آپ کے پیجیز کو ٹریکر لگے ہوئے ہیں، انہیں یونیکوڈ میں یہاں پیش کریں
اس بات کا جواب میں اپنے پچھلے جواب میں دینا بھول گیا تھا اس لیے الگ سے دے رہا ہوں۔
عصر حاضر میں دین اسلام کا بحیثیت کُل مفقود ہونے کے باعث، ایک عام مسلمان ہر دینی مسئلہ کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے، اُس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کُل دین میں اُس جز کی کیا اہمیت ہے یا اُس جز کا کُل دین کے کِن کِن اجزا سے کتنا گہرا ربط ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد پر یہ مضامین ایک کتابچہ کا حصہ ہیں جس کے تمام مضامین ایک خاص ربط کے تحت قلمبند کیے گئے ہیں اور قارئین سے بھی ایک تسلسل میں اِن مضامین کا مطالعہ کرنے کا تقاضہ کرتا ہے ورنہ کئی نازک مسائل کا پورا ادراک نہیں ہو سکے گا اور یونیکوڈ کی صورت میں پوسٹ کرنے کا مطلب ہے کہ ہم پھر کُل کو چھوڑ کر جزیات کی بحث میں پڑھ کر اصل مقصد سے دور ہٹ جائیں گے۔
اس کتابچہ کی فہرست مضامین، مختصر خلاصہ اور اس مضمون میں موجود سوالات کی فہرست اپنی بات سمجھانے کے نظریہ سے پیش خدمت ہیں؛
کاوش نمبر ۱؛ علم کی اہمیت
عقل کا مقام دینی اور دنیاوی علوم میں منبع کی نہیں بلکہ فقط اِن علوم کو استعمال کرنے والے ایک آلہ کی ہے ۔ دینی علوم کا منبع قرآن اور حدیث ہے مزید برآں عقائد؛ عبادات اور معاملات کے ضمن میں قرآن اور حدیث کی صرف وہی تاویلات قابل منظور ہیں جن پر سلف کے جمہور علمائے حق کا تعامل رہا ہے۔
سوال نمبر ۱: علم اور عقل کا باہمی ربط کیا ہے؟
سوال نمبر۲: تعلیم یافتہ کہلانے کا حقدار کون؟
سوال نمبر۳: تو کیا مغربی تعلیم صرف معلومات کا مجموعہ ہے؛ علم نہیں؟؟؟
سوال نمبر۴: جاہل کون؟ معاشرہ میں جہالت پھیلانے کے ذمہ دار کون؟
سوال نمبر۵: علم حاصل کرنے کی ذمہ داری معاشرہ میں کس کس پر ہے؟
کاوش نمبر ۲؛ کلمہ توحید کی شرائط
دیگر ارکان اسلام یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کی طرح کلمہ توحید "لاالہ الا للہ" کی قبولیت بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے۔
سوال نمبر۱: کیا کلمہ توحید "لا الہ الا للہ" کی زبان سے ادائیگی ہی نجات کے لیے کافی ہے؟
سوال نمبر۲: شہادتین کے کتنے جز ہیں اور کیا ہر جز کی شرائط ہیں؟
کاوش نمبر ۳؛ کلمہ رسالت کی شرائط
کلمہ توحید "لاالہ الا للہ" کی طرح کلمہ رسالت "محمد رسول اللہ" کی قبولیت بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور رسول اللہﷺ کی سنت ایک مسلمان کی تمام زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے لازم کا درجہ رکھتی ہے نا کہ کچھ دینی و دنیاوی معاملات میں لازم اور کچھ میں اختیاری [Optional] ۔ اصل فرق صرف شرعی رخصتوں کا ہے۔
سوال نمبر۱: کیا کلمہ رسالت "محمد رسول اللہ" کی زبان سے ادائیگی ہی قیامت کے روز مجھے رسول پاکﷺ کی شفاعت کا حقدار بنا دے گی؟
