• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جہیز کے خواہشمندوں کہ لئے تحفہ خاص !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
::: بیٹیاں ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں ::::
شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب وہ کمرے میں پہنچ جائیں گے تو پھر دروازہ نہیں کھولیں گے چاہے کوئی بھی آ جائے.

ابھی دروازہ بند ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دلہے کے والدین کمرے کے باہر پہنچے تاکہ اپنے بیٹے اور بہو کو نیک تمناؤں اور راحت بھری زندگی کی دعا دے سکیں، دستک ہوئی بتایا گیا کہ دلہے کے والدین باہر موجود ہیں.

دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا باوجود اس کے کہ دلہا دروازہ کھولنا چاہتا تھا اس نے اپنے فیصلے کو مدنظر رکھا اور دروازہ نہیں کھولا.
والدین ناکام واپس لوٹ گئے.

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کے والدین بھی دلہے کے گھر جا پہنچے تاکہ اپنی بیٹی اور داماد کو اپنی نیک خواہشات پہنچا سکیں اور انہیں سکھی زندگی کی دعا دے سکیں.

ایک بار پھر کمرے کے دروازے پر دستک دی گئی اور بتایا گیا کہ دلہن کے والدین کمرے کے باہر موجود ہیں. دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اپنا فیصلہ ذہن میں تازہ کیا.

باوجود اس کے کہ فیصلہ ہو چکا تھا دلہن کی آنسوؤں بھری سرگوشی سنائی دی

نہیں میں اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی اور فورا دروازہ کھول دیا.

شوہر نے یہ سب دیکھا مگر دلہن کو کچھ نا کہا خاموش رہا.

اس بات کو برسوں بیت گئے ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے اور پانچویں بار ایک بیٹی پیدا ہوئی.

شوہر نے ننھی گڑیا کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی پارٹی کا انتظام کیا اور اس پارٹی میں ہر اس شخص کو بلایا جسے وہ جانتا تھا اور خوب خوشیاں منائی گئیں.

اس رات بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جبکہ اس سے پہلے چاروں بچوں کی پیدائش پر ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا.

شوہر مسکرایا اور بولا
یہ وہ ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی.

بیٹیاں ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

جہیز پر اکثر سیالکوٹ شہر میں کچھ شادیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہاں کسی سکول یا کسی کے گھر میں جگہ حاصل کی جاتی ھے اور پھر چارپائیوں پر تمام کپڑے بچھا دئے جاتے ہیں اور بیٹی کو اپنی خوشی سے دیا جانے والا سارا سامان وہیں لگا دیا جاتا ھے اور پھر لوگوں کو دکھایا بھی جاتا ھے۔ اس پر ہمارے فارم کے ایک ممبر شاھد نذیر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ اس پر کیا کونسپٹ ھے۔

والسلام
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم

جہیز پر اکثر سیالکوٹ شہر میں کچھ شادیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہاں کسی سکول یا کسی کے گھر میں جگہ حاصل کی جاتی ھے اور پھر چارپائیوں پر تمام کپڑے بچھا دئے جاتے ہیں اور بیٹی کو اپنی خوشی سے دیا جانے والا سارا سامان وہیں لگا دیا جاتا ھے اور پھر لوگوں کو دکھایا بھی جاتا ھے۔ اس پر ہمارے فارم کے ایک ممبر شاھد نذیر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ اس پر کیا کونسپٹ ھے۔

والسلام
پاکستان بھارت کے اکثر علاقوں میں یہ گندی رسم موجود ہے۔ لڑکی والے بھی دئے جانے والے جہیز کی باقاعدہ نمائش کرتے ہیں اور لڑکے والے بھی ملنے والے جہیز کی نمائش کرتے ہیں، مختلف طریقوں سے۔ یہ دونوں ہی غلط رسم ہیں۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت اچھا موضوع ہے بھائی۔۔۔
یوسف بھائی کا موقف بھی درست ہے مگر اب جہیز جیسی برائی کا رخ بدل رہا ہے ، بیشتر والدین بیٹی کو محبت میں تحائف کے نام پر جہیز ہی دے رہے ہوتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تو اپنی بیٹی کو چاہت سے دے رہے ہیں یہ جہیز کب ہے!!!
مگر درحقیقت وہ گرد نواح کے سوالات سے بچنے کے لیے ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔اس طرح سسرالی بھی مطمئن رہتے ہیں اور کوئی دانشمند جہیز کے متعلق سمجھائے تو جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو بیٹی سے محبت کا اظہار ہے۔
اللہ تعالی معاف فرما دے۔
 

