• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جیسا کرو گے

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667

طاہر نقاش​
ہفت روزہ جرار​
یہ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 سمندری کاگرائونڈ ہے۔ ہم بیٹھے 9thB میں اپنے شفیق کریم خوبصورت و خوب سیرت استاد محترم رمضان صاحب سے پڑھ رہے ہیں۔ استاد صاحب لیکچر دے رہے ہیں، ساتھ ساتھ دلچسپ مثالیں دے کر سمجھا رہے ہیں، سب طالب علم ایک محویت و یکسوئی کے عالم میں مبہوت ہو کر ہمہ تن گوش سن رہے ہیں… اس دوران اچانک ایک آواز اس سلسلے کو توڑتے ہوئے ابھرتی ہے: یار وہ آج پھر نظر نہیں آ رہا، تم نے اسے کہیں دیکھا تو نہیں…؟ ہمارے ٹیچر رمضان صاحب لیکچر چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں… ان کی نظروں کے تعاقب میں پوری کلاس اپنی گردنیں ادھر گھما کر نووار دمخاطب کو دیکھنے لگتی ہے۔ یہ ایک ادھیڑ عمر دیہاتی آدمی تھا جو ہمارے استاد سے نہایت بے تکلفی سے ادب آداب اور پروٹوکولز کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مگر اپنائیت کے انداز میں مخاطب تھا: نہیں بھائی میں نے تو اسے کہیں نہیں دیکھا، ویسے وہ میرے پاس پہلے بھی کون سا آتا ہے جو آج آیا ہو‘‘۔
’’یار بہت تنگ کر رکھا ہے اس نے، میں بہت عاجز آ گیا ہوں، دل چاہتا ہے اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا دبا دوں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے نووارد چلا گیا اور ہم تجسس بھری نظروں سے اپنے استاد کو دیکھنے لگے اور دریافت کرنے لگے۔ استاد جی! یہ کون تھا اور کس کے متعلق پوچھ رہا تھا؟ استاد صاحب طلباء کا اصرار دیکھ کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگے:
پیارے طالب علمو اور میرے بیٹو! …یہ بندہ دنیا میں عبرت کا نشان بن کر رہ گیا ہے… اسے اس کے گناہوں کی سزا دنیا میں ہی مل رہی ہے۔ آپ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ وہ گناہ کیا ہے، جس کی سزا پاتے ہوئے یہ در بدر ذلیل و رسوا ہوتا پھر رہا ہے۔ تو سنیے! یہ بندہ اپنے باپ کا گستاخ اور نافرمان تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آپ کی طرح طالب علم تھا، سکول جایا کرتا تھا۔ مجھے احساس تھا کہ میرا باپ میرا مستقبل چمکانے کیلئے کس قدر محنت مزدوری کر کے میری تعلیم کے اخراجات اپنا خون پسینہ بہا کر برداشت کر رہا ہے۔ لہٰذا میں خوب دل لگا کر پڑھتا، پوزیشن لیتا اور اپنی کامیابیوں کی خوشخبریاں اپنے باپ کو سنا کر خوش کرتا۔ آپ کی میرے لئے کی گئی محنت رائیگاں نہیں جا رہی اور انہیں بتاتا کہ یہ بندہ جو ابھی ہماری کلاس میں آیا تھا۔ میرا کلاس فیلو ہوا کرتا تھا… ہم اکٹھے ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اس کا باپ اس کو سکول بھیجتا لیکن یہ کہیں اور ہی آوارہ گردی کر کے گھر چلا جاتا۔ آخر اس کا باپ اس کو گائوں سے روزانہ شہر سکول چھوڑنے آتا۔ مگر وہ اسے سکول چھوڑ کر کھاد یا کوئی فصل کا بیج خرید کر گھر پہنچتا تو اس کا وہ بیٹا جس کو وہ سکول چھوڑ کر آیا تھا وہ اس کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی آوارہ لڑکوں کے ساتھ بانٹے (گولی پلا) کھیل رہا ہوتا۔ وہ ذرا پروا نہ کرتا کہ میرا باپ مجھے سکول چھوڑ کر گیا ہے میں اس کا ہی مان اعتماد بحال رکھوں اور پیریڈ ختم ہونے کے بعد ہی سکول سے جائوں… وہ اس کی خوشی و ناراضگی کی پروا کئے بغیر باپ کے سکول سے نکلتے ہی فرار ہو کر گائوں پہنچ جاتا اور آوارہ گردوں کے ساتھ آوارہ مشغلوں میں مصروف ہو جاتا۔ ہم نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں ایک لمبا عرصہ تک اس کے باپ کو اس کے پیچھے پیچھے ذلیل و رسوا ہوتے دیکھا۔ آخر اس کا باپ انہی پریشانیوں میں مبتلا رہ کر ایک دن اللہ کو پیاراہو گیا۔ اس نے تعلیم چھوڑ دی اور والد کی زمینوں میں کام کرنے لگا۔
