السلام علیکم و رحمۃ اللہ،
میں کل کراچی سے لاہور کا سفر کر رہا ہوں میری فلائٹ شام 7:00pm کی ہے جبکہ کراچی میں افطاری کا وقت 7:23pm ہے.
اور اب سوال یہ ہے کہ اس کیس میں ہمارا افطاری کا وقت کیا ہو گا. کیا پائلٹ جس بھی وقت افطار کروائے کر لیں؟ یا اس پر کوئی فتوٰی موجود ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر افطاری سے قبل جہاز میں سوار ہوا ، تو جب تک جہاز میں سورج نظر آرہا ہے ،وہ افطار نہیں کرسکتا ، جب وہاں سورج غروب ہوگا اس وقت ہی افطار کرسکے گا ،کیونکہ بندہ جہاں ہوتا اسی جگہ کے لحاظ سے احکام لاگو ہوتے ہیں ،
اس پر درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں ::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :
ہوائي جہاز کا مسافر کب روزہ افطار کرے گا ؟
جواب ::
الحمد للہ
( جب کوئي شخص زمین پر غروب شمس ہونے پر روزہ افطار کرلے اورپھر ہوائي جہاز پرسفر کرے اورفضا میں سورج موجود دیکھے تواس پرلازم نہیں کہ وہ کھانے پینے سے گریز کرے کیونکہ وہ اپنے اس دن کے روزہ کو مکمل کرچکا ہے ، اس لیے کہ عبادت کومکمل کرنے کے بعد لوٹانے کی کوئي ضرورت نہیں ۔
اورجب سورج غروب ہونے سے چند منٹ قبل ہوائي جہاز اڑان بھرے تواگر کوئي شخص اپنے اس دن کے روزہ کو سفر میں پورا کرنا چاہے تو وہ غروب شمس سے قبل افطاری نہیں کرسکتا جب تک وہ سورج کو دیکھتا رہے گا افطاری نہ کرے بلکہ جہاں اورجس فضا میں اسے سورج غروب ہوتا نظر آئے وہاں ہی وہ افطاری کرے گا ۔
اوراسی طرح ہوائي جہاز کے کپتان کےلیے جائز نہیں کہ وہ صرف افطاری کرنے کے لیے ہوائي جہاز کی بلندی کم کرے تا کہ اسے سورج نظر نہ آسکے اوروہ افطاری کرلے ، کیونکہ ایسا کرنا ایک حیلہ ہے ، لیکن اگر وہ ہوائي جہاز کی کسی مصلحت کےلیے بلندی کم کرتا ہے جس کی وجہ سے سورج کی ٹکیا غائب ہوجائے تو پھر اسے افطاری کرنے کی اجازت ہے ) ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا بالمشافہۃ فتوی آپ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب ( سبعون مسئلۃ فی الصیام ) روزوں کے ستر مسائل ۔ کا مطالعہ کریں ۔
لجنۃ دائمہ ( مستقل فتوی کمیٹی ) کا فتوی ہے :
جب کوئي روزہ دار ہوائي جہاز میں ہو اوراسے گھڑی یا پھر ٹیلی فون کے ذریعہ اپنے قریب ترین ملک میں افطاری کے وقت کا علم ہوجائے کہ وہاں افطاری ہوچکی ہے لیکن وہ خود ہوائي جہاز کی بلندی کی وجہ سے فضا میں سورج دیکھ رہا ہو تو اسے اس وقت تک افطاری کرنا جائز نہیں جب تک سورج کی ٹکیا غائب نہیں ہوجاتی ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ پھر تم رات تک روزہ پورا کرو } ۔
اورروزہ دار جب تک سورج کی ٹکیا دیکھ رہا ہے اس وقت تک اس کی انتہاء نہیں ہوسکتی لھذا وہ سورج غائب ہونے پر ہی افطاری کرے گا ۔
لیکن جب کوئي شخص کسی ملک میں سورج غروب ہونے پر افطاری کرلے اورپھر جب ہوائی جہاز پر سوار ہوکرفضا میں پہنچے تو سورج دیکھنے پر اس کی افطاری قائم رہے گی ، کیونکہ اس کا حکم تو اسی ملک کا تھا جہاں سے اس نے اڑان بھری تھی اوراس وقت سورج غروب ہوچکا تھا ۔ ا ھـ
اورایک دوسرے فتوی میں فتوی کمیٹی کا فتوی ہے :
اگر کوئي شخص رمضان المبارک میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں ہوائي جہاز کا سفر کر رہا ہو اوروہ اپنے روزہ کو پورا کرنا چاہے تو اس کے لیے غروب آفتاب سے قبل افطاری کرنا جائز نہیں ۔ ا ھـ
دیکھیں مجموع فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 10 / 136 - 137 ) ۔
واللہ اعلم .
https://islamqa.info/ur/37670
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور الامارات حکومت کے محکمہ اوقاف و مذہبی امور کا فتوی بھی یہی ہے
الهيئة العامة لشئون الاسلامية والاوقاف
عنوان الفتوى: الإفطار في الطائرة بين بلدين
عند العودة من العمرة أكون بالطائرة أثناء المغرب والعشاء فهل أفطر على توقيت الإمارات أم على توقيت السعودية؟
نص الجواب
رقم الفتوى
6954
18-سبتمبر-2009
الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف المرسلين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد..
فاعلم يا أخي السائل الكريم بارك الله بك وجزاك الله خيراً، وجعلك من عباده الصالحين:
يفطر الصائم المسافر بالطائرة إذا غربت الشمس في مكانه من الجو، ولا علاقة له بتوقيت البلد التي سافر منها، ولا البلد التي يتجه إليها، ولا البلد التي يحلق فوقها لأن الله سبحانه وتعالى قد علق الإفطار والإمساك بتَبَيُّن الصائم غروبَ الشمس وطلوعَ الفجر؛ فقال تعالى: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ﴾ [البقرة: ١٨٧].
وعن عمر بن الخطاب رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وآله وسلم: «إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ» متفق عليه، وهذا كله يدل على أن العبرة في الإفطار تحقق الصائم من غروب الشمس إمّا حسَّاً برؤيته هو أو بخبر من يُعتَدُّ به في ذلك.
ومن المعلوم أن الإنسان كلما ارتفع عن سطح الأرض تأخر غروب الشمس فى حقه، وذلك بسبب كُرَوِيّة الأرض، وحينئذٍ فمقتضى القواعد الشرعية أنه لا إفطار حتى تغرب الشمس فى حق الصائم نفسه، جاء في كتاب تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق للزيلعى الحنفي: " رُوِيَ أَنَّ أَبَا مُوسَى الضَّرِيرَ الْفَقِيهَ صَاحِبَ (الْمُخْتَصَر) قَدِمَ الإِسْكَنْدَرِيَّة، فَسُئِلَ عَمَّنْ صَعِدَ عَلَى مَنَارَةِ الإِسْكَنْدَرِيَّةِ فَيَرَى الشَّمْسَ بِزَمَانٍ طَوِيلٍ بَعْدَمَا غَرَبَتْ عِنْدَهُمْ فِى الْبَلَدِ، أَيَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ؟ فَقَالَ: لا، وَيَحِلُّ لأَهْلِ الْبَلَدِ؛ لأَنَّ كُلاًّ مُخَاطَبٌ بِمَا عِنْدَهُ ". والله أعلم.