مشکٰوۃ

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 23، 2013
پیغامات
1,466
ری ایکشن اسکور
939
پوائنٹ
237
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
معلوم نہیں ‘‘جہیز‘‘ سے اتنی نفرت کے باوجود ،اتنی اینٹی جہیز مومنٹس کے باوجود بھی معاشرے میں یہ ناسور بڑھتاہی کیوں جا رہا ۔ ۔ شاید یہ جذبات فیس بک سٹیس یا سوشل میڈیا کے لئے ہیں ۔ ۔لیکن جب عملی زندگی میں یہ اقدام کرنا پڑتا ہے تو سب باتیں بھول جاتی ہٰیں یا وہ باتیں ہم خود کو نہیں دوسروں کو کرتے ہیں ۔ ہر الٹی سیدھی بات ضد اور ہٹ دھرمی سے منوانے والے اس ایک صحیح بات پر سٹینڈ لے کر اپنے والدین کو اس بھیک سے منع نہیں کر سکتے؟؟حکمرانوں کے پیالوں پر نظر رکھنے والوں کو اپنی پھیلی جھولی نطر نہیں آتی۔ ۔ اول خویش بعد درویش!!!!!ہر کوئی اپنی ‘‘استطاعت‘‘ کے مطابق مانگ رہا ہے تو شکوہ کس سے اور کیوں؟؟
سچ ہے کہ مانگنا تو ہے ہی تو کیا کسی ایک گھرانے سے مانگنا یا معاشرے سے۔ ۔ ۔!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بیشتر والدین بیٹی کو محبت میں تحائف کے نام پر جہیز ہی دے رہے ہوتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہم تو اپنی بیٹی کو چاہت سے دے رہے ہیں یہ جہیز کب ہے!!! مگر درحقیقت وہ گرد نواح کے سوالات سے بچنے کے لیے ایسا کر رہے ہوتے ہیں۔
معلوم نہیں ''جہیز'' سے اتنی نفرت کے باوجود ،اتنی اینٹی جہیز مومنٹس کے باوجود بھی معاشرے میں یہ ناسور بڑھتاہی کیوں جا رہا
  1. شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو ساز و سامان (خواہ جہیز کے نام پر ہو یا کسی اور نام پر)، کیا اسلام میں ایسا کرنا حرام ہے؟ اگر ہے تو کوئی مجھے قرآن و صحیح حدیث سے بتلادے۔ ممنون ہوں گا۔
  2. “جہیز” سے کسی کو نفرت نہیں ہے۔ نہ خوشی سے دینے والے ماں باپ کو اور نہ ہی بخوشی لینے والی بیٹی یا داماد کو۔
  3. جس چیز سے سب کو نفرت ہے، اور جو قابل مذمت شئے ہے اور جو اسلام میں بھی کارِحرام اور گناہ ہے، وہ درحقیقت لڑکا یا لڑکے والوں کی طرف سے “مطالبہ جہیز” ہے، خواہ یہ مطالبہ لڑکی کے والدین کی استطاعت کے مطابق ہو یا اُن کی استطاعت سے باہر ہو۔ دوسری صورت میں یہ گناہ، بدترین گناہ بن جاتا ہے۔
  4. اس کے علاوہ بیٹی داماد کو دئے جانے والے جہیز (خواہ خوشی سے ہی کیوں نہ دیا جائے) کی “نمائش” بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نمود و نمائش تو عمومی حالت میں بھی منع ہے، لیکن اگر شادی کے موقع پر صاحب حیثیت والدین، اپنی بیٹی کو دئیے جانے والے “جہیز” کی خاندان یا اہل محلہ میں اس طرح نمائش کریں کہ اس کی استطاعت نہ رکھنے والے والدین کو اپنی بیٹیوں کی شادی بیاہ میں مشکلات کھڑی ہوجائیں تو یقیناً یہ دُہرا گناہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
پس نوشت: اہل علم سے درخواست ہے کہ اگر مندرجہ بالا بیانات میں کوئی شرعی خامی یا کمی ہو تو اس کی نشاندہی قرآن وصحیح حدیث کے حوالہ سے ضرور کریں۔ دیگر احباب سے گذارش ہے کہ جہیز سے “نفرت برائے نفرت” کے اظہار کی بجائے اس بات پر دھیان دیں کہ جہیز قابل نفرت کب اور کیوں ہوتی ہے۔ اور وہ خود کو ایک صاحب حیثیت باپ کی جگہ رکھ کر سوچیں کہ کیا وہ شادی کے موقع پر یا شادی کے فوراً بعد اپنی بیٹی کو تحفہ تحائف یا جہیز یا کسی اور نام سے کچھ بھی دینا پسند نہیں کریں گے اور اس بات کا انتظار کریں گے کہ جب وہ مرجائیں تب ان کی وراثت میں بیٹی کو حصہ دیا جائے۔ خواہ تب تک ان کی بیٹی مالدار باپ کے ہوتے ہوئے اپنی روز مرہ کی ضروریات کے لئے ترستی رہے، اگر اس کے سسرال والےمیکہ جتنے مالدار نہ ہوں تو۔ دوسری طرف آپ ایک ایسی بیٹی کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں کہ اگر آپ کا مالدار باپ آپ کو گھر سے رخصت کرتے ہوئے “ نام نہاد اینٹی جہیز مہم” سے متاثر ہوکر آپ کو ایک تنکا تک نہ دے تو آپ کو کیسا لگے گا۔ جب تک ہم متعلقہ فرد (جہیز دینے والے باپ اور لینے والی بیٹی) کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر نہیں سوچیں گے، اپس وقت تک ایک متوازن رائے قائم کرنے مین ناکام ہی رہیں گے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ اھل علم سے جواب کا انتظار فرمائیں تب تک اس پر عادل سہیل بھائی صاحب کا تفصیلی جواب ھے اگر عبداللہ حیدر بھائی کوشش کریں تو اس کا لنک دے سکتے ہیں۔

والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
لڑكى كا شادى سے قبل گھريلو سامان تيار كرنا !!!

ہمارے معاشرہ ميں لڑكيوں كى عادت ہے كہ وہ شادى سے قبل اپنے گھر كا سامان بناتى ہيں جس ميں بستر، برتن اور دوسرے اليكٹرانك آلات شامل ہوتے ہيں، حالانكہ ابھى ان كا رشتہ بھى طے نہيں ہوتا ليكن وہ سامان بنانا شروع كر ديتى ہيں كيونكہ معاشرہ ميں رواج يہى ہے اور ماں اور لڑكى كى سہيلياں اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلاتى ہيں.

ميرا دل ايسا كرنے كو نہيں مانتا تھا ليكن ميرے پاس دينى معلومات بھى نہ تھيں، ميں نے دينى پروگرام ديكھے تو ايك مولانا صاحب كو كہتے ہوئے سنا كہ لڑكياں يہ كام كيسے كرتى پھرتى ہيں حالانكہ انہيں علم ہى نہيں كہ آيا وہ زندہ بھى رہيں گى يا نہيں، اور اگر زندہ بھى رہى تو اس كى كيا ضمانت ہے كہ وہ شادى كريگى يا نہيں ؟ مجھے اس بات سے كچھ سكون سا ہوا.

كيونكہ شادى تو اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے حاصل ہوتى ہے جسے چاہے وہ شادى كى نعمت عطا كرتا ہے، تو پھر لڑكياں كسى ايسى چيز كے بارہ ميں كيسے تيارياں كر رہى جس كا علم صرف اللہ كو ہے كہ آيا ہو گا يا نہيں، اور لڑكيوں كے گھر والے انہيں اس عمل پر كيسے ابھارتے رہتے ہيں ؟

ميں نے بھى چچى كے اصرار كرنے پر كچھ اشيا خريديں ركھى ہيں كيونكہ چچى كا بہت احترام كرتى ہوں، برائے مہربانى ان اشياء كا حكم كيا ہے، اور مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

الحمد للہ:

انسان كے ليے اپنى ضروريات زندگى تيار كرنا جائز ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ اپنے اہل و عيال كے ليے ايك سال كى خوراك كھجور وغيرہ جمع كر ليا كرتے تھے.

صحيح بخارى ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بنو نضير كى كھجور فروخت كر كے اپنے گھر والوں كے ليے ايك سال كى خورا ك ركھ ليا كرتے تھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5357 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس كى شرح ميں لكھتے ہيں:


" يہاں ضرورت واقع كى بنا پر ايك برس كى تقييد آئى ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو چيز زخيرہ كرتے وہ سال ميں ايك بار ہى حاصل ہوتى تھى، كيونكہ يا تو وہ كھجور ہوتى يا پھر جو.

بالفرض اگر زخيرہ كى جانے والى چيز دو برس بعد ايك بار حاصل ہوتى ہو تو حالات كے پيش نظر اتنى مدت كے ليے زخيرہ كرنى جائز ہو گى، واللہ اعلم " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 503 ).

ليكن مسلمان شخص نفقہ اور اخراجات ميں اتنى وسعت نہ كرے كہ ايسى اشياء بھى خريد كر ركھ لے جن كى ضرورت بھى نہ ہو.