سوال نمبر۲: کلمہ رسالت کی شرائط اور اُن کے قلبی اور عملی تقاضے کیا ہیں؟
سوال نمبر۳: کیا تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ سنتوں کی پیروی لازم ہے ؟
سوال نمبر۴: کیا بدعت حسنہ پر عمل رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و اتباع کے زمرہ میں آتا ہے؟
کاوش نمبر ۴؛ ایمان کی حقیقت
ہمیشگی کی جہنم سے نجات والے ایمان کے دو بنیادی وصف؛ دین کے مستند عقائد اور احکام پر قلبی یقین اور وزن میں رائی کے برابر ہونا ہے اور اِس دنیا میں اُس ایمان کا مظہر دین اسلام کے سوا تمام مذاہب اور ادیان سے براءت کا اظہار اور ہر گناہ کو کم از کم دل سے برا جاننا۔
سوال نمبر۱: ایمان کی حقیقت کیا ہے؟
سوال نمبر۲: کیا میرا عمل ایمان میں شامل ہے؟
سوال نمبر۳: کون سا ایمان نجات کے لیے ضروری ہے؟
سوال نمبر۴: کتنا ایمان نجات کے لیے کافی ہے ؟
سوال نمبر ۵: کیا اِس دنیا میں وزن کیے جانے والے ایمان کو جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے؟
سوال نمبر ۶: کیا اِس دنیا میں کسی معین شخص کو جنتی یا جہنمی قرار دیا جا سکتا ہے؟
کاوش نمبر ۵؛ ضروریات دین کی حقیقت
ضروریات دین سے جہالت یا انکار کفر ہے اور بغیر کسی شرعی رخصت کے اُن کا تارک فاسق و فاجر کے درجہ میں ہے ۔ مزید برآں، علمائے سلف کے مطابق کسی با عمل مسلمان کا بھی کافر ہو جانا قطعی طور پر ممکن ہے اور اہل سنت و الجماعۃ کا یہ عقیدہ تکفیر خوارج کے باطل عقیدہ تکفیر کے مترادف نہیں ہے۔
سوال نمبر۱: ضروریاتِ دین کسے کہتے ہیں؟
سوال نمبر ۲: کیا کسی واحد ضرورتِ دىن کا منکر کافر ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا کوئی مسلمان کافر قرار دیا جا سکتا ہے؟
سوال نمبر ۴: کیا ضروریاتِ دین یا دین کے تمام معاملات میں معیار نقل ہے یا عقل؟
کاوش نمبر ۶؛ کفر کی حقیقت
اسلام میں ظاہری اقوال اور اعمال ہی ہر فتوی کے موضوع سخن ہوتے ہیں جبکہ دلوں کے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اِسی بنیاد پر جن ظاہری اقوال اور اعمال کا کفر صریح ہونا ثابت یا مختلف فیہ بھی ہوں ، تو اُس کے حامل مسلمان کے لیے ہمیشگی کی جہنم واجب ہونے کے خطرہ کے باعث، موانع کفر کی روشنی میں، یا تو اہل سنت و الجماعۃ کے علمائے حق اُس کی تکفیر فرماتے ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاح فرما کہ آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا امیدوار بن سکے ، یا معاملے کی سنگینی اور معاشرہ میں علمائے حق کے فقدان کے باعث اسے ذاتی طور پر اپنے تمام عقائد اور اعمال کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے۔
سوال نمبر ۱: کیا مولوی کے کہنے سے میں کافر ہو جاؤں گا؟
