• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہنم کے دو سانس

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

جہنم کے دو سانس


حدیثِ شریف: عن أبِيْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال : قال رسُوْلُ الله صلى الله عليه وسلم :اشْتَكَت النار إلى رَبِها فقالَتْ : ياربِ أكَلَ بَعْضِيْ بَعْضًا , فَأذِنَ لَهَا نَفْسَيْن :نَفْس فِيْ الشِتَاء وَنَفْس فِيْ الصَيْفِ فهو أشَد مَا تَجِدُوْن مِن الحَر وأشَد مَا تَجِدُوْنَ مِن الزَمْهَريْر ۔ {صحیح البخاری :537المواقیت ، صحیح مسلم :617المساجد}

ترجمہ :حضرت ابوہریر ۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ’’ جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : اے میرے رب، میرے ایک حصے نے دوسرے حصے کو کھا لیا تو اللہ تعالٰی نے {سال میں }اس کے لئے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ، ایک سانس سردی کے موسم میں اور دوسری سانس گرمی کے موسم میں ، چنانچہ یہی وجہ ہے جو تم شدید گرمی محسوس کرتے ہو اور یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے تم شدید سردی محسوس کرتے ہو ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم }

تشریح : آج چند ہفتوں سے پوری دنیا گرمی کی جس شدت سے دوچار ہے اس کی مثال ماضی قریب کی تاریخوں میں نہیں ملتی ، شدید گرمی سے انسان وحیوان سبھی پریشان ہیں، اللہ کی مخلوق متعدد بیماریوں میں مبتلا ہے ، بلکہ متعدد ملکوں سے وفیات کی خبریں بھی آرہی ہیں ۔لیکن گرمی میں شدت کیوں ہوتی ہے اسے دیکھ کر ایک مسلمان کا موقف کیا ہونا چاہئے اور اس میں ایک مسلمان کے لئے کیا سامان ِعبرت ہے، یہ وہ حقائق ہیں جو عام لوگوں پر واضح نہیں ہیں ، زیر بحث حدیث میں انہیں بعض امور کا بیان ہے اور ان میں سے بعض کی طرف اشارہ ہے چنانچہ:

اولاً اس حدیث میں دنیا میں گرمی وسردی کا ایک ایسا غیبی سبب بیان ہوا ہے جو دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل ہے ، یعنی جب اللہ تعالٰی نے جہنم کو پیدا فرمایا اور اس میں اس قدر تپش رکھی کہ اس کی شدت خود اس کیلئے نا قابل برداشت ٹھہری تو جہنم نے اس کا گلہ اللہ تعالٰی سے کیا، چنانچہ اللہ تعالٰی نے اسے یہ اجازت دی کہ سال میں دوبار سانس لیکر اس شدت میں قدرے تخفیف کرلیا کرے ،تو گویا جب جہنم اپنا سانس باہر کی طرف لیتی ہے تو اہل زمین گرمی اور اس میں شدت محسوس کرتے ہیں اور جب جہنم اپناسانس اندر کی طرف لیتی ہے تو اہل زمین سردی کی شدت محسوس کرتے ہیں ، بہت ممکن ہے کہ جہنم کے یہی سانس سورج کے شمال و جنوب کے طرف مائل ہونے کا سبب ہو ں، اگر چہ اسکے ظاہری اور سائنسی اسباب کچھ اور ہیں ۔

ثانیاً دنیا کی گرمی اور سردی کو دیکھ کر ایک مسلمان کو آخرت کی گرمی یاد کرنا چاہئے آج یہ سورج جو ہم سے اربوں کلو میٹر کی دوری پر ہے اور اس کی گرمی ناقابل برداشت ہو رہی ہے تو جس وقت سورج صرف ایک میل کی انچائی پر ہوگا اس وقت اس کی گرمی کس طرح قابل برداشت ہو گی ؟ آج ہمارے جسم پر مناسب کپڑے ہیں ،سایہ کیلئے گھنے درخت ہیں، دھوپ کی گرمی کی شدت کو کم کرنے کیلئے وافر مقدار میں پانی موجود ہے پھر بھی اس سورج کی گرمی ناقابل برداشت بن گئ ہے اور اس کے سبب مختلف امراض رونما ہو رہے ہیں حتیٰ کہ بہت سے جاندار اس گرمی کی تاب نہ لاکر مرجارہے ہیں تو قیامت کے دن جب ایک میل کی مسافت پر موجود سورج کی گرمی سے بچنے کے لئے نہ جسم پر کوئی کپڑا ہو گا ، نہ کسی درخت ومکان کا سایہ ہو گا اور نہ ہی اسکی شدت کو کم کرنے کیلئے پانی کا ایک قطرہ ہوگا تو وہ گرمی کس طرح برداشت کی جائے گی ؟