یوں زندگی کی گاڑی چلنے لگی… صبح و شام کی گردشوں کے چکر چلے… وقت پہیے کی طرح گھومتا رہا… حال ماضی میں ڈھلا… ماضی فراموش ہو گیا اور … مستقبل آج حال بن چکا ہے۔ مکافات عمل کا کوڑا برس رہا ہے… یہ آنے والا ادھیڑ عمر شخص ہمارا وہی کلاس فیلو طالب علم ہے، جو اپنے باپ کی نافرمانی کر کے اسے خوب ستاتا تھا۔ آج پتہ ہے کہ یہ کیوں آیا تھا؟ تمام طالب علموں نے بیک زبان کہا، کیوں آیا تھا؟ ازراہِ کرم ہمیں ضرور بتایئے! تو استاد مرحوم فرمانے لگے: آج اس کا بیٹا بھی اسی سکول میں پڑھنے کیلئے داخل کروایا گیا ہے اور وہ اس کے ساتھ وہی نافرمانی کا کھیل کھیل رہا ہے جو یہ اپنے باپ کے ساتھ کھیلتا تھا۔ یہ روزانہ اپنے بیٹے کو سکول چھوڑنے آتا ہے لیکن وہ اس کے گائوں پہنچنے سے پہلے گلی میں کھیل رہا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں کہتا ہے کہ اس کو سمجھائیں۔ لیکن اس کو کیا سمجھائیں ہم تو اس کے باپ کو نہ سمجھا سکے جب وہ ہمارے ساتھ پڑھتا تھا۔ یہ اس کا روزانہ کا معمول ہے۔ یہ سکول آتا ہے یہ معلوم کرنے کہ اس کا بیٹا اکرم آیا ہے کہ نہیں؟ اکثر اس کو یہی جواب ملتا ہے کہ نہیں آیا… یا آیا تو تھا… مگر اب کھسک چکا ہے۔ اس گھنائونے ذلیلا نہ کھیل کو کھیلتے اس کی زندگی گزر رہی ہے اور یہی کھیل اس نے اپنے باپ کے ساتھ کھیلا تھا۔
سچ کہا کسی نے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے… جیسا بوئو گے ویسا کاٹو گے… کہتے ہیں ایک بچہ اس گندے پھٹے بوسیدہ بدبودار کمبل کو نہایت سلیقے سے تہہ لگا کر پیک کر کے سنبھال رہا تھا کہ جو اس کی والدہ اس کے داد ابو کو گھر سے علیحدہ ایک کونے میں چارپائی پر لٹا کر اوڑھنے کیلئے دیتی تھی۔ باپ نے پوچھا: بیٹا اس میلے کچیلے گندے کمبل کو اتنا سنبھال سنبھال کر پیک کر کے کیوں رکھ رہے ہو؟ بچے نے معصومیت سے کہا: ابو جان! کل آپ نے بھی تو بوڑھے ہونا ہے، آپ کو بھی اس کی ضرورت پڑے گی، اس لئے میں آج سے ہی اس کو سنبھال کر رکھ رہا ہوں۔ باپ نے یہ سنا تو اس کو ہوش آ گیا اور اس نے اپنے والد کو گرم کمرے میں لٹا کر اعلیٰ لحاف دے کر اس کی خدمت شروع کر دی، تاکہ کل میری اولاد میرے ساتھ ایسا نہ کرے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اسی طرح ایک جوان اپنے بوڑھے باپ سے تنگ آ کر اس کو دریا کے اندر پھینکنے گیا۔ باپ نے کہا بیٹا ذرا اور آگے گہرائی میں دریا کے اندر جا کر مجھے پھینکو، بیٹے نے کہا یہاں کنارے پہ کیوں نہیں اور وہاں گہرائی میں کیوں؟ باپ نے جواب دیا: اس لئے کہ یہاں تو میں نے اپنے باپ کو گرایا تھا۔ بیٹا سوچ میں پڑ گیا کل میرے باپ نے اپنے باپ گرایا آج میں گرا رہا ہوں کل یہی انجام میرا ہو گا۔ وہ کانپ اٹھا اور اپنے نظر آنے والے عبرتناک انجام کے پیش نظر باپ کو گھر لے آیا اور اس کی خدمت شروع کر دی۔
اے نوجوانو! لڑکو اور لڑکیو!… یہ بات ذہن سے نکال دو کہ آج آپ اپنے ماں باپ کی نافرمانی کریں اور کل آپ کی اولاد آپ کی فرمانبردار ہو!!؟ آپ کے لئے فتنہ، آزمائش اور جگ ہنسائی کا باعث نہ بنے… ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔
کانٹے بو کر گلابوں کی توقع رکھنا عبث ہے… خزاں کے موسم میں بہاروں کی امیدیں باندھنا نادانی ہے… بنجر زمینوں میں تخم ریزی کر کے نخلستانوں کے خواب دیکھنا حماقت ہے… تمے بو کر شیریں خربوزوں کے مزے لوٹنے کی توقع بیوقوفی ہے… اگر موتیے، چنبیلی اور گلابوں کی پیوند کاری کرو گے تو یقینا طرح طرح کی مہکتی خوشبوئوں کے سنگ زیست کے رنگ اور گل رنگ نظارے ہی دیکھو گے… اس لئے کہ یہ اللہ کریم کا قانون ہے کہ جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے… دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی… لہٰذا آج سے اپنے والدین کو پھولوں کی سیج پر بٹھائو، ان کے احکامات کو سر آنکھوں پر رکھ کر مانو، تاکہ کل آپ کی اولاد آپ کیلئے لوگوں کے درمیان برملا یہ کہے کہ مجھے اپنے والدین پر فخر ہے اور آپ کے سر پر عزت و وقار اور قدر دانی کا تاج پہنائے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے، آخرت دارالجزا ہے دارالجزا میں پہنچ کر جزا پانے سے پہلے اس دنیا میں ہی بہترین جزا کے حقدار بن کر دکھائیں کہ اللہ کریم کی رضا اور رسولؐ کی شفاعت کے حقدار ٹھہرو!
والسلام۔۔۔۔۔۔۔۔ علی اوڈ راجپوت​
 
Top