سوال نمبر ۲: کفر یہ عقائد اور اعمال کو جاننا ایک مسلمان کے لیے کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا میرے ظاہری اعمال کا کفر سے کوئی تعلق ہے؟
سوال نمبر ۴: کیا کفر یہ عقائد اور اعمال کے سبب واجب ہونے والے کفر کے موانع [کفر ثابت ہونے میں رکاوٹیں] بھی ہیں؟
سوال نمبر ۵: کیا کفر کے موانع [کفر ثابت ہونے میں رکاوٹیں] کے کوئی حدود اور قعود بھی ہیں؟
کاوش نمبر ۷؛ نفاق کی حقیقت
نفاق ، دل کی وہ بیماری ہے جس کا اگر بر وقت علاج نہ کیا جائے تو یہ مسلمان کو کفر کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہے۔ اِسی لیے اصحاب رسولﷺ اپنے متعلق کفر سے زیادہ نفاق کے متعلق فکر مند رہتے تھے۔ عملی نفاق کا سب سے بڑا مظہر جہاد فی سبیل اللہ کے فرض سے پہلو تہی ہے اور اِس فریضہ کی ادائیگی ہی اِس بیماری کا سب سے مؤثر اور واحد علاج ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا میں منافق ہوں؟
سوال نمبر ۲: کیا نفاق کی اقسام اور اُن کے بنیادی محرکات کا علم ضروری ہے؟
سوال نمبر ۳: نفاق کتنی اقسام کا ہوتا ہے؟
سوال نمبر ۴: نفاق کے بنیادی محرکات کتنے اور کون سے ہیں؟
سوال نمبر ۵: کیا قرآن اور حدیث میں عملی نفاق کی ظاہری علامات کا بیان ہے؟
سوال نمبر ۶: کیا علاماتِ نفاق کا تعلق گناہ کبیرہ سے بھی ہے؟
کاوش نمبر ۸؛ گناہوں کی حقیقت
قرآن کریم کے مطابق ہماری دنیاوی تکالیف اور مصائب کا براہ راست تعلق ہمارے گناہوں سے ہے، مزید برآں؛ رسول اللہﷺ کے ارشادات کے مطابق چونکہ کبائر کے ارتکاب کے وقت ایمان ،انسان سے الگ ہو جاتا ہے، تو ایک مومن کے لیے یہ احساس ہی جان لیوا ہونا چاہیے کہ اگر کسی گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے دوران ہی اُس کی موت کا وقت آگیا، تو وہ ایمان جو گناہ کے خاتمہ کے انتظار میں ہے، کیا اُس کے ساتھ عالم برزخ میں جائے گا؟
سوال نمبر ۱: کیا میرے گناہوں کا میری دنیاوی زندگی پر بھی کوئی اثر ہے؟
سوال نمبر ۲: کیا صغیرہ گناہوں کا ارتکاب بھی فکر مندی کی بات ہے ؟
سوال نمبر ۳: کیا فاسق [پوشیدہ گناہ کرنے والا] اور فاجر [اعلانیہ گناہ کرنے والا] کے گناہوں میں کوئی فرق ہے؟
کاوش نمبر ۹؛ طاغوت کی حقیقت
کلمہ طیبہ میں "لا الہ" کا "الا اللہ" سے پہلے اقرار اِس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کی توحید کے اثبات سے پہلے ہر قسم کے طاغوت سے برأت ضروری ہے۔ طاغوت، اللہ سبحان و تعالٰی کی عبادت میں اُس کے مد مقابل کا لقب ہے اور طاغوت پرستی، مخلوق کا توحید پرستی کے مد مقابل فعل ہے۔ تو طاغوت کی پہچان اور طاغوت پرستی سے اجتناب ہی ایک مسلمان کے کلمہ کو اللہ سبحان و تعالٰی کی بارگاہ میں قابل قبول بناتا ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا دین میں عبادت سے مراد ظاہری عبادات کے علاوہ کچھ اور بھی ہے؟
