ (
من قتل دون عرضہ فھو شھید)۔ یہ مسئلہ کتب فقہ میں “دفع الصائل” یعنی “حملہ آور کے مقابلے” کے نام سے معروف ہے۔
مندرجہ بالا تمام نصوص مسلمان حملہ آور کو بھی شامل ہیں۔ یعنی بالفرض کوئی نماز روزے کا پابند شخص بھی مُسلمان کی حُرمت پر تعدی کرے تو مقابلہ واجب ہے اور اگر وہ مارا جائے تو جہنمی ہے، تو کافر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ خصوصا اُن یہود کے بارے میں جن کا وصف رب ذو الجلال نے سورة المائدة آیت نمبر 60 میں یوں بیان کیا کہ
قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ
“آپ کہیے کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ اللہ کے نزدیک کن لوگوں کی سزا اس سے بھی بدتر ہے ‘ جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے بعض کو بندر اور بعض کو خنزیر بنادیا اور جنہوں نے شیطان کی عبادت کی ‘ ان کا ٹھکانا بدترین ہے اور یہ سیدھے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں”۔
اور اس مسئلے میں یعنی وجوبِ تحفظ و دفاع حرمات پر نصوص بہت زیادہ ہیں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
دوسری شرعی اصل اوپر بیان کردہ پہلی اصل سے متصل ہے۔ یعنی اگر مسلمان کی حُرمت خطرے میں ہے اور وہ کمزور ہے تو بہرصورت اُس کی نصرت کرنا واجب ہے۔ اسی سے جہاد دفاعی کا شرعی تصور اور حُکم متفرع ہوتا ہے، جیسا کہ فقہائے اُمت اسے “دفع الصائل” کی ہی ایک شدید ترین صورت قرار دیتے ہیں، یعنی جب کافر کسی مسلمان علاقے پر حملہ کردے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی بھی یہی کہتے ہیں (
وھو اشد انواع دفع الصائل)۔ اور ان مسلمانوں کی بہرصورت مدد کرنے کے وجوب پر اجماع ہے جیسا کہ ابن تیمیہ نے ذکر کیا (
إذا أراد العدو الهجوم على بلاد المسلمين فإنه يصير دفعه واجباً على المقصودين كلهم، وعلى غير المقصودين؛ لإعانتهم).. یعنی “
جب دشمن ارض مسلم پر حملہ کرنا چاہے تو اس کا مقابلہ کرنا حملہ کیے جانے والوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلمانوں پر بھی واجب ہوجاتا ہے کہ وہ ان کی اعانت کریں”۔
مزید کہتے ہیں کہ (
یجب دفعہ علی الاقرب فالأقرب، اذ بلاد الإسلام كلها بمنزلة البلدة الواحدة)… یعنی
“تمام اسلامی ممالک بمنزلہ ملکِ واحد ہونے کے ناطے دشمن کا مقابلہ قریب تر سے شروع ہوتے ہوئے سب پر واجب ہے”۔ اور اصل شرعی پر بھی کثیر نصوص دلالت کرتی ہیں مثلًا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کہ “
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے”…
اور حدیث مبارکہ (
يد المسلمين على من سواهم تتكافا دماؤهم واموالهم، ويجير على المسلمين ادناهم، ويرد على المسلمين اقصاهم).. یعنی
”مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ایک ہاتھ (قوت متحدہ) ہیں اور ان کے خون اور ان کے مال برابر ہیں، مسلمانوں کا ادنی شخص کسی کو پناہ دے سکتا ہے اور لشکر میں دور والا شخص بھی مال غنیمت کا مستحق ہو گا“ ..
