ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 649
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
جہاد کا اساسی مقصد؛ شرک و کفر کا خاتمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ
اور ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین تمام کا تمام اللہ ہی کا ہو جائے۔ [سورة الأنفال: ۳۹]
اسی طرح سورۃ البقرة میں فرمایا:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ
اور ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔ [سورۃ البقرة : ۱۹۳]
یہ آیات جہاد کے بنیادی مقاصد کو واضح کرتی ہیں اور اس حقیقت کو مبرہن کرتی ہیں کہ فتنہ کا خاتمہ جہاد کا اساسی ہدف ہے۔ اکثریت مفسرین نے فتنہ کی توضیح "شرک" کے معنی میں کی ہے۔
٩٠٧٣ - حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ ثنا مِنْجَابٌ بْنُ الْحَارِثِ أَنْبَأَ بِشْرُ بْنُ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي رَوْقٍ عَنِ الضَّحَّاكِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ قَالَ: يَقُولُ: يَعْنِي حَتَّى لَا يَكُونَ شِرْكٌ بِاللَّهِ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ- وَمُجَاهِدٍ وَالْحَسَنِ وَقَتَادَةَ وَالرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ وَالسُّدِّيِّ وَمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ وَزَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ نَحْوَ قَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اور ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ یعنی یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہے۔ اور ابو العالیہ، مجاہد، حسن، قتادہ، ربیع بن أنس، سدی، مقاتل بن حیان اور زید بن اسلم سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کے ہم معنی روایت منقول ہے۔ (یعنی انہوں نے بھی فتنہ سے ”شرک“ ہی مراد لیا ہے۔)
[تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم، ج : ٥، ص : ١٧٠١]
حدَّثني يونسُ، قال: أخبَرنا ابنُ وهبٍ، قال: قال ابنُ زيدٍ في قولِه: ﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ﴾. قال: حتى لا يكونَ كفرٌ
عبدالرحمن بن زید اس آیت (وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة) کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ: حتى لا يكونَ كفرٌ یعنی یہاں تک کہ کفر باقی نہ رہے۔
[تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج : ١١، ص : ١٨٠]
امام ابن جرير الطبری رحمہ اللہ اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
فقاتِلوهم حتى لا يكونَ شِركٌ، ولا يُعبدَ إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له
پس ان سے قتال کرو یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہے اور اللہ وحدہ لاشریک لہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے۔
[تفسير الطبري جامع البيان عن تأويل آي القرآن، ج : ١١، ص : ١٧٨]
شیخ ابو بكر الجصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقَوْله تَعَالَى: {وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ} يُوجِبُ فَرْضَ قِتَالَ الْكُفَّارِ حَتَّى يَتْرُكُوا الْكُفْرَ
اللہ تعالیٰ کا فرمان {وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة ويكون الدين لله} کفار کے خلاف قتال کو فرض قرار دیتا ہے یہاں تک کہ وہ کفر چھوڑ دیں۔
[أحكام القرآن للجصاص، ج : ١، ص : ٣١٦]
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ لا يوجد فيهم شرك.
ان سے قتال کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے؛ ان میں شرک نہ رہے۔
[أنوار التنزيل وأسرار التأويل، ج : ٣، ص : ٥٩]
دنیا میں سب سے بڑا ظلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، چاہے اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں یا اس کی ربوبیت والوہیت میں شریک ٹھہرایا جائے۔ چنانچہ اس شرک وکفر، اس کے ذرائع و مظاہر اور اس کی تمام جدید و قدیم اقسام بتوں اور قبروں کی پرستش سے لے کر وطن پرستی اور سیکولر ازم جیسے جدید شرکیہ نظریات تک ہر نوع کے شرک وکفر کا کلی خاتمہ جہاد کا اساسی مقصد ہے۔
٥٦٦٧ - حدثنا أبو النَّضر حدثنا عبد الرحمن بن ثابت بن ثَوْبان حدثنا حسان بن عطية عنٍ أبي منيب الجرَشي عن ابن عمر قال: قال رسول الله -صلي الله عليه وسلم -: بُعثت بين يدي السَاعةِ بالسيَف حتى يُعبدَ الله وحدَه لا شريك له، وجُعلَ رزقي تحت ظِلّ رمْحِي، وجعل الذل والصَّغَار على مَن خالف أمري
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے قیامت تک کے لئے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کی جانے لگے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے۔ اور جس نے میرے (اس) امر کی مخالفت کی اُس کے لئے ذلت اور پستی رکھ دی گئی۔
[مسند الإمام أحمد بن حنبل، حديث : ٥٦٦٧، قال الشيخ المحدث أحمد محمد شاكر : إسناده صحيح]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت طیبہ سے یہ بات واضح ہے کہ انھوں نے دنیا سے شرک کی نجاست ختم کرنے کی خاطر تلوار اٹھائی اور اسی تلوار کے ذریعے، جہاں تک ان کا بس چلا، شرک و کفر کو ختم کرتے گئے۔
بلا شبہ انہوں نے کبھی کسی کی گردن پر تلوار رکھ کر اسے کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا، لیکن یہ بھی ایک مسلّم حقیقت ہے کہ یہ قتال ہی کا اثر اور تلوار کا رعب تھا کہ وہ مشرکین مکہ جو ۲۱ برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے، جو مکہ مکرمہ میں ۱۳ برس تک آیات قرآنی اور فرامین نبوی بزبان نبی سننے کے باوجود اسلام قبول کرنے سے انکاری رہے، جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دس ہزار صحابہ کے لشکر کو مکہ میں داخل ہوتے دیکھا تو اپنے کفر کو ترک کر کے جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے۔
پس مجاہدین اسلام پر لازم ہے کہ وہ اس اہم مقصد جہاد کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے ہی اپنے عسکری و دعوتی منصوبے ترتیب دیں۔ معاشرے میں سرایت کرده (جدید و قدیم) شرکیہ عقائد و تصورات کے خلاف بولنا اور لکھنا، اور کفر و شرک کے مظاہر کو بزور بازو ختم کرنا مجاہدین کے اولین فرائض میں سے ہے۔ بالخصوص جن علاقوں میں مجاہدین کو قوت و تمکین حاصل ہوتی جائے وہاں توحید کی دعوت عام کرنے اور شرک و بدعت کو جڑ سے اکھاڑنے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
والله أعلم بالصواب و علمه أتم، والسلام