سوال نمبر ۲: کیا طاغوت کا انکار ضروریاتِ دین میں شامل ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا مسلمان ہونے کے لئے طاغوت کا انکار؛ توحید کے اثبات سے پہلے ضروری ہے؟
سوال نمبر ۴: طاغوت اور طاغوت پرستی کی کیا تعریف ہے؟
سوال نمبر ۵: کیا ملکی؛ علاقائی ؛گروہی ؛ ادارتی یا جماعتی مفاد وغیرہ کے تحفظ اور اُس کی خاطر ہر قسم کے حکم کی تعمیل بھی طاغوت پرستی ہے ؟
کاوش نمبر ۱۰؛ شریعت کی حقیقت
شریعت محض چند عبادات کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مسلمان کی انفرادی، باہمی اور اجتماعی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی بنیاد طاغوت سے انکار اور تمام شرائطِ توحید کی موجودگی میں خالص توحید کے اقرار پر مبنی عقیدہ پر ہے اور اِس کی اِس حیثیت سے انکار درحقیقت اس بات کا اثبات ہے کہ انسان عقلیت یا تجربات کی بنیاد پر صحیح و غلط، عدل و ظلم، اعتدال و انتہا کے درمیان فرق جاننے پر کلی طور پر قادر ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے سلسلہ رسالت و نبوت کے بغیر بھی انسان اپنے "مقصود" [یعنی جہنم سے نجات اور جنت کے حصول] تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا شریعت صرف چند عبادات بصورت ارکان اسلام کا مجموعہ نہیں ہے ؟
سوال نمبر ۲: شریعت سے کیا مراد ہے اور ایک مسلمان کی زندگی میں شریعت کا کتنا عمل و دخل ہے؟
سوال نمبر ۳: کیا میں اپنی زندگی کو اپنی مرضی اور اپنے اصولوں کے مطابق نہیں گزار سکتا؟
سوال نمبر ۴: کیا شریعت صرف [حرام؛ حلال ؛ فرض؛ سنت ] [یہ کرو] اور [یہ نہ کرو] کا مجموع ہے ؟
سوال نمبر ۵: اِس شریعت کا نفاذ کس کی ذمہ داری ہے ؟
سوال نمبر ۶: شریعت میں مصلحت کا کیا مقام ہے ؟
کاوش نمبر ۱۱؛ الولا والبراء کی حقیقت
اللہ، اُس کے رسولﷺ اور امت مسلمہ سے محبت اور اُن کے دشمنوں سے براءت ، دین اسلام میں اختیاری نہیں بلکہ لازمی فریضہ ہے۔ عصر حاضر میں کفار کے ساتھ اجتماعی سطح سے قطع نظر، انفرادی سطح پر بھی، معاشی اور معاشرتی روابط وہ نوعیت اختیار کر گئے ہیں کہ اِس عقیدہ کو پس پشت ڈالنا ہی بظاہر "عقل مندی" کا تقاضا نظر آتا ہے۔ حتّٰی کہ ہمارے اکثریتی علماء بھی اِس "عقل مندی" میں عوام کے شانہ بشانہ نذر آتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ اگر حلف برداری کی صورت میں مستقل سکونت کا مروجہ طریقہ کفر نہیں ہے تو یقیناً قرآن اور حدیث میں موجود اسلام اور ہمارے مروّجہ اسلام میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱: عقیدہ الولا والبراء سے کیا مراد ہے؟
سوال نمبر۲: کیا عقیدہ الولا والبراء ضروریاتِ دین میں شامل ہے؟
سوال نمبر۳: الولا والبراء کی علمائے حق نے کون کون سی صورتیں بیان کی ہیں؟
سوال نمبر۴: آج کل کے موجودہ جغرافیائی حالات کے باعث عقیدہ الولا والبراء میں کتنی لچک ہے؟