اسی طرح فرمان نبی مکرم (
انصر اخاک ظالما او مظلوما) کہ
“اپنے بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم”… اور یہ تمام نصوص عام ہیں جو، بلا تفریق رنگ و نسل اور وطن، نصرت مُسلم کو پوری اُمت پر واجب کرتی ہیں۔انہیں علاقے یا مُلکی مفاد سے خاص کرنا ان میں دعوائے نسخ اور تحریف ہے جس کی کوئی دلیل معرض وجود میں نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى له سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والحُمَّى
’’مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘…
اس میں مُلک یا ریاست کی کوئی قید نہیں، مظلوم مسلمان دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں مدد کرنی ہوگی، اور اگر یہ ظلم یا حملہ کفار کی طرف سے ہو تو معاملہ اور بھی شدید ہوجاتا ہے، سورة النساء آیت 75 میں ہے
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
“اور (اے مسلمانو ! ) تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں فتال نہیں کرتے حالانکہ بعض کمزور مرد ‘ عورتیں اور بچے یہ دعا کر رہے ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں ‘ اور ہمارے لئے اپنے پاس سے کوئی کارساز بنا دے اور کسی کو اپنے پاس سے ہمارا مددگار بنا دے”…
یہاں بھی بلا تفریق ملک وقوم، خطاب جمیع مسلمانوں کو ہے۔ تخصیص مُطلق کی کوئی دلیل نہیں۔ اسی طرح دیگر آیات قرانیہ مثلًا سورة البقرة ۱۹۰ میں ہے "
اور لڑو اللہ کی راہ میں اُن سے جو تم سے لڑتے ہیں.. الآیۃ” اور فرمایا ﴿
وقاتلوا المشركين كافة كما يقاتلونكم كافة﴾ یعنی "جس طرح مشرکین سب اکٹھے مل کر تُم سے قتال کرتے ہیں تُم بھی ان سے اکٹھے مل کر قتال کرو".. جیسا کہ آج UNO کی خبیث چھتری تلے سب کفا ر مل کر اہل قدس کو قتل کررہے ہیں، تو بہرحال یہ نصوص صریح اور واضح ہیں کہ جہاد دفاعی ہر حال میں ہر مسلمان پر بغیر سرحدی اور مُلکی قیود کے واجب ہے۔ اور دلائل یہاں بھی کثیر ہیں مگر فی الحال ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔
مختلف ریاستوں کا وجود
اب آجائیے اصل مسئلے کی طرف جس کے لیے مندجہ بالا دو محکم شرعی اصول بیان کیے گئے یعنی “وجوب تحفظ حُرمت مسلم” اور “کُل اُمت پر وجوب نصرت مسلم”۔ تو سوال یہ ہے کہ آج ایک امارت کُبری کی عدم موجودگی میں مختلف اسلامی ریاستوں کے ہوتے ہوئے کیا یہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ جب جہاد دفع کا عظیم ترین وجوب مثل جہاد قدس اُمت کو جھجنھوڑ رہا اور پُکار رہا ہے تو ان دونوں محکم شرعی اصولوں کو ہر ریاست اپنے ذاتی مصالح اور ترجیحات کی خاطر ترک کرسکتی ہے؟؟
جبکہ ان کا وجوب حاکم اور محکوم سمیت اُمت کے ہر ہر فرد کی طرف متوجہ ہے؟ اور جبکہ نصوص شریعت نے اس حکم جہاد کو ایک امارت اور ایک چھتری سے مشروط کیا نہ بحالت تعدد حُکام یا ولایات اسے معطل کرنے کی رُخصت دی؟؟ بلکہ ہر حال میں واجب رکھا اور اس پر اجماع اُمت ہے، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے تعدد ولایات اور حکومات کی بنیاد پر جہاد دفاعی کو طلبی کا حُکم دے کر معطل نہیں کیا۔
قران کہتا ہے کہ (
انفروا خفافا وثقالا) .. یعنی
ہلکے ہو یا بھاری ہر صورت نکلو، اور فرمایا (
فانفروا ثبات او انفروا جمیعا).. کہ
“ٹولیوں کی صورت میں یا اکٹھے نکلو” بلکہ اللہ رب العزت نے اپنے نبی علیہ الصلاۃ والسلام سے کو حُکم دیا کہ (
فقٰتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک)..
