• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہنم سے پہلے جہنم ۔ قادیانی خلیفوں کا عبرت ناک انجام

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جہنم سے پہلے جہنم ۔ قادیانی خلیفوں کا عبرت ناک انجام

مجھے یقین ہے کہ اگر قادیانی زندیق اپنے مرزا جی کے کافرانہ عقائد، توہین انبیاء اکرام و اکابرین ملت میں لکھی اس کی گستاخانہ تحریریں کھلے ذہن کے ساتھ پڑھیں اور پھراس کے ہولناک انجام سےعبرت حاصل کریں تو کانوں کو ہاتھ لگا کرقادیانیت کو خیرباد کہہ دیں۔ مرزا غلام قادیانی کی بیت الخلا میں دردناک موت کے احوال کے بارے تو اکثر و بیشتر مسلمان اورخود قادیانی حضرات بھی خوب جانتے ہیں۔ لیکن یہاں میں مرزا جی کے خلیفوں کی عبرت انگیز اموات کا وہ حال درج کر رہا ہوں جس سے سب مسلمان تو شاید آگاہ نہ ہوں لیکن ہاں ہر قادیانی زندیق ضرور واقف ہے۔ امید کرتا ہوں کہ میرے یاد دلانے پران کے دلوں کے قفل کھلیں اور وہ قادیانیت سے تائب ہو کر دائرہء اسلام میں لوٹ آئیں۔ مرزا غلام قادیانی کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین تھا جو خود مرزا جی کی ہی روایت کے مطابق ایک ایسا غلیظ المزاج اور بدبودار شخص تھا کہ جو مدتوں تک نہ نہاتا تھا اور نہ ہی اپنے بال اور ناخن تراشتا تھا۔ مگر اس کے گھوڑے پر بیٹھنے کا انداز انتہائی تکبرانہ اور شاہانہ ضرور تھا۔ یاد رہے کہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ علیہ ہر اس محفل میں شرکت کرنے سے صاف انکار کر دیتے تھے، جہاں یہ بدبخت شخص مدعو ہوتا تھا۔ ایک دن یہ بدبخت گھوڑے پر سوار ہو کے نکلا تو گھوڑے کے بدکنے پر نیچے گرتے ہوئے اپنا ایک پاؤں گھوڑے کی رکاب میں پھنسا بیٹھا۔ پاؤں رکاب میں پھنسا رہا اور گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا خلیفہ جی کو گھسیٹتا اوراس کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ اس حادثے میں نامراد خلیفہ زندہ تو بچ گیا مگر قدرت کو اس منکر ختم نبوت کی عبرت ناک موت زمانے کو دکھنا منظور تھا۔ زخم ناسور کی شکل اختیار کر کے پہلے اذیت ناک اور مابعد جان لیوا ثابت ہوئے۔ سارے قادیانی حکیم اور قادیانیوں کے سرپرست انگریز ڈاکٹرز تک اس بد بخت حکیم کا علاج کرنے میں ناکالم رہے۔ اور یوں مرزا قادیانی کا جانشین ، یہ خلیفہ اول بسترِ مرگ پر انتہائی درد ناک انداز میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے دنیا میں ہی جہنم کا مزہ اور عذاب الہی جھیلتے ہوئے اپنے جھوٹے نبی مرزا غلام احمق کی قربت میں مقام ہاویہ کو سدھار گیا۔
حکیم نورالدین کے اس انجام کے بعد ممکنہ جانشین مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی۔ مرزا قادیانی کی بیوی نے اپنے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ اکھنڈ بھارت کےخواب دیکھنے والا بدترین گستاخ قرآن و رسالت مرزا بشیر جنسی تعلقات کا دلدادہ اورانتہائی عیاش جوان تھا، جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری نے جماعت قادیان چھوڑ کراپنا لاہوری مرزائی فرقہ بنا لیا۔ مرزا بشیرنے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ اسن کی قصرخلافت نامی رہائشگاہ دراصل قصرِ جنسی جرائم تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں۔ ربوہ کے قصرمحمود میں اس عیاش خلیفہ نے صرف قادیانی نوجوان لڑکیوں کی عصمتیں ہی برباد نہیں کیں بلکہ یہ ملعون ایک ایسا پلید ترین جنسی بھیڑیا تھا جس کی جنسی ہوس سے اس کی اپنی سگی بیٹی تک بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ اس خلیفہ کے جنسی جرائم کے بارے قادیانی جماعت کے لوگوں کے تبصرے، حلفیہ بیانات، مباہلے اورقسمیں موجود ہیں۔ خدائے برتر ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ اس خلیفہ ثانی کی زندگی کا خاتمہ بھی ایسے دردناک حالات میں ہوا کہ اس فالج زدہ ابلیس کو زندگی کے آخری بارہ سال بسترمرگ پر ایڑیاں رگڑتے اور مرتے دیکھ کرقادیانی لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس ملعون کی شکل و صورت پاگلوں کی سی بن چکی تھی اور وہ سر ہلاتا رہتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا تھا۔ اکثر یہ مجنون اپنے بال اور داڑھی نوچتا رہتا اور اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پرمل لیا کرتا تھا۔ بہت لوگ ان حالات و واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بسترمرگ پرگزارنے کے بعد جب یہ گستاخ قرآن و رسالت، جہنم کو سدھارا تواس کا جسم بھی عبرت کا اک عجب نمونہ تھا۔ ایک لمبےعرصہ تک بستر مرگ پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش مرغ کے چرغے کی طرح اس قدر اکڑ چکی تھی کی ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہرے پرپڑی لعنتیں چھپانے کیلئے ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ اور پھرعوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیزروشنی میں لاش کواس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر لعنت زدہ سیاہی نظر نہ آئے۔ لیکن قادیانی توساری اصل حقیقت سے آشنا تھے