سوال نمبر۵: "مُدَاہَنَت" اور "مُدَارات" جیسی مشکل اصطلاحات سے کیا مراد ہے؟
سوال نمبر۶: کیا کافر ممالک میں غیر مستقل یا مستقل سکونت عقیدہ الولا والبراء کے منافی ہے؟
کاوش نمبر ۱۲؛ جہاد کی حقیقت
اپنی جان و مال سے جہاد یعنی "کفار کے مد مقابل اللہ کے دین کی سربلندی کی کوشش" ایک فرض اور نماز کی طرح مستقل عبادت ہے، جس کی چوٹی قتال فی سبیل اللہ کے نتیجے میں شہادت فی سبیل اللہ والی موت ہے۔ اِس کا منکر کافر اور تارک فاسق و فاجر ہے اور ہر عبادت کی طرح اِس کی قبولیت کا معیار بھی باطن میں نیت کا اخلاص اور ظاہر میں قرآن و سنت کے تابع ہونا ہے۔ عصر حاضر میں اقدامی جہاد جیسے فرض کفایہ کے مفقود ہونے کے باعث بحیثیت مجموعی امت مسلمہ گناہ گار ہے، مزید برآں کفار کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی موجودگی ؛ مسلمان عورتوں اور بچوں پر کفار کے مظالم اور مسلمان علاقوں پر کفار کے قبضہ کے باعث دفاعی جہاد جو ہر مسلمان پر نماز کی طرح فرض عین ہے اُس سے بھی امت کی اکثریت غفلت کا شکار ہو کر مزید گناہ کبیرہ کی مرتکب ہو رہی ہے۔
سوال نمبر ۱: کیا اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کوئی ظاہری عمل ہے یا تقوی ، تزکیہ نفس وغیرہ کی طرح ایک غیر مرئ عمل؟
سوال نمبر ۲: کیا جہاد فی سبیل اللہ بذات خود کوئی عبادت ہے یا فقط کسی دوسرے مقصد کے حصول کا ذریعہ؟
سوال نمبر ۳: کیا جہاد فی سبیل اللہ فرض ہے؛ واجب ہے؛ سنت ہے یا نفل عبادت ہے؟
سوال نمبر ۴: کیا جہاد فی سبیل اللہ کا تعلق ضروریات دین سے ہے؟
سوال نمبر ۵: کیا رسول اللہﷺ کی احادیث کے مطابق تزکیہ نفس یا ذِکرُ اللہ جہاد سے افضل نہیں ہیں؟
سوال نمبر ۶: کیا رسول اللہﷺ کے تمام جہاد دفاعی نہیں تھے ؟
سوال نمبر ۷: کیا جہاد فی سبیل اللہ صرف ریاست قرار نہیں دے سکتی ہے؟
سوال نمبر ۸: کیا عصر حاضر میں بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری اقدامی یا دفاعی جہاد سے زیادہ ضروری نہیں ہیں؟
سوال نمبر ۹: کیا کفار کے برابر فوجی، اقتصادی اور معاشی ترقی کے حصول کے بغیر ان کے ساتھ جہاد بیوقوفی نہیں ہے؟
سوال نمبر ۱۰: کیا مسلمان ممالک میں حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد جائز ہے؟
سوال نمبر ۱۱: کیا آج تمام جہادی تنظیمیں باطل کی علم بردار اور فساد فی الارض کا باعث ہیں؟
کاوش نمبر ۱۳؛ نواقضِ اسلام
کاش !!!!!اسلام فقط زبان سے کلمہ طیبہ "لا الہ الا للہ" کی ادائیگی کا نام ہوتا اور پھر اہل کتاب کی طرح، دنیا بھی ہماری اور آخرت بھی۔
سوال نمبر ۱: نواقضِ اسلام کا علم کیوں ضروری ہے ؟
سوال نمبر ۲: نواقضِ اسلام اور گناہ کبیرہ میں کیا فرق ہے ؟
سوال نمبر ۳: کیا قرآن میں شرک کے علاوہ ہر عمل کی بخشش کا ذکر نہیں ہے ؟
سوال نمبر ۴: عصر حاضر کے حالات کے حساب سے اہم ترین نواقض اسلام کون سے ہیں ؟