“اللہ کی راہ میں قتال کر، تو صرف اپنی ذات کا مکلف ہے”.. یعنی اس حق جہاد میں ہر شخص اپنی ذات کی حد تک اسے قائم کرنے کا پابند ہے، گرچہ وہ اکیلا رہ جائے۔ تو یہ متعدد حکومتوں کی موجودگی میں قطعیت جہاد دفاعی کا ایک پہلو ہوا۔
متعدد حکومتوں کی شرعی حیثیت
دوسرا پہلو جو اس سے بھی زیادہ قابل غور ہے کہ خود متعدد ولایتوں یا ریاستوں کی شریعت میں کیا حیثیت ہے کہ اس بنا پر شریعت کے واجبات محکمہ کو معطل کردیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں متعدد امارات یا ولایات کا وجود اصل میں بدعت مُحرّمہ ہے، اور اسکا جواز صرف اخف الضررین یعنی دو لازم درجے کے شرور میں سے چھوٹے شر کے انتخاب کی حد تک ہے، جب کہ مصلحت دینی جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، دفاع حُرمات مسلم، اقامت جہاد اور حدود اللہ کا قیام اس کے بغیر متحقق نہ ہو اور وسیع انتشار کا امکان ہو۔ وگرنہ متعدد تو کیا شریعت نے دو مستقل امارتوں کی بھی اجازت نہیں دی۔ یہی اصل ہے اور اس پر اجماع اُمت ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی “
الرسالة” میں فرماتے ہیں کہ
“اس بات مسلمانوں کا اجماع ہے کہ خلیفہ اور امام ایک ہونا چاہیے”۔ الماوردی “
الاحکام السُلطانیة” میں فرماتے ہیں کہ
“اگر ایک ہی وقت میں دو مُلکوں میں دو اماموں کی بیعت منعقد کی جائے تو کالعدم ہوگی کیونکہ جائز نہیں کہ اُمت کے ایک ہی وقت میں دو امام ہوں”۔ اسی طرح امام نووی
المنھاج شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ “
ایک ہی زمانے میں دو خلیفوں کی بیعت ناجائز ہونے پر علماء کا اتفاق ہے، برابر ہے سلطنت اسلامیہ کا رقبہ وسیع ہو یا محدود”.. اور یہی منھج خلفائے راشدین اور ائمہ متقدمین ہے۔
حدیث ابن عمرو میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
“جو شخص کسی امام کی بيعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ اور اپنے دل کا پھل دے دے (یعنی دل میں اس کی بیعت کے پورا کرنے کا عزم رکھے) تو اسے چاہیے کہ مقدور بھر اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص آکر اس سےحکومت چھیننے کے لیے جھگڑا کرے تو دوسرے کی گردن ماردو…(
مَن بايَعَ إمامًا فأعطاهُ صَفقةَ يَدِهِ وثَمَرةَ قَلبِه، فليُطِعْه ما استَطاعَ، فإنْ جاءَ آخَرُ يُنازِعُه فاضرِبوا عُنُقَ الآخَرِ)۔ اسی طرح آپ علیہ السلام نے فرمایا (
إذا بُويِعَ لِخَلِيفَتَيْنِ، فاقْتُلُوا الآخِرَ منهما).. يعنى
"جب دو خلیفوں کے لیے بیعت لی جائے تو ان میں سے دوسرے کو قتل کر دو"… اور اس پر قران و سُنت کے کثیر دلائل ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ شریعت مطہرہ کا اصل حُکم وحدت خلافت ہے یعنی جمیع اُمت کے لیے ایک ہی امام شرعی، اور پھر اس کے لیے بیعت اور اطاعت جیسے جمیع احکام ثابت ہوتے ہیں۔ کتاب و سُنت میں بھی جہاں کہیں لفظ “امام” خلافت و سیادت کے سیاق میں آیا یا اس سے متعلق کوئی حُکم شرعی بیان ہوا تو اس سے مراد اصلًا یہی امامت کُبری ہے، ہر چار گز خطہ زمین پر موجود خلیفہ نہیں، بلکہ یہ شریعت سے بغاوت اور فساد اور وبال کا باعث ہے، الا یہ کہ حالت اضطرار ہو۔
امام بیھقی رحمہ اللہ تعالی نے “
السنن الکبری” کی کتاب “
قتال اھل البغی” میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا خُطبہ روایت کیا، جس میں حضرت صدیق فرماتے ہیں (
إنه لا يحل أن يكون للمسلمين أميران، فإنه مهما يكن ذلك يختلف أمرهم ، وأحكامهم ، وتتفرق جماعتهم ، ويتنازعوا فيما بينهم ، هنالك تترك السنة ، وتظهر البدعة ، وتعظم الفتنة ، وليس لأحد على ذلك صلاح)..
