بریلوی علماء فرماتے ہیں:۔
اہلسنت کا عقیدۂ حاضر و ناظر
حضورﷺ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالمﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔
جس کی بناء پر حضورﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضورﷺ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضورﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضورﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکارﷺ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضورﷺ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔
مزید اللہ اور نبی ﷺ میں فرق یوں بیان کرتے ہیں:َ
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق
حاضر و ناضر
فتوی آن لائن
بریلوی مسلک کی مشہور کتاب جا ء الحق میں ہے۔
ایک اور صاحب فرماتے ہیں:۔مولانا عبد القیوم ہزاروی :۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں میں ہے۔ آپ روئے زمین کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی، چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان اﷲ زوی لی الارض فرايتُ مشارِقَها ومغاربَها وان امتی سيبلغ ملکها مازوی لی منها واعطيت الکنزين الاحمر والابيض.
المسلم، الصحيح، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب هلاک هذه الامة، بعضهم لبعضٍ، 6 / 2215، الرقم : 2889
''بے شک اﷲتعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی، سو میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور جتنی زمین میرے لئے سمیٹی گئی میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اور مجھے دونوں خزانے دیدیئے گئے۔ سرخ (کسریٰ، ایران کے دینار) اور سفید (قیصر روم کے درہم)۔''
یہ مشاہدہ قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے ثابت ہے۔ جسم اقدس اپنے مقام پر رہتا ہے۔ کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ مشاہدہ نورانی و روحانی ہے اور آپ کی شان کے لائق ہے۔ اس میں شان اقدس کی کمی نہیں۔ حقیقت اور شان رسالت کے عین مطابق
اہلسنت کا عقیدۂ حاضر و ناظر
حضورﷺ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالمﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔
جس کی بناء پر حضورﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضورﷺ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضورﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضورﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکارﷺ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضورﷺ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔
مزید اللہ اور نبی ﷺ میں فرق یوں بیان کرتے ہیں:َ
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق
۔مزید دلائل کے لئے یہ لنک بھی دیکھا جا سکتا ہےاﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضورﷺ کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا۔
حاضر و ناضر
فتوی آن لائن
بریلوی مسلک کی مشہور کتاب جا ء الحق میں ہے۔