امام مسلم رحمہ اللہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ايك بستر آدمى كا اور ايك بستر اس كى بيوى كا، اور تيسرا بستر مہمان كے ليے، اور چوتھا بستر شيطان كے ليے ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2084 ).

اس حديث كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:


" علماء كرام نے اس كا معنى يہ كيا ہے كہ: جو چيز ضرورت سے زائد ہو وہ دكھلاوے اور فخر اور دنياوى زينت و تفاخر كے ليے ہے، اور جو چيز بھى اس صفت اور طريقہ پر ہو وہ قابل مذمت ہے، اور ہر مذموم چيز شيطان كى طرف مضاف ہوتى ہے كيونكہ وہ اس سے راضى ہوتا اور اس كى ترغيب دلاتا اور وسوسہ لاتا ہے، اور اسے بہتر اور خوبصورت بنا پر بيش كر كے اس كى معاونت بھى كرتا ے.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ حديث اپنے ظاہر پر ہے اگر بغير ضرورت كے ہو تو يہ شيطان كے ليے ہے وہ اس پر سوتا اور قليلولہ كرتا ہے، بالكل اسى طرح جس گھر ميں وہاں داخل ہونے والا گھر جانے كى دعا نہيں پڑتا تو شيطان كو رات بسر كرنے كا موقع مل جاتا ہے.

رہا بيوى اور خاوند كے ليے متعدد بستر يعنى ايك سے زائد تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ بيمارى كى حالت ميں ہو سكتا ہے خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كو عليحدہ بستر كى ضرورت پيش آئے " انتہى

اس ليے مسلمان شخص كو جس چيز كى ضرورت ہو كھانا اور سامان وغيرہ جو اسراف اور فضول خرچى كى حد تك نہ ہو اور مال ضائع ہونے كا باعث نہ بنے اسے زخيرہ كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

رہا يہ كہ مسلمان كسى خريدى ہوئى چيز سے فائدہ اٹھانے سے قبل ہى فوت ہو جائے تو يہ چيز اسے ضرر و نقصان نہيں دے سكتى، كيونكہ اس كے نہ ہونے كى صورت ميں اس كے ورثاء اس سے فائدہ اٹھائيں گے، اور وہ ورثاء پر صدقہ ہے خاص كر جب ورثاء محتاج اور ضرورتمند ہوں.

رہا يہ كہ ہو سكتا ہے عورت شادى ہى نہ كرے، تو يہ سوء ظن ہے اور كسى مسلمان شخص كے شايان شان نہيں، اس ليے بندے كو اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ حسن ظن ركھنا چاہيے-

كيونكہ حديث قدسى ميں اللہ تعالى كا فرمان ہے:
" ميں اپنے بندے كے اپنے بارہ ميں گمان كے مطابق ہوتا ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6856 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4832 ).
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم متوكلين كے سردار تھے، اور دنيا ميں جتنے بھى زھاد ہيں ان كے سردار اور ان ميں سب سے افضل واعلى ہيں، ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے گھر والوں كے ليے ايك برس كا غلہ جمع كر ليا كرتے تھے، جيسا كہ اوپر كى سطور ميں بيان ہو چكا ہے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اُس کا رشتہ طے ہونے کے بعد لڑکے اور اسکے والدین نے جہیز میں قیمتی چیزوں کی فرمائش شروع کر دی تھی لڑکے کی فرمائش تھی کہ اُسے جہیز میں رنگین ٹی وی اور بائک بھی ملے۔

اسکے والد اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ سبکدوشی کے بعد جو بھی روپیہ ہاتھ آیا تھا اُن روپیوں سے اسکی تین بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے تھے لیکن چونکہ رشتہ طے ہو چکا تھا۔ دعوت نامے تقسیم ہو چکے تھے لہذا اسکے والد نے لڑکے اور اسکے والدین کی خواہشوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

شادی کے دوسرے دن اُس نے جب اپنے شوہر کے کمرے کا جائزہ لیا تو اُسے بہت سے انعامات الماریوں میں سجے نظر آئے۔ اسکے شوہر نے اُسے بتایا کہ یہ سب انعامات اُسے مختلف مقابلوں میں نمایاں مقام حاصل کرنے پر ملے ہیں۔ اُس نے ایک شیلڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ''دیکھو یہ شِلڈ مجھے بین المدارس مضمون نویسی مقابلہ میں اوّل مقام حاصل کرنے پر ملی ہے۔''
اُس نے پوچھا۔۔۔'' مضمون کا عنوان آپ کو یاد ہے۔''
شوہر نے کہا.
'' جی ہاں. آج کے دور کا سلگتا مسئلہ جہیز ایک سماجی لعنت ہے۔''
 
Top