یعنی
“مسلمانوں کے دو امیر ہونا جائز نہیں کیونکہ جب کبھی ایسا ہوگا ان کے امور اور احکام میں اختلاف پیدا ہوگا، جمعیت منتشر ہوگی، باہمی تنازعات جنم لیں گے اور پھر سُنت ترک کی جائے گی، بدعت پھوٹے گی اور فتنہ شدید ہوجائے گا اور صلاح کسی کے ہاتھ میں نہ رہے گی”..
تو واضح ہوا کہ تعدد ولایات کا جواز سلف کے ہاں صرف اضطرار اور نسبتًا بڑے شر سے بچنے کی حد تک ہے، وگرنہ اصالتًا اسکا شرع میں کوئی جواز نہیں، اور قاعدہ فقہیہ ہے کہ “
ما ابیح للضرورة یقدر بقدرھا”، کہ جو شے ضرورت کی بنا پر جائز ٹہرے اس کا جواز اُسی حد تک ہوگا،
یعنی اگر یہ درجن بھر خلیفے اگر مسلمانوں کو یہودیوں کے ہاتھوں ذبح ہونے کے لیے چھوڑ کر فحش کاری کا عالمی میلہ سجالیں، یہود و نصاری اور فرانس ملعون یا امریکہ کے بے دام نوکر بن جائیں، یعنی جس خون مسلم اور دختران ملت کی حُرمت کی حفاظت کے لیے جواز امارت ملا تھا اُسی کی پامالی میں امریکہ، ازراییل اور فرانس جیسے ملعونوں کے مُعاون بن جائیں، تو ان کی مزعومہ خلافتیں کچرے کے ڈھیر کے سوا کُچھ بھی نہیں، نہ انکی کوئی شرعی حیثیت ہے، کیونکہ جس فساد سے بچنے کے لیے ان کا وجود روا تھا اُس سے بڑا فساد ان کے وجود سے پیدا ہوگیا۔
یہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے جامع انداز میں بیان فرمائی۔ وہ جہاد فی سبیل اللہ اور اقامت حدود جیسے فروض کفایات کے بارے میں کہتے ہیں کہ (
والسنة أن يكون للمسلمين إمام واحد والباقون نوابه فإذا فرض أن الأمة خرجت عن ذلك لمعصية من بعضها وعجز من الباقين أو غير ذلك فكان لها عدة أئمة : لكان يجب على كل إمام أن يقيم الحدود ويستوفي الحقوق)…
یعنی “
سنت تو یہی ہے کہ مسلمانوں کا ایک ہی امام وخلیفہ ہو اور باقی سب اس کے وزراء یا نائبین ہوں۔ لیکن اگر بالفرض امت کے بعض گنہگاروں کی اور باقیوں کے عاجز ہونے کی وجہ سے امت اس (ایک امامت) سے نکل جاتی ہے اور اس کے متعدد آئمہ بن جاتے ہیں۔ تو پھر ہر امام وحکمران پر یہ واجب ہوگا کہ وہ حدود کو قائم کرے اور حقوق کی پاسداری کرے”..