مرزا بشیرکی دردناک موت کے بعد مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا روایتی سلسلہ جاری رکھنے کی خاطر اسی کا بڑا بیٹا مرزا ناصراحمد گدی نشین ہوا۔ یہ تیسرا خلیفہ گھوڑوں کی ریس کا شوقین ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوان مٹیاروں سے معاشققوں کا دلدادہ تھا۔ جنسی ہوس اسے بھی اپنے دادا مرزا غلام احمق سے وراثت میں
ملی تھی۔ یاد رہے کہ اس کے گھڑ سواری کے شہنشاہی شوق نے ربوہ میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لی۔ قادیانی حضرات بھی گواہ ہیں کہ ان کے اس تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کی موت بھی ایک بوڑھے جنسی مریض کی داستان صد ہوس ہے۔ ہوس رسیدہ و شہوت زدہ خیلفہ جی نے اڑسٹھ سال کی بوڑھی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ستائیس سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’ آج یہ مقدس دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا ‘‘۔ اور پھر وہی وہا جس کا خدشہ خود قادیانی کلٹ کی مرکزی قیادت کو تھا۔ خود سے چوالیس برس چھوٹی عمر کی بیوی سے ازدواجی تعلقات میں جسمانی طور پر کلی ناکام ٹھہرنے کے بعد بوڑھے دولہا نے اپنے ناکارہ و ناقابل مرمت اعضاء میں نئی جوانی بھرنے کے لیے دیسی کشتوں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا ۔ اور ان کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس تیسرے قادیانی خلیفہ کا جسم پھول کرکپا ہو گیا۔ سونے چاندی کے کشتوں کا زہریلا ناگ ایسا ڈسا کہ یہ زندیق ، مختصر عرصے میں خدائے قہارکے قہر کی گرفت میں، کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر، محمدی بیگم کے ناکام عاشق، اپنے دادا مرزا غلام قادیانی کے پاس ملک عدم کو سدھارگیا ۔
مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو اس کا سوتیلا بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آ گیا۔ جب اسکی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سڑکوں پر آ گیا۔ لیکن ان باغیوں کو بزور قوت گھروں میں دھکیل دیا کر خلافت پر قبضہ کر لیا گیا۔ جماعت قادیان کا چوتھا خلیفی مرزا طاہراحمد انتہائی آمرانہ مزاج کا حامل تھا۔ اس کی فرعونی عادات نے نہ صرف اسے بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کیا۔ اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن میں اپنے گورے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوا۔ اس کے دور خلافت میں اس کے ہاتھوں غیر تو کیا کسی قادیانی کی بھی عزت محفوظ نہیں تھی ۔ اس نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ مرزا طاہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہرکی خواہش تھی کہ قادیانی عورتیں صرف لڑکے ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ مرا طاہر قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘ پیدا کرنے کی گولیاں تو دیتا رہا مگر یہ ڈاکٹر اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور اس کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس خبطی کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتا، کبھی باوضو تو کبھی بے وضو ہی نماز پڑھا دیتا۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع اورکبھی دوران نمازہی یہ کہتے ہو ئے گھر کوچل دیتا کہ ٹھہرو، میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے پیشرؤں کی طرح مرزا طاہرکی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی۔ پرستاروں کے دیدار کے لیے جب لاش رکھی گئی تو چہرہ سیا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک ایسا بدبودار تعفن اٹھا کہ پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اورلاش بند کرکے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ عبرتناک مناظر براہِ راست قادیانی ٹی وی پربھی دیکھے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق موجودہ خلیفہ مرزا مسرور بھی ایک پراسرار بیماری میں مبتلا ہے اور قادیانی قیادت نے اپنے اگلے خلیفہ کی تلاش شروع کر دی ہے۔

http://farooqdarwaish.com/blog/?p=3369
 
Last edited:
Top