آج اس دنیا میں سورج صرف چند کھنٹے طلوع ہوتا ہے اور اس کی گرمی کی شدت بھی صرف چار چھ کھنٹے رہتی ہے اور صبح وشام لوگوں کو ٹھنڈی سانس لینے کا موقعہ مل جاتا ہے ، سوچنے کی بات ہے کہ سورج کی یہی تپش اگر چوبیس کھنٹے رہتی تو اسے کس طرح برداشت کرتے پھر اہل دنیا ذرا غور کریں کہ قیامت کا وہ دن جو چندکھنٹوں کا نہ ہو گا بلکہ وہ ایک دن کم ازکم پچاس ہزار سال کا ہو گا اور اس میں نہ صبح ہو گی اورنہ شام ہو گی اور نہ ہی رات آئے گی، اس وقت کی گرمی اور سورج کی تپش کس طرح قابل برداشت ہو گی ؟ اسی چیز کی طرف ہماری توجہ دلاتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب پچاس ہزار سال تک اللہ تعالٰی تمہیں اس طرح جمع کئے رکھے گا جس طرح ترکش میں تیروں کو ٹھونس دیا جاتا ہے پھر تمہاری طرف کوئی توجہ بھی نہ فرمائے گا ۔{ مستدرک الحاکم }

ثالثاً اس سخت گرمی میں ایک مسلمان کو چاہئے کہ بعض وہ عبادات جو ان ایام میں مشروع ہیں یا انکی ادائیگی کا وقت گرمی کے موسم میں آتا ہے اس بارے میں صبر و احتساب سے کام لے ، سخت گرمی اور دھوپ کی شدت وغیرہ کا بہانہ کر کے انکی ادائیگی سے نہ پیچھا چھڑائے اور نہ ہی تنگ دلی کا شکار ہو، بلکہ اس آیت کریمہ کو اپنے سامنے رکھے’’ وَقَالُواْ لاَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ‘‘ " انہوں {منافقوں }نے کہا کہ {جہاد کیلئے }اس گرمی میں مت نکلو ،کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے ،کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے " {التوبہ:81}

بعض وہ امور جو اس سخت گرمی کے موسم میں لائق صبر واحتساب ہیں وہ یہ ہیں:

{1}جمعہ وجماعت کا اہتمام خاص کر ان علاقوں میں جہاں مسجدوں میں ایر کنڈیشن اور پنکھے وغیرہ کا انتظام نہیں ہے یا بجلی میسر نہیں ہے ۔

{2}روزہ رکھنے میں بھوک پیاس پر صبر و احتساب ، خاص کر وہ لوگ جن کا کام ہی گرمی اور دھوپ کا ہے ۔

{3}حج وعمرہ کے موقعہ پر طواف اور مشاعر کی بھیڑ اور گرمی وغیرہ ۔ البتہ جن کاموں کیلئے دھوپ وگرمی برداشت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ان کےلئے نہ تکلف کرے کہ دھوپ کے درپے ہونا جائز نہیں ہے ،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسرائیل نامی ایک صحابی کو دیکھا کہ وہ دھوپ میں کھڑے ہیں ، آپ نے وجہ دریافت فرمائی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے نذر مانی ہے کہ روزہ رکھیں گے ، کھڑے رہیں گے اور سایہ میں نہیں بیٹھیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"بیٹھ جائیں ، سایہ میں رہیں اور اپنے روزے کو پورا کریں "{صحیح بخاری }

فوائد :

1 ۔ جنّت اور جہنم اللہ کی مخلوق ہیں اور اس وقت موجود ہیں ۔

2 ۔ اللہ تعالٰی کی تمام مخلوق اپنے خالق کا شعور رکھتی اور اسکی اطاعت میں سرگر داں ہیں ۔

3 ۔ دنیا میں پیش آنے والے واقعات کے ظاہری اور سائنسی اسباب کے ساتھ ساتھ کچھ غیبی اور باطنی اسباب بھی ہیں جن کا اندازہ ظاہری اسباب سے نہیں ہو سکتا البتہ اہلِ بصیرت اس کا شعور رکھتے ہیں ،جیسے دُعا سے مصیبت کا ٹلنا ، صدقہ سے مال میں اضافہ ہونا وغیرہ ۔

4 ۔ آج جب کہ جہنم ہم سے بہت دور کی مسافت پر ہے اس کی ایک گرم سانس کی ہم تاب نہیں لاتے تو جہنم کی گر می اوراسکی شدت کی تاب کیسے لائیں گے ؟
 
Top