یہاں غور کیجیے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کس طرح وحدت امامت کو اصل سُنت اور اس سے محرومی کی وجہ معصیت کے وبال اور تعدد امامت کو قیام حدود اور ایفائے حقوق مُسلم کے ساتھ مشروط قرار دے رہے ہیں ۔
پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس تعدد اُمراء کو واجبات دینیہ کی ادائیگی کے ساتھ مشروط کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں (
فإن كان في ذلك من فساد ولاة الأمر أو الرعية ما يزيد على إضاعتها لم يدفع فساد بأفسد منه)… یعنی “
اگر تعدد امراء کا نتیجہ ان اُمراء (وُلاة امر) یا رعایا کے ایسے فساد پر مُنتج ہو جو ان واجبات دینیہ کے ضیاع سے بڑا فساد ہو تو پھر چھوٹے فساد کو بڑے فساد کے ذریعے دُور نہیں کیا جائے گا” یعنی پھر ایک سے زیادہ حاکم یا ولی الامر کی گنجائش نہیں (کیونکہ وجہ اضطرار ختم ہوگئی تو عارضی حکم تعدد امارت بھی اُٹھ گیا)…
بلکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی صرف اس بات کے قائل ہی نہیں فاعل بھی ہیں، چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ
“البدایۃ والنھایۃ (الجزء الرابع عشر)" میں ذکر کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے جب اہل شام کو تاتاریوں کے متوقع حملے سے شدید خوف اور بھگدڑ اور اس کے بالمقابل حکام شام کو اُن کے دفاع سے غافل اور فرار حاصل کرتے ہوئے دیکھا تو کہا
(
إن كنتم أعرضتم عن الشام وحمايته أقمنا له سلطانا يحوطه ويحميه ويستغله في زمن الأمن، ولم يزل بهم حتى جردت العساكر إلى الشام)… “
اگر تُم شام اور اُس کی حمایت سے مُنہ موڑ چُکے ہو تو ہم شام کے لیے ایک الگ سُلطان مقرر کرلیتے ہیں جو اس کی حفاظت اور دفاع کرے گا اور زمانہ امن میں اس کی پیداوار سے حصہ لے گا، اور وہ (ابن تیمیہ) مسلسل ان (حکام) پر رہے یہاں تک کہ شام کے لیے لشکر مخصوص کردیے گئے”…
پھر ان(حكام) سے مزید کہا(
لو قدر أنكم لستم حكام الشام ولا ملوكه واستنصركم أهله وجب عليكم النصر، فكيف وأنتم حكامه وسلاطينه وهم رعاياكم وأنتم مسؤولون عنهم).. “
بالفرض تم شام کے ملوک اور حُکمران نہیں ہو تب بھی تُم پر نُصرت (اہل شام) واجب ہے، تو اب جبکہ تُم شام کے حُکمران اور سلاطین ہو اور وہ (اہل شام) تمہاری رعایا ہیں اور تم ان کے مسئول ہو تو (وجوب نُصرت) کس قدر ہوگا؟”..
مدخلیوں سے سوال ہے کہ یہ تو اُس دور کے حُکام تھے اگر شیخ الاسلام آج کے عرب خلیفوں کو نصرت اہل قدس و شام ترک کرکے اُنکے بہتے ہوئے خُون میں عالمی میلہ فحاشی منعقد کرتے ہوئے دیکھتے تو کیا فتوی لگاتے؟ یا رُحیلی کو مسجد رسول اللہ میں بیٹھ کر کتاب اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے، اُمت کو حِیل باطلہ کے ذریعے جہاد دفاعی کی بجائے شاہوں کی عبودیت کی دعوت دیتے ہوئے دیکھتے تو کیا فتوی لگاتے؟ حقیقت ہے کہ تمہاری حالت انتہائی مصیبت زدہ ہے، تم صرف سلف کے نام پر صرف دُنیائے اسلام کو بن سلیمان کی چاکری پرلگا رہے ہو، اور ہم تمہیں بحمد اللہ حقیقی منھج سلف دلائل و براہین کے ساتھ دکھا رہے ہیں۔ وللہ الحمد۔
شیخ عبد الرحمن بن حسن آل الشيخ رحمه الله تعالى فرماتے ہیں (
بأي كتاب، أم بأية حجة أن الجها د لا يجب إلا مع إمام متبع؟! هذا من الفرية على الدين، والعدول عن سبيل المؤمنين، والأدلة على إبطال هذا القول أشهر من أن تذكر، من ذلك عموم الأمر بالجه ا د، والترغيب فيه، والوعيد في تركه).. “
کس دلیل کتاب، یا کس حجت کی بنا پر جہاد صرف امام متبوع کے ہوتے ہوئے ہی واجب ہے؟ یہ بات دین پر افترا ہے، اور مومنین کے راستے سے روگردانی ہے.. الخ”
پھر مزید کہتے ہیں کہ (
وكل من قام بالج هاد في سبيل الله فقد أطاع الله وأدى ما فرضه الله ولا يكون الإمام إلا بالج هاد لا أنه لا يكون جه اد إلا بالإمام )، “…
امام وُہی ہوتا ہے جو جہاد کرتا ہے، نہ کہ جہاد امام کے بغیر نہیں ہوسکتا”… واضح رہے کہ شیخ رحمہ اللہ تعالی کے یہ اقوال مطلق جہاد کے بارے میں ہیں جس میں طلب بھی شامل ہے، جبکہ دفاعی کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ شدید ہے۔
(جاری ہے…)